حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح مسلم"
13 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 2721 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 2441 --- ‏‏‏‏ سيدنا انس ؓ نے کہا : جب حنین کا دن ہوا ہوازن اور غطفان اور قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے نبی ﷺ کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ بھی جن کو طلقاء کہتے ہیں پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے دئیے یہاں تک کہ نبی ﷺ اکیلے رہ گئے اور اس دن دو آوزیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا پہلے داہنی طرف منہ کیا اور پکارا : ” اے انصار کے گروہ ! “ تو انصار نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں اے اللہ کے رسول ! آپ خوش ہوں کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں ۔ پھر آپ ﷺ نے بائیں طرف منہ کیا اور پکارا ” اے گروہ انصار کے ! “ تو انہوں نے پھر جواب دیا اور کہا کہ ہم حاضر ہیں اے اللہ کے رسول ! آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ ﷺ ایک سفید خچر پر سوار تھے ۔ اس سے اتر پڑے اور فرمایا : ” میں اللہ کا بندہ ہوں (مقام بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں ، شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت خاص ہے انبیاء کے واسطے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں ۔ سبحان اللہ ! اللہ کا بندہ ہونا کتنی بڑی نعمت ہے کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے ۔ ؎ داغ غلامیت کز و پایہ خسر و بلند صد ر ولایت شود بندہ کہ سلطان خرید) اور اس کا رسول ، اور شکست کھا گئے مشرک لوگ ۔ “ اور نبی ﷺ کو بہت لوٹ کا مال ہاتھ آیا اور آپ ﷺ نے اس کو مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور مکہ کے لوگوں میں اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا ۔ تب انصار نے کہا کہ کٹھن گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروں کو دیا جاتا ہے اور آپ ﷺ کو یہ خبر لگی سو آپ ﷺ نے ان کو ایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا : ” اے انصار کے گروہ ! یہ کیا بات ہے جو مجھ کو تم سے پہنچی ہے ۔ “ تب وہ چپ ہو رہے آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے انصار کے گروہ ! کیا تم خوش نہیں ہوتے ہو اس پر کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں گے اور تم محمد ﷺ کو لے جا کر اپنے گھر میں محفوظ رکھ لو ۔ “ انہوں نے کہا : بیشک اے اللہ کے رسول ! ہم راضی ہو گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری میں تو میں تو انصار کی گھاٹی کی راہ لوں ۔ “ ہشام نے کہا : میں نے کہا : اے ابوحمزہ ! تم اس وقت حاضر تھے ؟ انہوں نے کہا : میں آپ ﷺ کو چھوڑ کر کہاں جاتا ؟
Terms matched: 2  -  Score: 168  -  7k
حدیث نمبر: 1948 --- ‏‏‏‏ سیدنا صالح بن خوات ؓ نے ایسے کسی شخص سے روایت کی جس نے نماز خوف پڑھی تھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ذات الرقاع کے دن (ایک غزوہ کا نام ہے اس میں صحابہ ؓ نے اپنے پیروں کو چتھڑے باندھے تھے) ایک گروہ نے صف باندھی اور نبی ﷺ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور ایک گروہ غنیم کے آگے رہا ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ساتھ کی صف کے ساتھ ایک رکعت پڑھی ۔ پھر آپ ﷺ کھڑے رہے اور اس صف والوں نے اپنی نماز پوری کر لی ۔ پھر وہ چلے گئے اور دشمن کے آگے پرا باندھ لیا اور دوسرا گروہ آیا اور آپ ﷺ نے ان کے ساتھ ایک رکعت باقی ادا کی ۔ پھر اپ ﷺ بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنی نماز پوری کر لی ۔ پھر آپ ﷺ نے ان سب پر سلام کیا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 167  -  3k
حدیث نمبر: 6496 --- ‏‏‏‏ ابونوفل سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کو مدینہ کی گھاٹی پر دیکھا (یعنی مکہ کا وہ ناکہ جو مدینہ کی راہ ہے) قریش کے لوگ ان پر سے گزرتے تھے اور اور لوگ بھی (ان کو حجاج نے سولی دے کر اسی پر رہنے دیا تھا) یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان پر نکلے وہاں کھڑے ہوئے اور « السلام عليكم ياخبيب » (ابوخبیب کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کی ، خبیب ان کے بڑے بیٹے تھے اور ابوبکر اور ابو بکیر بھی ان کی کنیت تھی) « السلام عليك اباخبيب ، السلام عليك اباخبيب » (اس سے معلوم ہو اکہ میت کو تین بار سلام کرنا مستحب ہے) اللہ کی قسم ! میں تو تم کو منع کرتا تھا اس سے (یعنی خلافت اور حکومت اختیار کرنے سے) اللہ کی قسم ! میں جانتا ہوں تم روزہ رکھنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے اور ناتے کو جوڑنے والے تھے ۔ اللہ کی قسم ! وہ گروہ جس کے برے تم ہو وہ عمدہ گروہ ہے (یہ انہوں نے برعکس کہا : بطریق طنز کے یعنی برا گروہ ہے اور ایک روایت میں صاف ہے کہ وہ برا گروہ ہے) ۔ یہ خبر سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ کی حجاج کو پہنچی ۔ اس نے ان کو سولی پر سے اتروا لیا اور یہود کے مقبرہ میں پھنکوا دیا (اور مردود یہ نہ سمجھا کہ اس سے کیا ہوتا ہے انسان کہیں بھی گرے پر اس کے اعمال اچھے ہونا ضروری ہیں) ، پھر حجاج نے ان کی ماں سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ کو بلا بھیجا ، انہوں نے حجاج کے پاس آ نے سے انکار کیا ۔ حجاج نے ، پھر بلا بھیجا اور کہا : تم آتی ہو تو آؤ ، ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر لائے (اللہ سمجھے اس مردود سے جس نے ابوبکر ؓ کی بیٹی اور سیدہ عائشہ ؓ کی بہن سے ایسی بے ادبی کی) انہوں نے تب بھی آنے سے انکار کیا اور کہا : اللہ کی قسم ! میں تیرے پاس نہ آؤں گی جب تک تو میرے پاس اس کو نہ بھیجے جو میرے بال کھنیچتا ہوا مجھ کو لائے ۔ آخر حجاج نے کہا : میرے جوتے لاؤ اور جوتے پہن کر اکڑتا ہو اچلا یہاں تک کہ سیدہ اسماء ؓ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا : تم نے دیکھا ، اللہ کی قسم ! میں نے کیا کیا اللہ تعالیٰ کے دشمن سے (یہ حجاج نے اپنے اعتقاد کے موافق سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کو کہا : ورنہ وہ مردود خود اللہ کا دشمن تھا) ۔ سیدہ اسماء ؓ نے کہا : میں نے دیکھا تو نے سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کی دنیا بگاڑ دی اور اس نے تیری آخرت بگاڑ دی ۔ میں نے سنا ہے تو سیدنا عبداللہ بن ز...
Terms matched: 2  -  Score: 158  -  10k
حدیث نمبر: 4101 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے ، ہم لوگ مکہ سے مدینہ کو آئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تو میرا اونٹ بیمار ہو گیا اور بیان کیا حدیث کو پورے قصہ کے ساتھ اور اس روایت میں یہ ہے کہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے ہاتھ اپنا اونٹ بیچ ڈال ۔ “ میں نے کہا : وہ آپ ہی کا ہے یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں بیچ ڈال میرے ہاتھ ۔ “ میں نے کہا : نہیں ، وہ آپ کا ہے یا رسول اللہ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں بیچ ڈال میرے ہاتھ ۔ “ میں نے کہا : تو ایک شخص کا میرے اوپر ایک اوقیہ سونا ہے ۔ آپ ﷺ ایک اوقیہ سونے کے بدلے یہ اونٹ لے لیجئیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے لیا پھر تو پہنچ جائے گا اسی اونٹ پر مدینہ تک ۔ “ جابر ؓ نے کہا : جب میں مدینہ میں آیا تو رسول اللہ ﷺ نے بلال ؓ سے فرمایا : ” اس کو ایک اوقیہ سونے کا دے دے اور کچھ زیادہ دے ۔ “ تو بلال ؓ نے مجھ کو ایک اوقیہ سونے کا دیا اور ایک قیراط زیادہ دیا ۔ میں نے کہا : یہ جو رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو زیادہ دیا ہے وہ ہمیشہ میرے پاس رہے (بطور تبرک کے) تو ایک تھیلی میں وہ میرے پاس رہا ۔ یہاں تک کہ شام والوں نے یوم الحرہ کو چھین لیا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 146  -  4k
حدیث نمبر: 2730 --- ‏‏‏‏ یحییٰ سے روایت ہے کہ میں اور عبداللہ بن یزید دونوں ابوسلمہ کے پاس گئے اور ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور وہ گھر سے نکلے اور ان کے دروازہ پر ایک مسجد تھی کہ جب وہ نکلے تو ہم سب مسجد میں تھے اور انہوں نے کہا : چاہو گھر چلو ، چاہو یہاں بیٹھو ہم نے کہا : یہیں بیٹھیں گے اور آپ ہم سے حدیثیں بیان فرمائیے انہوں نے کہا : روایت کی مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اور ہر شب قرآن پڑھتا تھا (یعنی ساری رات) اور کہا : یا تو میرا ذکر آیا نبی ﷺ کے پاس یا آپ ﷺ نے مجھ کو بلا بھیجا غرض میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہم کو کیا خبر نہیں لگی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات قرآن پڑھتے ہو ۔ “ میں نے کہا : ہاں یا رسول اللہ ! اور میں اسے بھلائی چاہتا ہوں (یعنی ریا و سمعہ مقصود نہیں) تب آپ ﷺ نے فرمایا : ”تم کو اتنا کافی ہے کہ ہر ماہ میں تین دن روزے رکھ لیا کرو ۔ “ میں نے عرض کیا اے نبی اللہ کے ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا : ”تمہاری بی بی کا حق ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے تم پر تو اس لیے تم داؤد علیہ السلام کا روزہ اختیار کرو جو نبی تھے اللہ تعالیٰ کے اور سب لوگوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے والے تھے ۔ “ انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے ! داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔ “ اور آپ ﷺ نے فرمایا : ”قرآن ہر ماہ میں ایک بار ختم کیا کرو ۔ “ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔ اے نبی اللہ تعالیٰ کے ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”بیس روز میں ختم کیا کرو ۔ “ میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”دس روز میں ختم کرو ۔ “ میں نے عرض کی اے نبی اللہ تعالیٰ کے ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”سات روز میں ختم کیا کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو (اس لیے کہ اس سے کم میں تدبر اور تفکر قرآن ممکن نہیں) اس لیے کہ تمہاری بی بی کا حق بھی ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے بدن کا حق ہے تم پر ۔ “ کہا : پس میں نے تشدد کیا سو میرے اوپر تشدد ہوا اور نبی کریم ﷺ نے مجھ...
Terms matched: 2  -  Score: 146  -  9k
حدیث نمبر: 2734 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کو خبر پہنچی کہ میں برابر روزے رکھے جا رہا ہوں اور ساری رات نماز پڑھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے کسی کو میرے پاس بھیجا ، میں آپ ﷺ سے ملا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”مجھے خبر لگی ہے کہ تم برابر روزے رکھتے ہو اور بیچ میں افطار نہیں کرتے اور ساری رات نماز پڑھتے ہو تو ایسا مت کرو کہ اس لیے کہ تمہاری آنکھوں کا بھی کچھ حصہ ہے اور تمہاری ذات کا بھی حصہ ہے اور تمہاری بی بی کا بھی ، سو تم روزہ رکھو اور افطار بھی کرو اور نماز بھی پڑھو ، سوئے بھی رہو اور ہر دہے میں ایک روز روزہ رکھ لیا کرو کہ تم کو اس سے نو دن کا بھی ثواب ملے گا ۔ “ تو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے میں اس سے زیادہ قوت پاتا ہوں اے بنی اللہ تعالیٰ کے ! آپ ﷺ نے فرمایا : ”خیر داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھو ۔ “ میں نے کہا : ان کا روزہ کیا تھا ؟ اے نبی اللہ تعالیٰ کے ! آپ ﷺ نے فرمایا : ”وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور جب دشمن کے مقابل ہوتے تو کبھی نہ بھاگتے ۔ “ (یعنی جہاد سے) تو سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : یہ دشمن سے نہ بھاگنا مجھے کہاں نصیب ہو سکتا ہے اے نبی اللہ تعالیٰ کے ! (یعنی یہ بڑی قوت و شجاعت کی بات ہے) عطاء نے کہا : جو راوی حدیث ہیں کہ پھر میں نہیں جانتا کہ ہمیشہ روزوں کا ذکر کیوں آیا اور نبی ﷺ نے اس پر فرمایا کہ ”جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزہ ہی نہیں رکھا (یعنی مطلق ثواب نہ پایا) جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 128  -  5k
حدیث نمبر: 469 --- ‏‏‏‏ ابوالزبیر نے سنا سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے ۔ ان سے پوچھا گیا : لوگوں کے آنے کا حال قیامت کے دن ۔ انہوں نے کہا ۔ ہم آئیں گے قیامت کے دن اس طرح سے دیکھ یعنی یہ اوپر سب آدمیوں کے ، پھر بلائی جائیں گی امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ پہلی امت پھر دوسری امت بعد اس کے ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا : تم کس کو دیکھ رہے ہو ؟ (یعنی امت محمدی ﷺ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا ۔) وہ کہیں گے : ہم اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہیں (یعنی اس کے منتظر ہیں) پروردگار فرمائے گا : میں تمہارا مالک ہوں وہ کہیں گے : ہم تجھ کو دیکھیں (تو معلوم ہو) پھر دکھائی دے گا پروردگار ان کو ہنستا ہوا اور ان کے ساتھ چلے گا ۔ اور لوگ سب اس کے پیچھے ہوں گے اور ہر ایک آدمی کو خواہ وہ منافق ہو یا مؤمن ایک نور ملے گا لوگ اس کے ساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے ۔ وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا ۔ بعد اس کے منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مؤمن نجات پائیں گے ۔ تو پہلا گروہ مؤمنوں کا ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے ، ستر ہزار آدمیوں کا ہو گا ۔ جس سے نہ حساب ہو گا ، نہ کتاب ان کے بعد کے گروہ خوب چمکتے تارے کی طرح ہوں گے ۔ پھر ان کے بعد کا ان سے اتر کر یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آئے گا اور لوگ شفاعت کریں گے ۔ اور جہنم سے نکالا جائے گا ۔ وہ شخص بھی جس نے « لا الہٰ الا اللہ » کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو برابر نیکی اور بہتری تھی ۔ یہ لوگ جنت کے آنگن میں ڈال ديئے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے ۔ وہ اس طرح پنپیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں پنپتا ہے اور ان کی سوزش اور جلن بالکل جاتی رہے گی ۔ پھر وہ سوال کریں گے اللہ سے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ دس دنیا کے برابر ۔
Terms matched: 2  -  Score: 118  -  6k
حدیث نمبر: 473 --- ‏‏‏‏ یزید بن صہیب ابو عثمان فقیر سے روایت ہے ، میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا ۔ اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا) تو ہم نکلے ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے کہ حج کریں ، پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں جب ہم مدینے میں پہنچے دیکھا تو سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو حدیثیں سنا رہے ہیں رسول اللہ ﷺ کی ، انہوں نے یکایک ذکر کیا دوزخیوں کا ۔ میں نے کہا : اے صحابی ، رسول اللہ ﷺ کے ، تم کیا حدیث بیان کرتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ۔ ” (اے رب ہمارے) بے شک تو جس کو جہنم میں لے گیا تو نے اس کو رسوا کیا“ اور فرماتا ہے : ”جہنم کے لوگ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اس میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ “ اب تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا : تو نے قرآن پڑھا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، انہوں نے پھر کہا : تو نے محمد ﷺ کا مقام سنا ہے یعنی وہ مقام جو اللہ ان کو قیامت کے روز عنایت فرمائے گا (جس کا بیان اس آیت میں ہے « عسي أن يبعثك ») میں نے کہا : ہاں میں نے سنا ہے انہوں نے کہا : پھر وہی مقام محمود ہے ، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نکالے گا جہنم سے ان لوگوں کو جن کو چاہے گا ۔ (پھر بیان کیا) انہوں نے پل صراط کا حال اور لوگوں کے گزرنے کا اس پل پر سے اور مجھے ڈر ہے ۔ یاد نہ رہا ہو یہ مگر انہوں نے یہ کہا : کہ کچھ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے ۔ اس میں جانے کے بعد اور اس طرح سے نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں ۔ (سیاہ جل بھن کر) پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے ، یہ سن کر ہم لوٹے اور کہا ہم نے ۔ خرابی ہو تمہاری کیا یہ بوڑھا جھوٹ باندھتا ہے رسول اللہ ﷺ پر (یعنی وہ ہر گز جھوٹ نہیں بولتا پھر تمہارا مذہب غلط نکلا) اور ہم سب پھر گئے اپنے مذہب سے مگر ایک شخص نہ پھرا ۔ ایسا ہی کہا ابونعیم (فضل بن دکین) نے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  6k
حدیث نمبر: 1949 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر ؓ نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے یہاں تک کہ ہم ذات الرقاع تک پہنچے (رقاع ایک پہاڑی کا نام ہے) تو ہماری یہ چال تھی کہ ہم کسی سایہ دار درخت پر پہنچتے تو اس کو رسول اللہ ﷺ کے لئے چھوڑ دیتے پھر ایک دن ایک مشرک آیا اور رسول اللہ ﷺ کی تلوار ایک درخت میں لٹکی ہوئی تھی اس نے تلوار لے کر میان سے نکال لی اور آپ ﷺ سے کہا کہ کیوں تم مجھ سے ڈرتے ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں ۔ “ اس نے کہا : کون تمہیں میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ مجھے بچا سکتا ہے تیرے ہاتھ سے ۔ “ صحابہ ؓ نے اس کو دھمکایا اور اس نے تلوار میان میں کر لی ۔ اتنے میں اذان ہوئی نماز کی تو آپ ﷺ نے ایک گروہ کے ساتھ دو رکعت پڑھی اور آپ ﷺ کی چار رکعت ہوئی اور سب کی دو دو رکعت ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  3k
حدیث نمبر: 7435 --- ‏‏‏‏ خالد بن عمیر عدوی سے روایت ہے ، عتبہ بن عروان نے (جو امیر تھے بصرہ کے) ہم کو خطبہ سنایا تو اللہ تعالیٰ کی ثنا کی پھر کہا بعد حمد وصلوۃ کے ۔ معلوم ہو کہ دینا نے خبر دی ختم ہونے کی اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب بچا رکھتا ہے اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں تو اپنے ساتھ نیکی کر کے لے جاؤ اس لیے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر ایک کنارے سے جہنم کے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا ۔ اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا ۔ اللہ کی قسم ! جہنم بھری جائے گی ، کیا تم تعجب کرتے ہو اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ جنت لوگوں کے ہجوم سے بھری ہو گی اور تو نے دیکھا ہوتا میں ساتواں تھا سات شخصوں میں سے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا کچھ نہ تھا سوائے درخت کے پتوں کے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئی (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے) میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے ۔ ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے ۔ اب آج کے رواز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی ، اس بات سے کہ میں اپنے تئیں بڑا سمجھوں اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بے شک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا یہاں تک کہ آخری انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی تو تم قریب پاؤ گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیا دار ہو جائیں گے) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  6k
حدیث نمبر: 2736 --- ‏‏‏‏ حبیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوالعباس سے اور انہوں نے سنا سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے عبداللہ ! تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات جاگتے ہو اور تم جب ایسا کرو گے تو آنکھیں بھر بھرا آئیں گی اور ضعیف ہو جائیں گی اور جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے تو روزہ ہی نہیں رکھا اور ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا گویا پورے ماہ کا روزہ رکھنا ہے ۔ “ (یعنی ثواب کی راہ سے) تو میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا صوم داؤدی رکھا کرو اور وہ یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے ، ایک دن افطار کرتے تھے اور پھر بھی جب دشمن کے آگے ہوتے تو کبھی نہ بھاگتے ۔ “ (یعنی اتنی قوت پر بھی ہمیشہ روزہ نہ رکھتے تھے جیسے تم نے اختیار کیا ہے) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 113  -  3k
حدیث نمبر: 6395 --- ‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ہجو کرو قریش کی کیونکہ ہجو ان کو زیادہ ناگوار ہے تیروں کی بوچھاڑ سے ۔ “ پھر آپ ﷺ نے ایک شخص کو بھیجا ابن رواحہ کے پاس اور فرمایا : ”ہجو کر قریش کی ۔ “ اس نے ہجو کی لیکن آپ ﷺ کو پسند نہ آئی ، پھر کعب بن مالک ؓ کے پاس بھیجا ، پھر حسان بن ثابت ؓ کے پاس بھیجا ۔ جب حسان ؓ آپ ﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : تم کو آ گیا وہ وقت کہ تم نے بلا بھیجا اس شیر کو جو اپنی دم سے مارتا ہے (یعنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعرگوئی کے شیر ہیں) ، پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا : قسم اس کی جس نے آپ ﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا میں کافروں کو اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑےکو پھاڑ ڈالتے ہیں اپنی زبان سے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے حسان ! جلدی مت کر کیونکہ ابوبکر قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی میں ہے تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے ۔ “ پھر سیدنا حسان ؓ سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس آئے بعد اس کے لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! سیدنا ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ، قسم اس کی جس نے آپ ﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا میں آپ کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے ۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے سیدنا حسان ؓ سے : ” روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جواب دیتا رہے گا ۔ “ اور سیدہ عائشہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” حسان ؓ نے قریش کی ہجو کی تو تسکین دی مؤمنوں کے دلوں کو اور تباہ کر دیا کافروں کی عزتوں کو ۔ “ ، حسان ؓ نے کہا : (شعروں کا ترجمہ یہ ہے) ۔ 1 - تو نے برائی کی محمد ﷺ کی ، میں نے اس کا جواب دیا ، اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا 2- تو نے برائی کی محمد ﷺ کی ، جو نیک ہیں پرہیزگار ہیں ، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، وفاداری ان کی خصلت ہے ۔ 3- میرے ماں باپ اور میری آبرو محمد ﷺ کی آبرو بچانے کے لیے قربان ہیں ۔ 4- میں اپنی جان کو کھوؤں اگرتم نہ دیکھو اس کو کہ اڑا دے گا غبار کو کداء کے دونوں جانب سے (کداء ایک گھاٹی ہے مکہ کے دروازہ پر) 5- ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اپنی قوت اور طاق...
Terms matched: 2  -  Score: 112  -  10k
حدیث نمبر: 2729 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ میں کہتا ہوں کہ میں ساری رات جاگا کروں گا اور ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا جب تک زندہ رہوں گا ۔ (سبحان اللہ ! کیا شوق تھا عبادت کا اور جوانی میں یہ شوق یہ تاثیر تھی نبی ﷺ کی صحبت و خدمت کی) پس فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ”تم نے ایسا کہا ۔ “ میں نے عرض کی : ہاں یا رسول اللہ ! میں نے ایسا ہی کہا ہے ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تم اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے اس لیے تم روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو اور رات کو نماز بھی پڑھو اور سوئے بھی رہو اور ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو اس لیے کہ ہر نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے تو یہ گویا ہمیشہ کے روزے ہوئے ۔ “ (اس لیے کہ تین دہائے تیس ہو گئے) تب میں نے عرض کی : کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو ۔ “ پھر میں نے عرض کی : کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں یا رسول اللہ ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور یہ روزہ ہے سیدنا داؤد علیہ السلام کا ۔ “ (یعنی ان کی عادت یہی تھی اور یہ سب روزوں سے عمدہ ہے اور معتدل) میں نے پھر عرض کی : کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ان روزوں سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے ۔ “ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں : کہ اگر میں یہ فرمان رسول اللہ ﷺ کا کہ تین روزے ہر ماہ میں رکھ لیا کرو قبول کر لیتا تو یہ مجھے اپنے گھر بار مال و متاع سے بھی زیادہ پیارا معلوم ہوتا (اور یہ فرمانا ان کا ایام پیری میں تھا کہ جب ضعف محسوس ہوا) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 111  -  5k
حدیث نمبر: 2456 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوسعید خدری ؓ نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اور آپ ﷺ کچھ بانٹ رہے تھے کہ ذوالخویصرہ آیا ایک شخص بنی تمیم کا اور اس نے کہا کہ اے رسول اللہ کے ! عدل کرو ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” خرابی ہے تیری جب میں عدل نہ کروں گا تو کون کرے گا ؟ اور تو بالکل بدنصیب اور محروم ہو گیا اگر میں نے عدل نہ کیا ۔ “ اس پر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے کہ اس کی گردن مار وں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جانے دو اس لیے کہ اس کے چند یار ہوں گے کہ تم حقیر سمجھو گے اپنی نماز کو ان کی نماز کے آگے ، اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے آگے ، قرآن پڑھیں گے کہ گلوں سے نہ اترے گا اسلام سے ایسے نکل جائیں گے کہ جیسے تیر شکار سے کہ دیکھتا ہے تیر انداز اس کے پیکان کو تو اس میں کچھ بھرا نہیں ہے ، پھر دیکھتا ہے اس کی پیکان کی جڑ کو تو اس میں کچھ نہیں ، پھر دیکھتا ہے اس کی لکڑی کو تو اس میں بھی کچھ نہیں ، پھر دیکھتا ہے اس کے پر کو تو اس میں بھی کچھ نہیں اور تیر اس شکار کی بیٹ اور خون سے نکل گیا اور نشانی اس گروہ کی یہ ہے کہ ان میں ایک کالا آدمی ہے کہ ایک شانہ اس کا عورت کے پستان کا سا ہو گا یا فرمایا جیسے گوشت کا لوتھڑا تلتھلاتا ہوا اور وہ گروہ اس وقت نکلے گا جب لوگوں میں پھوٹ ہو گی ۔ “ سیدنا ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سنا ہے یہ رسول اللہ ﷺ سے اور گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ ان سے لڑے اور میں آپ ؓ کے ساتھ تھا اور آپ ؓ نے حکم فرمایا اس کے ڈھونڈنے کا اور وہ ملا اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے پاس لایا گیا اور میں نے اس کو دیکھا کہ جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی تھا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  5k
حدیث نمبر: 4100 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ، میں نے جہاد کیا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تو آپ ﷺ مجھ سے ملے (راہ میں) اور میری سواری میں ایک اونٹ تھا پانی کا ، وہ تھک گیا تھا اور بالکل چل نہ سکتا تھا ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ” تیرے اونٹ کو کیا ہوا ہے ؟ “ میں نے عرض کیا : وہ بیمار ہے ، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ پیچھے ہٹے اور اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی پھر وہ ہمیشہ سب اونٹوں کے آگے ہی چلتا رہا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اب تیرا اونٹ کیسا ہے ؟ “ میں نے کہا : اچھا ہے ، آپ ﷺ کی دعا کی برکت سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے ہاتھ بیچتا ہے ۔ “ مجھے شرم آئی اور ہمارے پاس اور کوئی اونٹ پانی لانے کے لیے نہ تھا ۔ آخر میں نے کہا : بیچتا ہوں ۔ پھر میں نے اس اونٹ کو آپ ﷺ کے ہاتھ بیچ ڈالا اس شرط سے کہ میں اس پر سواری کروں گا مدینے تک ۔ پھر میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ! میں نوشہ ہوں (یعنی ابھی میرا نکاح ہوا ہے) مجھے اجازت دیجئے (لوگوں سے پہلے مدینہ جانے کی) آپ ﷺ نے اجازت دی میں لوگوں سے آگے بڑھ کر مدینہ آ پہنچا ۔ وہاں میرے ماموں ملے ۔ اونٹ کا حال پوچھا میں نے سب حال بیان کیا ۔ انہوں نے مجھ کو ملامت کی (کہ ایک ہی اونٹ تھا تیرے پاس اور گھر والے بہت ہیں اس کو بھی تو نے بیچ ڈالا ۔ اور اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ کریم کو جابر ؓ کا فائدہ منظور ہے) سیدنا جابر ؓ نے کہا : جب میں نے آپ ﷺ سے اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو نے کنواری سے شادی کی یا نکاحی سے ؟ “ میں نے کہا : نکاحی سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” کنواری سے کیوں نہ کی ؟ وہ تجھ سے کھیلتی اور تو اس سے کھیلتا ۔ “ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میرا باپ مر گیا یا شہید ہو گیا میری کئی بہنیں چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں شادی کر کے اور ایک لڑکی لاؤں ان کے برابر جو نہ ان کو ادب سکھائے اور نہ ان کو دبائے ۔ اس لیے میں نے ایک نکاحی سے شادی کی تاکہ ان کو دابے اور تمیز سکھائے ۔ سیدنا جابر ؓ نے کہا پھر جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے ، میں اونٹ صبح ہی لے گیا ۔ آپ ﷺ نے اس کی قیمت مجھ کو دی اور اونٹ بھی پھیر دیا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  7k
حدیث نمبر: 2448 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے کچھ مال بانٹا اور ایک شخص نے کہا کہ یہ تقسیم ایسی ہے کہ اللہ کی رضا مندی اس سے مقصود نہیں پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے آ کر چپکے سے کہہ دیا اور آپ ﷺ بہت غصہ ہوئے اور چہرہ آپ کا لال ہو گیا اور میں نے آرزو کی کہ کاش اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو خوب ہوتا پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” موسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ ستایا اور انہوں نے صبر کیا (موسیٰ علیہ السلام پردہ میں چھپ کر نہاتے تھے جاہلوں نے کہا : ان کے انثیین بڑے ہیں ایک بار پتھر پر کپڑے رکھ دئیے وہ بھاگا ۔ آپ اس کے پیچھے دوڑے لوگوں نے دیکھ لیا کہ کچھ عیب نہیں اور جب ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا ان کا جنازہ آسمان پر ملائکہ لے گئے ۔ جاہلوں نے کہا : انہوں نے ان کو حسد سے مار ڈالا آخر وہ ایک تخت پر آسمان سے ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام نے مجھے نہیں مارا ۔ غرض اس طرح ہمیشہ جاہل لوگ انبیاء ، علماء کو بدنام کرتے چلے آئے ہیں خدام حدیث اور وارثان علم رسول ﷺ ہمیشہ صبر کرتے رہے ہیں) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  4k
حدیث نمبر: 6411 --- ‏‏‏‏ پھر اسماء بنت عمیس جو ہمارے ساتھ آئی تھیں ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ کی ملاقات کو ۔ انہوں نے بھی ہجرت کی تھی ۔ نجاشی بادشاہ حبش کی طرف اور ساتھیوں میں ، سیدنا عمر ؓ حفصہ ؓ کے پاس گئے وہاں اسماء ؓ موجود تھیں ۔ سیدنا عمر ؓ نے جب اسماء ؓ کو دیکھا تو پوچھا : یہ کون ہیں ؟ وہ بولیں : اسماء بنت عمیس ۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا : حبش والی ، دریا والی یہی عورت ہے ۔ اسماء ؓ نے کہا : ہاں ۔ سیدنا عمر ؓ نےکہا : ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی طرف تم سے ۔ یہ سن کر اسماء ؓ غصہ ہوئیں اور بولیں : اے عمر ! تم نے یہ غلط کہا ۔ ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! تم رسول اللہ ﷺ کےساتھ تھے تمہارے بھوکے کو کھانا دیتے اور تمہارے جاہل کو نصحیت کرتے آپ اور ہم ایک دور دراز دشمن ملک میں تھے (یعنی کافروں کے ملک میں کیونکہ سوائے نجاشی کے وہاں کوئی مسلمان نہ تھا اور وہ بھی اپنی قوم سے چھپ کر مسلمان ہوا تھا) صرف اللہ کے لیے اوراس کے رسول ﷺ کے لیے ۔ اور قسم اللہ کی میں نہ کھانا کھاؤں گی ، نہ پانی پیوں گی جب تک جو تم نے کہا اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے نہ کروں گی اور ہم کو حبش میں ایذا ہوتی تھی ، ڈر بھی تھا میں اس کا ذکر آپ ﷺ سے کروں گی اور آپ ﷺ سے پوچھوں گی ، اللہ کی قسم میں جھوٹ نہ بولوں گی ، نہ بےراہ چلوں گی ، نہ زیادہ کہوں گی جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو اسماء ؓ نےعرض کیا : اے نبی اللہ تعالی کے ! عمر ؓ نے ایسا ایسا کہا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ زیادہ حق نہیں رکھتے تم سے بلکہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے (مکہ سے مدینہ کو) اور تمہاری سب کشتی والوں کی دو ہجرتیں ہیں (ایک مکہ سے حبش کو دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو) ۔ اسماء ؓ نےکہا : میں نے ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا وہ گروہ گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے اور دنیا کی کسی چیز کے ملنے کی ان کو اتنی خوشی نہ ہوتی تھی جتنی کہ رسول اللہ ﷺ کےاس فرمان سے ۔ ابوبردہ ؓ نے کہا : اسماء ؓ نے کہا : میں نے ابوموسیٰ کو دیکھا ، وہ مجھ سے دہراتے تھے اس حدیث کو (خوشی کے لیے) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  7k
حدیث نمبر: 7179 --- ‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ہمیشہ جہنم میں لوگ ڈالے جائیں گے اور وہ یہی کہے گی اور کچھ ہے ؟ یہاں تک کہ پروردگار عزت والا اپنا قدم اس میں رکھ دے گا تب تو سمٹ کر ایک میں ایک رہ جائے گی اور کہنے لگے گی : بس بس ۔ قسم تیری عزت اور کرم کی اور ہمیشہ جنت میں خالی جگہ رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا اور اس کو اس جگہ میں رکھے گا ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  2k
حدیث نمبر: 2800 --- ‏‏‏‏ سیدنا یعلیٰ ؓ ہمیشہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے کہا کرتے تھے کہ کبھی میں دیکھتا رسول اللہ ﷺ کو جب آپ ﷺ کے اوپر وحی اترتی ہے پھر جب آپ ﷺ جعرانہ میں تھے اور آپ ﷺ کے اوپر ایک کپڑے کا سایہ کیا گیا تھا اور آپ کے ساتھ چند صحابہ تھے کہ ان میں سیدنا عمر ؓ بھی تھے کہ ایک شخص آیا ایک کرتا پہنے ہوئے کہ اس میں خوشبو لگی ہوئی تھی اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کا حکم کیا ہے ؟ اس کے لیے جو احرام باندھے عمرہ کا ایک کرتے میں کہ اس میں خوشبو لگی ہو ، اور آپ ﷺ نے اس کی طرف نظر کی تھوڑی دیر اور چپ ہو رہے ، پھر آپ ﷺ پر وحی آئی اور اشارہ کیا سیدنا عمر ؓ نے اپنے ہاتھ سے سیدنا یعلیٰ ؓ کو کہ آؤ اور یعلیٰ آئے اور اپنا سر اندر کپڑے کے ڈالا اور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا ہے اور آپ لمبے لمبے سانس لے رہے ہیں پھر وہ کیفیت کھل گئی آپ ﷺ سے اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” کہاں ہے وہ سائل جو مجھ سے عمرہ کا حکم ابھی پوچھتا تھا ۔ “ پھر وہ ڈھونڈا گیا اور اس کو لائے اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” خوشبو تو دھو ڈالو تین بار (کہ اثر نہ رہے) اور جبہ اتار دے اور باقی وہی کر اپنے عمرہ میں جو حج میں کرتا ہے ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 100  -  4k
حدیث نمبر: 1944 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز خوف پڑھی بعض دن اس طرح کہ ایک گروہ آپ ﷺ کے ساتھ کھڑا ہوا اور ایک غنیم کے آگے اور آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھی پھر وہ لوگ غنیم کی طرف گئے اور دوسرے آئے اور ان کے ساتھ بھی ایک رکعت پڑھی ۔ پھر دونوں گروہوں نے اپنی اپنی دوسری رکعت ادا کر لی ۔ اور سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا : جب خوف اس بھی زیادہ ہو تو سواری پر یا کھڑے کھڑے اشارہ سے پڑھو ۔
Terms matched: 2  -  Score: 100  -  2k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 Next >>


Search took 0.194 seconds