حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح مسلم"
13 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 2721 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 411 --- ‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میرے سامنے براق لایا گیا ۔ اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا اپنے سم وہاں رکھتا ہے ، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے) میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا ۔ وہاں اس جانور کو حلقہ سے باندھ دیا ۔ جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعتیں نماز کی پڑھیں بعد اس کے باہر نکلا تو جبرئیل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ میں نے دودھ پسند کیا ۔ جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ آسمان پر چڑھے (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے کہا : دروازہ کھولنے کیلئے ، انہوں نے پوچھا کون ہے ؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : جبرئیل ہے ۔ انہوں نے کہا : تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے ۔ ؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : محمد ﷺ ہیں ۔ فرشتوں نے پوچھا : کیا بلائے گئے تھے ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ہاں بلائے گئے ہیں ، پھر دروازہ کھولا گیا ہمارے لئے اور ہم نے آدم علیہ السلام کو دیکھا ، انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے دعا کی بہتری کی ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چڑھے دوسرے آسمان پر اور دروازہ کھلوایا ، فرشتوں نے پوچھا : کون ہے ۔ انہوں نے کہا : جبرئیل ۔ فرشتوں نے پوچھا : تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے ؟ انہوں نے کہا : محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا : کیا ان کو حکم ہوا تھا بلانے کا ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ہاں ان کو حکم ہوا ہے ، پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا ۔ فرشتوں نے کہا : کون ہے ؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : جبرئیل ۔ فرشتوں نے کہا : دوسرا تمہارے ساتھ کون ہے ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : محمد ﷺ ہیں ۔ فرشتوں نے کہا : کیا ان کو پیغام کیا گیا تھا بلانے کے لئے ؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ہاں ان کو پیغام کیا گیا تھا پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ...
Terms matched: 1  -  Score: 116  -  20k
حدیث نمبر: 818 --- ‏‏‏‏ شقیق سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ اور سیدنا ابوموسیٰ ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا : اے ابوعبدالرحمٰن (یہ کنیت ہے ابن مسعود ؓ کی) اگر کسی شخص کو جنابت ہو اور ایک مہینے تک پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے نماز کا ؟ عبداللہ ؓ نے کہا : وہ تیمم نہ کرے ۔ اگرچہ ایک مہینے تک پانی نہ ملے ۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا : پھر سورۂ مائدہ میں یہ جو آیت ہے پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو ۔ سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : اگر اس آیت سے ان کو اجازت دی جائے جنابت میں تیمم کرنے کی تو وہ رفتہ رفتہ پانی ٹھنڈا ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرنے لگ جائیں ۔ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے کہا : تم نے عمار ؓ کی حدیث نہیں سنی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک کام کے لئے بھیجا وہاں میں جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا تو میں خاک میں اس طرح لیٹا جیسے جانوری لیٹتا ہے ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے بیان کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ”تجھے کافی تھا اس طرح دونوں ہاتھوں سے کرنا پھر آپ نے دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارے اور بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ پر مارا پھر ہتھیلیوں کی پشت پر اور منہ پر مسح کیا ۔ عبداللہ ؓ نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ سیدنا عمر ؓ نے عمار ؓ کی حدیث پر قناعت نہیں کی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  4k
حدیث نمبر: 3245 --- ‏‏‏‏ عطاء نے کہا کہ جب کعبہ جل گیا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ مکہ میں آ کر شام والے لڑے تھے اور جو حال اس کو ہوا سو ہوا اور سیدنا ابن زبیر ؓ نے کعبہ شریف کو ویسا ہی رہنے دیا ، یہاں تک کہ لوگ موسم حج میں جمع ہوئے اور سیدنا ابن زبیر ؓ کا ارادہ تھا کہ لوگوں کو خانہ کعبہ دکھا کر جرأت دلائیں اہل شام کی لڑائی پر یا ان کا تجربہ کریں کہ انہیں کچھ حمیت دین ہے یا نہیں پھر جب لوگ آ گئے تو انہوں نے کہا : اے لوگو ! مشورہ دو مجھے خانہ کعبہ کے لیے کہ میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا جو اس میں بودا ہو گیا ہے اسے درست کر دوں ۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا کہ مجھے ایک رائے سوجھی ہے اور میں تو یہ جانتا ہوں کہ تم صرف جو ان میں بودا ہو گیا ہے اس کی مرمت کر دو اور خانہ کعبہ کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ لوگوں کے وقت تھا اور ان ہی پتھروں کو رہنے دو جن کے اوپر لوگ مسلمان ہوئے ہیں اور رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے ہیں تو سیدنا ابن زبیر ؓ نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو اس کا دل کبھی نہ چاہے جب تک نیا نہ بنائے ، پھر تمہارے رب کا گھر تو اس سے کہیں افضل ہے اس کا کیا حال ہے اور میں اپنے رب سے استخارہ کرتا ہوں ۔ تین بار پھر مصمم ارادہ کرتا ہوں اپنے کام کا ، پھر جب تین بار استخارہ ہو چکا تو ان کی رائے میں آیا کہ خانہ مبارک کو توڑ کر بنائیں اور جو لوگ خوف کرنے لگے کہ ایسا نہ ہو جو شخص کہ پہلے خانہ کے اوپر توڑنے چڑھے اس پر کوئی بلائے آسمانی نازل نہ ہو (اس سے معلوم ہوا کہ مالک اس گھر کا اوپر ہے اور تمام صحابہ کا یہی عقیدہ تھا) یہاں تک کہ ایک شخص چڑھا اور اس میں سے ایک پتھر گرا دیا پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی بلا نہ اتری تو ایک دوسرے پر گرنے لگے اور خانہ مبارک کو ڈھا کر زمین تک پہنچا دیا اور سیدنا ابن زبیر ؓ نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردہ ڈال دیا (تاکہ لوگ اسی پردہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں اور مقام کعبہ کو جانتے رہیں اور وہ پردے میں پڑے رہے) یہاں تک کہ دیواریں اس کی اونچی ہو گئیں اور سیدنا ابن زبیر ؓ نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے سنا ہے کہ فرماتی تھیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے : ” کہ اگر لوگ نئے نئے کفر نہ چھوڑے ہوتے اور میرے پاس اتنا بھی خرچ نہیں ہے کہ اس کو بنا سکوں ورنہ پانچ گز حطیم سے کعبہ کے اندر کر دیتا اور ایک دروازہ تو اس میں ایسا رہنے دیتا کہ لوگ اس...
Terms matched: 1  -  Score: 113  -  11k
حدیث نمبر: 7381 --- ‏‏‏‏ یعقوب بن عاصم بن عروہ مسعود ثقفی سے روایت ہے ، میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے یہ لگا : یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی ؟ انہوں نے کہا : (تعجب سے) سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ یا اور کوئی کلمہ مانند ان کے پھر کہا : میرا قصد ہے کہ اب کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھ کو بدنام کرتے ہیں) میں نے تو یہ کہا تھا : تم تھوڑے دنوں بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر جلائے گا ، اور وہ ہو گا ضرور ہو گا ۔ پھر کہا : کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس دن تک رہے گا ۔ “ میں نہیں جانتا چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس ۔ ” پھر اللہ تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا ان کی شکل عروہ بن مسعود کی سی ہے ۔ وہ دجال کو ڈھونڈیں گے اور اس کو ماریں گے ۔ پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو شخصوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا شام کی طرف سے تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجہ میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی ۔ “ سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” پھر برے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جلد باز چڑیوں کی طرح یا بے عقل اور درندرں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے ۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے نہ بری بات کو برا ۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گا : تم شرم نہیں کرتے ۔ وہ کہیں گے : پھر تو کیا حکم دیتا ہے ہم کو ؟ شیطان کہے گا بت پرستی کرو ۔ وہ بت پوجیں گے اور باوجود اس کے ان کی روزی کشادہ ہو گی ، مزے سے زندگی بسر کریں گے ۔ پھر صور پھونکا جائے گا ۔ اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھ لے گا (یعنی بے ہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض پر کلاوہ کرتا ہو گا ۔ وہ بے ہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بے ہوش ہو جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا ۔ اس سے لوگوں کے بدن اگ آئیں گے ۔ پھر صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہ...
Terms matched: 1  -  Score: 113  -  9k
حدیث نمبر: 4659 --- ‏‏‏‏ سیدنا اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے ، اس پر ایک پالان تھا ، اور نیچے اس کے ایک چادر تھی فدک کی ۔ (فدک ایک مشہور شہر تھا مدینہ سے دو یا تین منزل پر) آپ ﷺ کے پیچھے اسی گدھے پر سیدنا اسامہ بن زید ؓ تھے ، آپ ﷺ تشریف لے گئے سعد بن عبادہ ؓ کو پوچھنے کے لیے ، ان کی بیماری میں بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں اور قصہ بدر کی جنگ سے پہلے کا ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ گزرے ایک مجلس پر جس میں سب قسم کے لوگ یعنی مسلمان اور مشرک بت پرست اور یہود ملے جلے تھے ۔ ان لوگوں میں عبداللہ بن ابی (منافق مشہور) بھی تھا اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے ، جب اس مجلس میں جانور کی گرد پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک بند کر لی چادر سے اور کہنے لگا مت گرد اڑاؤ ہم پر ، رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو سلام کیا پھر کھڑے ہوئے اور گدھے پر سے اترے بعد اس کے ان کو بلایا اللہ کی طرف اور ان کو قرآن سنایا : عبداللہ بن ابی نے کہا : اے شخص ! اس سے اچھا کچھ نہیں یا اس سے تو یہ بہتر تھا کہ تم اپنے گھر میں بیٹھتے اگر تم جو کہتے ہو وہ سچ ہے تو مت ستاؤ ہم کو ہماری مجلسوں میں اور لوٹ جاؤ اپنے ٹھکانے کو ، جو ہم میں سے تمہارے پاس آئے اس کو یہ قصہ سناؤ ۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا : ہم کو ضرور سنائیے ہماری مجلسوں میں کیوں کہ ہم پسند کرتے ہیں ان باتوں کو ۔ سیدنا اسامہ ؓ نے کہا : پھر مسلمان اور مشرک اور یہود گالی گلوچ کرنے لگے یہاں تک کہ قصد کیا ایک دوسرے کو مارنے کا اور رسول اللہ ﷺ اس جھگڑے کو دباتے تھے ۔ آخر آپ ﷺ سوار ہوئے اپنے جانور پر اور سیدنا سعد بن عبادہ ؓ کے پاس گئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اے سعد ! تم نے نہیں سنیں ابوحباب کی باتیں (یہ کنیت ہے عبداللہ بن ابی کی) اس نے ایسی ایسی باتیں کہیں ۔ “ سیدنا سعد ؓ نے کہا : آپ معاف کر دیجئے یا رسول اللہ ! اور درگزر کیجیے قسم اللہ کی ، اللہ نے آپ کو دیا جو دیا اور اس شہر والوں نے تو یہ ٹھہرایا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو تاج پہنا دیں اور عمامہ بندھوا دیں (یعنی اس کو بادشاہ کریں یہاں کا) جب اللہ تعالیٰ نے یہ بات نہ ہونے دی اس حق کی وجہ سے جو آپ کو دیا گیا تو وہ جل گیا (حسد کے مارے) اسی حسد نے اس سے یہ کرایا جو آپ نے دیکھا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کو معاف کر دیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 111  -  7k
حدیث نمبر: 4499 --- ‏‏‏‏ سیدنا زید بن جہنی ؓ سے روایت ہے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا لقطہ کو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ایک سال تک اس کو بتلا پھر پہچان رکھ اس کا ڈھکنا اور اس کی تھیلی (یہ دوسری پہچان ہے ایک سال بعد تاکہ اگر مالک آئے تو اس کو پہچان کر تاوان دے سکے اور ایک پہچان پانے کے بعد ہے مالک کی تلاش کے لئے) پھر خرچ کر ڈال اس کو اب اگر مالک آئے تو ادا کر دے اس کو ۔ “ ایک شخص بولا : یا رسول اللہ ! بھولی بھٹکی بکری کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس کو پکڑ لے وہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیئے کی ۔ “ ایک شخص بولا : یا رسول اللہ ! بھولے بھٹکے اونٹ کا کیا حکم ہے ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کو غصہ آیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے یا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا ۔ بعد اس کے آپ ﷺ نے فرمایا : ”اونٹ سے تجھے کیا کام ؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا ہے اور مشک ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے ملے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 110  -  3k
حدیث نمبر: 2467 --- ‏‏‏‏ زید سے روایت ہے کہ وہ اس لشکر میں تھے جو سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ خوارج پر گیا تھا انہوں نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : اے لوگو ! میں نے سنا ہے رسول اللہ ﷺ سے کہ فرماتے تھے : ایک قوم نکلے گی میری امت سے کہ قرآن پڑھیں گے ایسا کہ تمہارا پڑھنا ان کے آگے کچھ نہ ہو گا اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے آگے کچھ ہو گی اور نہ تمہارا روزہ ان کے روزوں کے آگے کچھ ہو گا قرآن پڑھ کو وہ سمجھیں گے کہ ہمارا اس میں فائدہ ہے اور وہ ان کا ضرر ہو گا نماز ان کے گلوں سے نہ اترے گی ، نکل جائیں گے اسلام سے جیسے تیر شکار سے ۔ “ اگر وہ لشکر جو ان پر جائے گا جان لے اس بشارت کو جس کا بیان فرمایا گیا ہے تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک پر تو بھروسا کرے اسی عمل پر (یہ سمجھ لے کہ اب عمل کی حاجت نہیں اتنا ثواب ان کے قتل میں ہے) اور نشانی ان کی یہ ہے کہ ان میں آدمی ہے کہ اس کے شانے کے سر پر عورت کے سر پستان کی مثل ہے ۔ اور اس پر بال ہیں سفید رنگ کے اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : تم جاتے ہو معاویہ کی طرف اہل شام پر اور ان کو چھوڑے جاتے ہو کہ یہ تمہارے پیچھے تمہاری اولاد اور اموال کو ایذا دیں اور میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ یہ وہی قوم ہے کہ اس لیے کہ انہوں نے خون بہایا حرام اور لوٹ لیا مواشی کو لوگوں کے سوا ان پر چلو اللہ کا نام لے کر ۔ سلمہ بن کہیل نے کہا پھر بیان کیا مجھ سے زید نے ایک ایک منزل کا یہاں تک کہ کہا انہوں نے کہ گزرے ہم ایک پل پر (اور وہ پل تھا دبر خان کا چنانچہ نسائی کی روایت میں وارد ہوا ہے) پھر جب دونوں لشکر ملے اس دن خوارج کا سپہ سالار عبداللہ بن وہب راسبی تھا اور اس نے حکم دیا ان کو کہ اپنے نیزے پھینک دو اور تلواریں میان سے نکال لو اس لیے کہ میں ڈرتا ہوں کہ یہ لوگ تم پر ویسی بوچھاڑ نہ کریں جیسی حرورا کے دن کی تھی سو وہ پھرے اور اپنے نیزے پھینک دئیے اور تلواریں میان سے نکال لیں اور لوگ ان سے جا ملے اور ان کو اپنے نیزوں سے کونچ لیا اور ایک پھر دوسرا مقتول ہوا اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے لشکر سے صرف دو آدمی کام آئے پھر سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا کہ ڈھونڈو اس میں « مخدج » کو اور اس کو ڈھونڈا اور نہ پایا پھر سیدنا علی بن ابی طالب ؓ خود کھڑے ہوئے اور ان مقتولوں کے پاس گئے جو ایک دوسرے پر پڑے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ ا...
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  9k
‏‏‏‏ ان سب حدیثوں کی طرف قصد کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے مسنداً (‏‏‏‏یعنی متصلاً) ایک راوی نے دوسرے سے سنا ہو رسول اللہ ﷺ تک روایت کی گئی ہیں (‏‏‏‏سب حدیثوں سے مراد اکثر حدیثیں ہیں اس لیے کہ سب مسند حدیثیں اس کتاب میں نہیں ہیں) پھر ان کو تقسیم کرتے ہیں تین قسموں پر اور راویوں کے تین طبقوں پر (‏‏‏‏پہلا طبقہ تو حافظ اور ثقہ لوگوں کی روایتوں کا ، دوسرا متوسطین کا ، تیسرا ضعفاء اور متروکین کا مگر مصنف نے اس کتاب میں پہلی قسم کے بعد دوسری قسم کی حدیثوں کو بیان کیا ہے ، مگر تیسری قسم کو مطلق ذکر نہیں کیا اور حاکم اور بیہقی نے کہا کہ اس کتاب میں سب سے پہلی قسم کی حدیثیں ہیں اور دوسری قسم کی حدیثیں بیان کرنے سے پہلے مسلم رحمہ اللہ وفات پا گئے) بغیر تکرار کے مگر جب کوئی ایسا مقام ہو جہاں دوبارہ حدیث کا لانا ضروری ہو ۔ اس وجہ سے کہ اس میں کوئی دوسری بات زیادہ ہو یا کوئی ایسی اسناد ہو جو دوسری اسناد کے پہلو میں واقع ہو کسی علت کی وجہ سے تو وہاں تکرار کرتے ہیں (‏‏‏‏یعنی دوبارہ اس حدیث کو نقل کرتے ہیں) اس لیے کہ جب کوئی بات زیادہ ہوئی حدیث میں جس کی احتیاج ہے تو وہ مثل ایک پوری حدیث کے ہے ۔ پھر ضروری ہے اس سب حدیث کا ذکر کرنا جس میں وہ بات زیادہ ہے یا ہم اس زیادتی کو جدا کر لیں گے پوری حدیث سے اختصار کے ساتھ اگر ممکن ہوا یعنی ایک حدیث میں ایک جملہ زیادہ ہے جس سے کوئی بات کام کی نکلتی ہے اور وہ جملہ جدا ہو سکتا ہے تو صرف اس جملہ کو دوسری اسناد سے بیان کر کے نقل کر دیں گے اور ساری حدیث دوبارہ نہ لائیں گے ۔ مگر ایسا جب کریں گے کہ اس جملہ کا علیحدہ ہونا حدیث سے ممکن ہو (‏‏‏‏نووی رحملہ اللہ علیہ نے کہا کہ اس مسئلہ میں علمائے حدیث کا اختلاف ہے یعنی حدیث کا ایک ٹکڑا علیحدہ روایت کرنے میں بعضوں کے نزدیک مطلقاً منع ہے کیونکہ روایت بالمعنیٰ ان کے نزدیک جائز نہیں بلکہ حدیث کو لفظ بلفظ نقل کرنا چاہیئے اور بعض کے نزدیک اگرچہ روایت بالمعنیٰ جائز ہے مگر حدیث کا ایک ٹکڑا علیحدہ روایت کرنا اسی صورت میں درست ہے جب پہلے پوری حدیث کو روایت کر لیں اور بعض کے نزدیک مطلقاً جائز ہے اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ مسلم رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور صحیح یہ ہے کہ علماء اور اہل معرفت کی یہ بات درست ہے بشرطیکہ معنی میں خلل واقع نہ ہو ۔) لیکن جب جدا کرنا اس جملہ کا دشوار ہو تو پوری حدیث اپنی خاص وضع س...
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  12k
حدیث نمبر: 677 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا : ”ان دونوں قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے اور کچھ بڑے گناہ پر نہیں ۔ ایک تو ان میں چغل خوری کرتا (یعنی ایک کی بات دوسرے سے لگانا لڑائی کے لئے) اور دوسرا اپنے پیشاب سے بچنے میں احتیاط نہ کرتا ۔ “ پھر آپ ﷺ نے ایک ہری ٹہنی منگوائی اور چیر کر اس کو دو کیا اور ہر ایک قبر پر ایک ایک گاڑ دی اور فرمایا : ”شاید جب تک یہ ٹہنیاں نہ سوکھیں اس وقت تک ان کا عذاب ہلکا ہو جائے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  2k
حدیث نمبر: 2362 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ایک شخص نے کہا کہ میں آج کی رات کچھ صدقہ دوں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا (یہ صدقہ کو چھپانا منظور تھا کہ رات کو لے کر نکلا) اور ایک زناکار عورت کے ہاتھ دے دیا پھر صبح کو لوگ چرچا کرنے لگے کہ آج کی رات ایک شخص زناکار کے ہاتھ صدقہ دے گیا ۔ اس نے کہا : یا اللہ ! تیرے لئے ہیں سب خوبیاں کہ میرا صدقہ زناکار کو جا پڑا اور پھر اس نے کہا کہ آج اور صدقہ دوں گا پھر نکلا اور ایک غنی مالدار کو دے دیا اور لوگ صبح چرچا کرنے لگے کہ آج کوئی مالدار کو صدقہ دے گیا ۔ اس نے کہا : یا اللہ ! تیرے لئے ہیں سب خوبیاں میرا صدقہ مالدار کے ہاتھ جا پڑا ۔ تیسرے دن پھر اس نے کہا کہ میں صدقہ دوں گا اور وہ نکلا اور صدقہ ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا اور صبح کو لوگ چرچا کرنے لگے کہ آج کوئی چور کو صدقہ دے گیا ۔ اس نے کہا : تجھی کو ہیں سب خوبیاں میرا صدقہ زناکار عورت اور مالدار مرد اور چور کے ہاتھ میں جا پڑا پھر اس کے پاس ایک شخص آیا (یعنی فرشتہ یا نبی اس زمانہ کے علیہ السلام) اور اس نے کہا کہ تیرے سب صدقے قبول ہو گئے زناکار عورت کا تو اس نظر سے کہ شاید وہ اس دن زنا سے باز رہی ہو اس لئے کہ پیٹ کے لئے زنا کرتی تھی ، رہا غنی اس کا اس لیے قبول ہوا کہ شاید اسے شرم آئے اور عبرت ہو کہ اور لوگ صدقہ دیتے ہیں لاؤ میں بھی دوں اور وہ خرچ کرے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال سے اور چور کا صدقہ اس لیے کہ شاید وہ اس شب کو چوری نہ کرے ۔ “ (اس لیے کہ آج کا خرچ تو آ گیا) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  5k
حدیث نمبر: 5403 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، سیدنا عمر ؓ نے عطارد تمیمی کو دیکھا بازار میں ایک ریشمی جوڑا رکھے ہوئے (بیچنے کے لیے) اور وہ ایک ایسا شخص تھا جو بادشاہوں کے پاس جایا کرتا تھا اور ان سے روپیہ حاصل کرتا ۔ سیدنا عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے عطارد کو دیکھا اس نے بازار میں ایک ریشمی جوڑا رکھا ہے اگر آپ اس کو خرید لیں اور جب عرب کے ایلچی آتے ہیں اس وقت پہنا کریں تو مناسب ہے ۔ راوی نے کہا : میں سمجھتا ہوں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعہ کو بھی آپ پہنا کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ریشمی کپڑا دنیا میں وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ “ پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس چند ریشمی جوڑے آئے ۔ آپ ﷺ نے سیدنا عمر ؓ کو بھی ایک جوڑا دیا اور سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو ایک اور سیدنا علی ؓ کو ایک اور فرمایا : ” اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کی سربندھن بنا دے ۔ “ سیدنا عمر ؓ اپنا جوڑا لے کر آئے اور عرض کرنے لگے ، یا رسول اللہ ! آپ نے یہ جوڑا مجھے بھیجا اور کل ہی آپ نے عطارد کے جوڑے کے باب میں کیا فرمایا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے یہ جوڑا تمہارے پاس پہننے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے بھیجا کہ اس سے فائدہ حاصل کرو (اس کو بیچ کر) “ اور سیدنا اسامہ ؓ نے اپنا جوڑا پہن لیا اور چلے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایسی نگاہ سے دیکھا کہ ان کو معلوم ہو گیا کہ آپ ﷺ ناراض ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کیا دیکھتے ہیں ؟ آپ ! ہی نے تو یہ جوڑا مجھے بھیجا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے اس لیے نہیں بھیجا کہ تو خود پہنے بلکہ اس لیے بھیجا کہ پھاڑ کر اپنی عورتوں کے سربندھن بنا دے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  5k
حدیث نمبر: 279 --- ‏‏‏‏ صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ جندب بن عبداللہ بجلی ؓ نے عسعس بن سلامہ کو کہلا بھیجا جب سیدنا عبداللہ بن زیبر ؓ کا فتنہ ہوا کہ تم اکٹھا کرو میرے لئے اپنے چند بھائیوں کو تاکہ میں ان سے باتیں کروں ۔ عسعس نے لوگوں کو کہلا بھیجا ۔ وہ اکٹھے ہوئے تو سیدنا جندب ؓ آئے ایک زرد برنس اوڑھے تھے (صراح میں ہے برنس وہ ٹوپی جس کو لوگ شروع زمانہ اسلام میں پہنتے تھے اور راوی نے کہا : برنس وہ کپڑا ہے ، جس کا سر اسی میں لگا ہوا ہو کرتہ یا جبہ ۔ جوہری نے کہا : برنس ایک لمبی ٹوپی تھی جس کو لوگ ابتدائے اسلام میں پہنتے تھے) انہوں نے کہا : تم باتیں کرو جو کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ سیدنا جندب ؓ کی باری آئی (یعنی ان کو بات ضرور کرنا پڑی) تو انہوں نے برنس اپنے سر سے ہٹا دیا ۔ اور کہا : میں تمہارے پاس آیا اس ارادے سے کہ بیان کروں تم سے حدیث تمہارے پیغمبر علیہ السلام کی ۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی ایک قوم پر بھیجا ، اور وہ دونوں ملے (یعنی آمنا سامنا ہوا میدان جنگ میں) تو مشرکوں میں ایک شخص تھا وہ جس مسلمان پر چاہتا اس پر حملہ کرتا اور مار لیتا آخر ایک مسلمان نے اس کی غفلت کو تاکا اور لوگوں نے ہم سے کہا : وہ مسلمان سیدنا اسامہ بن زید ؓ تھے ۔ پھر جب انہوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا : « لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ » لیکن انہوں نے مار ڈالا اس کے بعد اس کا قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ۔ آپ ﷺ نے اس سے حال پوچھا ۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس شخص کا بھی حال کہا (یعنی سیدنا اسامہ بن زید ؓ کا) آپ ﷺ نے ان کو بلایا اور پوچھا : ” تم نے کیوں اس کو مارا ؟ “ اسامہ ؓ نے کہا : یا رسول اللہ ! اس نے بہت تکلیف دی مسلمانوں کو ، تو مارا فلاں اور فلاں کو اور نام لیا کئی آدمیوں کا پھر میں اس پر غالب ہوا ۔ جب اس نے تلوار کو دیکھا تو « لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ » کہنے لگا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم نے اس کو قتل کر دیا ۔ ‘‘ انہوں نے کہا : ہاں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم کیا جواب دو گے « لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ » کا جب وہ آئے گا دن قیامت کے ۔ ‘‘ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! دعا کیجیے میرے لیے بخشش کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم کیا جواب دو گے « لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ » کا جب وہ آئے گا قیامت کے دن ‘‘ ، پھر آپ ﷺ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا ۔ اور یہی کہ...
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  8k
حدیث نمبر: 4619 --- ‏‏‏‏ سیدنا ایاس بن سلمہ ؓ سے روایت ہے ، میرے باپ سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم نے جہاد کیا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کا ، جب دشمن کا سامنا ہوا تو میں آگے ہوا اور ایک گھاٹی پر چڑھا ، ایک شخص دشمنوں میں سے میرے سامنے آیا میں نے ایک تیر مارا وہ چھپ گیا ۔ معلوم نہیں کیا ہوا ۔ میں نے لوگوں کو دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے نمودار ہوئے اور ان سے اور نبی ﷺ کے صحابہ ؓ سے جنگ ہوئی لیکن صحابہ ؓ کو شکست ہوئی ، میں بھی شکست پا کر لوٹا اور میں دو چادریں پہنے تھا ایک باندھے ہوئے دوسری اوڑھے ، میری تہبند کھل چلی تو میں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرا شکست پا کر ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”اکوع کا بیٹا گھبرا کر لوٹا ۔ “ پھر دشمنوں نے رسول اللہ ﷺ کو گھیرا ۔ آپ ﷺ خچر پر سے اترے اور ایک مٹھی خاک زمین سے اٹھائی اور ان کے منہ پر ماری اور فرمایا : بگڑ گئے منہ ، پھر کوئی آدمی ان میں ایسا نہ رہا جس کی آنکھ میں خاک نہ بھر گئی ہو اس ایک مٹھی کی وجہ سے ، آخر وہ بھاگے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے مال بانٹ دئیے مسلمانوں کو ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  4k
حدیث نمبر: 4573 --- ‏‏‏‏ سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے جہاد کیا فزارہ سے (جو ایک قبیلہ ہے مشہور عرب میں) اور ہمارے سردار سیدنا ابوبکر صدیق ؓ تھے ، رسول اللہ ﷺ نے ان کو امیر بنایا تھا ہم پر ۔ جب ہمارے اور پانی کے بیچ میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہا (یعنی اس پانی سے جہاں فزارہ رہتے تھے) حکم کیا ہم کو ابو بکر ؓ نے ہم پچھلی رات کو اتر پڑے پھر ہر طرف سے حکم کیا حملہ کا اور پانی پر پہنچے وہاں جو مارا گیا مارا گیا اور چھے قید ہوئے اور میں ایک ٹکڑے کو تاک رہا تھا جس میں بچے اور عورتیں تھیں (کافروں کی) میں ڈرا کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں ۔ میں نے ایک تیر مارا ان کے اور پہاڑ کے بیج میں ، تیر کو دیکھ کر وہ ٹھر گئے ۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا لایا ۔ ان میں ایک عورت فزارہ کی جو چمڑا پہنتی تھی اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی نہایت خوب صورت ۔ میں ان سب کو سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس لایا ۔ انہوں نے وہ لڑکی انعام کے طور پر مجھ کو دے دی ۔ جب ہم مدینہ میں پہنچے اور ابھی میں نے اس لڑکی کا کپڑا تک نہیں کھولا تھا تو رسول اللہ ﷺ مجھ کو بازار میں ملے اور فرمایا : ’’ اے سلمہ ! وہ لڑکی مجھ کو دے دے ۔ “ میں نے کہا : یا رسول اللہ اللہ کی قسم ! وہ مجھ کو بھلی لگی ہےاور میں نے اس کا کپڑا تک نہیں کھولا ۔ پھر دوسرے دن مجھ کو رسول اللہ ﷺ بازار میں ملے اور فرمایا : ’’ اے سلمہ ! وہ لڑکی مجھ کو دے دے ، تیرا باپ بہت اچھا تھا ۔ “ میں نے کہا : یارسول اللہ ﷺ وہ آپ کی ہے ۔ اللہ کی قسم ! میں نے تو اس کا کپڑا تک نہیں کھولا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے وہ لڑکی مکے والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلے کئی مسلمانوں کو چھڑایا جو مکہ میں قید ہو گئے تھے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  5k
حدیث نمبر: 2742 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ”ایک دن روزہ رکھو اور تم کو دوسرے دنوں کا بھی ثواب ہے ۔ “ تو سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”دو دن روزہ رکھو اور تم کو باقی دنوں کا بھی ثواب ہے ۔ “ انہوں نے پھر کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تین دن روزہ رکھو اور تم کو باقی دنوں کا ثواب ہے ۔ “ اور انہوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”چار دن روزہ رکھو اور تم کو باقی دنوں کا بھی ثواب ہے ۔ “ انہوں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”سب روزوں سے افضل روزہ رکھو اور وہ اللہ کے نزدیک صوم داؤد علیہ السلام ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 105  -  3k
حدیث نمبر: 4588 --- ‏‏‏‏ سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے ، جس دن بدر کی لڑائی ہوئی رسول اللہ ﷺ نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپ ﷺ کے اصحاب تین سو انیس تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کیا ، پھر دونوں ہاتھ پھیلائے ، اور پکار کر دعا کرنے لگے اپنے پروردگار سے ۔ (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) « اللَّہُمَّ أَنْجِزْ لِى مَا وَعَدْتَنِى اللَّہُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِى اللَّہُمَّ إِنْ تَہْلِكْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃُ مِنْ أَہْلِ الإِسْلاَمِ لاَ تُعْبَدْ فِى الأَرْضِ » ”یااللہ ! پورا کر جو تو نے وعدہ کیا مجھ سے ، یااللہ ! دے مجھ کو جو وعدہ کیا تو نے مجھ سے ، یااللہ ! اگر تو تباہ کر دے گا اس جماعت کو تو پھر نہ پوجا جائے گا تو زمین میں ۔ “ (بلکہ جھاڑ پہاڑ پوجے جائیں گے) پھر آپ ﷺ برابر دعا کرتے رہے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہاں تک کہ آپ کی چادر مبارک مونڈھوں سے اتر گئی سیدنا ابوبکر ؓ آئے اور آپ ﷺ کی چادر مونڈھے پر ڈال دی ، پھر پیچھے سے ہٹ گئے اور فرمایا اے نبی اللہ تعالیٰ کے بس ، آپ کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ پورا کرے گا وہ وعدہ جو کیا آپ سے ۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری « إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلاَئِكَۃِ مُرْدِفِينَ » (۸-الأنفال : ۹) ”یعنی جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے قبول کی دعا تمہاری اور فرمایا میں تمہاری مدد کروں گا ایک ہزار فرشتے لگاتار سے ، “ پھر اللہ تعالیٰ نے مدد کی آپ ﷺ کی فرشتوں سے ۔ ابوزمیل نے کہا : مجھ سے حدیث بیان کی سیدنا ابن عباس ؓ نے کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو اس کے آگے تھا اتنے میں کوڑے کی آواز اس کے کان میں آئی اوپر سے اور ایک سوار کی آواز سنائی دی اوپر سے ۔ وہ کہتا تھا بڑھ اے حیزدم (حیزدم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر چت گر پڑا اس مسلمان کے سامنے ، مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا منہ پھٹ گیا تھا جیسے کوئی کوڑا مارتا ہے اور سب سبز ہو گیا تھا ۔ (کوڑے کی زہر سے) ، پھر مسلمان انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور قصہ بیان کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تو سچ کہتا ہے یہ مدد تیسرے آسمان سے آئی تھی ۔ “ آخر مسلمانوں نے اسی دن ...
Terms matched: 1  -  Score: 104  -  13k
حدیث نمبر: 2290 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”کوئی چاندی سونے کا مالک ایسا نہیں کہ اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ اس کی چاندی ، سونے کے تختے بنائے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ میں گرم کیے جائیں گے پھر اس کا ماتھا اور کروٹیں اس سے داغی جائیں گی اور اس کی پیٹھ اور جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے پھر گرم کیے جائیں گے پچاس ہزار برس کے دن پھر اس کو یہی عذاب ہو گا یہاں تک کہ فیصلہ ہو اور بندوں کا اور اس کی کچھ راہ نکلے جنت یا دوزخ کی طرف ۔ “ ان سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! پھر اونٹوں کا کیا حال ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق نہیں دیتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دوہے جس دن ان کو پانی پلائے (عرب کا معمول تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن اونٹوں کو پانی پلانے لے جاتے وہاں مسکین جمع رہتے اونٹوں کے مالک ان کو دودھ دوھ کر پلاتے حالانکہ یہ واجب نہیں ہے مگر آپ ﷺ نے اونٹوں کا ایک حق اس کو بھی قرار دیا) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک برابر زمین پر اوروہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹین گے پھر جب ان میں سے پہلا جانور روندتا چلا جائے گا پچھلا آ جائے گا ۔ یوں یہ عذاب ہوتا رہے گا سارا دن کہ پچاس ہزار برس کا ہو گا یہاں تک کہ فیصلہ ہو جائے بندوں کا پھر اس کی کچھ راہ نکلے جنت یا دوزخ کی طرف ۔ “ پھر عرض کی اے اللہ کے رسول ! اور گائے بکری کا کیا حال ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک پٹ پر صاف زمین پر اور ان گائے بکریوں میں سب آئیں گی کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی ، نہ بے سینگ کی ، نہ سینگ ٹوٹی اور آ کر اس کو ماریں گی اپنے سینگوں سے اور روندیں گی اپنے کھروں سے جب اگلی اس پر سے گزر جائے گی پچھلی پھر آئے گی یہی عذاب ہو گا اس پر پچاس ہزار برس کے دن پھر یہاں تک کہ فیصلہ ہو جائے بندوں کا پھر اس کی راہ کی جائے جنت یا دوزخ کی طرف ۔ “ پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! اور گھوڑے ؟ آپ نے فرمایا : ”گھوڑے تین طرح پر ہیں ایک اپنے مالک پر بار ہے یعنی بال ہے ۔ د...
Terms matched: 1  -  Score: 104  -  13k
حدیث نمبر: 4432 --- ‏‏‏‏ سیدنا بریدہ ؓ سے روایت ہے ، ماعز بن مالک اسلمی ؓ آئے رسول اللہ ﷺ کے پاس اور کہنے لگے : یا رسول ! میں نے ظلم کیا اپنی جان پر اور زنا کیا ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھ کو پاک کریں ۔ آپ ﷺ نے ان کو پھیر دیا جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئے اور کہنے لگے : یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا آپ ﷺ نے ان کو پھیر دیا بعد اس کے ان کی قوم کے پاس کسی کو بھیجا اور دریافت کرایا ، ان کی عقل میں کچھ فتور ہے اور تم نے کوئی بات دیکھی ۔ “ انہوں نے کہا : ہم تو کچھ فتور نہیں جانتے اور ان کی عقل اچھی ہے جہاں تک ہم سمجھتے ہیں ، پھر تیسری بار ماعز ؓ آئے ، آپ ﷺ نے ان کی قوم کے پاس پھر بھیجا اور یہی دریافت کرایا انہوں نے کہا : ان کو کوئی بیماری نہیں ، نہ ان کی عقل میں کچھ فتور ہے ۔ جب چوتھی بار وہ آئے اور انہوں نے یہی کہا : میں نے زنا کیا ہے مجھ کو پاک کیجئے ۔ حالانکہ توبہ سے بھی پاکی ہو سکتی تھی مگر ماعز ؓ کو یہ شک ہوا کہ شاید توبہ قبول نہ ہو تو آپ ﷺ نے ایک گڑھا ان کے لیے کھدوایا پھر حکم دیا وہ رجم کیے گئے ۔ اس کے بعد غامد کی عورت آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا مجھ کو پاک کیجئے ۔ آپ ﷺ نے اس کو پھیر دیا ، جب دوسرا دن ہوا اس نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ مجھے کیوں لوٹاتے ہیں شاید آپ ایسے پھرانا چاہتے ہیں جیسے ماعز کو پھرایا تھا قسم اللہ کی ! میں تو حاملہ ہوں تو اب زنا میں کیا شک ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا اگر تو نہیں لوٹتی (اور توبہ کر کے پاک ہونا نہیں چاہتی بلکہ دنیا کی سزا ہی چاہتی ہے) تو جا جننے کے بعد آنا ۔ “ جب وہ جنی تو بچہ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی آپ ﷺ نے فرمایا : ”اسی کو تو نے جنا جا اس کو دودھ پلا ، جب اس کا دودھ چھٹے تو آ ۔ “ (شافعی اور احمد اور اسحٰق رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے کہ عورت کو رجم نہ کریں گے جننے کے بعد بھی جب تک دودھ کا بندوبست نہ ہو ، ورنہ دودھ چھٹنے تک انتظار کریں گے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جنتے ہی رجم کریں گے) جب اس کا دودھ چھٹا تو وہ بچے کو لے کر آئی اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا ۔ اور عرض کرنے لگی : اے نبی اللہ تعالیٰ کے ! میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ۔ اور یہ کھانا کھانے لگا ہے ۔ آپ ﷺ نے وہ بچہ ایک مسلمان کو دے دیا پرورش کے لیے ۔ پھر حکم دیا اور ایک گڑھا کھودا گیا ، اس کے سینے تک اور لوگوں...
Terms matched: 1  -  Score: 104  -  9k
حدیث نمبر: 387 --- ‏‏‏‏ ایک شخص نے جو خراسان کا رہنے والا تھا شعبی رحمہ اللہ سے پوچھا : ہمارے ملک کے لوگ کہتے ہیں جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرے پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کی مثال ایسی ہے ۔ جیسے کوئی ہدی کے جانور پر سواری کرے ۔ شعبی رحمہ اللہ نے کہا : مجھ سے بیان کیا ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے ، انہوں نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے ، انہوں نے اپنے باپ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تین آدمیوں کو دوہرا ثواب ملے گا ۔ ایک تو اس شخص کو جو اہل کتاب میں سے ہو (یعنی یہودی یا نصرانی) ایمان لایا ہو اپنے پیغمبر پر ، پھر میرا زمانہ پائے اور مجھ پر بھی ایمان لائے اور میری پیروی کرے اور مجھ کو سچا جانے تو اس کو دوہرا ثواب ہے اور ایک اس غلام کو جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی اس کو دوہرا ثواب ہے اور ایک اس شخص کو جس کے پاس لونڈی ہو پھر اچھی طرح اس کو کھلائے اور پلائے بعد اس کے کہ اچھی طرح تعلیم اور تربیت کرے پھر اس کو آزاد کرے اور اس سے نکاح کر لے تو اس کو بھی دوہرا ثواب ہے ۔ “ پھر شعبی رحمہ اللہ نے خراسانی سے کہا : تو یہ حدیث لے لے بے محنت کے ، نہیں تو ایک شخص اس سے چھوٹی حدیث کے لئے مدینے تک سفر کیا کرتا تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 103  -  4k
حدیث نمبر: 2990 --- ‏‏‏‏ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ ان دونوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے کہا جن دنوں حجاج بن یوسف ، سیدنا ابن زبیر ؓ سے لڑنے آیا تھا کہ اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو کیا ضرر ہے اس لیے کہ ہم کو خوف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں لڑائی ہو اور آپ بیت اللہ نہ جا سکیں تو انہوں نے کہا : اگر میں نہ جا سکوں تو ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے جب کفار قریش نے آپ ﷺ کو روک لیا تھا بیت اللہ سے اور میں آپ ﷺ کے ساتھ تھا ، پھر سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ گواہ رہو میں نے عمرہ اپنے اوپر واجب کیا اور چلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے اور عمرہ کی لبیک پکاری پھر کہا : اگر میری راہ کھل گئی تو میں عمرہ بجا لاؤں گا اور اگر میرے اور بیت اللہ میں کوئی حائل ہو گیا تو ویسا ہی کروں گا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا اور میں آپ ﷺ کے ساتھ تھا پھر یہ آیت پڑھی کہ « لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ » (۳۳-الاحزاب : ۲۱) یعنی ” تم کو اچھی پیروی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ میں ۔ “ پھر چلے یہاں تک کہ جب بیداء کی پیٹھ پر پہنچے تو کہا کہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ اگر میں اپنے سے عمرہ سے روکا گیا تو حج سے بھی روکا جاؤں گا میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے حج بھی اپنے عمرہ کے ساتھ واجب کیا پھر چلے یہاں تک کہ قدید سے قربانی خریدی اور حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کی بیت اللہ اور صفا مروہ کی اور احرام نہ کھولا یہاں تک کہ حج سے فارغ ہوئے اور قربانی کے دن دونوں سے احرام کھولا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 103  -  5k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 Next >>


Search took 0.182 seconds