حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "سلسلہ احادیث صحیحہ"
1 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 1390 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 375 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1709... سیدنا ابن ادرع ؓ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں : میں ایک رات نبی کریم ﷺ کا پہرہ دے رہا تھا ، آپ ﷺ کسی کام کے لیے نکلے ، جب مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ بھی پکڑ لیا ، پس ہم چل پڑے اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآواز بلند تلاوت کر رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا : ” قریب ہے کہ یہ ریاکاری کرنے والا بن جائے ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ قرآن کی بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہے ( (بھلا اس میں کیا حرج ہے ؟) آپ ﷺ نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا : ” تم اس دین کو غلبے کے ساتھ نہیں پا سکتے ۔ “ وہ کہتے ہیں : پھر ایک رات کو ایسا ہوا کہ آپ ﷺ کسی ضرورت کے لیے نکلے ، جب کہ میں ہی پہرہ دے رہا تھا ، (اسی طرح) آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا (اور ہم چل پڑے) اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوز بلند قرآن کی تلاوت کر رہا تھا ۔ اب کی بار میں نے کہا : قریب ہے کہ یہ شخص ریاکاری کرنے والا بن جائے ۔ لیکن آپ ﷺ نے (میرا رد کرتے ہوئے) فرمایا : ” ہرگز نہیں ، یہ تو بہت توبہ کرنے والا ہے ۔ “ جب میں نے دیکھا تو وہ عبداللہ ذو النجادین تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 123  -  4k
حدیث نمبر: 2137 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2826... جبیر بن حیہ کہتے ہیں : مجھے میرے باپ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے ہرمزان سے کہا : تم تو مجھ سے بچ گئے ہو ، اب ہماری خیرخواہی تو کرو ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے اسے امان دیتے ہوئے کہا : کوئی حرج نہیں ، تم بات کر سکتے ہو ۔ سو ہرمزان نے کہا : جی ہاں ، آج فارس کا ایک سر ہے اور دو بازو ۔ سیدنا عمر ؓ : سر کہاں ہے ؟ ہرمزان : نہاوند ، جو بندار کے ساتھ ہے ، اس کے ساتھ کسری کے کمانڈر اور اہل اصفہان بھی ہیں ۔ سیدنا عمر ؓ : دو بازوں کہاں ہیں ؟ ہرمزان : راوی کہتا ہے کہ اس نے جو جگہ ذکر کی تھی ، وہ اسے بھول گئی ہے ، پھر ہرمزان نے کہا : بازؤوں کو کاٹ دو ، تاکہ سر کمزور ہو جائے ۔ سیدنا عمر ؓ : اللہ کے دشمن ! تو جھوٹ بول رہا ہے ، ہم پہلے سر پر چڑھائی کریں گے ، اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ملیا میٹ کر دے گا ، اگر ایسے ہو گیا تو بازو خود بخود دم توڑ جائیں گے ۔ پھر سیدنا عمر ؓ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ جنگ میں بنفس نفیس شرکت کریں ۔ لیکن لوگوں نے کہا : اے امیر المؤمنین ! ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ خود عجموں کی طرف نہ جائیں ، اگر آپ شہید ہو گئے تو مسلمانوں کا نظام درہم برہم ہو جائے گا ، آپ مجاہدین کے لشکروں کو بھیج دیں ۔ (آپ نے اسی رائے پر عمل کیا اور) اور اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر ، مہاجرین اور انصار سمیت اہل مدینہ کو اہل فارس سے لڑنے کے لیے بھیج دیا ۔ ادھر سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ کو خط لکھا کہ وہ اہل بصرہ کو لے کر اور سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ کو خط لکھا کہ وہ اہل کوفہ کو لے کر نہاوند جمع ہو جائیں ۔ جب تم سارے جمع ہو جاؤ تو تمہارے امیر سیدنا نعمان بن مقرن مزنی ؓ ہوں گے ۔ جب یہ لشکر نہاوند میں جمع ہوئے تو (عامل کسری) بندار ، جو کہ آتش پرست تھا ، نے ان کی طرف پیغام بھیجا : عربوں کی جماعت ! اپنا قاصد بھیجو تاکہ بات کی جا سکے ۔ لوگوں نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ کا انتخاب کیا ۔ جبیر بن حیہ کہتے ہیں : گویا میں اب بھی مغیرہ کو دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک دراز قد آدمی تھے ، ان کے لمبے لمبے بال تھے اور وہ کانے بھی تھے ۔ پس وہ چلے گئے اور جب (گفت و شنید کر کے) واپس آئے تو ہم نے پوچھا : (کہ کیا کر کے آئے ہو) ۔ انہوں نے کہا : آتش پرست نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور پوچھا : اس عربی کے لیے ہم کیسا ماحول بنائیں ؟ کیا حس...
Terms matched: 1  -  Score: 123  -  30k
حدیث نمبر: 3871 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2695... سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے باپ سیدنا عبداللہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق ، سیدنا عمر بن خطاب ؓ اور دوسرے صحابہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، وہ سب سے بڑے گناہوں کا تذکرہ کرنے لگے ۔ لیکن ان کے پاس کوئی ایسی علمی بات نہ تھی ، جس پر موضوع ختم ہو سکے ۔ پس انہوں نے مجھ (‏‏‏‏ ‏‏‏‏عبداللہ) کو سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کے پاس بھیجا ، تاکہ میں ان سے اس کے بارے میں سوال کر سکوں ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ سب سے بڑا گناہ شراب نوشی ہے ۔ میں ان کے پاس واپس آیا اور انہیں یہ بات بتلائی ، لیکن انہوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور وہ سارے اٹھ کھڑے ہوئے ، سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ کے گھر پہنچے ۔ اب کی بار انہوں نے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”بنو اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک آدمی کو پکڑا اور اسے شراب پینے ، بچے کو قتل کرنے ، زنا کرنے اور خنزیر کا گوشت کھانے میں اختیار دیتے ہوئے کسی (‏‏‏‏ایک جرم کا ارتکاب کرنے پر مجبور کیا) ، وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے گا ۔ اس نے شراب پی لی ۔ لیکن جب شراب پی تو وہ ان تمام جرائم سے نہ رک سکا جو وہ اس سے چاہتے تھے ۔ “ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا تھا : ”جو آدمی شراب پیئے گا ، چالیس دن اس کی نماز قبول نہ ہو گی ، جو آدمی اس حال میں مرے گا کہ اس کے مثانے میں کچھ شراب ہو تو اس پر جنت حرام ہو گی اور اگر وہ (‏‏‏‏شراب نوشی کے بعد) چالیس دنوں کے اندر اندر مر گیا تو وہ جاہلیت والی موت مرے گا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  5k
حدیث نمبر: 2938 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3978... سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جمع ہو جاؤ ، میں تم پر ایک تہائی قرآن کی تلاوت کرنے لگا ہوں ۔ “ جمع ہونے والے جمع ہو گئے ، آپ ﷺ تشریف لائے اور « قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ » کی تلاوت کر کے واپس چلے گئے ۔ ہم ایک دوسرے کو کہنے لگے : ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے کوئی (‏‏‏‏نئی) خبر آئی ہے جس نے آپ ﷺ کو گھر داخل کر دیا ہے ، پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا : ”میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں تم پر ایک تہائی قرآن کی تلاوت کروں گا ۔ آگاہ ہو جاؤ ! (‏‏‏‏سورۃ الاخلاص) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے (‏‏‏‏جس کی تلاوت میں کر چکا ہوں) ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  3k
حدیث نمبر: 3872 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 17... سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کے نبی ایوب علیہ السلام اٹھارہ برس بیمار رہے ۔ قریب و بعید کے تمام رشتہ دار بےرخی کر گئے ، البتہ ان کے دو بھائی صبح و شام ان کے پاس آتے جاتے تھے ۔ ایک دن ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : آیا تو جانتا ہے ، اللہ کی قسم ! (‏‏‏‏میرا خیال یہ ہے کہ) ایوب نے کوئی ایسا گناہ کیا ہے ، جو جہانوں میں سے کسی فرد نے نہیں کیا ؟ اس کے ساتھی نے کہا : وہ کون سا ؟ اس نے کہا : (‏‏‏‏دیکھو) اٹھارہ سال ہو چکے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم نہیں کیا کہ اس کی بیماری دور کر دے ۔ جب وہ بوقت شام ایوب کے پاس آئے تو ایک نے بے صبری میں وہ بات ذکر کر دی ۔ ایوب علیہ السلام نے (‏‏‏‏ان کا الزام سن کر) کہا : جو کچھ تم کہہ رہے ہو ، اس قسم کی کوئی بات میرے علم میں تو نہیں ہے ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ دو آدمیوں کے پاس سے میرا گزر ہوتا تھا ، وہ آپس میں جھگڑ رہے ہوتے تھے ، وہ مجھے اللہ تعالیٰ ّ کا واسطہ دے دیتے اور میں اپنے گھر واپس چلا جاتا تھا اور اس وجہ سے ان دونوں کی طرف سے کفارہ ادا کر دیتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہوں نے مجھے ناحق انداز میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ نہ دیا ہو ۔ ایوب علیہ السلام قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تھے ، جب وہ قضائے حاجت کر لیتے تو ان کی بیوی ان کو ہاتھ سے پکڑ کر سہارا دیتی تھی ، حتیٰ کہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ جاتے تھے ۔ ایک دن وہ لیٹ ہو گئے اور (‏‏‏‏ ان کی بیوی ان کے انتظار میں رہی) اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی : ”‏‏‏‏اپنا پاؤں مارو ، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے ۔ “ (‏‏‏‏سورۂ ص : ۴۲) ا‏‏‏‏دھر ان کی بیوی کو خیال آ رہا تھا کہ وہ دیر کر رہے ہیں ۔ جب وہ واپس پلٹے تو اللہ تعالیٰ ان کی تمام بیماریاں دور کر چکے تھے اور وہ بہت حسین لگ رہے تھے ۔ جب ان کی بیوی نے ان کو دیکھا تو (‏‏‏‏نہ پہچان سکی اور ان سے) پوچھا : اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت پیدا کرے ، کیا تو نے اللہ کے نبی ، جو بیمار ہیں ، کو دیکھا ہے ؟ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہیں کہ جب وہ نبی صحتمند تھے تو تجھ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے ۔ انہوں نے کہا : میں وہی (‏‏‏‏ایوب) ہوں (‏‏‏‏اب اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے) ۔ ایوب علیہ السلام کے دو کھلیان تھے ، ایک گندم کا تھا اور...
Terms matched: 1  -  Score: 120  -  8k
حدیث نمبر: 4033 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3607... عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے اس کو سیدنا ابوسفیان بن حرب ؓ سے بیان کیا ، سیدنا ابوسفیان بن حرب ؓ نے کہا (‏‏‏‏شاہ روم) ہرقل نے اس کو بلانے کے لیے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا ، جبکہ وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا ، اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا ، جب رسول اللہ ﷺ نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا ، ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچ گئے ، ہرقل نے دربار طلب کیا تھا ، اس کے اردگرد روم کے بڑے بڑے لوگ (‏‏‏‏علما ، وزرا اور امرا) بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا ، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں : میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں (‏‏‏‏یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (‏‏‏‏ابوسفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو ، پھر اپنے ترجمان سے کہا : ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (‏‏‏‏محمد ﷺ ) کے حالات پوچھتا ہوں ، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا ۔ (‏‏‏‏ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ (ﷺ) کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا ۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی ۔ (‏‏‏‏ہم آسانی کے لیے روایت کا ترجمہ مکالمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں) ہرقل : تم لوگوں میں اس شخص کا خاندان کیسا ہے ؟ ابوسفیان : وہ بڑے عالی نسب والا ہے ۔ ہرقل : اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی ؟ ابوسفیان : نہیں ۔ ہرقل : اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے ؟ ابوسفیان : نہیں ۔ ہرقل : بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے ؟ ابوسفیان : کمزوروں نے کی ہے ۔ ہرقل : اس کے تابعدار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟ ابوسفیان : بڑھ رہے ہیں ۔ ہرقل : کیا کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے ؟ ابوسفیان نہیں ۔ ہرقل : کیا اس دعوی نبوت سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے ؟ ابوسفیان : نہیں ۔ ہرقل : کیا وہ دھوکہ کرتا ہے ؟ ابوسفیان : نہیں اور اب ...
Terms matched: 1  -  Score: 120  -  30k
حدیث نمبر: 3869 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2640... سیدنا ابوسعید ؓ کہتے ہیں : کیا میں تمہیں وہ حدیث بیان نہ کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سنی ، میرے کانوں نے وہ حدیث سنی اور میرے دل نے اسے یاد کیا ، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ”ایک آدمی نے ننانوے افراد قتل کر دیے ، پھر اسے توبہ کا خیال آیا ۔ اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کی بابت لوگوں سے پوچھا ؟ اسے ایک راہب (‏‏‏‏پادری) کا پتہ بتایا گیا ۔ وہ اس کے پاس پہنچا اور پوچھا کہ وہ ننانوے آدمی قتل کر چکا ہے ، کیا ایسے فرد کے لیے توبہ ہے ؟ اس نے جواب دیا : کیا ننانوے افراد کے قتل کے بعد ؟ (‏‏‏‏ایسے شخص کے لیے کوئی توبہ نہیں) ۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور اسے قتل کر کے سو کی تعداد پوری کر لی ۔ پھر اسے توبہ کا خیال آیا ، اس نے لوگوں سے اہل زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا ۔ اس کے لیے ایک عالم کی نشاندہی کی گئی ، وہ اس کے پاس گیا اور کہا میں سو افراد قتل کر چکا ہوں ، کیا میرے لیے توبہ (‏‏‏‏کی کوئی گنجائش) ہے ۔ اس نے کہا تیرے اور تیری توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے ؟ لیکن تو اس طرح کر کہ اس خبیث بستی سے نکل کر فلاں فلاں کسی نیک بستی کی طرف چلا جا ۔ کیونکہ وہاں کے لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، تو بھی ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اپنے علاقے کی طرف مت لوٹنا کیونکہ یہ بری سر زمین ہے ۔ وہ نیک بستی کی طرف چل پڑا ، لیکن راستے میں اسے موت آ گئی ، وہ اپنے سینے کے سہارے سرک کر پہلی زمین سے دور ہو کر (‏‏‏‏تھوڑا سا) دوسری طرف ہو گیا ۔ (‏‏‏‏اسے لینے کے لیے) رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آ گئے اور ان کے مابین جھگڑا شروع ہو گیا ۔ ابلیس نے کہا : میں اس کا زیادہ حقدار ہوں ، اس نے کبھی بھی میری نافرمانی نہیں کی تھی ۔ لیکن ملائکہ رحمت نے کہا : یہ تائب ہو کر آیا تھا اور دل کی پوری توجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والا تھا اور ملائکہ عذاب نے کہا : اس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو ایک آدمی کی شکل میں بھیجا ۔ انہوں نے اس کے سامنے یہ جھگڑا پیش کیا ۔ اس نے کہا دیکھو کہ کون سی بستی اس کے قریب ہے ، اسی بستی والوں سے اس کو ملا دیا جائے ۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو (‏‏‏‏جہاں سے وہ آ رہا تھا) حکم دیا کہ تو دور ہو جا اور ارض صالحین (‏‏‏‏جس کی طرف وہ جا رہا تھا) حکم دیا کہ تو ...
Terms matched: 1  -  Score: 119  -  9k
حدیث نمبر: 3789 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 373... سیدنا عتبہ بن عبد سلمی ؓ ، جو اصحاب رسول میں سے تھے ، نے ہمیں بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کے نبوی معاملے کی ابتداء کیسے ہوئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میری دایہ کا تعلق بنو سعد بن بکر قبیلے سے تھا ، میں اور اس کا بیٹا بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے باہر چلےگئے اور اپنے ساتھ زاد راہ نہ لیا ۔ میں نے کہا : میرے بھائی ! جاؤ اور اپنی ماں سے اشیاء خوردنی لے آؤ ۔ پس میرا بھائی چلا گیا اور میں بکریوں کے پاس ٹھہرا رہا ۔ (‏‏‏‏میں کیا دیکھتا ہوں کہ) گدھ کی طرح کے دو سفید پرندے متوجہ ہوئے ، ایک نے دوسرے سے کہا : کیا یہ آدمی وہی ہے ؟ دوسرے نے کہا : جی ہاں ۔ پھر وہ لپکتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے ، مجھے پکڑا اور گدّی کے بل لٹا دیا ، میرا پیٹ چاک کیا ، میرا دل نکالا اور اسے چیرا دیا ، اس سے گاڑھے خون کے دو سیاہ ٹکڑے نکالے ۔ پھر ایک نے دوسر ے سے کہا : برف والا پانی لاؤ ۔ پس اس نے اس پانی سے میرا پبٹ دھویا ، پھر کہا : اولوں والا پانی لاؤ ۔ اس سے اس نے میرا دل دھویا اور پھر کہا : سکینت لاؤ ۔ اس (‏‏‏‏اطمنان و سکون) کو میرے دل میں چھڑک دیا ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا : ٹانکے لگا دو ۔ پس اس نے ٹانکے لگا دیے اور اس پر مہر نبوت ثبت کر دی ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا : اس (‏‏‏‏محمد ﷺ ) کو (‏‏‏‏ترازو کے) ایک پلڑے میں اور دوسرے میں اس کی امت کے ہزار افراد رکھو ۔ ‏‏‏‏“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” (‏‏‏‏جب انہوں نے وزن کرنے کے لیے ترازو اٹھایا تو) میں نے دیکھا کہ وہ ہزار آدمی (‏‏‏‏میرے مقابلے میں کم وزن ہونے کی وجہ سے) اتنے اوپر اٹھ گئے کہ مجھے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھ پر گر پڑیں ۔ پھر اس نے کہا : اگر ان کا وزن ان کی پوری امت سے کیا جائے تو یہ (‏‏‏‏ محمد ﷺ ) وزنی ثابت ہوں گے ، پھر وہ چلےگئے اور مجھے چھوڑ گئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اس وقت میں بہت زیادہ گھبرا گیا اپنی دایہ کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ اسے سنا دیا ، اسے یہ اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی عقل میں کوئی فتور نہ آ گیا ہو ۔ اس نے کہا : میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتی ہوں ۔ پھر اس نے اونٹ پر کجاوہ رکھا ، مجھے کجاوے پر بٹھایا اور خود میرے پیچھے سوار ہو گئی اور مجھے میری ماں (‏‏‏‏آمنہ) کے پاس پہنچا دیا اور میری ماں کو کہا : میں نے ...
Terms matched: 1  -  Score: 118  -  8k
حدیث نمبر: 2111 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2665... سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب فارس (ایران) اور روم کے خزانے تمہارے لیے فتح کر لیے جائیں گے تو تم اس وقت کس قسم کے لوگ ہو گے ؟ “ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا : ہم وہی بات کہیں گے ، جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”کوئی اور بات بھی ہے ؟ پہلے تو تم بڑھ چڑھ کر حصہ لو گے ، پھر ایک دوسرے سے حسد کرو گے ، پھر باہم قطع تعلق ہو کر ایک دوسرے سے دشمنی کرو گے ، پھر ایک دوسرے سے منافرت رکھو گے اور اس قسم کی (قبیح عادتیں) اپناؤ گے اور پھر مہاجروں کے گھروں پر ہلہ بول دو گے اور ان کو ایک دوسرے سے لڑا دو گے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 118  -  3k
حدیث نمبر: 85 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3587... علی بن حسین سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں : مجھے ایک انصاری صحابی نے بیان کیا کہ وہ ایک رات کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، ایک سیارہ ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : ” تم جاہلیت میں اس قسم کے سیارے کے بارے میں کیا کہتے تھے ؟ “ انہوں نے کہا : (حقیقی صورت حال تو) اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ ہم یوں کہا کرتے تھے : آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کسی کی موت و حیات کی وجہ سے سیارے نہیں ٹوٹتے ۔ (درحقیقت) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو حاملین عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، پھر اس سے نچلے والے آسمان کے فرشتے اللہ کی تسبیح شروع کرتے ہیں ، حتیٰ کہ آسمان دنیا والے فرشتے بھی تسبیح میں مصروف ہو جاتے ہیں پھر (ساتویں) آسمان والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ انہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ کچھ کہا ، اسی طرح ایک آسمان والے دوسرے سے پوچھتے ہیں اور بات چلتے چلتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے ، (جب آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی بات ہوتی ہے تو اس کے نیچے تک پہنچ جانے والے) جن بات اچک کر اپنے (شیطانی) اولیا تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں ، (ان کو جلانے کے لیے) ان پر سیارے گرائے جاتے ہیں ۔ (وہ بسا اوقات جل جاتے ہیں اور بعض اوقات نکل آتے ہیں) وہ جو کچھ وہاں سے سن کر آتے ہیں وہ تو حق ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جھوٹ گھڑتے ہیں اور اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  5k
حدیث نمبر: 965 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2655... سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے ، آپ کے پاس کچھ صحابہ کرام بیٹھے آپ کے ساتھ محو گفتگو تھے ، اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور پوچھا : کھجوروں کی اتنی (مقدار) پر کتنی زکوٰۃ ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اتنی کھجوریں ۔ “ وہ کہنے لگا : فلاں آدمی نے مجھ پر زیادتی کی ہے اور اتنی کھجوریں لی ہیں ، یعنی ایک صاع زیادہ وصول کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس وقت کیا ہو گا جب تم پر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جو تم پر اس سے کہیں زیادہ زیادتی کریں گے ۔ “ لوگ غور و حوض میں پڑ گئے اور اس حدیث نے انہیں ششدر کر دیا ، حتیٰ کہ ایک آدمی یوں بول اٹھا : اے اللہ کے رسول ! اگر ایک آدمی آپ سے دور اپنے اونٹوں ، مویشیوں اور کھیتی میں فروکش ہے اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے ، لیکن اس پر زیادتی کی جاتی ہے اب وہ کیا کرے اور وہ ہے بھی غائب ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی ، اس حال میں کہ اس کا نفس راضی ہو اور وہ اللہ کی رضا مندی اور یوم آخرت کا متلاشی ہو ، اس نے اپنے مال کا کوئی حصہ نہیں چھپایا ، اور نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی ، لیکن اس پر زیادتی کی گئی ، جس کی وجہ سے اس نے اپنا اسلحہ لیا اور لڑنا شروع کر دیا ، لیکن قتل ہو گیا ، تو وہ شہید ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  4k
حدیث نمبر: 3604 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3395... سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”لوگ تین حالتوں پر جمع ہوں گے : رغبت کرنے والے اور ڈرنے والے ، دو دو آدمی ایک اونٹ پر ، تین تین آدمی ایک اونٹ پر ، چار چار آدمی ایک اونٹ پر اور دس دس آدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر آئیں گے ، باقی لوگوں کو آگ اکھٹا کرے گی ، جہاں وہ قیلولہ کریں گے وہ وہاں قیلولہ کرے گی ، جہاں وہ رات گزاریں گے وہ وہاں رات گزارے گی ، جہاں وہ صبح کریں گے وہ وہاں صبح کرے گی اور جہاں وہ شام کریں گے وہ وہاں شام کرے گی ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  2k
حدیث نمبر: 1299 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 69... سیدنا نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود کو قائم کرنے والا ہے اور اس کی جو ان حدود میں مبتلا ہونے اور کوتاہی کرنے والا ہے ، ان لوگوں کی طرح ہے (جو ایک کشتی میں سوار ہوئے) انہوں نے کشتی کے (اوپر اور نیچے والے حصوں کے لیے) قرعہ اندازی کی ، پس ان میں سے بعض اس کی بالائی منزل پر اور بعض نچلی منزل پر بیٹھ گئے ، نچلی منزل والوں کو جب پانی لینے کی طلب ہوتی تو وہ اوپر آتے اور بالا نشینوں سے گزرتے ، لیکن انہیں ناگوار گزرتا (ایک روایت میں یوں ہے : نچلی منزل والے پانی لینے کے لیے اوپر چڑھتے ، تو اوپر والے لوگوں پر پانی گر جاتا تھا ، اس لیے اوپر والی منزل کے لوگوں نے کہا : ہم تمہیں اوپر نہیں آنے دیں گے ، تم اوپر چڑھ آتے ہو اور ہمیں تکلیف دیتے ہو) انہوں نے سوچا کہ اگر ہم اپنے نچلے والے حصے میں سوراخ کر لیں اور اس سے پانی حاصل کر لیں ، تاکہ اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو (اور ایک روایت میں ہے : تاکہ ہم اوپر والوں کے پاس سے گزر کر انہیں تکلیف نہ دیں) ۔ (اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے) ایک آدمی نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کے نچلے حصے میں کریدنا شروع کر دیا ۔ اوپر والے لوگ اس کے پاس آئے اور کہا : کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے کہا : ! تم تکلیف محسوس کرتے ہو اور ہمیں پانی کی ضرورت ہے ۔ اگر اوپر والے لوگ نیچے والوں کو اور ان کے ارادے کو نظر انداز کر دیں گے تو وہ سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے ، اور اگر وہ انہیں پکڑ لیں تو خود بھی نجات پا جائیں گے اور ان کو بھی بچا لیں گے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  5k
حدیث نمبر: 1393 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2739... سیدنا حذیفہ ؓ کہتے ہیں : لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا تاکہ اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں ۔ (ایک دن) میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر کا زمانہ گزار رہے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اسلام ، جسے ہم نے قبول کیا ، کو اور آپ کو ہماری طرف بھیچا ۔ (اب سوال یہ ہے کہ) کیا اس خیر کے بعد پھر شر (کا غلبہ ہو گا) جیسا کہ پہلے تھا ؟ آپ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا : ”حذیفہ ! اللہ کی کتاب پڑھ اور اس کے احکام پر عمل کر ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں ۔ “ میں نے کہا : اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تلوار ۔ “ میں نے کہا : کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی ؟ اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تلوار کے بعد خیر کا کوئی حصہ باقی رہے گا ؟ (یعنی لڑائی آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں ۔ “ اور ایک روایت میں ہے کہ امارت (اور جماعت) تو قائم رہے گی ، لیکن معمولی چون وچرا اور دلوں میں نفرتیں اور کینے ہوں گے ، ظاہری صلح ، اور اندرون خانہ لڑائی ہو گی ۔ میں نے کہا : کینے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”میرے بعد ایک قوم یا مختلف حکمران ہوں گے جو میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور میری سیرت کے علاوہ کوئی اور سیرت اختیار کریں گے ، تو ان کے بعض امور کو اچھا سمجھے گا اور بعض کو برا اور ان میں ایسے لوگ بھی منظر عام پر آئیں گے جو انسانوں کے روپ میں ہوں گے ، لیکن ان کے دل شیطانی ہوں گے ۔ “ ایک روایت میں ہے : میں نے کہا : ظاہری صلح باطن لڑائی اور دلوں میں کینہ ، ان چیزوں کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”لوگوں کے دل (ان خصائل حمیدہ) کی طرف نہیں لوٹیں گے ، جن سے وہ پہلے متصف ہوں گے ۔ “ میں نے کہا : کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں ، اندھا دھند فتنہ ہو گا ، اور (اس میں ایسے لوگ ہوں گے کہ گویا کہ) وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہیں ، جو آدمی ان کی بات مانے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ایسے لوگوں کی صفات بیان کیجئیے آپ ﷺ نے فرمایا : ”وہ ہماری نسل کے ہوں گے اور ہما ری طرح با تیں کریں گے ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر ایسا زمانہ مجھے پا لے تو میرے لیے کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا...
Terms matched: 1  -  Score: 113  -  12k
حدیث نمبر: 390 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2739... سیدنا حذیفہ ؓ کہتے ہیں : لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا تاکہ اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں ۔ (ایک دن) میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر کا زمانہ گزار رہے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ، جسے ہم نے قبول کیا ، اور آپ کو ہماری طرف بھیجا ۔ (اب سوال یہ ہے کہ) کیا اس خیر کے بعد پھر شر (کا غلبہ ہو گا) جیسا کہ پہلے تھا ؟ آپ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا : ” حذیفہ ! اللہ کی کتاب پڑھ اور اس کے احکام پر عمل کر ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں ۔ “ میں نے کہا : اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تلوار ۔ “ میں نے کہا : کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی ؟ اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تلوار کے بعد خیر کا کوئی حصہ باقی رہے گا ؟ (یعنی لڑائی کے بعد اسلام باقی رہے گا ؟) آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں ۔ “ اور ایک روایت میں ہے کہ ” امارت (اور جماعت) تو قائم رہے گی ، لیکن معمولی چون و چرا اور دلوں میں نفرتیں اور کینے ہوں گے اور ظاہری صلح ، لیکن بباطن لڑائی ہو گی ۔ “ میں نے کہا : کینے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے بعد ایک قوم یا مختلف حکمران ہوں گے جو میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور میری سیرت کے علاوہ کوئی اور سیرت اختیار کریں گے ، تو ان کے بعض امور کو اچھا سمجھے گا اور بعض کو برا اور ان میں ایسے لوگ بھی منظر عام پر آئیں گے جو انسانوں کے روپ میں ہوں گے ، لیکن ان کے دل شیطانی ہوں گے ۔ “ ایک روایت میں ہے : میں نے کہا : ظاہری صلح بباطن لڑائی اور دلوں میں کینہ ، ان چیزوں کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” لوگوں کے دل (ان خصائل حمیدہ) کی طرف نہیں لوٹیں گے ، جن سے وہ پہلے متصف ہوں گے ۔ “ میں نے کہا : کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں ، اندھا دھند فتنہ ہو گا ، اور (اس میں ایسے لوگ ہوں گے کہ گویا کہ) وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہیں ، جو آدمی ان کی بات مانے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ایسے لوگوں کی صفات بیان کیجئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ ہماری نسل کے ہوں گے اور ہماری طرح باتیں کریں گے ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر ایسا زمانہ مجھے پا لے تو ...
Terms matched: 1  -  Score: 113  -  12k
حدیث نمبر: 1047 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 43... سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”عائشہ ! اگر تیری قوم کا عہد ، زمانہ شرک کے قریب قریب نہ ہوتا اور میرے پاس کعبہ کی عمارت (کو مکمل کرنے کے) اخراجات بھی نہیں ہیں ، تو میں کعبہ کے خزانے کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دیتا ، کعبہ کی عمارت کو گرا دیتا ، اس کو زمین کے ساتھ ملا دیتا ، پھر ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر تعمیر کرتا ، پھر اس کے دو دروازے رکھتا جو (‏‏‏‏بلند ہونے کی بجائے) زمین سے ملے ہوتے ، ایک دروازہ مشرقی ہوتا ، جس سے لوگ داخل ہوتے اور ایک مغربی ہوتا ، جس سے لوگ نکل جاتے اور حطیم کی چھ ہاتھ چھوڑی ہوئی جگہ کو کعبہ کی عمارت میں داخل کر دیتا ، کیونکہ قریشیوں نے جب کعبہ کی تعمیر کی تھی تو انہوں نے (اخراجات کی کمی کے باعث اصل عمارت) میں کمی کر دی تھی ۔ (عائشہ !) اگر میرے بعد تیری قوم والے دوبارہ اس کی تعمیر کرنا چاہیں تو آؤ میں تمہارے لیے چھوڑی ہوئی جگہ کی نشاندہی کر دیتا ہوں ۔ “ پھر آپ ﷺ نے ان کو سات ہاتھ کے لگ بھگ جگہ دکھائی ۔ ایک روایت میں ہے : سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں : میں نے (کعبہ کی ایک طرف کے) گھیرے یا حطیم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ آیا یہ بیت اللہ کا حصہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں ۔ “ میں نے کہا : تو پھر (قریشیوں نے) اس کو (عمارت میں) داخل کیوں نہیں کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تیری قوم کے لیے اخراجات کم پڑ گئے تھے ۔ “ میں نے کہا : بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تیری قوم (قریش) نے (جان بوجھ کر) ایسے کیا ، تاکہ اپنی مرضی کے مطابق بعض لوگوں کو داخل کریں اور مرضی کے مطابق بعض لوگوں کو روک لیں ۔ “ ایک روایت میں ہے : انہوں نے ایسا اپنی طاقت (اور فخر) کی بنا پر کیا تاکہ وہی داخل ہو سکے ، جس کے بارے میں ان کا ارادہ ہو ۔ (جس آدمی کے داخلے کے بارے میں اس کی مرضی نہیں ہوتی تھی تو) وہ اسے چھوڑ دیتے ، وہ داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھتا ، لیکن جب داخل ہونے لگتا تو وہ اسے دھکا دے دیتے اور وہ گر جاتا تھا ۔ اگر تیری قوم کا عہد ، زمانہ جاہلیت کے قریب قریب نہ ہونا ، تو تو دیکھتی کہ میں حطیم کو بیت اللہ کی عمارت میں داخل کر دیتا اور دروازے کو زمین کے ساتھ ملا دیتا ، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان لوگوں کے دل اس کو اجنبی اور عجیب سمجھنے لگیں گے ۔ “ جب سیدنا عبداللہ...
Terms matched: 1  -  Score: 113  -  9k
حدیث نمبر: 3631 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2739... سیدنا حذیفہ ؓ کہتے ہیں ! لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا تاکہ اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں (‏‏‏‏ ایک دن) میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر کا زمانہ گزار رہے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اسلام ، جسے ہم نے قبول کیا ، کو اور آپ کو ہماری طرف بھیجا ۔ (‏‏‏‏ اب سوال یہ ہے کہ) کیا اس خیر کے بعد پھر شر (‏‏‏‏کا غلبہ ہو گا) جیسا کہ پہلے تھا ؟ آپ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا : ”حذیفہ ! اللہ کی کتاب پڑھ اور اس کے احکام پر عمل کر ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”ہاں ۔ “ میں نے کہا اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تلوار ۔ “ میں نے کہا کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی ؟ اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تلوار کے بعد خیر کا کوئی حصہ باقی رہے گا ؟ (‏‏‏‏یعنی لڑائی کے بعد اسلام باقی رہے گا ؟) آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں ۔ “ اور ایک روایت میں ہے کہ ”امارت (‏‏‏‏اور جماعت) تو قائم رہے گی ، لیکن معمولی چوں و چرا اور دلوں میں نفرتیں اور کینے ہوں گے اور ظاہری صلح ، لیکن بباطن لڑائی ہو گی ۔ “ میں نے کہا : کینے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”میرے بعد ایک قوم یا مختلف حکمران ہو گے جو میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور میری سیرت کے علاوہ کوئی اور سیرت اختیار کریں گے ، تو ان کے بعض امور کر اچھا سمجھے گا اور بعض کو برا اور ان میں ایسے لوگ بھی منظر عام پر آئیں گے جو انسانوں کے روپ میں ہوں گے ، لیکن ان کے دل شیطانی ہوں گے ۔ “ ایک روایت میں ہے : میں نے کہا : ظاہری صلح بباطن لڑائی اور دلوں میں کینہ ، ان چیزوں کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”لوگوں کے دل (‏‏‏‏ان خصائل حمیدہ) کی طرف نہیں لوٹیں گے ، جن سے وہ پہلے متصف ہوں گے ۔ “ میں نے کہا کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں ، اندھا دھند فتنہ ہو گا ، اور (‏‏‏‏ ‏‏‏‏اس میں ایسے لوگ ہوں گے کہ گویا کہ) وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہیں ، جو آدمی ان کی بات مانے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ایسے لوگوں کی صفات بیان کیجئیے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ ہماری نسل کے ہوں گے اور ہماری طرح باتیں کریں گے ۔ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رس...
Terms matched: 1  -  Score: 113  -  12k
حدیث نمبر: 601 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1430... قیس بن طلق اپنے باپ سیدنا طلق سے روایت کرتے ہیں کہ ہم چھ افراد وفد کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کی طرف نکلے ، پانچ کا تعلق قبیلہ بنوحنیفہ سے تھا اور ایک بنوضبیعہ بن ربیعہ سے تھا ۔ ہم آپ ﷺ کے پاس پہنچے ، آپ ﷺ کی بیعت کی اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ ہم نے آپ ﷺ کو بتایا کہ ہماری زمین میں ایک گرجا گھر ہے (ہم اسے مسجد بنانا چاہتے ہیں ، اس لیے) ہم نے آپ ﷺ سے وضو سے بچا ہوا پانی طلب کیا ۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور وضو کیا اور کلی کی ، پھر وہ پانی ایک برتن میں انڈیلا اور ہمیں دے دیا اور فرمایا : ”یہ پانی لے کر چلے جاؤ ، جب تم اپنے ملک میں پہنچو تو گرجا گھر گرا دو ، وہاں یہ پانی چھڑکو اور اس جگہ پر مسجد بنا لو ۔ “ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارا ملک بہت دور ہے ، اس لیے پانی خشک ہو جائے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس میں پانی ملاتے جانا وہ اس کی اس کی پاکیزگی میں اضافہ کرے گا ۔ “ ہم نکل پڑے ، لیکن پانی والے برتن کو اٹھانے کے بارے میں جھگڑنے لگے (یعنی کوئی دوسرے کو دینے کے لیے تیار نہیں تھا) ، آپ ﷺ نے باریاں مقرر کر دیں کہ ہر آدمی ایک رات اور ایک دن اٹھائے گا ۔ پس ہم نکل پڑے ، حتی کہ اپنے ملک میں پہنچ گئے ، ہم نے پہنچ کر وہی کیا جو آپ ﷺ نے حکم دیا تھا ۔ طی قبیلے کا ایک پادری تھا ، جب ہم نے اذان دی تو اس نے کہا : یہ دعوت حق ہے ۔ (اس قرار کے بعد) وہ کہیں بھاگ گیا اور اس کے بعد نظر نہ آیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 112  -  5k
حدیث نمبر: 186 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3607... سیدنا ابوسفیان بن حرب ؓ کہتے ہیں (شاہ روم) ہرقل نے اس کو بلانے کے لئے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا ، جبکہ وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا ، اس وقت یہ لوگ تجارت کے لئے شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا ، جب رسول اللہ ﷺ نے قریش اور سفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا ، ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچ گئے ، ہرقل نے دربار طلب کیا تھا ، اس کے اردگرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء ، وزرا اور امرا) بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا ، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں : میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (سفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو ، پھر اپنے ترجمان سے کہا : ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (محمد ﷺ) کے حالات پوچھتا ہوں ، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا ۔ (ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ ﷺ کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا ۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی ۔ (ہم آسانی کے لئے روایت کا ترجمہ مکالمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں) ہرقل : تم لوگوں میں اس شخص کا خاندان کیسا ہے ؟ ابوسفیان : وہ بڑے عالی نسب والا ہے ۔ ہرقل : اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی ؟ ابوسفیان : نہیں ۔ ہرقل : اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا تھا ؟ ابوسفیان : نہیں ۔ ہرقل : بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے ؟ ابوسفیان : کمزوروں نے کی ہے ۔ ہرقل : اس کے تابعدار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟ ابوسفیان : بڑھ رہے ہیں ۔ ہرقل : کیا کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے ؟ ابوسفیان : نہیں ۔ ہرقل : کیا اس دعوئ نبوت سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے ؟ ابوسفیان : نہیں ۔ ہرقل : کیا وہ دھوکا کرتا ہے ؟ ابوسفیان : نہیں اور اب ہماری اس سے (صلح کی) مقرہ مدت ٹھہری ہوئی ہے ، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے ۔ میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا ۔ ہرقل...
Terms matched: 1  -  Score: 111  -  28k
حدیث نمبر: 1525 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 591... سیدنا ابوسعید اور سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ لمبا خطبہ دیا ، دنیوی اور اخروی امور کا تذکرہ کیا اور فرمایا : ”سب سے پہلے بنو اسرائیل یوں ہلاک ہوئے کہ ایک غریب آدمی کی بیوی کپڑوں یا زیورات کے بارے میں اپنے خاوند کو مالدار آدمی کی بیوی کی طرح تکلیف دیتی تھی ۔ پھر آپ ﷺ نے بنو اسرائیل کی کوتاہ قد عورت کا تذکرہ کیا ، اس نے لکڑی کے جوتے (کھڑاؤں) تیار کروائے اور ایک انگوٹھی بنوائی ، اس میں ایک خلا تھا اور اس پر ایک ڈھکن تھا ، اس نے اس خلا میں کستوری بھری اور دو دراز قد یا بھاری بھر کم عورتوں کے ہمراہ نکلی ۔ انہوں نے ان کے پیچھے ایک آدمی کو بھیجا ، اس نے لمبے قد والی دو عورتوں کو تو پہچان لیا لیکن لکڑی کی جوتیوں والی عورت کو نہ پہچان سکا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 111  -  3k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 Next >>


Search took 0.178 seconds