حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "سنن ابی داود"
2 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 2020 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 2512 --- حکم البانی: صحيح... اسلم ابوعمران کہتے ہیں کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے چلے ، ہم قسطنطنیہ کا ارادہ کر رہے تھے ، اور جماعت (اسلامی لشکر) کے سردار عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے ، اور رومی شہر (قسطنطنیہ) کی دیواروں سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے تھے ، تو ہم میں سے ایک دشمن پر چڑھ دوڑا تو لوگوں نے کہا : رکو ، رکو ، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، یہ تو اپنی جان ہلاکت میں ڈال رہا ہے ، ابوایوب ؓ نے کہا : یہ آیت تو ہم انصار کی جماعت کے بارے میں اتری ، جب اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی اور اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہم نے اپنے دلوں میں کہا (اب جہاد کی کیا ضرورت ہے) آؤ اپنے مالوں میں رہیں اور اس کی دیکھ بھال کریں ، تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی « وأنفقوا في سبيل اللہ ولا تلقوا بأيديكم إلى التہلكۃ » ” اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو “ (سورۃ البقرہ : ۱۹۵) اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا یہ ہے کہ ہم اپنے مالوں میں مصروف رہیں ، ان کی فکر کریں اور جہاد چھوڑ دیں ۔ ابوعمران کہتے ہیں : ابوایوب انصاری ؓ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے ۔ ... (ص/ح) ... حدیث متعلقہ ابواب: شان نزول و تفسیر آیات ۔
Terms matched: 2  -  Score: 48  -  4k
حدیث نمبر: 2254 --- حکم البانی: صحيح... عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (زنا کی) تہمت لگائی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ثبوت لاؤ ورنہ پیٹھ پر کوڑے لگیں گے “ ، تو ہلال نے کہا کہ : اللہ کے رسول ! جب ہم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈنے جائے ؟ اس پر بھی نبی اکرم ﷺ یہی فرمائے جا رہے تھے کہ : ” گواہ لاؤ ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے پڑیں گے “ ، تو ہلال نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے بارے میں وحی نازل کر کے میری پیٹھ کو حد سے بری کرے گا ، چنانچہ « والذين يرمون أزواجہم ولم يكن لہم شہداء إلا أنفسہم » کی آیت نازل ہوئی ، آپ ﷺ نے اسے پڑھا یہاں تک کہ آپ پڑھتے پڑھتے « من الصادقين » تک پہنچے ، پھر آپ ﷺ پلٹے اور آپ نے ان دونوں کو بلوایا ، وہ دونوں آئے ، پہلے ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دینے لگے ، نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے : ” اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے ، تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ “ پھر عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دینے لگی ، پانچویں بار میں جب ان الفاظ کے کہنے کی باری آئی کہ ” اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو “ تو لوگ اس سے کہنے لگے : یہ عذاب کو واجب کر دینے والا ہے ۔ عبداللہ بن عباس ؓ کا بیان ہے : تو وہ ہچکچائی اور ہٹ گئی اور ہمیں یہ گمان ہوا کہ وہ باز آ جائے گی ، لیکن پھر کہنے لگی : ہمیشہ کے لیے میں اپنی قوم پر رسوائی کا داغ نہ لگاؤں گی (یہ کہہ کر) اس نے آخری جملہ کو بھی ادا کر دیا ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” دیکھو اس کا ہونے والا بچہ اگر سرمگیں آنکھوں ، بڑی سرینوں اور موٹی پنڈلیوں والا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے “ ، چنانچہ انہیں صفات کا بچہ پیدا ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ نہ آ گیا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا “ ، یعنی میں اس پر حد جاری کرتا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 2  -  Score: 48  -  6k
حدیث نمبر: 1570 --- حکم البانی: صحيح... ابن شہاب زہری کہتے ہیں یہ نقل ہے اس کتاب کی جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے تعلق سے لکھی تھی اور وہ عمر بن خطاب ؓ کی اولاد کے پاس تھی ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا جیسے وہ تھی ، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا ، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا : ” جب ایک سو اکیس (۱۲۱) اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک سو انتیس (۱۲۹) تک تین (۳) بنت لبون واجب ہیں ، جب ایک سو تیس (۱۳۰) ہو جائیں تو ایک سو انتالیس (۱۳۹) تک میں دو (۲) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں ، جب ایک سو چالیس (۱۴۰) ہو جائیں تو ایک سو انچاس (۱۴۹) تک دو (۲) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں ، جب ایک سو پچاس (۱۵۰) ہو جائیں تو ایک سو انسٹھ (۱۵۹) تک تین (۳) حقہ ہیں ، جب ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہو جائیں تو ایک سو انہتر (۱۶۹) تک چار (۴) بنت لبون ہیں ، جب ایک سو ستر (۱۷۰) ہو جائیں تو ایک سو اناسی (۱۷۹) تک تین (۳) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں ، جب ایک سو اسی (۱۸۰) ہو جائیں تو ایک سو نو اسی (۱۸۹) تک دو (۲) حقہ اور دو (۲) بنت لبون ہیں ، جب ایک سو نوے (۱۹۰) ہو جائیں تو ایک سو ننانوے (۱۹۹) تک تین (۳) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں ، جب دو سو (۲۰۰) ہو جائیں تو چار (۴) حقے یا پانچ (۵) بنت لبون ، ان میں سے جو بھی پائے جائیں ، لے لیے جائیں گے “ ۔ اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جاتی ہوں ، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے ، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی ، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکاۃ وصول کرنے والا خود چاہے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 342  -  6k
حدیث نمبر: 1641 --- حکم البانی: ضعيف... انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی اکرم ﷺ کے پاس مانگنے کے لیے آیا ، آپ نے پوچھا : ” کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ “ ، بولا : کیوں نہیں ، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ دونوں میرے پاس لے آؤ “ ، چنانچہ وہ انہیں آپ کے پاس لے آیا ، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا : ” یہ دونوں کون خریدے گا ؟ “ ، ایک آدمی بولا : انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں ، آپ ﷺ نے پوچھا : ” ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے ؟ “ ، دو بار یا تین بار ، تو ایک شخص بولا : میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں ، آپ ﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا : ” ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ “ ، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا : ” جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں “ ، چنانچہ وہ شخص گیا ، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا ، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا ، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو ، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے : ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو ، خاک میں لوٹتا ہو ، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو ، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 251  -  6k
حدیث نمبر: 1701 --- حکم البانی: صحيح... سوید بن غفلہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا ، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا ، ان دونوں نے کہا : اسے پھینک دو ، میں نے کہا : نہیں ، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لاؤں گا ، پھر میں نے حج کیا ، میرا گزر مدینے سے ہوا ، میں نے ابی بن کعب ؓ سے پوچھا ، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی ، اس میں سو (۱۰۰) دینار تھے ، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے فرمایا : ” ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ “ ، چنانچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا ، پھر آپ کے پاس آیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” ایک سال اور پہچان کراؤ “ ، میں نے ایک سال اور پہچان کرائی ، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” ایک سال پھر پہچان کراؤ “ ، چنانچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا ، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے عرض کیا : مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی ، اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا “ ۔ شعبہ کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ سلمہ نے « عرفہا » تین بار کہا تھا یا ایک بار ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 224  -  4k
حدیث نمبر: 1581 --- حکم البانی: ضعيف... مسلم بن ثفنہ یشکری کہتے ہیں نافع بن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کے کاموں پر عامل مقرر کیا اور انہیں ان سے زکاۃ وصول کرنے کا حکم دیا ، میرے والد نے مجھے ان کی ایک جماعت کی طرف بھیجا ، چنانچہ میں ایک بوڑھے آدمی کے پاس آیا ، جس کا نام سعر بن دیسم تھا ، میں نے کہا : مجھے میرے والد نے آپ کے پاس زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ہے ، وہ بولے : بھتیجے ! تم کس قسم کے جانور لو گے ؟ میں نے کہا : ہم تھنوں کو دیکھ کر عمدہ جانور چنیں گے ، انہوں نے کہا : بھتیجے ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں : میں اپنی بکریوں کے ساتھ یہیں گھاٹی میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رہا کرتا تھا ، ایک بار دو آدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر آئے اور مجھ سے کہنے لگے : ہم رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے ہیں ، تاکہ تم اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کرو ، میں نے کہا : مجھے کیا دینا ہو گا ؟ انہوں نے کہا : ایک بکری ، میں نے ایک بکری کی طرف قصد کیا ، جس کی جگہ مجھے معلوم تھی ، وہ بکری دودھ اور چربی سے بھری ہوئی تھی ، میں اسے نکال کر ان کے پاس لایا ، انہوں نے کہا : یہ بکری پیٹ والی (حاملہ) ہے ، ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایسی بکری لینے سے منع کیا ہے ، پھر میں نے کہا : تم کیا لو گے ؟ انہوں نے کہا : ایک برس کی بکری جو دوسرے برس میں داخل ہو گئی ہو یا دو برس کی جو تیسرے میں داخل ہو گئی ہو ، میں نے ایک موٹی بکری جس نے بچہ نہیں دیا تھا مگر بچہ دینے کے لائق ہونے والی تھی کا قصد کیا ، اسے نکال کر ان کے پاس لایا تو انہوں نے کہا : اسے ہم نے لے لیا ، پھر وہ دونوں اسے اپنے اونٹ پر لاد کر لیے چلے گئے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوعاصم نے زکریا سے روایت کیا ہے ، انہوں نے بھی مسلم بن شعبہ کہا ہے جیسا کہ روح نے کہا ۔ ... (ض)
Terms matched: 1  -  Score: 215  -  6k
حدیث نمبر: 1567 --- حکم البانی: صحيح... حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی ، وہ کہتے تھے : یہ ابوبکر ؓ نے انس ؓ کے لیے لکھی تھی ، اس پر رسول اللہ ﷺ کی مہر لگی ہوئی تھی ، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کر دی تھی ، اس میں یہ عبارت لکھی تھی : ” یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو دیا ہے ، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے ، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے ، وہ نہ دے : پچیس (۲۵) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے ، جب پچیس اونٹ پورے ہو جائیں تو پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ہے ، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے ، اور جب چھتیس (۳۶) اونٹ ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک میں ایک بنت لبون ہے ، جب چھیالیس (۴۶) اونٹ پورے ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک میں ایک حقہ واجب ہے ، اور جب اکسٹھ (۶۱) اونٹ ہو جائیں تو پچہتر (۷۵) تک میں ایک جذعہ واجب ہو گی ، جب چھہتر (۷۶) اونٹ ہو جائیں تو نو ے (۹۰) تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی ، جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس (۱۲۰) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (۴۰) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (۵۰) میں ایک حقہ دینا ہو گا ۔ اگر وہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے ، نہ ہو ، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی ، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں ، یا بیس درہم بھی دیدے ۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کر لی جائے گی ، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا ، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کر لی جائے گی “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں موسیٰ سے حسب منشاء اس عبارت سے « ويجعل معہا شاتين إن استيسرتا لہ ، أو عشرين درہمًا » سے لے کر « ومن بلغت عندہ صدقۃ بنت لبون وليس عندہ إلا حقۃ فإنہا تقبل منہ » تک اچھی ضبط نہ کر سکا ، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے : یعنی اگر اسے میسر...
Terms matched: 1  -  Score: 207  -  13k
حدیث نمبر: 1568 --- حکم البانی: صحيح... عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی کتاب لکھی ، لیکن اسے اپنے عمال کے پاس بھیج نہ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہو گئی ، آپ ﷺ نے اسے اپنی تلوار سے لگائے رکھا پھر اس پر ابوبکر ؓ نے عمل کیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے ، پھر عمر ؓ نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا ، اس کتاب میں یہ تھا : ” پا نچ (۵) اونٹ میں ایک (۱) بکری ہے ، دس (۱۰) اونٹ میں دو (۲) بکریاں ، پندرہ (۱۵) اونٹ میں تین (۳) بکریاں ، اور بیس (۲۰) میں چار (۴) بکریاں ہیں ، پھر پچیس (۲۵) سے پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ہے ، پینتیس (۳۵) سے زیادہ ہو جائے تو پینتالیس (۴۵) تک ایک بنت لبون ہے ، جب پینتالیس (۴۵) سے زیادہ ہو جائے تو ساٹھ (۶۰) تک ایک حقہ ہے ، جب ساٹھ (۶۰) سے زیادہ ہو جائے تو پچہتر (۷۵) تک ایک جذعہ ہے ، جب پچہتر (۷۵) سے زیادہ ہو جائے تو نوے (۹۰) تک دو بنت لبون ہیں ، جب نوے (۹۰) سے زیادہ ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقے ہیں ، اور جب اس سے بھی زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک حقہ اور ہر چالیس (۴۰) پر ایک بنت لبون واجب ہے ۔ بکریوں میں چالیس (۴۰) سے لے کر ایک سو بیس (۱۲۰) بکریوں تک ایک (۱) بکری واجب ہو گی ، اگر اس سے زیادہ ہو جائیں تو دو سو (۲۰۰) تک دو (۲) بکریاں ہیں ، اس سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین (۳) بکریاں ہیں ، اگر اس سے بھی زیادہ ہو جائیں تو ہر سو (۱۰۰) بکری پر ایک (۱) بکری ہو گی ، اور جو سو (۱۰۰) سے کم ہو اس میں کچھ بھی نہیں ، زکاۃ کے ڈر سے نہ جدا مال کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال کو جدا کیا جائے اور جو مال دو آدمیوں کی شرکت میں ہو وہ ایک دوسرے سے لے کر اپنا اپنا حصہ برابر کر لیں ، زکاۃ میں بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے گا “ ۔ زہری کہتے ہیں : جب مصدق (زکاۃ وصول کرنے والا) آئے تو بکریوں کے تین غول کریں گے ، ایک غول میں گھٹیا درجہ کی بکریاں ہوں گی دوسرے میں عمدہ اور تیسرے میں درمیانی درجہ کی تو مصدق درمیانی درجہ کی بکریاں زکاۃ میں لے گا ، زہری نے گایوں کا ذکر نہیں کیا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 203  -  6k
حدیث نمبر: 3418 --- حکم البانی: صحيح... ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی ایک جماعت ایک سفر پر نکلی اور عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے پاس وہ لوگ جا کر ٹھہرے اور ان سے مہمان نوازی طلب کی تو انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کر دیا وہ پھر اس قبیلے کے سردار کو سانپ یا بچھو نے کاٹ (ڈنک مار دیا) کھایا ، انہوں نے ہر چیز سے علاج کیا لیکن اسے کسی چیز سے فائدہ نہیں ہو رہا تھا ، تب ان میں سے ایک نے کہا : اگر تم ان لوگوں کے پاس آتے جو تمہارے یہاں آ کر قیام پذیر ہیں ، ممکن ہے ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو جو تمہارے ساتھی کو فائدہ پہنچائے (وہ آئے) اور ان میں سے ایک نے کہا : ہمارا سردار ڈس لیا گیا ہے ہم نے اس کی شفایابی کے لیے ہر طرح کی دوا دارو کر لی لیکن کوئی چیز اسے فائدہ نہیں دے رہی ہے ، تو کیا تم میں سے کسی کے پاس جھاڑ پھونک قسم کی کوئی چیز ہے جو ہمارے (ساتھی کو شفاء دے) ؟ تو اس جماعت میں سے ایک شخص نے کہا : ہاں ، میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں ، لیکن بھائی بات یہ ہے کہ ہم نے چاہا کہ تم ہمیں اپنا مہمان بنا لو لیکن تم نے ہمیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا ، تو اب جب تک اس کا معاوضہ طے نہ کر دو میں جھاڑ پھونک کرنے والا نہیں ، انہوں نے بکریوں کا ایک گلہ دینے کا وعدہ کیا تو وہ (صحابی) سردار کے پاس آئے اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر تھوتھو کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شفایاب ہو گیا ، گویا وہ رسی کی گرہ سے آزاد ہو گیا ، تو ان لوگوں نے جو اجرت ٹھہرائی تھی وہ پوری پوری دے دی ، تو صحابہ نے کہا : لاؤ اسے تقسیم کر لیں ، تو اس شخص نے جس نے منتر پڑھا تھا کہا : نہیں ابھی نہ کرو یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے پوچھ لیں تو وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے پورا واقعہ ذکر کیا ، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : ” تم نے کیسے جانا کہ یہ جھاڑ پھونک ہے ؟ تم نے اچھا کیا ، اپنے ساتھ تم میرا بھی ایک حصہ لگانا “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 192  -  6k
حدیث نمبر: 4753 --- حکم البانی: صحيح... براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے ، ہم قبر کے پاس پہنچے ، وہ ابھی تک تیار نہ تھی ، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں ، آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے ، پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا : ” قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو “ اسے دو بار یا تین بار فرمایا ، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : اور فرمایا : ” اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں ، اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے ، اے جی ! تمہارا رب کون ہے ؟ تمہارا دین کیا ہے ؟ اور تمہارا نبی کون ہے ؟ “ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا رب (معبود) کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے ، میرا رب (معبود) اللہ ہے ، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ، پھر پوچھتے ہیں : یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں : تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا “ جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے : ” اللہ تعالیٰ کے قول « يثبت اللہ الذين آمنوا » سے یہی مراد ہے “ (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : ” پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو ، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو ، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو “ آپ ﷺ فرماتے ہیں : ” پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے ، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے “ ۔ اور رہا کافر تو آپ ﷺ نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : ” اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : تمہارا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم ، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم ، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں...
Terms matched: 1  -  Score: 178  -  11k
حدیث نمبر: 1572 --- حکم البانی: صحيح... علی ؓ سے روایت ہے (زہیر کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے) ، آپ ﷺ نے فرمایا ہے : ” چالیسواں حصہ نکالو ، ہر چالیس (۴۰) درہم میں ایک (۱) درہم ، اور جب تک دو سو (۲۰۰) درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا ، جب دو سو (۲۰۰) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ کے نکالو ، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو ، بکریوں میں جب چالیس (۴۰) ہوں تو ایک (۱) بکری ہے ، اگر انتالیس (۳۹) ہوں تو ان میں کچھ لازم نہیں “ ، پھر بکریوں کی زکاۃ اسی طرح تفصیل سے بیان کی جو زہری کی روایت میں ہے ۔ گائے بیلوں میں یہ ہے کہ ہر تیس (۳۰) گائے یا بیل پر ایک سالہ گائے دینی ہو گی اور ہر چا لیس (۴۰) میں دو سالہ گائے دینی ہو گی ، باربرداری والے گائے بیلوں میں کچھ لازم نہیں ہے ، اونٹوں کے بارے میں زکاۃ کی وہی تفصیل اسی طرح بیان کی جو زہری کی روایت میں گزری ہے ، البتہ اتنے فرق کے ساتھ کہ پچیس (۲۵) اونٹوں میں پانچ (۵) بکریاں ہوں گی ، ایک بھی زیادہ ہونے یعنی چھبیس (۲۶) ہو جانے پر پینتیس (۳۵) تک ایک (۱) بنت مخاض ہو گی ، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون نر ہو گا ، اور جب چھتیس (۳۶) ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک ایک (۱) بنت لبون ہے ، جب چھیالیس (۴۶) ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک ایک (۱) حقہ ہے جو نر اونٹ کے لائق ہو جاتی ہے “ ، اس کے بعد اسی طرح بیان کیا ہے جیسے زہری نے بیان کیا یہاں تک کہ جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو (۲) حقہ ہوں گی جو جفتی کے لائق ہوں ، جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک (۱) حقہ دینا ہو گا ، زکاۃ کے خوف سے نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے اور نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے ، اسی طرح نہ کوئی بوڑھا جانور قابل قبول ہو گا اور نہ عیب دار اور نہ ہی نر ، سوائے اس کے کہ مصدق کی چاہت ہو ۔ (زمین سے ہونے والی) ، پیداوار کے سلسلے میں کہا کہ نہر یا بارش کے پانی کی سینچائی سے جو پیداوار ہوئی ہو ، اس میں دسواں حصہ لازم ہے اور جو پیداوار رہٹ سے پانی کھینچ کر کی گئی ہو ، اس میں بیسواں حصہ لیا جائے گا “ ۔ عاصم اور حارث کی ایک روایت میں ہے کہ زکاۃ ہر سال لی جائے گی ۔ زہیر کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ ہر سال ایک بار کہا ۔ عاصم کی روایت میں ہے : ” جب بنت مخاض اور ابن لبون بھی نہ ہو تو دس درہم یا دو بکریاں دین...
Terms matched: 1  -  Score: 177  -  8k
حدیث نمبر: 4325 --- حکم البانی: صحيح... فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات عشاء پڑھنے میں دیر کی ، پھر نکلے تو فرمایا : ” مجھے ایک بات نے روک لیا ، جسے تمیم داری ایک آدمی کے متعلق بیان کر رہے تھے ، تو میں سمندر کے جزیروں میں سے ایک جزیرے میں تھا ، تمیم کہتے ہیں کہ ناگاہ میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے بال کھینچ رہی ہے ، تو میں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ وہ بولی : میں جساسہ ہوں ، تم اس محل کی طرف جاؤ ، تو میں اس محل میں آیا ، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک شخص ہے جو اپنے بال کھینچ رہا ہے ، وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ، اور آسمان و زمین کے درمیان میں اچھلتا ہے ، میں نے اس سے پوچھا : تم کون ہو ؟ تو اس نے کہا : میں دجال ہوں ، کیا امیوں کے نبی کا ظہور ہو گیا ؟ میں نے کہا : ہاں (وہ ظاہر ہو چکے ہیں) اس نے پوچھا : لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے یا نافرمانی ؟ میں نے کہا : نہیں ، بلکہ لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے ، تو اس نے کہا : یہ بہتر ہے ان کے لیے “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 176  -  3k
حدیث نمبر: 2269 --- حکم البانی: صحيح... زید بن ارقم ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں یمن کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اہل یمن میں سے تین آدمی علی ؓ کے پاس ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے آئے ، ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر (پاکی) میں جماع کیا تھا ، تو علی ؓ نے ان میں سے دو سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے دو ، یہ سن کر وہ دونوں بھڑک گئے ، پھر دو سے یہی بات کہی ، وہ بھی بھڑک اٹھے ، پھر دو سے اسی طرح گفتگو کی لیکن وہ بھی بھڑک اٹھے ، چنانچہ علی ؓ نے کہا کہ : ” تم تو باہم ضد کرنے والے ساجھی دار ہو لہٰذا میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں ، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا ، لڑکا اسی کو ملے گا اور وہ اپنے ساتھیوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے گا “ ، آپ نے قرعہ ڈالا اور جس کا نام نکلا اس کو لڑکا دے دیا ، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں یا کچلیاں نظر آنے لگیں ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 171  -  3k
حدیث نمبر: 4632 --- حکم البانی: صحيح... عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے رات کو بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا ، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا ، پھر میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اسے لے رہے ہیں ، کسی نے زیادہ لیا کسی نے کم ، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ، پھر میں نے آپ کو دیکھا اللہ کے رسول ! کہ آپ نے اسے پکڑ ا اور اس سے اوپر چلے گئے ، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا ، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا ، پھر اسے ایک اور شخص نے پکڑا تو وہ ٹوٹ گئی پھر اسے جوڑا گیا ، تو وہ بھی اوپر چلا گیا ۔ ابوبکر ؓ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے دیجئیے آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کی تعبیر بیان کرو “ وہ بولے : بادل کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے ، اور ٹپکنے والے گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت (شیرینی) اور نرمی مراد ہے ، کم اور زیادہ لینے والوں سے مراد قرآن کو کم یا زیادہ حاصل کرنے والے لوگ ہیں ، آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ ہیں ، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں ، اللہ آپ کو اٹھا لے گا ، پھر آپ ﷺ کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا ، پھر ایک اور شخص پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا ، پھر اسے ایک اور شخص پکڑے گا ، تو وہ ٹوٹ جائے گی تو اسے جوڑا جائے گا ، پھر وہ بھی اٹھ جائے گا ، اللہ کے رسول ! آپ مجھے بتائیے کہ میں نے صحیح کہا یا غلط ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” کچھ صحیح کہا اور کچھ غلط “ کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی ، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” قسم نہ دلاؤ “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 170  -  6k
حدیث نمبر: 2890 --- حکم البانی: صحيح... ہزیل بن شرحبیل اودی کہتے ہیں ایک شخص ابوموسیٰ اشعری ؓ اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن (یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی ؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا ، اور انہوں نے پوتی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پوچھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود ؓ سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے ، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتائی تو انہوں نے کہا : تب تو میں بھٹکا ہوا ہوں گا اور راہ یاب لوگوں میں سے نہ ہوں گا ، لیکن میں تو رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ، اور وہ یہ کہ ” بیٹی کا آدھا ہو گا “ اور پوتی کا چھٹا حصہ ہو گا دو تہائی پورا کرنے کے لیے (یعنی جب ایک بیٹی نے آدھا پایا تو چھٹا حصہ پوتی کو دے کر دو تہائی پورا کر دیں گے) اور جو باقی رہے گا وہ سگی بہن کا ہو گا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 168  -  4k
حدیث نمبر: 1396 --- حکم البانی: صحيح دون سرد السور... علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ ابن مسعود ؓ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میں ایک رکعت میں مفصل پڑھ لیتا ہوں ، انہوں نے کہا : کیا تم اس طرح پڑھتے ہو جیسے شعر جلدی جلدی پڑھا جاتا ہے یا جیسے سوکھی کھجوریں درخت سے جھڑتی ہیں ؟ لیکن نبی اکرم ﷺ دو ہم مثل سورتوں کو جیسے ” نجم اور رحمن “ ایک رکعت میں ، ” اقتربت اور الحاقۃ “ ایک رکعت میں ، ” والطور اور الذاريات “ ایک رکعت میں ، ” إذا وقعت اور نون “ ایک رکعت میں ، ” سأل سائل اور النازعات “ ایک رکعت میں ، ” ويل للمطففين اور عبس “ ایک رکعت میں ، ” المدثر اور المزمل “ ایک رکعت میں ، ” ہل أتى اور لا أقسم بيوم القيامۃ “ ایک رکعت میں ، ” عم يتسائلون اور المرسلات “ ایک رکعت میں ، اور اسی طرح ” الدخان اور إذا الشمس كورت “ ایک رکعت میں ملا کر پڑھتے تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابن مسعود کی ترتیب ہے ، اللہ ان پر رحم کرے ۔ ... (ض)
Terms matched: 1  -  Score: 166  -  3k
حدیث نمبر: 2174 --- حکم البانی: ضعيف... ابونضرہ کہتے ہیں : مجھ سے قبیلہ طفاوہ کے ایک شیخ نے بیان کیا کہ مدینہ میں میں ایک بار ابوہریرہ ؓ کا مہمان ہوا میں نے صحابہ کرام ؓ میں کسی کو بھی مہمانوں کے معاملے میں ان سے زیادہ چاق و چوبند اور ان کی خاطر مدارات کرنے والا نہیں دیکھا ، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میں ان کے پاس تھا ، وہ اپنے تخت پر بیٹھے تھے ان کے ساتھ ایک تھیلی تھی جس میں کنکریاں یا گٹھلیاں تھیں ، نیچے ایک کالی کلوٹی لونڈی تھی ، آپ ؓ ان کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہے تھے ، جب (پڑھتے پڑھتے) تھیلی ختم ہو جاتی تو انہیں لونڈی کی طرف ڈال دیتے ، اور وہ انہیں دوبارہ تھیلی میں بھر کر دیتی ابوہریرہ ؓ کہنے لگے : کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنا ایک واقعہ نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ، ضرور بتائیے ، انہوں نے کہا : میں مسجد میں تھا اور بخار میں مبتلا تھا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے اور کہنے لگے : ” کس نے دوسی جوان (ابوہریرہ) کو دیکھا ہے ؟ “ یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا ، تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ یہاں مسجد کے کونے میں ہیں ، انہیں بخار ہے ، چنانچہ آپ ﷺ تشریف لائے اور اپنا دست مبارک میرے اوپر رکھا ، اور مجھ سے بھلی بات کی تو میں اٹھ گیا ، اور آپ چل کر اسی جگہ واپس آ گئے ، جہاں نماز پڑھاتے تھے ، اور لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے ، آپ ﷺ کے ساتھ دو صف مردوں اور ایک صف عورتوں کی تھی یا دو صف عورتوں کی اور ایک صف مردوں کی تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگر نماز میں شیطان مجھے کچھ بھلا دے تو مرد سبحان اللہ کہیں ، اور عورتیں تالی بجائیں “ ، رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی اور نماز میں کوئی چیز بھولے نہیں اور فرمایا : ” اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو ، اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو “ ، پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ، پھر امابعد کہا اور پہلے مردوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : ” کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنی بیوی کے پاس آ کر ، دروازہ بند کر لیتا ہے اور پردہ ڈال لیتا ہے اور اللہ کے پردے میں چھپ جاتا ہے ؟ “ ، لوگوں نے جواب دیا : ہاں ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کے بعد وہ لوگوں میں بیٹھتا ہے اور کہتا ہے : میں نے ایسا کیا میں نے ایسا کیا “ ، یہ سن کر لوگ خاموش رہے ، مردوں کے بعد آپ ﷺ عورتوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے بھی پوچھا کہ : ” کیا کوئی تم م...
Terms matched: 1  -  Score: 165  -  11k
حدیث نمبر: 4723 --- حکم البانی: ضعيف... عباس بن عبدالمطلب ؓ کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا ، جس میں رسول اللہ ﷺ بھی موجود تھے ، اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا ان کے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا : ” تم اسے کیا نام دیتے ہو ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : « سحاب » (بادل) ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اور « مزن » بھی “ لوگوں نے کہا : ہاں « مزن » بھی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اور « عنان » بھی “ لوگوں نے عرض کیا : اور « عنان » بھی ، (ابوداؤد کہتے ہیں : « عنان » کو میں اچھی طرح ضبط نہ کر سکا) آپ ﷺ نے پوچھا : ” کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : ہمیں نہیں معلوم ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان دونوں کے درمیان اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسافت ہے ، پھر اسی طرح اس کے اوپر آسمان ہے “ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے سات آسمان گنائے ” پھر ساتویں کے اوپر ایک سمندر ہے جس کی سطح اور تہہ میں اتنی دوری ہے جتنی کہ ایک آسمان اور دوسرے آسمان کے درمیان ہے ، پھر اس کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے ہیں جن کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی لمبائی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی دوری ہے ، پھر ان کی پشتوں پر عرش ہے ، جس کے نچلے حصہ اور اوپری حصہ کے درمیان کی مسافت اتنی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی ، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے “ ۔ ... (ض)
Terms matched: 1  -  Score: 163  -  4k
حدیث نمبر: 1023 --- حکم البانی: صحيح... معاویہ بن حدیج ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی تو سلام پھیر دیا حالانکہ ایک رکعت نماز باقی رہ گئی تھی ، ایک شخص نے آپ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : آپ نماز میں ایک رکعت بھول گئے ہیں ، تو آپ ﷺ لوٹے ، مسجد کے اندر آئے اور بلال ؓ کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کی اقامت کہی ، پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی ، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے پوچھا : کیا تم اس شخص کو جانتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں ، البتہ اگر میں دیکھوں (تو پہچان لوں گا) ، پھر وہی شخص میرے سامنے سے گزرا تو میں نے کہا : یہی وہ شخص تھا ، لوگوں نے کہا : یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں ۔ ... (ص/ح) ... حدیث متعلقہ ابواب: دو رکعت نماز میں اگر ایک رکعت پڑھ دی جائے تو یاد آنے پر دوسری رکعت پڑھنا اور سجدہ سہو کرنا ۔ چار رکعت نماز میں اگر تین رکعت کے بعد سلام پھیر دیا ہو پھر دوبارہ یاد آنے پر ایک رکعت پڑھنا اور سجدہ سہو کرنا ۔ اگر کوئی رکعت کم پڑھ دی جائے تو دوبارہ پڑھنا اور سجدہ سہو کرنا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 155  -  3k
حدیث نمبر: 3840 --- حکم البانی: صحيح... جابر ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا ، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا ، ابوعبیدہ ؓ ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے ، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے ، پھر پانی پی لیتے ، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو جاتی ، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے ، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ایک چیز ظاہر ہوئی ، جب ہم لوگ اس کے قریب آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک مچھلی ہے جسے عنبر کہتے ہیں ۔ ابوعبیدہ ؓ نے کہا : یہ مردار ہے اور ہمارے لیے جائز نہیں ۔ پھر وہ کہنے لگے : نہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے لوگ ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور تم مجبور ہو چکے ہو لہٰذا اسے کھاؤ ، ہم وہاں ایک مہینہ تک ٹھہرے رہے اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم (کھا کھا کر) موٹے تازے ہو گئے ، جب ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ، تو آپ نے فرمایا : ” وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا ، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے ، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ “ ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے اسے کھایا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 152  -  5k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 Next >>


Search took 0.162 seconds