حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "سلسلہ احادیث صحیحہ"
1 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 1390 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 209 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 581... سیدنا ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کہتے ہیں : جس نے ایک نیکی کی ، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا ۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا ۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا ، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور جو میری طرف چل کے آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 110  -  3k
حدیث نمبر: 2318 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 389... سیدنا سہل بن سعد رضی اللٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ صغیرہ گناہوں سے گریز کرو ۔ (اور ان کو حقیر مت سمجھو ، غور فرماؤ کہ) کی کچھ لوگ ایک وادی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں ، ایک آدمی ایک لکڑی لاتا ہے اور دوسرا ایک لاتا ہے . . . (ایک ایک کر کے اتنی لکڑیاں جمع ہو جاتی ہیں کہ) وہ آگ جلا کر روٹی پکا لیتے ہیں ۔ اسی طرح اگر صغیرہ گناہوں کی بنا پر مؤاخذہ ہوا تو وہ بھی ہلاک کر سکتے ہیں ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  2k
حدیث نمبر: 3180 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2677... سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی بدو سے ایک وسق ذخرہ یعنی عجوہ کھجور کے عوض ایک یا چند اونٹنیاں خریدیں ۔ آپ ﷺ گھر واپس آئے ، کھجوریں تلاش کیں لیکن آپ ﷺ کو کچھ نہ ملا ۔ آپ ﷺ اس بدو کے پاس گئے اور فرمایا : ”اللہ کے بندے ! میں نے تجھ سے ایک وسق ذخرہ کھجور کے عوض اونٹنی خریدی ، لیکن تلاش کرنے کے باوجود مجھے کھجور نہ مل سکی ۔ “ اس نے کہا : ہائے عہد شکنی ! لوگوں نے اسے برا بھلا کہتے ہوئے کہا : اللہ تجھے ہلاک کرے ، کیا رسول اللہ ﷺ عہد شکنی کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (‏‏‏‏اپنے صحابہ سے) فرمایا : ”اسے کچھ نہ کہو ، صاحب حق آدمی باتیں کرتا رہتا ہے ۔ “ رسول اللہ ﷺ پھر لوٹے اور واپس آ کر فرمایا : ”اللہ کے بندے ! میں نے تجھ سے اونٹنی خریدی تھی ، میرا خیال تھا کہ میرے پاس طے شدہ قیمت ہو گی ، لیکن تلاش کے باوجود کچھ نہ ملا ۔ “ اس بدو نے کہا : ہائے ! یہ تو دھوکہ بازی ہے ! لوگوں نے اسے زجر و توبیخ کی اور کہا : اللہ تیرا ستیاناس کرے ، کیا رسول اللہ ﷺ دھوکہ کر سکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس کو چھوڑ دو ، حقدار آدمی باتیں کرتا رہتا ہے ۔ “ آپ ﷺ نے دو تین دفعہ ایسے ہی کیا ، لیکن کسی کو (‏‏‏‏اصل مقصد) سمجھ نہ آ سکا ۔ بالآخر آپ ﷺ نے ایک صحابی کو حکم دیتے ہوے فرمایا : ”خولہ بنت حکیم بن امیہ کے پاس جاؤ اور اسے میرا پیغام دو کہ اگر تیرے پاس ایک وسق ذخرہ کھجور ہے تو مجھے بطور قرض دیدے ، میں ان شاء اللہ بعد میں تجھے واپس کر دوں گا ۔ “ وہ صحابی گیا اور واپس آ کر کہا کہ خولہ کہتی ہیں : جی ہاں ! اے اللہ کے رسول ! میرے پاس کھجوریں موجود میں ، آپ کسی آدمی کو لینے بھیج دیں ۔ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ ”جاؤ اور اس کا قرضہ ادا کر دو ۔ “ وہ گیا اور اس کا قرضہ چکا دیا ۔ سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں : وہ بدو آپ ﷺ کے پاس سے گزرا جبکہ آپ ﷺ اپنے صحابہ میں تشریف فرما تھے اور اس نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ، آپ نے قرض چکا دیا ہے اور بہت عمدہ انداز میں ادا کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کے ہاں روز قیامت بہترین بندے وہ ہوں گے جو اچھے انداز میں ادائیگیاں کرتے ہیں ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  7k
حدیث نمبر: 2192 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 513... سیدنا سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”صغیرہ گناہوں سے گریز کرو ۔ (اور ان کو حقیر مت سمجھو ، غور فرماؤ کہ) کی کچھ لوگ ایک وادی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں ، ایک آدمی ایک لکڑی لاتا ہے اور دوسرا ایک لاتا ہے ۔ (ایک ایک کر کے اتنی لکڑیاں جمع ہو جاتی ہیں کہ) وہ آگ جلا کر روٹیاں وغیرہ پکا لیتے ہیں ۔ اسی طرح اگر صغیرہ گناہوں کی بنا پر مؤاخذہ ہوا تو وہ بھی ہلاک کر سکتے ہیں ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  2k
حدیث نمبر: 967 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2192... سیدنا ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”پانچ سے کم اونٹوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں اور نہ چار اونٹوں پر زکوٰۃ ہے ، جب ان کی تعداد پانچ سے نو تک ہو تو ایک بکری ، جب دس سے چودہ تک ہو تو دو بکریاں ، جب پندرہ سے انیس تک ہو تو تین بکریاں اور بیس سے چوبیس تک ہو تو چار بکریاں زکوٰۃ میں دی جایئں گی ۔ جب اونٹوں کی تعداد پچیس سے بڑھ کر پینتیس ہو جائے تو اس تعداد پر بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر ابن لبون (دو سالہ نر بچہ) دے دیا جائے گا ۔ جب تعداد چھتیس سے بڑھ کر پینتالیس تک پہنچ جائے تو بنتِ لبون (دو سالہ اونٹنی) ، اگر تعداد چھیالیس ہو جائے تو ساٹھ تک ایک عددِ حقہّ (تین سالہ اونٹنی) ، اگر تعداد اکسٹھ ہو جائے تو پچھتر تک جذعہ (چار سالہ اونٹنی) ، اگر اس سے تعداد بڑھ جائے تو نوے تک دو عدد بنتِ لبون (دو سالہ اونٹنیاں) ، اگر اس سے تعداد بڑھ جائے تو ایک سو بیس تک دو عدد حقے (تین سالہ اونٹنیاں) ۔ (ایک سو بیس کی تعداد) کے بعد ہر پچاس پر حقہ (تین سالہ اونٹنی) اور ہر چالیس پر بنتِ لبون (دو سالہ اونٹنی) زکوٰۃ میں دی جائے گی ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 105  -  4k
حدیث نمبر: 4027 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2225... سیدنا ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اگر تمہیں کل پانی نہ ملا تو پیاس غالب آ جائے گی ۔ “ جلد باز لوگ پانی (‏‏‏‏کی تلاش) کے ارادے سے چل پڑے ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چمٹا رہا ۔ آپ ﷺ کی سواری ایک طرف جھکنے لگی اور آپ ﷺ کو اونگھ آ گئی ، میں نے آپ ﷺ کو سہارا دیا ، آپ ﷺ سنبھل گئے ۔ پھر آپ ﷺ (‏‏‏‏اونگھ کی وجہ سے) جھکنے لگے ، میں نے آپ ﷺ کو سہارا دیا ، آپ ﷺ سنبھل گئے ۔ پھر آپ ﷺ اس قدر جھکے کہ قریب تھا کہ سواری سے گر پڑیں ، میں نے آپ ﷺ کو سہارا دیا ، اتنے میں آپ ﷺ بیدار ہو گئے اور پوچھا : ”‏‏‏‏یہ آدمی کون ہے ؟ “ ، میں نے کہا : ابوقتادہ ہوں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ”کب سے چل رہے ہو ؟ “ میں نے کہا : رات سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اﷲ تیری حفاظت کرے جس طرح کہ تو نے اس کے رسول کی حفاظت کی ہے ۔ “ پھر فرمایا : ”اگر ہم سستا لیں (‏‏‏‏تو بہتر ہو گا) ۔ “ پھر ایک درخت کی طرف مڑے اور وہیں اتر پڑے اور فرمایا : ”دیکھو ، آیا کوئی آدمی نظر آ رہا ہے ؟ “ میں نے کہا : یہ ایک سوار ہے ، یہ دو سوار آ گئے ہیں ، یہاں تک کہ کل سات افراد جمع ہو گئے ۔ ہم نے کہا ذرا نماز فجر کا خیال رکھنا ، کہیں سو ہی نہ جائیں ۔ (‏‏‏‏لیکن ہم سب سو گئے اور) سورج کی گرمی نے ہم کو جگایا ، ہم بیدار ہوئے ۔ آپ ﷺ سوار ہو کر چل پڑے ، ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے ، تھوڑے ہی چلے تھے کہ اتر پڑے اور پوچھا : ”کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ “ میں نے کہا : جی ہاں ، میرے پاس وضو کا برتن ہے ، اس میں معمولی سا پانی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”لے آؤ ۔ “ میں لے آیا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ”پانی لیجئیے ، پانی لیجئیے ۔ “ سب لوگوں نے وضو کر لیا اور لوٹے میں ایک گھونٹ پانی کا باقی بچا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ابو قتادہ ! اس پانی کو محفوظ کر لو ، عنقریب اس کی بنا پر عظیم (‏‏‏‏معجزہ) رونما ہو گا ۔ “ پھر سیدنا بلال ؓ نے اذان دی ، لوگوں نے فجر سے پہلے والی دو سنتیں پڑھیں اور پھر نماز فجر ادا کی ۔ پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور ہم بھی ۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ ہم سے نماز میں کمی واقع ہو گئی ہے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ”کیا کہہ رہے ہو ؟ اگر کوئی دنیوی بات ہے تو خود حل کر لو اور اگر دینی معاملہ ہے تو میری طرف لاؤ ۔ “ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم نے نماز میں کمی کی ہے ۔ آپ ﷺ ...
Terms matched: 1  -  Score: 104  -  13k
حدیث نمبر: 612 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2225... سیدنا ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اگر تمہیں کل پانی نہ ملا تو پیاس غالب آ جائے گی ۔ “ جلد باز لوگ پانی (کی تلاش) کے ارادے سے چل پڑے ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چمٹا رہا ۔ آپ ﷺ کی سواری ایک طرف جھکنے لگی اور آپ ﷺ کو اونگھ آ گئی ، میں نے آپ ﷺ کو سہارا دیا ، آپ ﷺ سنبھل گئے ۔ پھر آپ ﷺ (اونگھ کی وجہ سے) جھکنے لگے ، میں نے آپ ﷺ کو سہارا دیا ، آپ ﷺ سنبھل گئے ۔ پھر آپ ﷺ اس قدر جھکے قریب تھا کہ سواری سے گر پڑیں ، میں نے آپ ﷺ کو سہارا دیا ، اتنے میں آپ ﷺ بیدار ہو گئے اور پوچھا : ”یہ آدمی کون ہے ؟ “ میں نے کہا : ابوقتادہ ہوں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ”کب سے چل رہے ہو ؟ “ میں نے کہا : رات سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تیری حفاظت کرے جس طرح کہ تو نے اس کے رسول کی حفاظت کی ہے ۔ “ پھر فرمایا : ”اگر ہم سستا لیں (تو بہتر ہو گا) ۔ “ پھر ایک درخت کی طرف مڑے اور وہیں اتر پڑے اور فرمایا : ”دیکھو ، آیا کوئی آدمی نظر آ رہا ہے ؟ “ میں نے کہا : یہ ایک سوار ہے ، یہ دو سوار آ گئے ہیں ، یہاں تک کہ کل سات افراد جمع ہو گئے ۔ ہم نے کہا : ذرا نماز فجر کا خیال رکھنا ، کہیں سو ہی نہ جائیں ۔ (لیکن ہم سب سو گئے اور) سورج کی گرمی نے ہم کو جگایا ، ہم بیدار ہوئے ۔ آپ ﷺ سوار ہو کر چل پڑے ، ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے ، تھوڑے ہی چلے تھے کہ اتر پڑے اور پوچھا : ”کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ “ میں نے کہا : جی ہاں ، میرے پاس وضو کا برتن ہے ، اس میں معمولی سا پانی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”لے آؤ ۔ “ میں لے آیا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ”پانی لیجئے ، پانی لیجئے ۔ “ سب لوگوں نے وضو کر لیا اور لوٹے میں صرف ایک گھونٹ پانی باقی بچا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ابوقتادہ ! اس پانی کو محفوظ کر لو ، عنقریب اس کی بنا پر عظیم (معجزہ) رونما ہو گا ۔ “ پھر سیدنا بلال ؓ نے اذاں دی ، لوگوں نے فجر سے پہلے والی دو سنتیں پڑھیں اور پھر نماز فجر ادا کی ۔ پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور ہم بھی ۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ ہم سے نماز میں کمی واقع ہو گئی ہے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ”کیا کہہ رہے ہو ؟ اگر کوئی دنیوی بات ہے تو خود حل کر لو اور اگر دینی معاملہ ہے تو میری طرف لاؤ ۔ “ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم نے نماز میں کمی کی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”نیند (کی وجہ سے تا...
Terms matched: 1  -  Score: 104  -  13k
حدیث نمبر: 308 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2005... عمرو بن سلمہ ہمدانی کہتے ہیں کہ ہم قبل از نماز فجر عبداللہ بن مسعود ؓ کے گھر کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے ، جب وہ نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑتے ، ایک دن سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ ہمارے پاس آئے اور پوچھا : ابھی تک ابوعبدالرحمٰن (ابن مسعود) تمہارے پاس نہیں آئے ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے ، (ہم انتظار کرتے رہے) حتٰی کہ سیدنا عبداللہ تشریف لائے ، جب وہ آئے تو ہم بھی ان کی طرف کھڑے ہو گئے ۔ ابوموسٰی نے انہیں کہا : ابوعبدالرحمٰن ! ابھی میں نے مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے ، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا ، لیکن اللہ کے فضل سے وہ نیکی کی ہی ایک صورت لگتی ہے ۔ انہوں نےکہا : وہ ہے کیا ؟ ابوموسیٰ نے کہا : اگر آپ زندہ رہے تو خود بھی دیکھ لیں گے ، میں نے دیکھا کہ لوگ حلقوں کی صورت میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کے سامنے کنکریاں پڑی ہیں ، ہر حلقے میں ایک (مخصوص) آدمی کہتا ہے : سو دفعہ ”اللہ اکبر“ کہو ۔ یہ سن کر حلقے والے سو دفعہ ”اللہ اکبر“ کہتے ہیں ۔ پھر وہ کہتا ہے : سو دفعہ ”سبحان اللہ“ کہو ۔ یہ سن کر وہ سو دفعہ ”سبحان اللہ“ کہتے ہیں ۔ انہوں نے پوچھا : اس عمل پر تو نے ان کو کیا کہا ؟ ابوموسٰی نے کہا : میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں کچھ نہیں کہا : انہوں نے کہا : تو نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا : کہ وہ (ایسے نیک اعمال کی بجائے) برائیاں شمار کریں اور یہ ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں (کبھی بھی) ضائع نہیں ہوں گی (لیکن وہ ہوں نیکیاں) ؟ پھر وہ چل پڑے ، ہم بھی ان کے ساتھ ہو لیے ۔ ایک حلقے کے پاس گئے ، ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا : تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : اے ابوعبدالرحمٰن ! یہ کنکریاں ہیں ، ہم ان کے ذریعے تکبیرات ، تہلیلات اور تسبیحات کو شمار کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا : ایسی (نیکیوں کو) برائیاں تصور کرو ، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کسی نیکی کو ضائع نہیں کیا جائے گا (بشرطیکہ) وہ نیکی ہو ۔ اے امت محمد ! تمہاری ناس ہو جائے ، تم تو بہت جلد اپنی ہلاکت کے پیچھے پڑ گئے ہو ، ابھی تک تم میں اصحاب رسول کی بھر پور تعداد موجود ہے ، ابھی تک تمہارے نبی کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ان کے برتن ٹوٹے ہیں ، (یعنی آپ ﷺ کی وفات کا زمانہ قریب ہی ہے) ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ...
Terms matched: 1  -  Score: 98  -  10k
حدیث نمبر: 4024 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3956... سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”‏‏‏‏میرے پاس براق لایا گیا ، وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا سفید رنگ کا لمبا جانور تھا ، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی ۔ میں ا‏‏‏‏س پر سوار ہوا ، (‏‏‏‏اور چل پڑا) حتیٰ کہ بیت المقدس میں پہنچ گیا ، میں نے ا‏‏‏‏س کو ا‏‏‏‏س کڑے کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ دوسرے انبیاء بھی باندھتے تھے ، پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی ۔ جب میں وہاں سے نکلا تو جبریل علیہ السلام شراب کا اور دودھ کا ایک ایک برتن لائے ، میں نے دودھ کا انتخاب کیا ۔ جبریل نے کہا : آپ نے فطرت کو پسند کیا ہے ۔ پھر ہمیں آسمان کی طرف اٹھایا گیا ۔ (‏‏‏‏جب ہم وہاں پہنچے تو) جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا ، کہا گیا : کون ہے ؟ اس نے کہا : جبریل ہوں ۔ پھر کہا گیا : تیرے ساتھ کون ہے ؟ اس نے کہا : محمد ﷺ ہیں ۔ کہا گیا : کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ ا‏‏‏‏س نے کہا : (‏‏‏‏جی ہاں) انہیں بلایا گیا ہے ۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا ۔ میں نے آدم علیہ السلام کو دیکھا ، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعا کی ، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا ۔ جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا ، پوچھا گیا : کون ہے ؟ اس نے کہا جبریل ہوں ۔ فرشتوں نے پوچھا : تیرے ساتھ کون ہے ؟ اس نے کہا : محمد ﷺ ہیں ۔ فرشتوں نے کہا : کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ جبرائیل نے کہا : ‏‏‏‏ (جی ہاں !) ان کو بلایا گیا ہے ۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا ۔ میں نے خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا کو دیکھا ، ان دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی ۔ پھر ہمیں تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا ، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا ۔ فرشتوں نے پوچھا : کون ؟ اس نے کہا : جبریل ۔ فرشتوں نے پوچھا : تیرے ساتھ کون ہے ؟ اس نے کہا : محمد ﷺ ۔ کہا گیا : کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا : جی ہاں ! انہیں بلایا گیا ہے ۔ سو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا ۔ وہاں میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا ، (‏‏‏‏ان کی خوبصورتی سے معلوم ہوتا تھا کہ) نصف حسن ان کو عطا کیا گیا ہے ۔ ا‏‏‏‏نہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی ۔ پھر ہمیں ...
Terms matched: 1  -  Score: 96  -  20k
حدیث نمبر: 1801 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 709... ابن دیلمی ، جو بیت المقدس میں فروکش تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کی تلاش میں مدینہ ٹھہرا ، جب اس نے عبداللہ کے بارے میں پوچھا : تو بتلایا گیا کہ وہ تو مکہ کی طرف جا چکے ہیں ۔ وہ بھی ان کے پیچھے چل دیا ، (مکہ آنے پر) معلوم ہوا کہ وہ تو طائف کی طرف روانہ ہو چکے ہیں ۔ وہ ان کی کھوج میں طائف کو روانہ ہو گیا اور بلآخر انہیں ایک کھیت میں پا لیا ۔ وہ شراب نوشی میں بدنام ایک قریشی آدمی کے ساتھ ایک دوسرے کی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چل رہے تھے ۔ جب میں انہیں ملا تو سلام کہا ، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ نے پوچھا : کون سی چیز تجھے یہاں لے آئی ہے ؟ تو کہاں سے آیا ہے ؟ میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا اور پھر پوچھا : اے عبداللہ بن عمرو ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو شراب کے بارے میں کچھ فرماتے سنا ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ (یہ سن کر) قریشی نے اپنا ہاتھ کھینچا اور چلا گیا ۔ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ۔ ” میری امت کا جو آدمی شراب پیتا ہے ، چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 96  -  4k
حدیث نمبر: 396 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2537... سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” نماز تین حصوں پر مشتمل ہے : ایک تہائی حصہ طہارت ہے ، ایک تہائی حصہ رکوع ہے اور ایک تہائی حصہ سجدے ہیں ۔ جس نے اس کو کماحقہ ادا کیا ، اس کی نماز بھی قبول کی جائے گی اور بقیہ اعمال بھی مقبول ہوں گے اور جس کی نماز رد کر دی گئی ، اس کے باقی اعمال بھی رد کر دیے جائیں گے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 95  -  2k
حدیث نمبر: 853 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2623... سیدنا کہم ہلالی ؓ کہتے ہیں : جب میں نے اسلام قبول کیا ، تو نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اپنے اسلام کے بارے میں آگاہ کیا (اور چلا گیا) ۔ پھر میں نے وہاں ایک سال تک قیام کیا ۔ لیکن میں دبلا پتلا ہو گیا اور میرا جسم کمزور پڑ گیا ۔ پھر میں آپ ﷺ کے پاس آیا ۔ آپ نے (میرے وجود کے) نیچے والے حصے پر نگاہ ڈالی اور پھر اوپر والے حصہ پر ۔ (یعنی آپ نے مجھے پہچاننے کے لیے بغوردیکھا) ۔ میں نے کہا : کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں کہمس ہلالی ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تو اتنا کمزور نظر کیوں آ رہا ہے ؟ “ اس نے کہا : میں نے آپ (سے ملاقات کرنے) کے بعد ایک دن بھی افطار نہیں کیا اور نہ کسی رات کو سویا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کس نے تجھے حکم دیا کہ تو اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کر دے ؟ صبر والے مہینے کے روزے اور (باقی مہینوں میں سے) ہر ماہ میں ایک روزہ رکھا لیا کر ۔ “ میں کہا : میرے لیے زیادہ (روزوں کی گنجائش) نکالیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ”صبر والے ماہ کے روزے رکھ لے اور ہر ماہ میں دو دنوں کے ۔ “ اس نے کہا : میرے لیے مزید (گنجائش) نکالیں ، کیونکہ مجھ میں طاقت ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”صبر والے مہینے کے روزے رکھ لے اور ہر ماہ میں تین دنوں کے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 95  -  4k
حدیث نمبر: 2660 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1083... سیدنا نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے میں ، ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و نرمی کرنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب (‏‏‏‏جسم) کا کوئی ایک عضو درد کرتا ہے تو سارا جسم اس کی وجہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 93  -  2k
حدیث نمبر: 3363 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2005... عمرو بن سلمہ ہمدانی کہتے ہیں کہ ہم قبل از نماز فجر سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کے گھر کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے ، جب وہ نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑتے ، ایک دن سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ ہمارے پاس آئے اور پوچھا : ابھی تک ابو عبدالرحمٰن (‏‏‏‏ ابن مسعود) تمہارے پاس نہیں آئے ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے ، (‏‏‏‏ہم انتظار کرتے رہے) حتیٰ کہ سیدنا عبداللہ ؓ تشریف لائے ، جب وہ آئے تو ہم بھی ان کی طرف کھڑے ہو گئے ۔ ابوموسیٰ نے انہیں کہا : ابو عبدالرحمٰن ! ابھی میں نے مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے ، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا ، لیکن اللہ کے فضل سے وہ نیکی کی ایک صورت لگتی ہے ۔ انہوں نے کہا : وہ ہے کیا ؟ ابوموسیٰ نے کہا : اگر آپ زندہ رہے تو خود بھی دیکھ لیں گے ، میں نے دیکھا کہ لوگ حلقوں کی صورت میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کے سامنے کنکریاں پڑی ہیں ، ہر حلقے میں ایک (‏‏‏‏مخصوص) آدمی کہتا ہے : سو (‏‏‏‏ ‏‏‏‏۱۰۰) دفعہ « اللہ أكبر » ‏‏‏‏کہو ۔ یہ سن کر حلقے والے سو دفعہ « اللہ أكبر » ‏‏‏‏کہتے ہیں ۔ پھر کہتا ہے سو (‏‏‏‏ ۱۰۰) دفعہ « سبحان اللہ » ‏‏‏‏کہو ۔ یہ سن کر وہ سو دفعہ « سبحان اللہ » ‏‏‏‏ کہتے ہیں ۔ انہوں نے پوچھا : اس عمل پر تو نے ان کو کیا کہا ؟ ابو موسیٰ نے کہا : میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں کچھ نہیں کہا ۔ انہوں نے کہا : تو نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ (‏‏‏‏ایسے نیک اعمال کو) برائیاں شمار کریں اور یہ ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں (‏‏‏‏کبھی بھی) ضائع نہیں ہوں گی (‏‏‏‏لیکن وہ ہوں نیکیاں) ؟ پھر وہ چل پڑے ، ہم بھی ان کے ساتھ ہو لئے ۔ ایک حلقے کے پاس گئے ، ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا : تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : اے ابو عبدالرحمٰن ! یہ کنکریاں ہیں ، ہم ان کے ذریعے تکبیرات ، تہلیلات اور تسبیحات کو شمار کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا : ایسی (‏‏‏‏ نیکیوں کو) برائیاں تصور کرو ، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کسی نیکی کو ضائع نہیں کیا جائے گا (‏‏‏‏ بشرطیکہ وہ نیکی ہو) ۔ اے امت محمد ! تمہاری ناس ہو جائے ، تم تو بہت جلد اپنی ہلاکت کے پیچھے پڑ گئے ہو ، ابھی تک تم میں اصحاب رسول کی بھرپور تعداد موجود ہے ، ابھی تک تمہارے نبی کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ان کے برتن ٹ...
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  10k
حدیث نمبر: 1933 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 356... سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا : میں رات کے وقت آپ ﷺ کو (ملنے کے لیے) آیا تھا ، جس گھر میں آپ ﷺ تھے ، اس میں داخل ہونے سے روکنے والی چیز یہ تھی کہ گھر میں ایک مرد کی تصویر تھی اور گھر میں ایک اور نقشیں پردہ تھا ، اس میں بھی تصویریں تھیں ۔ آپ حکم دیں کہ تصویر کا سر کاٹ دیا جائے ، تاکہ وہ درخت کی مانند ہو جائے اور پردے کے بارے میں حکم دیں کہ اسے بھی کاٹ دیا جائے ۔ “ ایک روایت میں ہے : ”گھر میں ایک دیوار کے ساتھ پردہ لٹکا ہوا ہے ، اس میں تصاویر ہیں ، ان کے سروں کو کاٹ دو اور اس کے بچھونے یا تکیے بنا لو اور ان کو روندواؤ ، کیونکہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے ، جس میں تصویر ہو ۔ “ ایک روایت میں ہے : ”اس پردے کے دو ایسے تکیے بنا لیے جائیں ، جن کو روندا جائے اور کتے کے بارے حکم دیں کہ اس کو نکال دیا جائے ۔ “ رسول اللہ ﷺ نے ایسے ہی کیا ، واقعی آپ کے گھر میں کتے کا پلّا تھا ، جو حسن و حسین علیہما السلام کا تھا اور ان کے سامان کے بنڈل کے نیچے پڑا ہوا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جبریل مجھے پڑوسی (کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی) وصیت کرتے رہے ، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال آنے لگا کہ وہ ان کو میرا وارث بنا دے گا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  4k
حدیث نمبر: 1323 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3259... سیدہ ام الفضل ؓ کہتی ہیں : ایک بدو ، نبی کریم ﷺ کے پاس آیا ، آپ ﷺ میرے گھر پر تھے ، اس نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میری ایک بیوی تھی ، میں نے اس پر ایک اور شادی کر لی ، اب میری سابقہ بیوی کا یہ خیال ہے کہ اس نے میری نئی بیوی کو ایک یا دو دفعہ دودھ پلایا تھا ، (اب میں کیا کروں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا : ”ایک دفعہ یا دو دفعہ دودھ پلانا (رشتوں کو) حرام نہیں کرتا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  2k
حدیث نمبر: 262 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3155... سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں : ہم ایک غزوے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ، ایک مہاجر نے ایک انصاری کے سرین پر ہاتھ یا لات ماری ۔ انصاری نے (خاندانی غیرت و حمیت کا مسئلہ سمجھ کر) انصار کو یوں پکارا : او انصاریو ! اور مقابلے میں مہاجر نے کہا : او مہاجرو ! رسول اللہ ﷺ نے (سن کر) فرمایا : ”یہ جاہلیت کی پکاریں کیسے ؟ “ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو چھیڑا ہے ، (اس کی وجہ سے یہ للکاریں شروع ہو گئیں) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ان (نسبتوں) کو ترک کر دو ، یہ گندی ہیں ۔ “ سیدنا جابر ؓ کہتے ہیں : جب نبی کریم ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو انصار کی تعداد زیادہ تھی ، بعد میں مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ گئی ۔ جب عبداللہ بن ابی منافق نے یہ بات سنی تو اس نے کہا : کیا یہ لوگ اس حد تک پہنچ گئے ہیں ؟ جب ہم مدینہ کی طرف واپس جائیں گے تو ہم عزت والے ان ذلیلوں کو مدینہ سے نکال دیں گے . سیدنا عمر ؓ نے کہا : (اے اللہ کے رسول !) مجھے اجازت دیجئے ، میں اس منافق کا سر قلم کر دیتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”رہنے دو ، کہیں لوگ یہ کہنا شروع نہ کر دیں کہ محمد ( ﷺ ) اپنے صحابہ کو بھی قتل کر دیتا ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  4k
حدیث نمبر: 2363 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2608... سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ سفر میں ایک دوسرے کی خدمت کیا کرتے تھے ۔ سیدنا ابوبکر و عمر ؓ کے ساتھ ایک آدمی تھا جو ان دونوں کی خدمت کیا کرتا تھا ۔ (‏‏‏‏ایک دن) وہ دونوں سو کر بیدار ہوئے تو خادم نے ان کے کھانا تیار نہیں کیا تھا ۔ ا‏‏‏‏ن میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : یہ خادم تمہارے نبی کی نیند کی موافقت کرتا ہے ۔ اور ایک روایت میں ہے : تمہارے گھر کی نیند کی موافقت کرتا ہے ۔ دونوں نے ا‏‏‏‏سے جگایا اور کہا : تو رسول اللہ ﷺ کے پاس جا اور آپ کو کہہ کہ ابوبکر اور عمر آپ کو سلام کہتے ہیں اور وہ آپ سے سالن طلب کر رہے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”میری طرف سے ا‏‏‏‏ن دونوں کو سلام کہنا اور ان کو بتلانا کہ تم دونوں نے سالن کھا لیا ہے ۔ پس ابوبکر و عمر یہ سن کر گھبرا گئے اور نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم نے (‏‏‏‏فلاں آدمی کو) آپ کی طرف سالن لینے کے لیے بھیجا تھا اور آپ نے فرمایا کہ تم دونوں سالن کھا چکے ہو ، (‏‏‏‏بھلا) ہم نے کس چیز کا سالن کھا لیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ”اپنے بھائی کے گوشت کا ، قسم ہے مجھے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ میں اس کا گوشت تمہاری کچلیوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں ۔ ”سیدنا ابوبکر و عمر ؓ نے کہا : ہمارے لیے ، بخشش طلب فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”‏‏‏‏اس خادم کو ہی تمہارے لیے بخشش طلب کرنا چاہیئے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  5k
حدیث نمبر: 3861 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2694... ربیع بن عمیلہ کہتے ہیں : سیدنا عبدللہ بن مسعود ؓ نے ہمیں اتنی بہترین حدیث بیان کی ، کہ ہم نے اسے قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی روایات کے بعد حسین پایا ، وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب بنو اسرائیل کی مدت دراز ہوئی اور ان کے دل سخت ہو گئے تو انہوں نے خود ایک ایسی کتاب ترتیب دی ، جو ان کے دلوں کو پسند اور زبانوں کو میٹھی لگتی تھی اور اس وقت حق بھی وہی ہوتا تھا جو ان کی شہوات کے اردگرد منڈلاتا تھا ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا ، اسے لگتا تھا کہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں جانتے ۔ پھر (‏‏‏‏ایک وقت ایسابھی آیاکہ) انہوں نے کہا کہ یہ (‏‏‏‏خودساختہ) کتاب بنو اسرائیل پر پیش کرو ، اگر وہ تمہاری پیروی کرنے لگیں تو انہیں کچھ نہ کہو اور اگر مخالفت کریں تو ان کو قتل کر دو ۔ لیکن اس نے کہا : نہیں ، بلکہ یوں کرو کہ فلاں عالم کے پاس پیغام بھیجو ، اگر اس نے تمہاری پیروی کی تو اس کے بعد کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا ۔ انہوں نے اس کی طرف کسی کو بھیج کر اسے بلایا ۔ اس نے ایک ورق لیا ، اس میں اللہ تعالیٰ کی کتاب لکھی ، پھر اسے ایک سینگ میں ڈال کر اپنی گردن میں لٹکا لیا اور اس کے اوپر کپڑے زیب تن کر لیے اور ان کے پاس پہنچ گیا ۔ انہوں نے اس پر (‏‏‏‏اپنی من گھڑت) کتاب پیش کی اور کہا : کیا تو اس پر ایمان لاتا ہے ؟ اس نے جواباً اپنے سینے کی طرف یعنی سینگ کے اندر موجودہ کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : میں اس پر ایمان لاتا ہوں ، بھلا اس پر ایمان کیوں نہ لاؤں ۔ (‏‏‏‏اس کا مقصد سینگ میں پنہاں کتاب تھی ، نہ کہ ان کی خود ساختہ کتاب ، لیکن یہ لوگ اس کی بات سمجھ نہیں پا رہے تھے) بہرحال انہوں نے اس کو چھوڑ دیا ۔ اس کے کچھ ساتھی تھے ، جو اس کی مجلس میں بیٹھتے تھے ، جب وہ فوت ہو گیا تو وہ آئے اور اس کے کپڑے اتارے ، وہاں انہیں ایک سینگ نظر آیا جس کے اندر کتاب تھی ۔ اب (‏‏‏‏وہ اصل حقیقت سمجھے اور) کہا : جب اس بندے نے یہ کہا تھا کہ ”میں اس کتاب پر ایمان لایا ہوں اور بھلا اس پر ایمان کیوں نہ لاؤں“ تو اس کی مراد سینگ میں موجود کتاب (‏‏‏‏جو کہ حق ہے) تھی ۔ سو بنو اسرائیل تہتر چوہتر فرقوں میں بٹ گئے ، ان میں سب سے بہتر فرقے والے وہ لوگ ہیں جو اس سینگ والے کے ساتھی اور پیروکار تھے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  7k
حدیث نمبر: 1456 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3490... سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کے دو طاقتور سانڈ تھے ، وہ دونوں مستی میں آ گئے ، اس نے ان کو ایک باغ میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا ، پھر دعا کروانے کے لیے نبی کریم ﷺ کے پاس آیا ۔ نبی کریم ﷺ چند صحابہ میں تشریف فرما تھے ۔ اس نے آ کر کہا : اے اللہ کے نبی ! میں ایک ضرورت کے پیش نظر آپ کے پاس آیا ہوں ، میرے دو سانڈ ہیں ، وہ دونوں مستی میں آ گئے ہیں ، میں نے ان کو ایک باغ میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا ہے ۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کو میرے لیے مسخر کر دے ۔ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا : ” اٹھو (چلتے ہیں) ۔ “ آپ چلے یہاں تک کہ باغ کے دروازے تک پہنچ گئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” دروازہ کھولو ۔ “ دروازہ کھول دیا گیا ۔ ایک سانڈ دروازے کے قریب ہی کھڑا تھا ، جب اس نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو آپ کو سجدہ کیا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” کوئی (رسی وغیرہ) لاؤ تاکہ میں اس کا سر باندھ کر اس کو تیرے لیے مسخر کروں ۔ “ وہ لگام لے آیا ، آپ ﷺ نے اس کا سر باندھا اور اسے اس کے لیے مسخر کر دیا ۔ پھر دوسرے سانڈ کو پکڑنے کے لیے باغ کے دوسرے کنارے کی طرف گئے ، جب اس نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس نے بھی سجدہ کیا ، آپ ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا : ” کوئی (رسی وغیرہ) لاؤ تاکہ میں اس کا سر باندھ دوں ۔ “ آپ ﷺ نے اس کا سر باندھا اور اس کی تسخیر میں دے دیا اور فرمایا : ” جاؤ ، اب یہ تیری بغاوت نہیں کریں گے ۔ “ جب صحابہ نے (سجدہ کرنے کا) منظر دیکھا تو کہا : اے اللہ کے رسول یہ دو سانڈ ، جو غیر عاقل ہیں ، آپ کو سجدہ کرتے ہیں ، کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کا حکم نہیں دیا ، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  6k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 Next >>


Search took 0.202 seconds