حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح مسلم"
13 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 2721 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 6163 --- ‏‏‏‏ سیدنا سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے ، میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے ، موسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر کے ساتھ گئے تھے وہ اور ہیں ۔ انہوں نے کہا : : جھوٹ بولتا ہے اللہ کا دشمن ، میں نے ابی بن کعب ؓ سے سنا وہ کہتے تھے ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے ، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے ؟ انہوں نے کہا : : مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا اس وجہ سے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ خوب جانتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ میرا ایک بندہ ہے دو دریاؤں کے ملاپ پر ، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے پر وردگار ! میں اس سے کیونکر ملوں ؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی رکھ ایک زنبیل میں ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ بندہ ملے گا ۔ یہ سن کر موسیٰ علیہ السلام چلے اپنے ساتھی یوشع بن نون کو لے کر اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی ۔ دونوں چلتےچلتے صخرہ (ایک مقام ہے) کے پاس پہنچے ، وہاں موسیٰ علیہ السلام سو گئے اور ان کے ساتھی بھی سو گئے مچھلی تڑپی ، یہاں تک کہ زنبیل سے نکل دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لیے خشک راستہ بن گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کو تعجب ہو ا ۔ ، پھر دونوں چلے ، دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے ، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا : ناشتہ ہمارا لاؤ ، اس سفر سے تو ہم تھک گئے اور تھکے اسی وقت سے جب اس جگہ سے آگے بڑھےجہاں جانے کا حکم ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا : آپ کو معلوم نہیں ، جب ہم صخرہ پر اترتے تھے تو مچھلی بھول گئے ، اور شیطان نے ہم کو بھلایا ۔ اس مچھلی پر تعجب ہے دریا میں راہ لی ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈتے تھے ، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے ۔ وہاں ایک شخص کو دیکھا کپڑا اوڑھے ہوئے ، موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سلام کیا انہوں نے کہا : تمہارے ملک میں سلام کہاں ہے ؟ موسیٰ ...
Terms matched: 1  -  Score: 163  -  17k
حدیث نمبر: 6509 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی لڑکا جھولے میں (یعنی شیرخوارگی میں) نہیں بولا : مگر تین لڑکے ۔ ایک تو عیسی علیہ السلام ، دوسرے جریج کا ساتھی ۔ اور جریج کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایک عابد شخص تھا سو اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اسی میں رہتا تھا ۔ اس کی ماں آئی وہ نماز پڑھ رہا تھا ، ماں نے پکارا : اے جریج ! وہ بولا : اے رب ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ، آخر وہ نماز ہی میں رہا اس کی ماں پھر گئی ۔ پھر جب دوسرا دن ہو ا ، پھر آئی اور پکارا : اے جریج ! وہ بولا : یا اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ، آخر وہ نماز ہی میں رہا ۔ اس کی ماں بولی : یا اللہ ! اس کو مت مارنا جب تک بدکار عورتوں کا منہ نہ دیکھے ۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا ۔ اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے ۔ وہ بولی : اگر تم کہو تو میں جریج کو بلا میں ڈال دوں ، پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی ، لیکن جریج نے اس طرف خیال بھی نہ کیا ۔ آخر وہ ایک چروا ہے کے پاس آئی جو جریج کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا اور اجازت دی اس کو اپنے سے صبحت کرنے کی ، اس نے صبحت کی وہ پیٹ سے ہوئی اور جب بچہ جنا تو بولی : کہ یہ بچہ جریج کا ہے لوگ یہ سن کر جریج کے پاس آئے اور اس سے کہا : اتر اور اس کا عبادت خانہ گرا دیا اور اس کو مارنے لگے وہ بولا : کیا ہو ا تم کو ؟ انہوں نے کہا : تو نے زنا کیا اس بدکار عورت سے ، وہ ایک بچہ بھی جنی ہے تجھ سے ۔ جریج نے کہا : وہ بچہ کہاں ہے ؟ لوگ اس کو لائے ، جریج نے کہا : ذرا مجھ کو چھوڑو میں نماز پڑھ لوں ، پھر نماز پڑھی اور آیا اس بچہ کے پاس اور اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا : اے بچے ! تیرا باپ کون ہے ؟ وہ بولا : فلانا چرواہا ہے ۔ یہ سن کر لوگ دوڑے جریج کی طرف اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے تیرا عبادت خانہ ہم سونے سے بنا دیتے ہیں ۔ وہ بولا : نہیں مٹی سے پھر بنا دو جیسا تھا ۔ لوگوں نے بنا دیا ۔ تیسرا ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا اتنے میں ایک سوار نکلا عمدہ جانور پر ستھری پوشاک والا ۔ اس کی ماں نے کہا : : یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا ۔ بچے نے یہ سن کر چھاتی چھوڑ دی اور اس سوار کی طرف دیکھا اور کہا : یا اللہ ! مجھ کو ایسا نہ کرنا ، پھ...
Terms matched: 1  -  Score: 159  -  11k
حدیث نمبر: 369 --- ‏‏‏‏ سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے ، ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر ؓ کے پاس بیٹھے تھے ۔ انہوں نے کہا : تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ۔ بعض لوگوں نے کہا : ہاں ہم نے سنا ہے ۔ عمر ؓ نے کہا : شاید تم فتنوں سے وہ فتنے سمجھے ہو جو آدمی کو اس کے گھر بار اور مال اور ہمسائے میں ہوتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہاں ۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا : ان فتنوں کا کفارہ تو نماز اور روزے اور زکٰوۃ سے ہو جاتا ہے لیکن تم میں سے کسی نے سنا ہے ۔ ان فتنوں کو رسول اللہ ﷺ سے جو دریا کی موجوں کی طرح امنڈ کر آئیں گے ۔ سیدنا حذیفہ ؓ نے کہا : یہ سن کر سب لوگ چپ ہو رہے ۔ میں نے کہا : میں نے سنا ہے عمر ؓ نے کہا : تو نے سنا ہے تیرا باپ بہت اچھا تھا ۔ کہا سیدنا حذیفہ ؓ نے : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” فتنے دلوں پر ایسے آئیں گے کہ ایک کے بعد ایک ، ایک کے بعد ایک جیسے بوریئے کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں پھر جس دل میں وہ فتنہ رچ جائے گا تو اس میں ایک کالا داغ پیدا ہو گا اور جو دل اس کو نہ مانے گا اس میں ایک سفید نورانی دھبہ ہو گا ۔ یہاں تک کہ اسی طرح کالے اور سفید دھبے ہوتے ہوتے دو قسم کے دل ہو جائیں گے ایک تو خالص سفید دل چکنے پتھر کی طرح جس کو کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچائے گا جب تک کہ آسمان و زمین قائم رہیں ۔ دوسرے کالا سفیدی مائل یا اوندھے کوزے کی طرح جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی سمجھے گا ، نہ بری بات کو بری مگر وہ جو اس کے دل میں بیٹھ جائے ۔ “ حذیفہ ؓ نے کہا : پھر میں نے سیدنا عمر ؓ سے حدیث بیان کی کہ تمہارے اور فتنے کے بیچ میں ایک دروازہ ہے جو بند ہے مگر نزدیک ہے کہ وہ ٹوٹ جائے ۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا : کیا ٹوٹ جائے گا ۔ تیرا باپ نہیں ۔ اگر کھل جاتا تو شاید پھر بند ہو جاتا ۔ میں نے کہا : نہیں ٹوٹ جائے گا اور میں نے ان سے حدیث بیان کی یہ دروازہ ایک شخص ہے جو مارا جائے گا یا مر جائے گا ۔ پھر یہ حدیث کوئی غلط (دل سے بنائی ہوئی بات) نہ تھی ۔ ابوخالد نے کہا : میں نے سعد بن طارق سے پوچھا (جو اس حدیث راوی ہیں) « أَسْوَدُ مُرْبَادًّا » سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : سفیدی کی شدت سیاہی میں ۔ میں نے کہا : « كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا » سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : کوزا اوندھا ہوا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 159  -  7k
حدیث نمبر: 4098 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ جا رہے تھے ایک اونٹ پر جو تھک گیا تھا ۔ انہوں نے چاہا اس کو آزاد کر دینا (یعنی چھوڑ دینا جنگل میں) سیدنا جابر ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ مجھ سے آن کر ملے اور میرے لیے دعا کی اور اونٹ کو مارا ، پھر وہ ایسا چلا کہ وہ ایسا کبھی نہیں چلا تھا (یہ آپ ﷺ کا معجزہ تھا ۔) آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کو میرے ہاتھ بیچ ڈال ایک اوقیہ پر ۔ “ (دوسری روایت میں پانچ اوقیہ ہیں اور اوقیہ زیادہ دیا ۔ اور ایک روایت میں دو اوقیہ اور ایک درہم یا دو درہم ہیں ۔ اور ایک روایت میں سونے کا ایک اوقیہ اور ایک روایت میں چار دینار اور بخاری نے ایک روایت میں آٹھ سو درہم اور ایک روایت میں بیس دینار اور ایک روایت میں چار اوقیہ نقل کیے ہیں) میں نے کہا : نہیں ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کو میرے ہاتھ بیچ ڈال ۔ “ میں نے ایک اوقیہ پر آپ ﷺ کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ اور شرط کی اس پر سواری کی اپنے گھر تک ۔ جب میں اپنے گھر پہنچا تو اونٹ آپ ﷺ کے پاس لے کر آیا آپ ﷺ نے اس کی قیمت میرے حوالے کی ، میں لوٹا ۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ کو بلا بھیجا اور فرمایا : ” کیا میں تجھ سے قیمت کم کراتا تھا تیرا اونٹ لینے کے لیے اپنا اونٹ لے جا اور روپیہ بھی تیرا ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 159  -  4k
حدیث نمبر: 2351 --- ‏‏‏‏ سیدنا منذر بن جریر ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے دن کے شروع میں ، سو کچھ لوگ آئے ننگے پیر ننگے بدن ، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنی ہوئیں ، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئی اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے اور رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک بدل گیا ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر آپ ﷺ اندر گئے ، پھر باہر آئے (یعنی پریشان ہو گئے ۔ سبحان اللہ ! کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلال ؓ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو اور تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی « يَا أَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ » ” اے لوگو ! ڈرو اللہ سے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے “ (یہ اس لیے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) « َإِنَّ اللَّہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا » تک پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی « اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّہَ » ” اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لیے کیا بھیج رکھا ہے جو کل کام آئے ۔ “ (پھر تو صدقات کا بازار گرم ہوا) اور کسی نے اشرفی دی اور کسی نے درہم ، کسی نے ایک صاع گیہوں ، کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کیے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو ۔ “ (جب بھی لاؤ) پھر انصار میں سے ایک شخص توڑا لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا ، پھر تو لوگوں نے تار باندھ دیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے اور یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا تھا ، جیسے کندن ، پھر فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے کہ ” جس نے اسلام میں آ کر نیک بات (یعنی کتاب و سنت کی بات) جاری کی اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے اور جس نے اسلام میں آ کر بری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے) اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ گھٹے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 155  -  7k
حدیث نمبر: 4999 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے ہم کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا اور ہم تین سو سوار تھے اور ہمارے سردار ابوعبیدہ بن الجراح تھے ، ہم قریش کے قافلہ کو تاک رہے تھے ، تو ہم سمندر کے کنارے آدھے مہینے تک پڑے رہے اور وہاں سخت بھوکے ہوئے یہاں تک کہ پتے کھانے لگے اور اس لشکر کا نام یہی ہو گیا پتوں کا لشکر ، پھر سمندر نے ہمارے لئے ایک جانور پھینکا جس کو عنبر کہتے ہیں ، اس میں سے آدھے مہینے تک کھاتے رہے ، اور اس کی چربی بدن پر ملتے رہے ، یہاں تک کہ ہم زور دار ہو گئے ، پھر ابوعبیدہ ؓ نے اس کی ایک پسلی لے کر کھڑی کی اور سب سے زیادہ لمبا آدمی لشکر میں دیکھا ، اور سب سے زیادہ لمبا اونٹ اس آدمی کو اس اونٹ پر سوار کیا ، وہ اس کی پسلی کے تلے سے نکل گیا ، اور اس کی آنکھ کے حلقہ میں کئی آدمی بیٹھ گئے ۔ جابر نے کہا ہم نے اس کی آنکھ کے حلقہ میں سے اتنے گھڑے چربی کے نکالے اور ہمارے ساتھ (اس جانور کے ملنے سے پہلے) ایک تھیلہ تھا کھجور کا تو ابوعبیدہ ؓ ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک مٹھی کھجور دیا کرتے ، پھر ایک ایک کھجور دینے لگے ، جب وہ بھی نہ ملی ، تو ہم کو معلوم ہوا اس کا نہ ملنا ۔ (یعنی ایک کھجور سے کیا ہوتا ہے پھر جب وہ بھی نہ رہی اس وقت معلوم ہوا کہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 151  -  4k
حدیث نمبر: 3692 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ میں ایک سال تک ارادہ کرتا رہا کہ سیدنا عمر ؓ سے اس آیت میں سوال کروں اور نہ کر سکا ان کے ڈر سے یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا پھر جب لوٹے اور کسی راستہ میں تھے کہ ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف جھکے کسی حاجت کو اور میں ان کے لیے ٹھہرا رہا ۔ یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے ۔ اور میں ان کے ساتھ چلا ۔ اور میں نے کہا : اے امیرالمؤمنین ! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے زور ڈالا رسول اللہ ﷺ پر آپ ﷺ کی بیبیوں میں سے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ حفصہ اور عائشہ ؓ ن ہیں ۔ سو میں نے ان سے عرض کی کہ اللہ کی قسم ! میں آپ سے اس سوال کو پوچھنا چاہتا تھا ایک سال سے اور آپ کی ہیبت سے پوچھ نہ سکتا تھا ۔ تو انہوں نے فرمایا : کہ نہیں ایسا مت کرو جو بات تم کو خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو کہ میں اگر جانتا ہوں تو تم کو بتا دوں گا اور پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کی کچھ حقیقت نہ سمجھتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو اتارا اور ان کے لیے باری مقرر کی جو مقرر کی چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا کہ میری عورت نے کہا تم ایسا کرتے ویسا کرتے تو خوب ہوتا تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل ہے جس کا میں ارادہ کرتا ہوں سو اس نے مجھ سے کہا کہ تعجب ہے اے ابن خطاب ! تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تم کو جواب ہی نہ دے ۔ حالانکہ تمہاری صاحبزادی تو رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں ۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا کہ پھر میں نے اپنی چادر لی اور میں گھر سے نکلا اور سیدہ حفصہ ؓ پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری چھوٹی بیٹی ! تو جواب دیتی ہے رسول اللہ ﷺ کو یہاں تک وہ دن پھر غصہ میں رہتے ہیں ۔ سو حفصہ ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں تو ان کو جواب دیتی ہوں ۔ سو میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو ڈراتا ہوں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اور اس کے رسول کے غضب سے ۔ اے میری بیٹی ! تو اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن پر اتراتی ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت پر پھر میں وہاں سے نکلا ۔ اور داخل ہوا سیدہ ام سلمہ ؓ پر بسبب اپنی قرابت کے جو مجھے ان کے ساتھ...
Terms matched: 1  -  Score: 151  -  14k
حدیث نمبر: 6949 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین آدمی جار ہے تھے اتنے میں مینہ آیا وہ پہاڑ میں ایک غار تھا ، اس میں گھس گئے ۔ پہاڑ پر سے ایک پتھر گرا اور غار کے منہ پر آ گیا اور منہ ہو گیا ایک نے دوسرے سے کہا : اپنے اپنے نیک اعمال کا خیال کرو جو اللہ کے لیے کیے ہوں اور دعا مانگو ان اعمال کے وسیلہ سے شاید اللہ تعالیٰ اس پتھر کو کھول دے تمہارے لیے ، تو ایک نے ان میں سے کہا : میرے ماں باپ بوڑھے ضعیف تھے اور میری جورو اور میرے چھوٹے چھوٹے لڑکے تھے کہ میں ان کے واسطے بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ پھر جب میں شام کے قریب چرا لاتا تھا تو ان کا دودھ دوہتا تھا ، سو اول اپنے ماں باپ سے شروع کرتا تھا تو ان کو اپنے لڑکوں سے پہلے پلاتا تھا اور البتہ ایک دن مجھ کو درخت نے دور ڈالا (یعنی چارہ بہت دور ملا) سو میں گھر نہ آیا یہاں تک کہ مجھ کو شام ہو گئی ، تو میں نے ماں باپ کو سوتا پایا ، پھر میں نے دودھ دوہا جس طرح دوہا کرتا تھا تو میں دودھ لایا اور ماں باپ کے سر کے پاس کھڑا ہوا ۔ مجھ کو برا لگا کہ ان کو نیند سے جگاؤں اور برا لگا کہ ان سے پہلے لڑکوں کو پلاؤں اور لڑکے بھوک کے مارے شور کرتے تھے ، میرے دونوں پیروں کے پاس ، سو اسی طرح برابر میرا اور ان کا حال رہا صبح تک (یعنی میں ان کے انتظار میں دودھ لیے رات بھر کھڑا رہا) اور لڑکے روتے چلاتے رہے ، نہ میں نے پیا ، نہ لڑکوں کو پلایا ، سو الہیٰ اگر تو جانتا ہے کہ ایسی محنت اور مشقت تیری رضا مندی کے واسطے میں نے کی تھی تو اس پتھر سے ایک روزن کھول دے جس میں سے ہم آسمان دیکھیں تو اللہ نے اس میں ایک روزن کھول دیا اور انہوں نے اس میں سے آسمان کو دیکھا ۔ دوسرے نے کہا : الہی ماجرا یہ ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی جس سے میں محبت کرتا تھا ، جیسے مرد عورت سے کرتے ہیں (یعنی میں اس کا کمال عاشق تھا) سو اس کی طرف مائل ہو کر میں نے اس کی ذات کو چاہا (یعنی حرامکاری کا ارادہ کیا) اس نے نہ مانا اور کہا : جب تک سو اشرفیاں نہ دے گا میں راضی نہ ہوں گی میں نے کوشش کی اور سو اشرفیاں کما کر اس کے پاس لایا جب میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں (یعنی جماع کے ارادہ سے) اس نے کہا : اے اللہ کے بندے ! ڈر اللہ سے اور مت توڑ مہر کو مگر حق سے (یعنی بغیر نکاح کے بکارت مت زائل کر) تو میں اٹھ کھڑا ہوا اس کے اوپر سے ۔ الہٰی اگر تو جان...
Terms matched: 1  -  Score: 151  -  10k
حدیث نمبر: 7281 --- ‏‏‏‏ یسیر بن جابر سے روایت ہے ، ایک بار کوفہ میں لال آندھی آئی ، ایک شخص آیا جس کا تکیہ کلام یہی تھا اے عبداللہ بن مسعود ! قیامت آئی ۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیٹھ گئے اور پہلے تکیہ لگائے تھے ، انہوں نے کہا : قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ ترکہ نہ بٹے گا اور لوٹ سے خوشی نہ ہو گی (کیونکہ جب کوئی وارث ہی نہ رہے گا تو ترکہ کون بانٹے گا اور جب کوئی لڑائی سے زندہ نہ بچے گا تو لوٹ کی کیا خوشی ہو گی) پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا شام کے ملک کی طرف اور کہا : دشمن (نصاریٰ) جمع ہوں گے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے اور مسلمان بھی ان سے لڑنے کے لیے جمع ہوں گے ۔ میں نے کہا : دشمن سے تمہاری مراد نصاریٰ ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں اور اس وقت سخت لڑائی شروع ہو گی ۔ مسلمان ایک لشکر کو آگے بھیجیں گے جو مرنے کے لیے آگے بڑھے گا اور نہ لوٹے گا بغیر غلبہ کے (یعنی اس قصد سے جائے گا کہ یا لڑ کر مر جائیں گے یا فتح کر کے آئیں گے) ۔ پھر دونوں فرقے لڑیں گے یہاں تک کہ رات ہو جائے گی اور دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی کسی کو غلبہ نہ ہو گا اور جو لشکر لڑائی کے لیے بڑھا تھا وہ بالکل فنا ہو جائے گا (یعنی سب لوگ اس کے قتل ہو جائیں گے) ۔ دوسرے دن پھر مسلمان ایک لشکر آگے بڑھائیں گے جو مرنے کے لیے یا غالب ہونے کے لیے جائے گا اور لڑائی رہے گی یہاں تک کہ رات ہو جائے گی ۔ پھر دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی اور کسی کو غلبہ نہ ہو گا ، جو لشکر آگے بڑھا تھا وہ فنا ہو جائے گا ۔ پھر تیسرے دن مسلمان ایک لشکر آگے بڑھائیں گے مرنے یا غالب ہونے کی نیت سے اور شام تک لڑائی رہے گی ، پھر دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی ۔ کسی کو غلبہ نہ ہو گا اور وہ لشکر فنا ہو جائے گا ۔ جب چوتھا دن ہو گا تو جتنے مسلمان باقی رہ گئے ہوں گے وہ سب آگے بڑھیں گی ۔ اس دن اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا اور ایسی لڑائی ہو گی کہ ویسی کوئی نہ دیکھے گا یا ویسی لڑائی کسی نے نہیں دیکھی یہاں تک کہ پرندہ ان کے اوپر یا ان کے بدن پر اڑے گا پھر آگے نہیں بڑھے گا کہ وہ مردہ ہو کر گریں گے ۔ ایک جدی لوگ جو گنتی میں سو ہوں گے ، ان میں سے ایک شخص بچے گا (یعنی فی صد ننانوے (۹۹) آدمی مارے جائیں گے اور ایک رہ جائے گا) ایسی حالت میں کون سی لوٹ سے خوشی حاصل ہو گی اور کون سا ترکہ بانٹا جائے گا ۔ پھر مسلمان اسی حالت میں ہوں گے کہ ایک اور...
Terms matched: 1  -  Score: 147  -  9k
حدیث نمبر: 6165 --- ‏‏‏‏ حدیث بیان کی ہم سے سیدنا ابی بن کعب ؓ نے انہوں نے کہا : میں نے سنا رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ فرماتے تھے : ” جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں نصحیت کر ر ہے تھے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور بلا سے کہ انہوں نے اچانک یہ کہا : میں نہیں جانتا ساری دنیا میں کسی شخص کو جو مجھ سے بہتر ہو اور مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو ، اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی ، میں جانتا ہوں اس شخص کو جو تم سے بہتر ہے اور تم سے زیادہ علم رکھنے والا ایک شخص ہے زمین میں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اےمالک میرے ! مجھ کو ملا دے اس شخص سے ، حکم ہوا ، اچھا ایک مچھلی میں نمک لگا کر اپنا توشہ کرو ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ شخص ملے گا ۔ یہ سن کر موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی چلے یہاں تک صخرہ پر پہنچے ، وہاں کوئی نہ ملا ۔ موسیٰ علیہ السلام آگےچلے گئے اور اپنے ساتھی کو چھوڑ گئے ، اچانک مچھلی تڑپی پانی میں اور پانی نے ملنا اور جڑنا چھوڑ دیا ، بلکہ ایک طاق کی طرح اس مچھلی پر بن گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی نے کہا : میں اللہ کے نبی سے ملوں اور ان سے یہ حال کہوں ، پھر وہ (چلے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے مل گئے لیکن) یہ حال کہنا بھول گئے ۔ جب آگے بڑھے تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا : ہمارا ناشتہ لاؤ اس سے سفر سے تو ہم تھک گئے ، راوی نے کہا : ان کو تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ اس مقام سے آگے نہیں بڑھے ، پھر ان کے ساتھی نے یاد کیا اور کہا : تم کو معلوم نہیں جب ہم صخرہ پر پہنچے تو وہاں میں مچھلی کو بھول گیا اور شیطان کے سوا کسی نے مجھ کو نہیں بھلایا ، اس مچھلی نے ، تعجب ہے اپنی راہ لی سمندر میں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : اسی کو تو ہم چاہتے تھے ، ، پھر اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہو ئے لوٹے ۔ ان کے ساتھی نے جہاں پر مچھلی نکل بھاگی تھی ، وہ جگہ بتا دی وہاں موسیٰ علیہ السلام ڈھونڈ نے لگے ، ناگاہ انہوں نے خضر علیہ السلام کو دیکھا ایک کپڑا اوڑھے ہوئے چٹ لیٹے ہوئے (یا سیدھے چٹ لیٹے ہوئے یعنی کسی کروٹ کی طرف جھکے نہ تھے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا : السلام علیکم انہوں نے اپنے منہ پر سے کپڑا اٹھایا اور کہا : وعلیکم السلام تم کون ہو ؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : میں موسیٰ ہوں ۔ انہوں نے کہا : کون موسیٰ ؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : بنی اسرائیل کے موسیٰ ۔ انہوں نے کہا : تم کیوں آئ...
Terms matched: 1  -  Score: 146  -  16k
حدیث نمبر: 5928 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے رات کو خواب میں دیکھا ایک ابر کے ٹکڑے سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے لوگ اس کو اپنی لپوں سے لیتے ہیں کوئی زیادہ لیتا ہے کوئی کم اور میں نے دیکھا آسمان سے زمین تک ایک رسی لٹکی آپ ﷺ اس کو پکڑ کر اوپر چڑھ گئے ، پھر اور ایک شخص نے تھاما وہ بھی اوپر چڑھ گیا ، پھر اور ایک شخص نے تھاما وہ بھی چڑھ گیا ، پھر اور ایک شخص نے تھاما تو وہ ٹوٹ گئی پھر وہ جڑ گئی اور وہ بھی اوپر چلا گیا ۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میر باپ آپ پر قربان ہو ، مجھے اس کی تعبیر کہنے دیجئیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا کہہ ۔ “ سیدنا ابوبکر ؓ نے کہا : وہ ابر کا ٹکڑا تو اسلام ہے ۔ گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت اور نرمی مراد ہے اور لوگ جو زیادہ اور کم لیتے ہیں وہ بھی بعض کو بہت قرآن یاد ہے اور بعض کو کم اور رسی جو آسمان سے زمین تک لٹکی وہ دین حق ہے جس پر آپ ﷺ ہیں ۔ پھر اللہ آپ ﷺ کو اس دین پر اپنے پاس بلا لے گا ۔ آپ ﷺ کے بعد ایک اور شخص اس کو تھامے گا (آپ ﷺ کا خلیفہ) وہ بھی اسی طرح سے چڑھ جائے گا پھر ایک اور تھامے گا اور اس کا بھی یہی حال ہو گا پھر ایک شخص تھامے گا تو کچھ خلل پڑے گا لیکن وہ آخر خلل مٹ جائے گا اور وہ بھی چڑھ جائے گا اور مجھ سے بیان کیجئیے یا رسول اللہ ! میں نے ٹھیک تعبیر کی یا غلط ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کچھ تو نے ٹھیک کہا کچھ تو نے غلط کہا ۔ “ سیدنا ابوبکر ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! آپ بیان کیجئیے میں نے کیا غلطی کی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ”قسم مت کھا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 146  -  5k
حدیث نمبر: 5743 --- ‏‏‏‏ عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت ہے ، سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ؓ ہمارے گھر آئے اور ایک شخص کو شکوہ تھا زخم کا (یعنی قرحہ پڑ گیا تھا) سیدنا جابر ؓ نے پوچھا : تجھ کو کیا شکایت ہے ؟ وہ بولا : ایک قرحہ ہو گیا ہے جو نہایت سخت ہے مجھ پر ۔ جابر ؓ نے کہا : اے غلام ! ایک پچھنے لگانے والے کو لے آ ۔ وہ بولا : پچھنے والے کا کیا کام ہے ۔ سیدنا جابر ؓ نے کہا : میں اس زخم پر پچھنا لگانا چاہتا ہوں ، وہ بولا : قسم اللہ کی مکھیاں مجھ کو ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو تکلیف ہو گی مجھ کو اور سخت گزرے گا مجھ پر ۔ جب سیدنا جابر ؓ نے دیکھا کہ اس کو رنج ہوتا ہے پچھنے لگانے سے تو کہا کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ ﷺ سے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” اگر تمہاری دواؤں میں کوئی بہتر دوا ہے تو تین ہی دوائیاں ہیں ایک تو پچھنا لگانا ، دوسرے شہد کا ایک گھونٹ ، تیسرے انگارے جلانا “ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ” میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا“ راوی نے کہا : پھر پچھنے لگانے والا آیا اور پچھنے لگائے اس کو ، تو اس کی بیماری جاتی رہی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  4k
حدیث نمبر: 7512 --- ‏‏‏‏ عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے ، میں اور میرا باپ دونوں نکلے دین کا علم حاصل کرنے کے لیے انصار کے قبیلہ میں قبل اس کے کہ وہ مر جائیں ۔ (یعنی انصار سے صحابہ کی حدیث سننے کے لیے) تو سب پہلے ہم ابوالیسر سے ملے جو صحابی تھے رسول اللہ ﷺ کے ، ان کے ساتھ ان کا ایک غلام بھی تھا جو کتابوں (خطوں) کا یک گھٹا لیے ہوئے تھا اور ابوالیسر کے بدن پر ایک چادر تھی اور ایک کپڑا تھا معافری (معافر ایک گاؤں ہے وہاں کا کپڑا اس کو معافری کہتے ہیں یا معافر ایک قبیلہ ہے) ان کے غلام پر بھی ایک چادر تھی اور ایک کپڑا تھا معافری (یعنی میاں اور غلام دونوں ایک ہی طرح کا لباس پہنے تھے) میں نے ان سے کہا : اے چچا ! تمہارا چہرہ رنج کا نشان معلوم ہوتا ہے ۔ وہ بولے : ہاں میرا قرض آتا تھا فلاں پر جو فلانے کا بیٹا ہے بنی حرام کے قبیلہ میں سے ۔ میں اس کے گھر والوں کے پاس گیا اور سلام کیا اور پوچھا : وہ شخص کہاں ہے ؟ اس کا ایک بیٹا جو جوانی کے قریب تھا باہر نکلا ۔ میں نے اس سے پوچھا : تیرا باپ کہاں ہے ؟ وہ بولا : تمہاری آواز سن کر میری ماں کے چھپر کھٹ میں گھس گیا ۔ تب تو میں نے آواز دی اور کہا : اے فلانے ! باہر نکل میں نے جان لیا تو جہاں ہے ۔ یہ سن کر وہ نکلا ۔ میں نے کہا : تو مجھ سے چھپ کیوں گیا ؟ وہ بولا : اللہ کی قسم ! میں جو تم سے کہوں گا جھوٹ نہیں کہوں گا میں ڈرا اللہ کی قسم کہ تم سے جھوٹ بات کروں یا تم سے وعدہ کروں اور خلاف کروں اور تم صحابی ہو رسول اللہ ﷺ کے اور میں قسم اللہ کی محتاج ہوں ۔ میں نے کہا : سچ اللہ کی قسم تو محتاج ہے ؟ وہ بولا : قسم اللہ کی ۔ میں نے کہا : قسم اللہ کی ۔ وہ بولا : قسم اللہ کی ۔ میں نے کہا : قسم اللہ کی ۔ وہ بولا : قسم اللہ کی ۔ پھر اس کا تمسک لایا گیا ۔ ابوالیسر نے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور کہا : اگر تیرے پاس روپیہ آئے تو ادا کرنا نہیں تو تو آزاد ہے تو میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے دیکھا اور ابوالیسر نے اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا اور ابوالیسر نے اشارہ کیا اپنے دل کی رگ کی طرف رسول اللہ ﷺ سے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کو معاف کر دے اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے گا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 144  -  7k
حدیث نمبر: 118 --- ‏‏‏‏ قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے حدیث بیان کی اس شخص نے جو ملا تھا اس وفد سے جو رسول ﷺ کے پاس آئے تھے عبدالقیس کے قبیلہ میں سے (اور قتادہ ؓ نے نام نہ لیا اس شخص کا جس سے یہ حدیث سنی اس کو تدلیس کہتے ہیں) سعید نے کہا : قتادہ نے ابونضرہ کا نام لیا انہوں نے سنا ابوسعید خدری ؓ سے تو قتادہ نے اس حدیث کو ابونضرہ (منذر بن مالک بن قطعہ) سے سنا ، انہوں نے ابوسعید خدری ؓ سے (سعید بن مالک سنان سے) کہ کچھ لوگ عبدالقیس کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے نبی ! ہم ایک شاخ ہیں ربیعہ کی ۔ اور ہمارے اور آپ کے بیچ میں مضر کے کافر ہیں ۔ اور ہم نہیں آ سکتے آپ تک مگر حرام مہینوں میں تو حکم کیجئیے ہم کو ایسے کام کا جس کو ہم بتلا دیں اور لوگوں کو جو ہمارے پیچھے ہیں اور ہم اس کی وجہ سے جنت میں جائیں ، جب ہم اس پر عمل کریں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میں تم کو چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ) اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو ۔ اور منع کرتا ہوں تم کو چار چیزوں سے کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور روغنی برتن اور نقیر سے ۔ “ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! نقیر ، آپ نہیں جانتے ۔ آپ نے فرمایا : ”کیوں نہیں جانتا ، نقیر ایک لکڑی ہے جس کو تم کھود لیتے ہو پھر اس میں « قُطَيْعَاء » (ایک قسم کی چھوٹی کھجور اس کو شہریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو ۔ “ سعید نے کہا : یا تمر بھگوتے ہو پھر اس میں پانی ڈالتے ہو ۔ جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو پیتے ہو یہاں تک کہ تمہارا ایک یا ان کا ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے (نشہ میں آ کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی اپنے بھائی کو ، جس کو سب سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے ۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی برائی ہے جس کو آپ ﷺ نے بیان کیا) راوی نے کہا : ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی بدولت ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا کہ لیکن میں اس کو چھپاتا تھا رسول اللہ ﷺ سے شرم کے مارے ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! پھر کس برتن میں ہم شربت پئیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پیو چمڑے...
Terms matched: 1  -  Score: 140  -  10k
حدیث نمبر: 5364 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے روایت ہے ، ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے پاس کھانا ہے ؟ ۔ “ تو ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا ۔ کسی کے پاس ایسا ہی ، پھر وہ سب گوندھا گیا بعد اس کے ایک مشرک آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریوں لے کر ہانکتا ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تو بیچتا ہے یا یونہی دیتا ہے ۔ “ اس نے کہا : نہیں بیچتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے ایک بکری اس سے خریدی ، اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے حکم دیا اس کا کلیجہ بھوننے کا ۔ راوی نے کہا : قسم اللہ کی ان ایک سو تیس آدمیوں میں سے کوئی نہ رہا جس کے لیے آپ ﷺ نے کچھ اس کلیجی میں سے جدا نہ کیا ہو اگر وہ موجود تھا تو اس کو دے دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا اور دو پیالوں میں آپ ﷺ نے گوشت نکالا پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا اس کو میں نے لاد لیا اونٹ پر اور ایسا ہی کہا ۔ (اس حدیث میں آپ ﷺ کے دو معجزے ہیں ، ایک تو کلیجے میں برکت دوسری بکری میں برکت) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 136  -  4k
حدیث نمبر: 1562 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوقتادہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم پر خطبہ پڑھا اور فرمایا : ”تم آج زوال کے بعد اور اپنی ساری رات چلو گے اگر اللہ نے چاہا تو کل صبح پانی پر پہنچو گے ۔ “ پس لوگ اس طرح چلے کہ کویٔی کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا ۔ سیدنا ابوقتادہ ؓ نے کہا کہ رسول ﷺ چلے جاتے تھے یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی اور میں آپ ﷺ کے بازو کی طرف تھا ۔ اور آپ ﷺ اونگھنے لگے اور اپنی سواری پر سے جھکے (یعنی غلبہ خواب سے) اور میں نے آ کر آپ ﷺ کو ٹیکا دیا ۔ (تاکہ گر نہ پڑیں) بغیر اس کے کہ میں آپ ﷺ کو جگاؤں یہاں تک کہ آپ ﷺ پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ، پھر چلے یہاں تک کہ جب بہت رات گزر گئی پھر آپ ﷺ جھکے اور میں نے پھر ٹیکہ دیا بغیر اس کے کہ آپ ﷺ کو جگاؤں یہاں تک کہ آپ ﷺ پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ۔ پھر چلے یہاں تک کہ آخر سحر کا وقت ہو گیا پھر ایک بار بہت جھکے کہ اگلے دو بار سے بھی زیادہ قریب تھا کہ گر پڑیں ۔ پھر میں آیا اور آپ ﷺ کو روک دیا ۔ پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا : ” کہ یہ کون ہے ؟ “ میں نے عرض کی کہ ابوقتادہ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” کہ تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو ؟ ۔ “ میں نے عرض کیا کہ میں رات سے آپ کے ساتھ اسی طرح چل رہا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جیسے تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے ۔ “ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم ہم کو دیکھتے ہو کہ ہم لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا تم کسی کو دیکھتے ہو ؟ “ میں نے کہا یہ ایک سوار ہے پھر کہا یہ ایک اور سوار ہے یہاں تک کہ ہم سات سوار جمع ہو گئے تب رسول اللہ ﷺ راہ سے ایک طرف الگ ہوئے اور اپنا سر زمیں پر رکھا (یعنی سونے کو) اور فرمایا کہ تم لوگ ہماری نماز کا خیال رکھنا (یعنی نماز کے وقت جگا دینا) پھر پہلے جو جاگے وہ رسول اللہ ﷺ ہی تھے اور دھوپ آپ ﷺ کی پیٹھ پر آ گئی ۔ پھر ہم لوگ گھبرا کر اٹھے اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” سوار ہو ۔ “ پھر چلے یہاں تک کہ جب دھوپ چڑھ گئی اور آپ ﷺ اترے ، اپنا وضو کا لوٹا منگوایا ۔ جو میرے پاس تھا اس میں تھوڑا سا پانی تھا پھر آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا جو اور وضوؤں سے کم تھا (یعنی بہت قلیل پانی سے بہت جلد) اور اس میں تھوڑا سا پانی باقی رہ گیا ۔ پھر سیدنا ابوقتادہ ؓ سے فرمایا : ” کہ وہ ہمارے لوٹے کو رکھ چھوڑو کہ اس کی ایک عجیب کیفیت ہو گی ۔ “ پھر بلال ؓ نے...
Terms matched: 1  -  Score: 135  -  16k
حدیث نمبر: 4998 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ہم کو بھیجا اور ہمارا سردار سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کو بنایا تاکہ ہم ملیں قریش کے قافلہ سے اور ہمارے توشے کے لیے ایک تھیلہ کھجور کا دیا اس کے علاوہ اور کچھ آپ ﷺ کو نہ ملا تو سیدنا ابوعبیدہ ؓ ہم کو ایک ایک کھجور (ہر روز) دیا کرتے تھے ۔ ابوالزبیر نے کہا : میں نے سیدنا جابر ؓ سے پوچھا تم ایک کھجور کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : اس کو چوس لیتے تھے بچہ کی طرح پھر اس پر تھوڑا پانی پی لیتے تھے ۔ وہ ہم کو سارے دن رات کو کافی ہو جاتی اور ہم اپنی لکڑیوں سے پتے جھاڑتے پھر اس کو پانی میں تر کرتے اور کھاتے ۔ سیدنا جابر ؓ نے کہا : ہم گئے سمندر کے کنارے پر وہاں ایک لمبی سی موٹی چیز نمودار ہوئی ہم اس کے پاس گئے دیکھا تو وہ ایک جانور ہے جس کو عنبر کہتے ہیں ۔ سیدنا ابوعبیدہ ؓ نے کہا : یہ مردار ہے ۔ پھر کہنے لگے : نہیں ہم اللہ کے رسول کے بھیجے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلے ہیں اور تم بے قرار ہو رہے ہو (بھوک کے مارے) تو کھاؤ اس کو ۔ جابر نے کہا ہم وہاں ایک مہینہ رہے اور ہم تین سو آدمی تھے ۔ (اس کا گوشت کھایا کرتے) یہاں تک کہ ہم موٹے ہو گئے ۔ جابر نے کہا : تم دیکھو ہم اس کی آنکھ کے حلقہ میں سے چربی کے گھڑے بھرتے اور اس میں بیل کے برابر گوشت کے ٹکڑے کاٹتے تھے ۔ آخر ابوعبیدہ نے ہم میں سے تیرہ آدمیوں کو لیا تو وہ سب اس کی آنکھ کے حلقے کے اندر بیٹھ گئے اور ایک پسلی اس کی پسلیوں میں سے اٹھا کر کھڑی کی پھر سب سے بڑے اونٹ پر پالان باندھا ، ان اونٹوں میں سے جو ہمارے ساتھ تھے ، وہ اس کے تلے سے نکل گیا اور ہم نے اس کے گوشت میں سے « وشائق » بنا لئے توشہ کے واسطہ (« وشائق » جمع ہے « وشيقہ » کی « وشيقہ » وہ ابلا ہوا گوشت جو سفر کے لئے رکھتے ہیں) ۔ جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور یہ قصہ بیان کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”وہ اللہ کا رزق تھا جو تمہارے لئے اس نے نکالا تھا اب تمہارے پاس کچھ ہے اس کا گوشت تو ہم کو بھی کھلاؤ ۔ “ سیدنا جابر ؓ نے کہا : ہم نے اس کا گوشت رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا آپ ﷺ نے اس کو کھایا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  7k
حدیث نمبر: 336 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے محمد ﷺ سے کئی حدیثیں بیان کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : ”اللہ جل جلالہ نے فرمایا : ”جب میرا بندہ دل میں نیت کرتا ہے نیک کام کرنے کی تو میں اس کیلئے ایک نیکی لکھ لیتا ہوں جب تک اس نے وہ نیکی کی نہیں ۔ پھر اگر کیا اس کو تو میں اس کے لیے دس نیکیاں (ایک کے بدلے) لکھتا ہوں اور جب دل میں نیت کرتا ہے برائی کرنے کی تو میں اس کو بخش دیتا ہوں جب تک کہ وہ برائی نہ کرے ، جب کرے تو ایک ہی برائی لکھتا ہوں ۔ ‘‘ اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : ”فرشتے کہتے ہیں اے پروردگار ! یہ تیرا بندہ ہے برائی کرنا چاہتا ہے ۔ حالانکہ پروردگار ان سے زیادہ دیکھ رہا ہے اپنے بندے کو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”دیکھتے رہو اس کو اگر وہ برائی کرے تو ایک برائی ویسی ہی لکھ لو ۔ اور اگر نہ کرے (اور باز آئے اس ارادے سے) تو اس کے لیے ایک نیکی لکھو کیوں کہ اس نے چھوڑ دیا برائی کو میرے ڈر سے ۔ ‘‘ اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : ’’ جب تم میں کسی کا اسلام بہتر ہوتا ہے (یعنی خالص اور سچا ، نفاق سے خالی) پھر وہ جو نیکی کرتا ہے اس کے لیے ایک کے بدلے دس نیکیاں سات سو تک لکھی جاتی ہیں اور جو برائی کرتا ہے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے ، یہاں تک کہ مل جاتا ہے اللہ جل جلالہ سے ۔ ‘‘
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  4k
حدیث نمبر: 6359 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن صامت ؓ سے روایت ہے ، سیدنا ابوذر ؓ نے کہا : ہم اپنی قوم غفار میں سے نکلے وہ حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے ، تو میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تنیوں نکلے اور ایک ماموں تھا ہمارا اس کے پاس اترے ۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور کہنے لگے (ہمارے ماموں سے) جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے اور وہ ہمارے پاس آيا اور اس نے یہ بات مشہور کر دی (حماقت سے) ، میں نے کہا : تو نے جو ہمارے ساتھ احسان کیا وہ بھی خراب ہو گیا ، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے ، آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا ، ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کیا ، ہم چلے یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے ۔ انیس نے ایک شرط لگائی اتنے اونٹوں پر جو ہمارے ساتھ تھےاور اتنے ہی اور پر ، پھر دونوں کاہن کے پاس گئے ۔ کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے ۔ انیس ہمارے اونٹ لایا اور اتنے ہی اور اونٹ لایا ۔ ابوذر ؓ نے کہا : اے بیٹے میرے بھائی کے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کی ملاقات سے پہلے نماز پڑھی ہے تین برس پہلے ۔ میں نے کہا : کس کے لیے پڑھتے تھے ؟ ابوذر ؓ نے کہا : اللہ کے لیے ۔ میں نے کہا : منہ کدھر کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : منہ ادھر کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا ۔ میں عشاء کی نماز پڑھتا جب اخیر رات ہوتی تو کمبل کی طرح پڑ جاتا تھا یہاں تک کہ آفتاب میرے اوپر آتا انیس نے کہا : مجھے مکہ میں کام ہے تم یہاں رہو میں جاتا ہوں وہ گیا ، اس نے دیر کی ، پھر آیا میں نے کہا : تو نے کیا کیا ؟ وہ بولا : میں ایک شخص سے ملا مکہ میں جو تیرے دین پر ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے ، میں نے کہا : لوگ اسے کیا کہتے ہیں ؟ اس نے کہا : لوگ اس کو شاعر ، کاہن ، جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود بھی شاعرتھا اس نے کہا : میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد نہ جڑے گا شعر کی طرح ۔ اللہ کی قسم ! وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں ، میں نے کہا : تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں ، پھر میں مکہ میں آیا ۔ میں نے ایک ناتوان شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لیےکہ ...
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  22k
حدیث نمبر: 7521 --- ‏‏‏‏ سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے ، سیدنا ابوبکر ؓ میرے باپ (عازب کے) مکان پر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا اور عازب سے بولے : تم اپنے بیٹے سے کہو یہ کجاوہ اٹھا کر میرے ساتھ چلے میرے مکان تک ۔ میرے باپ نے بھی مجھ سے کہا : کجاوہ اٹھا لے ، میں نے اٹھا لیا اور میرے باپ بھی نکلے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ اس کی قیمت لینے کو ۔ میرے باپ نے کہا : اے ابوبکر ! مجھ سے بیان کرو تم نے کیا کیا اس رات کو جس رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلے (یعنی مدینہ کی طرف چلے مکہ سے) ؟ سیدنا ابوبکر ؓ نے کہا : ہاں ! ہم ساری رات چلے یہاں تک کہ دن ہو گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا اور راہ میں کوئی چلنے والا نہ رہا ، ہم کو سامنے ایک لمبا پتھر دکھائی دیا ۔ اس کا سایہ تھا ز میں پر اور اب تک وہاں دھوپ نہ آئی تھی ، ہم اس کے پاس اترے میں پتھر کے پاس گیا اور اپنے ہاتھ سے جگہ برابر کی تاکہ رسول اللہ ﷺ آرام فرمائیں اس کے سایہ میں ، پھر میں نے وہاں کملی بچھائی ۔ بعد اس کے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ سو رہئیے اور میں آپ ﷺ کے گرد سب طرف دشمن کا کھوج لیتا ہوں کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں آیا ، پھر میں نے ایک چرواہا دیکھا بکریوں کا جو اپنی بکریاں لیے ہوئے اسی پتھر کی طرف آ رہا ہے اور وہی چاہتا ہے جو ہم نے چاہا (یعنی اس کے سایہ میں ٹھہرنا اور آرام کرنا) میں اس سے ملا اور پوچھا : اے لڑکے ! تو کس کا غلام ہے ؟ وہ بولا : میں مدینہ والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں (مراد مدینہ سے شہر ہے یعنی مکہ والوں میں سے) میں نے کہا : تیری بکریوں میں دودھ ہے ؟ وہ بولا : ہاں ہے ۔ میں نے کہا : تو دودھ دوہئے گا ہم کو ؟ وہ بولا : ہاں ۔ پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا ، میں نے کہا : اس کا تھن صاف کر لے بالوں اور مٹی اور کوڑے سے تا کہ دودھ میں یہ چیزیں نہ پڑیں ۔ (راوی نے کہا :) میں نے سیدنا براء بن عازب ؓ کو دیکھا وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے تھے ، جھاڑتے تھے ۔ خیر اس لڑکے نے دودھ دوھا لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا دودھ اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا جس میں پانی رکھتا تھا رسول اللہ ﷺ کے پینے اور وضو کرنے کے لیے ۔ سیدنا ابوبکر ؓ نے کہا : پھر میں رسول اللہ کے پاس آیا اور مجھے برا معلوم ہوا آپ ﷺ کو نیند سے جگانا لیکن میں نے دیکھا تو آپ ﷺ خود بخود جاگ اٹھے ہیں ۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ...
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  10k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 Next >>


Search took 0.189 seconds