حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "سنن نسائی"
0 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 2153 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 2457 --- حکم البانی: صحيح... انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر ؓ نے انہیں یہ لکھ کر دیا کہ صدقہ (زکاۃ) کے یہ وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے ، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ اسے دے ، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ اسے نہ دے ۔ پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے ۔ اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پنتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے ، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے ۔ اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے ۔ اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے ، جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو ، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اس میں پچہتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے ، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو اس میں نوے تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں ، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کودانے کے قابل ہو گئی ہوں ، اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی ہے ، اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے ۔ اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (مثلاً) جس شخص پر چار برس کی اونٹنی کی زکاۃ ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی ، اور وہ اس کے ساتھ میں دو بکریاں بھی دیدے ۔ اگر وہ اسے میسر ہوں ورنہ بیس درہم دے ۔ اور جسے زکاۃ میں تین برس کی اونٹنی دینی ہو ۔ اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی قبول کر لی جائے گی ، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم دے یا دو بکریاں واپس دیدے ، اور جسے تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور یہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں دے اگر میسر ہوں یا بیس درہم دے ، اور جسے زکاۃ میں دو سال کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس صرف تین سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور عامل زکاۃ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے ، اور جسے دو برس کی اونٹنی دینی ہو ، اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی نہ ہو صرف ایک برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول ک...
Terms matched: 1  -  Score: 316  -  11k
حدیث نمبر: 2449 --- حکم البانی: صحيح... انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر ؓ نے انہیں (عاملین صدقہ کو) یہ لکھا کہ یہ صدقہ کے وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں ، جن کا اللہ عزوجل نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے ، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ دے ، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے : پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے ، اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پینتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے ، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے ، اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے ، اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو چھیالیس سے ساٹھ اونٹ تک میں تین برس کی اونٹنی (یعنی جو ان اونٹنی جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو) ہے ، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اکسٹھ سے پچہتر اونٹوں تک میں چار برس کی اونٹنی ہے ، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو چھہتر سے نوے اونٹوں تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں ، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس اونٹوں تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کے کودانے کے قابل ہو گئی ہوں ۔ اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی ایک اونٹنی ۔ اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے ، اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (یعنی زکاۃ کے لائق اونٹ نہ ہو ، اس سے بڑا یا چھوٹا ہو) مثلاً جس شخص پر چار برس کی اونٹنی لازم ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو ، تین برس کی اونٹنی ہو ۔ تو تین برس کی اونٹنی ہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور وہ ساتھ میں دو بکریاں بھی دے ۔ اگر اسے بکریاں دینے میں آسانی و سہولت ہو ، اور اگر دو بکریاں نہ دے سکتا ہو تو بیس درہم دے ۔ اور جس شخص کو تین برس کی اونٹنی دینی پڑ رہی ہو ، اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی نہ ہو ، چار برس کی اونٹنی ہو تو چار برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی ۔ اور عامل صدقہ (یعنی زکاۃ وصول کرنے والا) اسے بیس درہم واپس کرے گا ۔ یا اسے بکریاں دینے میں آسانی ہو تو دو بکریاں دے ۔ اور جس کو تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور تین برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے ، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں اور دے ، اگر یہ اس کے لیے آسان ہو ،...
Terms matched: 1  -  Score: 307  -  13k
حدیث نمبر: 4359 --- حکم البانی: صحيح... جابر ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ ؓ کے ساتھ (ایک فوجی مہم میں) بھیجا ، ہم تقریباً تین سو دس لوگ تھے ، ہمیں توشہ کے بطور کھجور کا ایک تھیلا دیا گیا ، وہ ہمیں ایک ایک مٹھی دیتے ، پھر جب ہم اکثر کھجوریں کھا چکے تو ہمیں ایک ایک کھجور دینے لگے ، یہاں تک کہ ہم اسے اس طرح چوستے جیسے بچہ چوستا ہے اور اس پر پانی پی لیتے ، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں ختم ہونے پر اس کی قدر معلوم ہوئی ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم اپنی کمانوں سے پتے جھاڑتے اور اسے چبا کر پانی پی لیتے ، یہاں تک کہ ہماری فوج کا نام ہی جیش الخبط (یعنی پتوں والا لشکر) پڑ گیا ، پھر جب ہم سمندر کے کنارے پر پہنچے تو ٹیلے کی طرح ایک جانور پڑا ہوا پایا جسے عنبر کہا جاتا ہے ، ابوعبیدہ ؓ نے کہا : مردہ ہے مت کھاؤ ، پھر کہا : رسول اللہ ﷺ کا لشکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے اور ہم مجبور ہیں ، اللہ کا نام لے کر کھاؤ ، چنانچہ ہم نے اس میں سے کھایا اور کچھ گوشت بھون کر سکھا کر رکھ لیا ، اس کی آنکھ کی جگہ میں تیرہ لوگ بیٹھے ، ابوعبیدہ ؓ نے اس کی پسلی لی پھر کچھ لوگوں کو اونٹ پر سوار کیا تو وہ اس کے نیچے سے گزر گئے ، جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : ” تمہیں کس چیز نے روکے رکھا ؟ “ ہم نے عرض کیا : ہم قریش کے قافلوں کا پیچھا کر رہے تھے ، پھر ہم نے آپ سے اس جانور (عنبر مچھلی) کا معاملہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” یہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخشا ہے ، کیا اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے ؟ “ ہم نے عرض کیا : جی ہاں ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 199  -  5k
حدیث نمبر: 4710 --- حکم البانی: صحيح... عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کا پہلا قسامہ یہ تھا کہ بنی ہاشم کا ایک شخص تھا ، قریش یعنی اس کی شاخ میں سے کسی قبیلے کے ایک شخص نے اسے نوکری پر رکھا ، وہ اس کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا ، اس کے پاس سے بنی ہاشم کے ایک شخص کا گزر ہوا جس کے توش دان کی رسی ٹوٹ گئی تھی ، وہ بولا : میری مدد کرو ایک رسی سے جس سے میں اپنے توش دان کا منہ باندھ سکوں تاکہ (اس میں سے سامان گرنے سے) اونٹ نہ بدکے ، چنانچہ اس نے اسے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے رسی دی ، جب انہوں نے قیام کیا اور ایک اونٹ کے علاوہ سبھی اونٹ باندھ دیے گئے تو جس نے نوکر رکھا تھا ، اس نے کہا : اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے ، تمام اونٹوں میں اسے کیوں نہیں باندھا گیا ؟ اس نے کہا : اس کے لیے کوئی رسی نہیں ہے ، اس نے کہا : اس کی رسی کہاں گئی ؟ وہ بولا : میرے پاس سے بنی ہاشم کا ایک شخص گزرا جس کے توش دان کا منہ باندھنے کی رسی ٹوٹ گئی تھی ، اس نے مجھ سے مدد چاہی اور کہا : مجھے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے ایک رسی دے دو تاکہ اونٹ نہ بدکے ، میں نے اسے رسی دے دی ، یہ سن کر اس نے ایک لاٹھی نوکر کو ماری ، اسی میں اس کی موت تھی (یعنی یہی چیز بعد میں اس کے مرنے کا سبب بنی) اس کے پاس سے یمن والوں میں سے ایک شخص کا گزر ہوا ، اس نے کہا : کیا تم حج کو جا رہے ہو ؟ اس نے کہا : جا نہیں رہا ہوں لیکن شاید جاؤں ، اس نے کہا : کیا تم (اس موقع سے) کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچا دو گے ؟ اس نے کہا : ہاں ، کہا : جب تم حج کو جاؤ تو پکار کر کہنا : اے قریش کے لوگو ! جب وہ آ جائیں تو پکارنا ! اے ہاشم کے لوگو ! جب وہ آ جائیں تو ابوطالب کے بارے میں پوچھنا پھر انہیں بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے سلسلے میں مار ڈالا ہے اور (یہ کہہ کر) نوکر مر گیا ، پھر جب وہ شخص آیا جس نے نوکری پر اسے رکھا تھا تو اس کے پاس ابوطالب گئے اور بولے : ہمارے آدمی کا کیا ہوا ؟ وہ بولا : وہ بیمار ہو گیا ، میں نے اس کی اچھی طرح خدمت کی پھر وہ مر گیا ، میں راستے میں اترا اور اسے دفن کر دیا ۔ ابوطالب بولے : تمہاری طرف سے وہ اس چیز کا حقدار تھا ، وہ کچھ عرصے تک رکے رہے پھر وہ یمنی آیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ جب موسم حج آیا تو وہ اس کا پیغام پہنچا دے ۔ اس نے کہا : اے قریش کے لوگو ! لوگوں نے کہا : یہ قریش ہیں ، اس نے ...
Terms matched: 1  -  Score: 187  -  12k
حدیث نمبر: 1140 --- حکم البانی: صحيح... معدان بن طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے غلام ثوبان ؓ سے ملاقات کی ، تو میں نے کہا : مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے فائدہ پہنچائے ، یا مجھے جنت میں داخل کرے ، وہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر میری طرف متوجہ ہوئے ، اور کہنے لگے : تم سجدوں کو لازم پکڑو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ” جب بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے بدلے ، اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے ، اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے “ ۔ معدان کہتے ہیں : پھر میں ابو الدرداء ؓ سے ملا اور میں نے ان سے وہی سوال کیا جو ثوبان ؓ سے کر چکا تھا ، تو انہوں نے بھی مجھ سے یہی کہا : تم سجدوں کو لازم پکڑو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ” جب بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے ، اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 171  -  3k
حدیث نمبر: 2392 --- حکم البانی: صحيح الإسناد... عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ میرے والد نے میری شادی ایک عورت سے کر دی ، وہ اس سے ملاقات کے لیے آئے ، تو اس سے پوچھا : تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا ؟ اس نے کہا : کیا ہی بہترین آدمی ہیں نہ رات میں سوتے ہیں اور نہ دن میں کھاتے پیتے ہیں ، تو انہوں نے مجھے سخت سست کہا اور بولے : میں نے تیری شادی ایک مسلمان لڑکی سے کی ہے ، اور تو اسے چھوڑے رکھے ہے ۔ میں نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا اس لیے کہ میں اپنے اندر قوت اور (نیکیوں میں) آگے بڑھنے کی صلاحیت پاتا تھا ، یہ بات نبی اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : ” میں رات میں قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، روزہ بھی رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں ، تو تم بھی قیام کرو اور سوؤ بھی ۔ اور روزہ رکھو اور افطار بھی کرو ، ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو “ میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، آپ نے فرمایا : ” تو پھر تم « صیام داودی » رکھا کرو ، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کھاؤ پیو “ ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، آپ نے فرمایا : ” ہر مہینہ ایک مرتبہ قرآن پڑھا کرو “ ، پھر آپ (کم کرتے کرتے) پندرہ دن پر آ کر ٹھہر گئے ، اور میں کہتا ہی رہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 156  -  4k
حدیث نمبر: 2391 --- حکم البانی: صحيح... مجاہد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا : میرے والد نے میری شادی ایک اچھے خاندان والی عورت سے کر دی ، چنانچہ وہ اس کے پاس آتے ، اور اس سے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھتے ، تو (ایک دن) اس نے کہا : یہ بہترین آدمی ہیں ایسے آدمی ہیں کہ جب سے میں ان کے پاس آئی ہوں ، انہوں نے نہ ہمارا بستر روندا ہے اور نہ ہم سے بغل گیر ہوئے ہیں ، عمرو بن العاص ؓ نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : ” اسے میرے پاس لے کر آؤ “ ، میں والد کے ساتھ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ، تو آپ نے پوچھا : ” تم کس طرح روزے رکھتے ہو ؟ “ میں نے عرض کیا : ہر روز ، آپ نے فرمایا : ” ہفتہ میں تین دن روزے رکھا کرو “ ، میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، آپ نے فرمایا : ” اچھا دو دن روزہ رہا کرو اور ایک دن افطار کرو “ ، میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اچھا سب سے افضل روزے رکھے کرو جو داود علیہ السلام کے روزے ہیں ، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 155  -  4k
حدیث نمبر: 1498 --- حکم البانی: صحيح... عبدالرحمٰن بن نمر سے روایت ہے کہ انہوں نے زہری سے گرہن کی نماز کے طریقے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی ہے وہ ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا ، تو اس نے اعلان کیا کہ نماز جماعت سے ہونے والی ہے ، تو لوگ جمع ہو گئے ، رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی ، آپ نے اللہ اکبر کہا ، پھر ایک لمبی قرآت کی ، پھر اللہ اکبر کہا ، پھر ایک لمبا رکوع کیا ، اپنے قیام کی طرح یا اس سے بھی لمبا ، پھر اپنا سر اٹھایا ، اور « سمع اللہ لمن حمدہ » کہا ، پھر ایک لمبی قرآت کی یہ پہلی قرآت سے کم تھی ، پھر « اللہ اکبر » کہا ، اور ایک لمبا رکوع کیا یہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر اپنا سر اٹھایا ، اور « سمع اللہ لمن حمدہ » کہا ، پھر آپ نے « اللہ اکبر » کہا ، اور ایک لمبا سجدہ کیا اپنے رکوع کی طرح یا اس سے بھی لمبا ، پھر آپ نے « اللہ اکبر » کہا ، اور اپنا سر اٹھایا ، پھر آپ نے « اللہ اکبر » کہا اور سجدہ کیا ، پھر آپ نے « اللہ اکبر » کہا اور ایک لمبی قرآت کی ، یہ پہلی قرآت سے کم تھی ، پھر « اللہ اکبر » کہا ، پھر ایک لمبا رکوع کیا یہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر اپنا سر اٹھایا ، اور « سمع اللہ لمن حمدہ » کہا ، پھر ایک لمبی قرآت کی لیکن یہ پہلی قرآت سے جو دوسری رکعت میں کی تھی کم تھی ، پھر آپ نے « اللہ اکبر » کہا ، اور ایک لمبا رکوع کیا ، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر « اللہ اکبر » کہا اور اپنا سر اٹھایا ، پھر « سمع اللہ لمن حمدہ » کہا ، پھر « اللہ اکبر » کہا ، اور سجدہ کیا ، اور یہ پہلے سجدہ سے کم تھا ، پھر آپ نے تشہد پڑھا ، پھر سلام پھیرا ، پھر ان کے بیچ میں کھڑے ہوئے ، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ، پھر فرمایا : ” سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے سے گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے ، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، تو ان میں سے کسی کو گہن لگ جائے تو نماز کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑ پڑو “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 151  -  7k
حدیث نمبر: 665 --- حکم البانی: صحيح... معاویہ بن حدیج ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی ، اور ابھی نماز کی ایک رکعت باقی ہی رہ گئی تھی کہ آپ نے سلام پھیر دیا ، ایک شخص آپ کی طرف بڑھا ، اور اس نے عرض کیا کہ آپ ایک رکعت نماز بھول گئے ہیں ، تو آپ مسجد کے اندر آئے اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی ، پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو ایک رکعت نماز پڑھائی ، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے کہا : کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں ، لیکن میں اسے دیکھ لوں (تو پہچان لوں گا) کہ یکایک وہ میرے قریب سے گزرا تو میں نے کہا : یہ ہے وہ شخص ، تو لوگوں نے کہا : یہ طلحہ بن عبیداللہ ( ؓ ) ہیں ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  3k
حدیث نمبر: 360 --- حکم البانی: صحيح... ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مستحاضہ عورت سے نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں کہا گیا کہ یہ ایک نہ بند ہونے والی رگ ہے ، اور اسے حکم دیا گیا کہ وہ ظہر کو مؤخر کرے اور عصر کو جلدی پڑھ لے ، اور ان دونوں کے لیے ایک غسل کرے ، اور مغرب کو مؤخر کرے ، عشاء کو جلدی پڑھ لے ، اور ان دونوں کے لیے ایک غسل کرے ، اور صبح کی نماز کے لیے ایک غسل کرے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  2k
حدیث نمبر: 1485 --- حکم البانی: ضعيف... ثعلبہ بن عباد العبدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب ؓ کے خطبہ میں حاضر ہوئے ، تو انہوں نے اپنے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ، سمرہ بن جندب ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے نشانہ بازی کر رہے تھے ، یہاں تک کہ سورج دیکھنے والے کی نظر میں افق سے دو تین نیزے کے برابر اوپر آ چکا تھا کہ اچانک وہ سیاہ ہو گیا ، ہم میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا : چلو مسجد چلیں ، قسم اللہ کی اس سورج کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے لیے آپ کی امت میں ضرور کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا ، پھر ہم مسجد گئے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے وقت میں پایا جب آپ لوگوں کی طرف نکلے ، پھر آپ آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی ، تو اتنا لمبا قیام کیا کہ ایسا قیام آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا ، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے ، پھر آپ نے رکوع کیا تو اتنا لمبا رکوع کیا کہ ایسا رکوع آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا ، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے ، پھر آپ نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا تو اتنا لمبا سجدہ کیا کہ ایسا سجدہ آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا ، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے ، پھر آپ نے ایسے ہی دوسری رکعت میں بھی کیا ، دوسری رکعت میں آپ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج صاف ہو گیا ، تو آپ نے سلام پھیرا ، اور اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی ، اور گواہی دی کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے ، اور گواہی دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، (یہ حدیث مختصر ہے) ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  5k
حدیث نمبر: 1473 --- حکم البانی: صحيح... ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے ، اور تکبیر کہی ، اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے بڑی لمبی قرآت کی ، پھر « اللہ اکبر » کہا ، اور ایک لمبا رکوع کیا ، پھر اپنا سر اٹھایا ، تو « سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لك الحمد » کہا ، پھر آپ کھڑے رہے ، اور ایک لمبی قرآت کی مگر پہلی قرآت سے کم ، پھر تکبیر کہی ، اور ایک لمبا رکوع کیا ، مگر پہلے رکوع سے چھوٹا ، پھر آپ نے « سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لك الحمد » کہا ، پھر سجدہ کیا ، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا ، اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدے پورے کیے ، آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہو گیا ، پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کیا ، تو اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی جو اس کے شایان شان تھی ، پھر فرمایا : بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، انہیں نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے ، نہ کسی کے پیدا ہونے سے ، جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھو ، جب تک کہ وہ تم سے چھٹ نہ جائے ، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے اپنے اس کھڑے ہونے کی جگہ میں ہر وہ چیز دیکھ لی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ، تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ، میں نے چاہا کہ جنت کے پھلوں میں سے ایک گچھا توڑ لوں ، جب تم نے مجھے دیکھا میں آگے بڑھا تھا ، اور میں نے جہنم کو دیکھا ، اس حال میں کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو توڑ رہا تھا جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا ، اور میں نے اس میں ابن لحی کو دیکھا ، یہی ہے جس نے سب سے پہلے سائبہ چھوڑا “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  5k
حدیث نمبر: 2820 --- حکم البانی: صحيح الإسناد... زید بن کعب بہزی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے ، آپ مکہ کا ارادہ کر رہے تھے ، اور احرام باندھے ہوئے تھے یہاں تک کہ جب آپ روحاء پہنچے تو اچانک ایک زخمی نیل گائے دکھائی پڑا ، رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ” اسے پڑا رہنے دو ، ہو سکتا ہے اس کا مالک (شکاری) آ جائے “ (اور اپنا شکار لے جائے) اتنے میں بہزی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ، اور وہی اس کے مالک (شکاری) تھے انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ گور نیل گائے آپ کے پیش خدمت ہے آپ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں ۔ تو رسول ﷺ نے ابوبکر ؓ کو حکم دیا ، تو انہوں نے اس کا گوشت تمام ساتھیوں میں تقسیم کر دیا ، پھر آپ آگے بڑھے ، جب اثایہ پہنچے جو رویثہ اور عرج کے درمیان ہے ، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ہرن اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کے درمیان کئے ہوئے ہے ، ایک سایہ میں کھڑا ہے اس کے جسم میں ایک تیر پیوست ہے ، تو ان کا (یعنی بہزی کا) گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ وہاں کھڑا ہو جائے تاکہ کوئی شخص اسے چھیڑنے نہ پائے یہاں تک کہ آپ (مع اپنے اصحاب کے) آگے بڑھ جائیں ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 137  -  4k
حدیث نمبر: 4152 --- حکم البانی: ضعيف الإسناد مرسل... مجاہد کہتے ہیں کہ (قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لیے آیا ہے ، وہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے رشتہ داروں کے لیے تھا ، وہ لوگ صدقہ و زکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے ، چنانچہ نبی اکرم ﷺ کے لیے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لیے ، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لیے اور اتنا ہی مسافروں کے لیے ۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت سے ملے تو : اللہ کے لیے ، رسول کے لیے ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے اس کا خمس ہے ، اللہ کے اس فرمان « واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن للہ خمسہ وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل » میں اللہ کا قول « لِلَّہِ » ” یعنی اللہ کے لیے ہے “ ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مال فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس ” اپنے ذکر “ سے شاید اس لیے کی ہے کہ وہ سب سے اعلیٰ درجے کی کمائی (روزی) ہے ، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی ، اس لیے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لیے ہو گا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا ، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث ، اہل علم ، اہل فقہ ، اور اہل قرآن کے لیے ، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے ، ان میں غنی (مالدار) اور فقیر سب برابر ہیں ، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لیے ہے جیسے یتیم ، مسافر وغیرہ ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے ، واللہ اعلم ۔ اسی طرح چھوٹا ، بڑا ، مرد ، عورت سب برابر ہوں گے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لیے رکھا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے ، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو ، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لیے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہو گا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے...
Terms matched: 1  -  Score: 134  -  9k
حدیث نمبر: 2464 --- حکم البانی: ضعيف... مسلم بن ثفنہ کہتے ہیں کہ ابن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کی عرافت (نگرانی) پر مقرر کیا ، اور انہیں اس بات کا حکم بھی دیا کہ وہ ان سے زکاۃ وصول کر کے لائیں ۔ تو میرے والد نے مجھے ان کے کچھ لوگوں کے پاس بھیجا کہ میں ان سے زکاۃ لے کر آ جاؤں ۔ تو میں (گھر سے) نکلا یہاں تک کہ ایک بوڑھے بزرگ کے پاس پہنچا انہیں « سعر » کہا جاتا تھا ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میرے والد نے مجھے آپ کے پاس آپ کی بکریوں کی زکاۃ لانے کے لیے بھیجا ہے ۔ انہوں نے کہا : بھتیجے ! تم کس طرح کی زکاۃ لیتے ہو ؟ میں نے کہا : ہم چنتے اور چھانٹتے ہیں یہاں تک کہ ہم بکریوں کے تھنوں کو ناپتے و ٹٹولتے ہیں (یعنی عمدہ مال ڈھونڈ کر لیتے ہیں) ۔ انہوں نے کہا : بھتیجے ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں انہیں گھاٹیوں میں سے کسی ایک گھاٹی میں اپنی بکریوں کے ساتھ تھا ، میرے پاس ایک اونٹ پر سوار دو شخص آئے ، اور انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے فرستادہ ہیں ۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کریں ۔ میں نے پوچھا : میرے اوپر ان بکریوں میں کتنی زکاۃ ہے ؟ تو ان دونوں نے کہا : ایک بکری ، میں نے دودھ اور چربی سے بھری ایک ایک موٹی تازی بکری کا قصد کیا جس کی جگہ مجھے معلوم تھی ۔ میں اسے (ریوڑ میں سے) نکال کر ان کے پاس لایا تو انہوں نے کہا : « شافع » ہے (« شافع » گابھن بکری کو کہتے ہیں) اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں گابھن جانور لینے سے روکا ہے ۔ پھر میں نے ایک اور بکری لا کر پیش کرنے کا ارادہ کیا جو اس سے کمتر تھی جس نے ابھی کوئی بچہ نہیں جنا تھا لیکن حمل کے قابل ہو گئی تھی ۔ میں نے اسے (گلّے سے) نکال کر ان دونوں کو پیش کیا ، انہوں نے کہا : ہاں یہ ہمیں قبول ہے ۔ پھر ہم نے اسے اٹھا کر انہیں پکڑا دیا ۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ اونٹ پر لاد لیا ، پھر لے کر چلے گئے ۔ ... (ض)
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  6k
حدیث نمبر: 3718 --- حکم البانی: حسن... عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ جب ہوازن کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو ہم آپ کے پاس تھے ۔ انہوں نے کہا : اے محمد ! ہم ایک ہی اصیل اور خاندانی لوگ ہیں اور ہم پر جو بلا اور مصیبت نازل ہوئی ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ، آپ ہم پر احسان کیجئے ، اللہ آپ پر احسان فرمائے گا ۔ آپ نے فرمایا : ” اپنے مال یا اپنی عورتوں اور بچوں میں سے کسی ایک کو چن لو “ ، تو ان لوگوں نے کہا : آپ نے ہمیں اپنے خاندان والوں اور اپنے مال میں سے کسی ایک کے چن لینے کا اختیار دیا ہے تو ہم اپنی عورتوں اور بچوں کو حاصل کر لینا چاہتے ہیں ، اس پر آپ نے فرمایا : ” میرے اور بنی مطلب کے حصے میں جو ہیں انہیں میں تمہیں واپس دے دیتا ہوں اور جب میں ظہر سے فارغ ہو جاؤں تو تم لوگ کھڑے ہو جاؤ اور کہو : ہم رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے آپ سارے مسلمانوں اور مومنوں سے اپنی عورتوں اور بچوں کے سلسلہ میں مدد کے طلب گار ہیں “ ۔ چنانچہ جب لوگ ظہر پڑھ چکے تو یہ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہی بات دہرائی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ ہے وہ تمہارے حوالے ہے “ ، یہ بات سن کر مہاجرین نے کہا : جو ہمارے حصے میں ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے سپرد ، اور انصار نے بھی کہا : جو ہمارے حصہ میں ہے وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے سپرد ، اس پر اقرع بن حابس ؓ نے کہا : میں اور بنو تمیم تو اپنا حصہ واپس نہیں کر سکتے ۔ عیینہ بن حصن ؓ نے بھی کہا کہ میں اور بنو فزارہ بھی اپنا حصہ دینے کے نہیں ۔ عباس بن مرداس ؓ نے کہا : میں اور بنو سلیم بھی اپنا حصہ نہیں لوٹانے کے ۔ (یہ سن کر) قبیلہ بنو سلیم کے لوگ کھڑے ہوئے اور کہا : تم غلط کہتے ہو ، ہمارا حصہ بھی رسول اللہ ﷺ کے حوالے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” لوگو ! ان کی عورتوں اور بچوں کو انہیں واپس کر دو اور جو کوئی بغیر کسی بدلے نہ دینا چاہے تو اس کے لیے میرا وعدہ ہے کہ مال فیٔ میں سے جو اللہ تعالیٰ پہلے عطا کر دے گا میں اس کے ہر گردن (غلام) کے بدلے چھ اونٹ ملیں گے “ ، یہ فرما کر آپ اپنی سواری پر سوار ہو گئے ، اور لوگوں نے آپ کو گھیر لیا (اور کہنے لگے :) ہمارے حصہ کا مال غنیمت ہمیں بانٹ دیجئیے ، اور آپ کو ایک درخت کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا جس سے آپ کی چادر الجھ کر آپ سے الگ ہو گئی تو آپ نے فرمایا : ” لوگو ! میری چادر تو واپس لا دو ، قسم ال...
Terms matched: 1  -  Score: 130  -  11k
حدیث نمبر: 2571 --- حکم البانی: ضعيف... ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل محبت کرتا ہے ، اور تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل بغض رکھتا ہے ، رہے وہ جن سے اللہ محبت کرتا ہے تو وہ یہ ہیں : ایک شخص کچھ لوگوں کے پاس گیا ، اور اس نے ان سے اللہ کے نام پر کچھ مانگا ، اور مانگنے میں ان کے اور اپنے درمیان کسی قرابت کا واسطہ نہیں دیا ۔ لیکن انہوں نے اسے نہیں دیا ۔ تو ایک شخص ان لوگوں کے پیچھے سے مانگنے والے کے پاس آیا ۔ اور اسے چپکے سے دیا ، اس کے اس عطیہ کو صرف اللہ عزوجل جانتا ہو اور وہ جسے اس نے دیا ہے ۔ اور کچھ لوگ رات میں چلے اور جب نیند انہیں اس جیسی اور چیزوں کے مقابل میں بہت بھلی لگنے لگی ، تو ایک جگہ اترے اور اپنا سر رکھ کر سو گئے ، لیکن ایک شخص اٹھا ، اور میرے سامنے گڑگڑانے لگا اور میری آیتیں پڑھنے لگا ۔ اور ایک وہ شخص ہے جو ایک فوجی دستہ میں تھا ، دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی ، لوگ شکست کھا کر بھاگنے لگے مگر وہ سینہ تانے ڈٹا رہا یہاں تک کہ وہ مارا گیا ، یا اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مند کیا ۔ اور تین شخص جن سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے یہ ہیں : ایک بوڑھا زنا کار ، دوسرا گھمنڈی فقیر ، اور تیسرا ظالم مالدار “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 128  -  4k
حدیث نمبر: 1680 --- حکم البانی: صحيح... قیس بن طلق کہتے ہیں ہمارے والد طلق بن علی ؓ نے رمضان میں ایک دن ہماری زیارت کی اور ہمارے ساتھ انہوں نے رات گزاری ، ہمارے ساتھ اس رات نماز تہجد ادا کی ، اور وتر بھی پڑھی ، پھر وہ ایک مسجد میں گئے ، اور اس مسجد والوں کو انہوں نے نماز پڑھائی یہاں تک کہ وتر باقی رہ گئی ، تو انہوں نے ایک شخص کو آگے بڑھایا ، اور اس سے کہا : انہیں وتر پڑھاؤ ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ” ایک رات میں دو وتر نہیں “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  2k
حدیث نمبر: 4357 --- حکم البانی: صحيح... جابر ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا ۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح ؓ تھے ، ہم قریش کی گھات میں تھے ، چنانچہ ہم سمندر کے کنارے ٹھہرے ، ہمیں سخت بھوک لگی یہاں تک کہ ہم نے درخت کے پتے کھائے ، اتنے میں سمندر نے ایک جانور نکال پھینکا جسے عنبر کہا جاتا ہے ، ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر استعمال کیا ، تو ہمارے بدن صحیح ثابت ہو گئے ، ابوعبیدہ ؓ نے اس کی ایک پسلی لی پھر فوج میں سے سب سے لمبے شخص کو اونٹ پر بٹھایا ، وہ اس کے نیچے سے گزر گیا ، پھر ان لوگوں کو بھوک لگی ، تو ایک شخص نے تین اونٹ ذبح کئے ، پھر ابوعبیدہ ؓ نے اسے روک دیا ، (سفیان کہتے ہیں : ابوالزبیر جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں) ، پھر ہم نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا ، تو آپ نے فرمایا : ” کیا اس کا کچھ بقیہ تمہارے پاس ہے ؟ “ پھر ہم نے اس کی آنکھوں کی چربی کا اتنا اتنا گھڑا (بھرا ہوا) نکالا اور اس کی آنکھ کے حلقے میں سے چار لوگ نکل گئے ، ابوعبیدہ کے ساتھ ایک تھیلا تھا ، جس میں کھجوریں تھیں وہ ہمیں ایک مٹھی کھجور دیتے تھے پھر ایک ایک کھجور ملنے لگی ، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کے نہ ملنے کا احساس ہوا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
حدیث نمبر: 82 --- حکم البانی: صحيح ق لكن ليس عند خ ذكر الناصية والعمامة... مغیرہ ؓ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ نے میری پیٹھ پر ایک چھڑی لگائی اور آپ مڑے تو میں بھی آپ کے ساتھ مڑ گیا ، یہاں تک کہ آپ ایک ایسی جگہ پر آئے جو ایسی ایسی تھی ، اور اونٹ کو بٹھایا پھر آپ چلے ، مغیرہ ؓ کہتے ہیں : تو آپ چلتے رہے یہاں تک کہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ، پھر آپ (واپس) آئے ، اور پوچھا : ” کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ “ میرے پاس میری ایک چھاگل تھی ، اسے لے کر میں آپ کے پاس آیا ، اور آپ پر انڈیلا ، تو آپ نے اپنے دونوں ہتھیلیوں کو دھویا ، چہرہ دھویا ، اور دونوں بازو دھونے چلے ، تو آپ ایک تنگ آستین کا شامی جبہ پہنے ہوئے ہوئے تھے (آستین چڑھ نہ سکی) تو اپنا ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکالا ، اور اپنا چہرہ اور اپنے دونوں بازو دھوئے - مغیرہ ؓ نے آپ کی پیشانی کے کچھ حصے اور عمامہ کے کچھ حصے کا ذکر کیا ، ابن عون کہتے ہیں : میں جس طرح چاہتا تھا اس طرح مجھے یاد نہیں ہے ، پھر آپ ﷺ نے دونوں موزوں پر مسح کیا ، پھر فرمایا : ” اب تو اپنی ضرورت پوری کر لے “ ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے حاجت نہیں ، تو ہم آئے دیکھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف لوگوں کی امامت کر رہے تھے ، اور وہ نماز فجر کی ایک رکعت پڑھا چکے تھے ، تو میں بڑھا کہ انہیں آپ ﷺ کی آمد کی خبر دے دوں ، تو آپ ﷺ نے مجھے منع فرما دیا ، چنانچہ ہم نے جو نماز پائی اسے پڑھ لیا ، اور جو حصہ فوت ہو گیا تھا اسے (بعد میں) پورا کیا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  5k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 Next >>


Search took 0.181 seconds