حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 7454 --- ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، انہوں نے کہا زید بن وہب سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا جو صادق و مصدق ہیں کہ انسان کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن اور راتوں تک جمع رہتا ہے پھر وہ خون کی پھٹکی بن جاتا ہے ، پھر وہ گوشت کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے ۔ چنانچہ وہ اس کی روزی ، اس کی موت ، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت لکھ لیتا ہے ۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے اور تم میں سے ایک شخص جنت والوں کے سے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص دوزخ والوں کے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آتی ہے اور جنت والوں کے کام کرنے لگتا ہے ، پھر جنت میں داخل ہوتا ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
حدیث نمبر: 4538 --- ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے ، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے سنا ، وہ عبداللہ بن عباس ؓ سے بیان کرتے تھے ، ابن جریج نے کہا اور میں نے ابن ابی ملیکہ کے بھائی ابوبکر بن ابی ملیکہ سے بھی سنا ، وہ عبید بن عمیر سے روایت کرتے تھے کہ ایک دن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے « أيود أحدكم أن تكون لہ جنۃ‏ » ” کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو ۔ “ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے ۔ یہ سن کر عمر ؓ بہت خفا ہو گئے اور کہا ، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں ۔ ابن عباس ؓ نے عرض کیا : امیرالمؤمنین ! میرے دل میں ایک بات آتی ہے ۔ عمر ؓ نے فرمایا : بیٹے ! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو ۔ ابن عباس ؓ نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے ۔ عمر ؓ نے پوچھا ، کیسے عمل کی ؟ ابن عباس ؓ نے عرض کیا کہ عمل کی ۔ عمر ؓ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے ۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے ، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
حدیث نمبر: 1638 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے ابن شہاب سے خبر دی ، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہا کہ حجتہ الوداع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مدینہ سے) نکلے اور ہم نے عمرہ کا احرام باندھا ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے ۔ ایسے لوگ دونوں کے احرام سے ایک ساتھ حلال ہوں گے ۔ میں بھی مکہ آئی تھی لیکن مجھے حیض آ گیا تھا ۔ اس لیے جب ہم نے حج کے کام پورے کر لیے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے عبدالرحمٰن کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا ۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلہ میں ہے (جسے تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا) جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے سعی کے بعد احرام کھول دیا اور دوسرا طواف منٰی سے واپسی پر کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  3k
حدیث نمبر: 3441 --- ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے سنا ، کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا ، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ہرگز نہیں ۔ اللہ کی قسم نبی کریم ﷺ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ نہیں فرمایا تھا کہ وہ سرخ تھے بلکہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ میں نے خواب میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اپنے کو دیکھا ، اس وقت مجھے ایک صاحب نظر آئے جو گندمی رنگ لٹکے ہوئے بال والے تھے ، دو آدمیوں کے درمیان ان کا سہارا لیے ہوئے اور سر سے پانی صاف کر رہے تھے ۔ میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ آپ ابن مریم علیہما السلام ہیں ۔ اس پر میں نے انہیں غور سے دیکھا تو مجھے ایک اور شخص بھی دکھائی دیا جو سرخ ، موٹا ، سر کے بال مڑے ہوئے اور داہنی آنکھ سے کانا تھا ، اس کی آنکھ ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے اٹھا ہوا انار ہو ، میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے ۔ اس سے شکل و صورت میں ابن قطن بہت زیادہ مشابہ تھا ۔ زہری نے کہا کہ یہ قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مر گیا تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
حدیث نمبر: 6530 --- مجھ سے یوسف بن موسیٰ قطان نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے آدم ! آدم علیہ السلام کہیں گے حاضر ہوں فرماں بردار ہوں اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں نکال لو ۔ آدم علیہ السلام پوچھیں گے جہنم میں ڈالے جانے والے لوگ کتنے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بچے غم سے بوڑھے ہو جائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا دیں گی اور تم لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھو گے ، حالانکہ وہ واقعی نشہ کی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا ۔ صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر ہم میں سے وہ (خوش نصیب) شخص کون ہو گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں خوشخبری ہو ، ایک ہزار یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے ۔ اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہو گا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو گے ۔ راوی نے بیان کیا کہ ہم نے اس پر اللہ کی حمد بیان کی اور اس کی تکبیر کہی ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ آدھا حصہ اہل جنت کا تم لوگ ہو گے ۔ تمہاری مثال دوسری امتوں کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کسی سیاہ بیل کے جسم پر سفید بالوں کی (معمولی تعداد) ہوتی ہے یا وہ سفید داغ جو گدھے کے آگے کے پاؤں پر ہوتا ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  5k
حدیث نمبر: 7170 --- ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے عمر بن کثیر نے ، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابو محمد نافع نے اور ان سے ابوقتادہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کی جنگ کے دن فرمایا ” جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں جسے اس نے قتل کیا ہو گواہی ہو تو اس کا سامان اسے ملے گا ۔ چنانچہ میں مقتول کے لیے گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو میرے لیے گواہی دے سکے ، اس لیے میں بیٹھ گیا ۔ پھر میرے سامنے ایک صورت آئی اور میں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ اس مقتول کا سامان جس کا ابوقتادہ ذکر کر رہے ہیں ، میرے پاس ہے ۔ انہیں اس کے لیے راضی کر دیجئیے (کہ وہ یہ ہتھیار وغیرہ مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر ؓ نے کہا کہ ہرگز نہیں ۔ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر کے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے وہ قریش کے معمولی آدمی کو ہتھیار نہیں دیں گے ۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور انہوں نے ہتھیار مجھے دے دئیے اور میں نے اس سے ایک باغ خریدا ۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا ، ان سے لیث بن سعد نے کہ پھر نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا ، اور اہل حجاز ، امام مالک وغیرہ نے کہا کہ حاکم کو صرف اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں ۔ خواہ وہ معاملہ پر عہدہ قضاء حاصل ہونے کے بعد گواہ ہوا ہو یا اس سے پہلے اور اگر کسی فریق نے اس کے سامنے دوسرے کے لیے مجلس قضاء میں کسی حق کا اقرار کیا تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر وہ فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ دو گواہوں کو بلا کر ان کے سامنے اقرار کرائے گا ۔ اور بعض اہل عراق نے کہا ہے کہ جو کچھ قاضی نے عدالت میں دیکھا یا سنا اس کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن جو کچھ عدالت کے باہر ہو گا اس کی بنیاد پر دو گواہوں کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتا اور انہیں میں سے دوسرے لوگوں نے کہا کہ اس کی بنیاد پر بھی فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ امانت دار ہے ۔ شہادت کا مقصد تو صرف حق کا جاننا ہے پس قاضی کا ذاتی علم گواہی سے بڑھ کر ہے ۔ اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ اموال کے بارے میں تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا ...
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  9k
حدیث نمبر: 1415 --- ہم سے ابوقدامہ عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوالنعمان حکم بن عبداللہ بصریٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان اعمش نے ‘ ان سے ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری ؓ نے فرمایا کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کام کیا کرتے تھے (تاکہ اس طرح جو مزدوری ملے اسے صدقہ کر دیا جائے) اسی زمانہ میں ایک شخص (عبدالرحمٰن بن عوف) آیا اور اس نے صدقہ کے طور پر کافی چیزیں پیش کیں ۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریاکار ہے ۔ پھر ایک اور شخص (ابوعقیل نامی) آیا اور اس نے صرف ایک صاع کا صدقہ کیا ۔ اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک صاع صدقہ کی کیا حاجت ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی « الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جہدہم » ” وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں جو صدقہ زیادہ دیتے ہیں اور ان پر بھی جو محنت سے کما کر لاتے ہیں ۔ (اور کم صدقہ کرتے ہیں) “ آخر تک ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
حدیث نمبر: 6715 --- ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے داؤد بن رشید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ، ان سے ابوغسان محمد بن مطرف نے ، ان سے زید بن اسلم نے ، ان سے زین العابدین علی بن حسین نے ، ان سے سعید ابن مرجانہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک ٹکڑے کے بدلے آزاد کرنے والے کا ایک ایک ٹکڑا جہنم سے آزاد کرے گا ۔ یہاں تک کہ غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کرنے والے کی شرمگاہ بھی دوزخ سے آزاد ہو جائے گی ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  2k
حدیث نمبر: 6391 --- ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبی کریم ﷺ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبی کریم ﷺ نے اپنے رب سے دعا کی تھی ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے ، اللہ نے مجھے وہ وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی ۔ عائشہ ؓ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ خواب کیا ہے ؟ فرمایا میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس ۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ، ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا ، ان پر جادو ہوا ہے ۔ پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے ۔ پوچھا وہ جادو کس چیز میں ہے ؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں ۔ پوچھا وہ ہے کہاں ؟ کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہ ؓ کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا واللہ ! اس کا پانی مہدی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے ۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور انہیں کنویں کے متعلق بتایا ۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں ۔ عیسیٰ بن یونس اور لیث نے ہشام سے اضافہ کیا کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ برابر دعا کرتے رہے اور پھر پوری حدیث کو بیان کیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  6k
حدیث نمبر: 3332 --- ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا اور آپ سچوں کے سچے تھے کہ انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے ۔ پھر وہ اتنے ہی دنوں تک « علقۃ » یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے ۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے « مضغۃ » (گوشت کا لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ پھر (چوتھے چلہ میں) اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے ۔ پس وہ فرشتہ اس کے عمل ، اس کی مدت زندگی ، روزی اور یہ کہ وہ نیک ہے یا بد ، کو لکھ لیتا ہے ۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے ۔ پس انسان (زندگی بھر) دوزخیوں کے کام کرتا رہتا ہے ۔ اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ دوزخیوں کے کام شروع کر دیتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
حدیث نمبر: 3340 --- مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا ، ہم سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے ۔ آپ ﷺ کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھا ۔ آپ ﷺ نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا ۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا ۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا ؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا ۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جا سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا ۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا ، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں ؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے ؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے ۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہو گا کہ دادا آدم علیہ السلام اس کے لیے مناسب ہیں ۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے ، اے باوا آدم ! آپ انسانوں کے دادا ہیں ۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا ، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی ، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو (پیدا کرنے کے بعد) ٹھہرایا تھا ۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں ۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں ۔ وہ فرمائیں گے کہ (گناہ گاروں پر) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھے پہلے ہی درخت (جنت) کے کھانے سے منع کر چکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجا لانے میں کوتاہی کر گیا ۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے (نفسی نفسی) تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ ۔ ہاں ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے ، اے نوح علیہ السلام ! آپ (آدم علیہ السلام کے بعد) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” عبدشکور “ کہہ کر پکارا ہے ۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں ؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیجئیے ۔ وہ بھی یہی جواب د...
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  9k
حدیث نمبر: 347 --- ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے ، انہوں نے شقیق سے ، انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ اور ابوموسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں حاضر تھا ۔ ابوموسیٰ ؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے ؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰ ؓ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ” اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو ۔ “ عبداللہ بن مسعود ؓ بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے ۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا ۔ انہوں نے کہا ہاں ۔ پھر ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب ؓ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا ۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی ، لیکن پانی نہ ملا ۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا ۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا ۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی ۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور آپ کو بھیجا ۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  7k
حدیث نمبر: 5871 --- ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے سہل ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے آئی ہوں ، دیر تک وہ عورت کھڑی رہی ۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا اور پھر سر جھکا لیا جب دیر تک وہ وہیں کھڑی رہیں تو ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کیا : اگر نبی کریم ﷺ کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو ان کا نکاح مجھ سے کر دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، تمہارے پاس کوئی چیز ہے جو مہر میں انہیں دے سکو ، انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھ لو ۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا کہ واللہ ! مجھے کچھ نہیں ملا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ تلاش کرو ، لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی ۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا کہ وہ مجھے لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ملی ۔ وہ ایک تہمد پہنے ہوئے تھے اور ان کے جسم پر (کرتے کی جگہ) چادر بھی نہیں تھی ۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں انہیں اپنا تہمد مہر میں دے دوں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہارا تہمد یہ پہن لیں گی تو تمہارے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا ۔ اور اگر تم اسے پہن لو گے تو ان کے لیے کچھ نہیں رہے گا ۔ وہ صاحب اس کے بعد ایک طرف بیٹھ گئے پھر جب نبی کریم ﷺ نے انہیں جاتے دیکھا تو آپ ﷺ نے انہیں بلوایا اور فرمایا تمہیں قرآن کتنا یاد ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں ۔ انہوں نے سورتوں کو شمار کیا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جا میں نے اس عورت کو تمہارے نکاح میں اس قرآن کے عوض میں دے دیا جو تمہیں یاد ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  5k
حدیث نمبر: 1536 --- ہم سے محمد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابوعاصم ، ضحاک بن مخلد نبیل نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی ، انہیں صفوان بن یعلیٰ نے ، کہا کہ ان کے باپ یعلیٰ بن امیہ نے عمر ؓ سے کہا کہ کبھی آپ مجھے نبی کریم ﷺ کو اس حال میں دکھایئے جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ جعرانہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا یا رسول اللہ ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرہ کا احرام اس طرح باندھا کہ اس کے کپڑے خوشبو میں بسے ہوئے ہوں ۔ نبی کریم ﷺ اس پر تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گئے ۔ پھر آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو عمر ؓ نے یعلیٰ ؓ کو اشارہ کیا ۔ یعلیٰ آئے تو رسول اللہ ﷺ پر ایک کپڑا تھا جس کے اندر آپ ﷺ تشریف رکھتے تھے ۔ انہوں نے کپڑے کے اندر اپنا سر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ روئے مبارک سرخ ہے اور آپ ﷺ خراٹے لے رہے ہیں ۔ پھر یہ حالت ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرہ کے متعلق پوچھا تھا ۔ شخص مذکور حاضر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو خوشبو لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو لے اور اپنا جبہ اتار دے ۔ عمرہ میں بھی اسی طرح کر جس طرح حج میں کرتے ہو ۔ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ کے تین مرتبہ دھونے کے حکم سے پوری طرح صفائی مراد تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: احرام ، خوشبو لگے کپڑے کو تین مرتبہ دھونا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  5k
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التوبہ میں) فرمایا « فلولا نفر من كل فرقۃ منہم طائفۃ ليتفقہوا في الدين ولينذروا قومہم إذا رجعوا إليہم لعلہم يحذرون‏ » ” ایسا کیوں نہیں کرتے ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ نکلیں تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور لوٹ کر اپنی قوم کے لوگوں کو ڈرائیں اس لیے کہ وہ تباہی سے بچے رہیں ۔ “ اور ایک شخص کو بھی طائفہ کہہ سکتے ہیں جیسے (سورۃ الحجرات کی) اس آیت میں فرمایا « وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا‏ » ” اگر مسلمانوں کے دو طائفے لڑ پڑیں اور اس میں وہ دو مسلمان بھی داخل ہیں جو آپس میں لڑ پڑیں (تو ہر ایک مسلمان ایک طائفہ ہوا) “ اور (اسی سورت میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا « إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا‏ » ” مسلمانو ! (جلدی مت کیا کرو) اگر تمہارے پاس بدکار شخص کچھ خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔ “ اور اگر خبر واحد مقبول نہ ہوتی تو نبی کریم ﷺ ایک شخص کو حاکم بنا کر اور اس کے بعد دوسرے شخص کو کیوں بھیجتے اور یہ کیوں فرماتے کہ اگر پہلا حاکم کچھ بھول جائے تو دوسرا حاکم اس کو سنت کے طریق پر لگا دے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
حدیث نمبر: 4345 --- ہم سے مسلم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان کے والد نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ نے ان کے دادا ابوموسیٰ ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ، ان کو دشواریوں میں نہ ڈالنا ۔ لوگوں کو خوش خبریاں دینا دین سے نفرت نہ دلانا اور تم دونوں آپس میں موافقت رکھنا ۔ اس پر ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! ہمارے ملک میں جَو سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جس کا نام ” مزر “ ہے اور شہد سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جو ” بتع “ کہلاتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے ۔ پھر دونوں بزرگ روانہ ہوئے ۔ معاذ ؓ نے ابوموسیٰ ؓ سے پوچھا آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ کھڑے ہو کر بھی ، بیٹھ کر بھی اور اپنی سواری پر بھی اور میں تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد پڑھتا ہی رہتا ہوں ۔ معاذ ؓ نے کہا لیکن میرا معمول یہ ہے کہ شروع رات میں ، میں سو جاتا ہوں اور پھر بیدار ہو جاتا ہوں ۔ اس طرح میں اپنی نیند پر بھی ثواب کا امیدوار ہوں جس طرح بیدار ہو کر (عبادت کرنے پر) ثواب کی مجھے امید ہے اور انہوں نے ایک خیمہ لگا لیا اور ایک دوسرے سے ملاقات برابر ہوتی رہتی ۔ ایک مرتبہ معاذ ؓ ابوموسیٰ ؓ سے ملنے کے لیے آئے ، دیکھا ایک شخص بندھا ہوا ہے ۔ پوچھا یہ کیا بات ہے ؟ ابوموسیٰ ؓ نے بتلایا کہ یہ ایک یہودی ہے ، پہلے خود اسلام لایا اب یہ مرتد ہو گیا ہے ۔ معاذ ؓ نے کہا کہ میں اسے قتل کئے بغیر ہرگز نہ رہوں گا ۔ مسلم بن ابراہیم کے ساتھ اس حدیث کو عبدالملک بن عمرو عقدی اور وہب بن جریر نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور وکیع ، نضر اور ابوداؤد نے اس کو شعبہ سے ، انہوں نے سعید سے ، انہوں اپنے باپ بردہ سے ، انہوں نے سعید کے دادا ابوموسیٰ ؓ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا اور جریر بن عبد الحمید نے اس کو شیبانی سے روایت کیا ، انہوں نے ابوبردہ سے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  6k
حدیث نمبر: 4344 --- ہم سے مسلم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان کے والد نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ نے ان کے دادا ابوموسیٰ ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ، ان کو دشواریوں میں نہ ڈالنا ۔ لوگوں کو خوش خبریاں دینا دین سے نفرت نہ دلانا اور تم دونوں آپس میں موافقت رکھنا ۔ اس پر ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! ہمارے ملک میں جَو سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جس کا نام ” مزر “ ہے اور شہد سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جو ” بتع “ کہلاتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے ۔ پھر دونوں بزرگ روانہ ہوئے ۔ معاذ ؓ نے ابوموسیٰ ؓ سے پوچھا آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ کھڑے ہو کر بھی ، بیٹھ کر بھی اور اپنی سواری پر بھی اور میں تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد پڑھتا ہی رہتا ہوں ۔ معاذ ؓ نے کہا لیکن میرا معمول یہ ہے کہ شروع رات میں ، میں سو جاتا ہوں اور پھر بیدار ہو جاتا ہوں ۔ اس طرح میں اپنی نیند پر بھی ثواب کا امیدوار ہوں جس طرح بیدار ہو کر (عبادت کرنے پر) ثواب کی مجھے امید ہے اور انہوں نے ایک خیمہ لگا لیا اور ایک دوسرے سے ملاقات برابر ہوتی رہتی ۔ ایک مرتبہ معاذ ؓ ابوموسیٰ ؓ سے ملنے کے لیے آئے ، دیکھا ایک شخص بندھا ہوا ہے ۔ پوچھا یہ کیا بات ہے ؟ ابوموسیٰ ؓ نے بتلایا کہ یہ ایک یہودی ہے ، پہلے خود اسلام لایا اب یہ مرتد ہو گیا ہے ۔ معاذ ؓ نے کہا کہ میں اسے قتل کئے بغیر ہرگز نہ رہوں گا ۔ مسلم بن ابراہیم کے ساتھ اس حدیث کو عبدالملک بن عمرو عقدی اور وہب بن جریر نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور وکیع ، نضر اور ابوداؤد نے اس کو شعبہ سے ، انہوں نے سعید سے ، انہوں اپنے باپ بردہ سے ، انہوں نے سعید کے دادا ابوموسیٰ ؓ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا اور جریر بن عبد الحمید نے اس کو شیبانی سے روایت کیا ، انہوں نے ابوبردہ سے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  6k
حدیث نمبر: 4003 --- ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں یونس بن یزید نے خبر دی ، (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہم کو احمد بن صالح نے خبر دی ، ان سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، انہیں علی بن حسین (امام زین العابدین) نے خبر دی ، انہیں حسین بن علی ؓ نے خبر دی اور ان سے علی ؓ نے بیان کیا کہ جنگ بدر کی غنیمت میں سے مجھے ایک اور اونٹنی ملی تھی اور اسی جنگ کی غنیمت میں سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کا جو خمس کے طور پر حصہ مقرر کیا تھا اس میں سے بھی نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی ۔ پھر میرا ارادہ ہوا کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ کی رخصتی کرا لاؤں ۔ اس لیے بنی قینقاع کے ایک سنار سے بات چیت کی کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں ۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس گھاس کو سناروں کے ہاتھ بیچ دوں گا اور اس کی قیمت ولیمہ کی دعوت میں لگاؤں گا ۔ میں ابھی اپنی اونٹنی کے لیے پالان ، ٹوکرے اور رسیاں جمع کر رہا تھا ۔ اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے حجرہ کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں ۔ میں جن انتظامات میں تھا جب وہ پورے ہو گئے تو (اونٹنیوں کو لینے آیا) وہاں دیکھا کہ ان کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں اور کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی ہے ۔ یہ حالت دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا ۔ میں نے پوچھا ، یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب ؓ نے اور وہ ابھی اسی حجرہ میں انصار کے ساتھ شراب نوشی کی ایک مجلس میں موجود ہیں ۔ ان کے پاس ایک گانے والی ہے اور ان کے دوست احباب ہیں ۔ گانے والی نے گاتے ہوئے جب یہ مصرع پڑھا ۔ ہاں ، اے حمزہ ! یہ عمدہ اور فربہ اونٹنیاں ہیں ، تو حمزہ ؓ نے کود کر اپنی تلوار تھامی اور ان دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی ۔ علی ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ زید بن حارثہ ؓ بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے ۔ آپ ﷺ نے میرے غم کو پہلے ہی جان لیا اور فرمایا کہ کیا بات پیش آئی ؟ میں بولا : یا رسول اللہ ! آج جیسی تکلیف کی بات کبھی پیش نہیں آئی تھی ۔ حمزہ ؓ نے میری دونوں اونٹنیوں کو پکڑ کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر ڈالی ہے ۔ وہ یہیں ایک گھر میں شراب کی مجلس جمائے ب...
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  9k
حدیث نمبر: 1953 --- ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ، کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے مسلم بطین نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ! میری ماں کا انتقال ہو گیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں ۔ کیا میں ان کی طرف سے قضاء رکھ سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ضرور ، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے ۔ سلیمان اعمش نے بیان کیا کہ حکم اور سلمہ نے کہا جب مسلم بطین نے یہ حدیث بیان کیا تو ہم سب وہیں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے مجاہد سے بھی سنا تھا کہ وہ یہ حدیث ابن عباس ؓ سے بیان کرتے تھے ۔ ابوخالد سے روایت ہے کہ اعمش نے بیان کیا ان سے حکم ، مسلم بطین اور سلمہ بن کہیل نے ، ان سے سعید بن جبیر ، عطاء اور مجاہد نے ابن عباس ؓ سے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری ” بہن “ کا انتقال ہو گیا ہے پھر یہی قصہ بیان کیا ، یحییٰ اور سعید اور ابومعاویہ نے کہا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے مسلم نے ، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور عبیداللہ نے بیان کیا ، ان سے زید ابن ابی انیسہ نے ، ان سے حکم نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور ان پر نذر کا ایک روزہ واجب تھا اور ابوحریز عبداللہ بن حسین نے بیان کیا ، کہا ہم سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور ان پر پندرہ دن کے روزے واجب تھے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  6k
‏‏‏‏ « معاجزين‏ » کے معنی آگے بڑھنے والے ۔ « بمعجزين‏ » ہمارے ہاتھ سے نکل جانے والے ۔ « سبقوا‏ » کے معنی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے ۔ « لا يعجزون‏ » ہمارے ہاتھ سے نہیں نکل سکتے ۔ « يسبقونا‏ » ہم کو عاجز کر سکیں گے ۔ « بمعجزين‏ » عاجز کرنے والے (جیسے مشہور قرآت ہے) اور « معاجزين‏ » (جو دوسری قرآت ہے) اس کا معنی ایک دوسرے پر غلبہ ڈھونڈنے والے ایک دوسرے کا عجز ظاہر کرنے والے ۔ « معشار‏ » کا معنی دسواں حصہ ۔ « لأكل » پھل ۔ « باعد‏ » (جیسے مشہور قرآت ہے) اور « بعد » جو ابن کثیر کی قرآت ہے دونوں کا معنی ایک ہے اور مجاہد نے کہا « لا يعزب‏ » کا معنی اس سے غائب نہیں ہوتا ۔ « العرم » وہ بند یا ایک لال پانی تھا جس کو اللہ پاک نے بند پر بھیجا وہ پھٹ کر گر گیا اور میدان میں گڑھا پڑ گیا ۔ باغ دونوں طرف سے اونچے ہو گئے پھر پانی غائب ہو گیا ۔ دونوں باغ سوکھ گئے اور یہ لال پانی بند میں سے بہہ کر نہیں آیا تھا بلکہ اللہ کا عذاب تھا جہاں سے چاہا وہاں سے بھیجا اور عمرو بن شرحبیل نے کہا « عرم » کہتے ہیں بند کو یمن والوں کی زبان میں ۔ دوسروں نے کہا کہ « عرم » کے معنی نالے کے ہیں ۔ « السابغات » کے معنی زرہیں ۔ مجاہد نے کہا ۔ « يجازى » کے معنی عذاب دیئے جاتے ہیں ۔ « أعظكم بواحدۃ‏ » یعنی میں تم کو اللہ کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ « مثنى » دو دو کو ۔ « فرادى‏ » ایک ایک کو کہتے ہیں ۔ « التناوش‏ » آخرت سے پھر دنیا میں آنا (جو ممکن نہیں ہے) ۔ « ما يشتہون‏ » ان کی خواہشات مال و اولاد دنیا کی زیب و زینت ۔ « بأشياعہم‏ » ان کی جوڑ والے دوسرے کافر ۔ ابن عباس ؓ نے کہا « كالجواب‏ » جیسے پانی بھرنے کے گڑھے جیسے « جوبتہ » کہتے ہیں حوض کو ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ « جواب‏ » اور « جوبۃ » کا مادہ ایک ہے کیونکہ « جوابى » ، « جابيۃ » کا جمع ہے ۔ اس کا عین کلمہ ب اور « جوبۃ » کا عین کلمہ واؤ ہے ۔ « خمط » پیلو کا درخت ۔ « لأثل » جھاؤ کا درخت ۔ « العرم » سخت زور کی (بارش) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  6k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 Next >>


Search took 0.163 seconds