حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "سلسلہ احادیث صحیحہ"
1 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 1390 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 179 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3595... سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ”میں نے خواب دیکھا جبریل (علیہ السلام) میرے سر کے پاس اور میکائل (علیہ السلام) میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گئے ۔ ایک نے دوسرے سے کہا : اس (نبی) کی کوئی مثال بیان کیجئے ۔ دوسرے نے کہا : سنو ! تمہارا کان سنے ، سمجھو تمہارا دل سمجھے ، تم اور تمہاری امت کی مثال یہ ہے : ایک بادشاہ نے ایک جاگیر حاصل کی ، اس میں ایک محل بنایا اور اس میں کھانے کی دعوت کا اہتمام کیا ، لوگوں کو دعوت دینے کے لئے قاصد بھیجا ، کسی نے قاصد کا پیغام قبول کیا اور کسی نے نہ کیا (اس مثال کی وضاحت یہ ہے کہ) اللہ بادشاہ ہے ، اسلام جاگیر ہے ، جنت محل ہے اور اے محمد ! آپ قاصد ہیں ، جس نے آپ کا پیغام قبول کیا وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا اور اسلام میں داخل ہونے والا جنت میں چلا جائے گا اور جو جنت میں داخل ہو گیا وہ اس کے کھانے کھائے گا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 92  -  3k
حدیث نمبر: 2073 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2109... سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : ہوازن قبیلہ کے لوگ حنین والے دن عورتوں ، بچوں ، اونٹوں اور بکریوں سمیت آ گئے ۔ ان کو قطاروں میں کھڑا کر دیا تاکہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں اپنی کثرت کو ظاہر کریں ۔ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ “ مزید فرمایا : ”انصار کی جماعت ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ “ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دے دی ، نہ کسی کو نیزے کا زخم لگا تھا اور نہ تلوار کی چوٹ ، نبی کریم ﷺ نے اس دن فرمایا : ”جس نے کسی کافر کو قتل کیا تو اس (مقتول) سے چھینا ہوا مال اسی (قاتل) کے لیے ہو گا ۔ “ ابوقتادہ ؓ نے اس دن بیس آدمی قتل کئے اور ان کا مال و متاع بھی لے لیا ۔ سیدنا ابوقتادہ ؓ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک آدمی کے کندھے کے پٹھے پر مارا اور اس پر زرہ تھی ۔ اس کا چھینا ہوا مال میرے پکڑنے سے پہلے کسی اور نے لے لیا ۔ اے اللہ کے رسول ! ذرا دیکھئیے ، وہ شخص کون ہے ؟ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے وہ مال لے لیا تھا ۔ آپ قتادہ کو اپنی طرف سے راضی کر دیں اور وہ مال میرے پاس ہی رہنے دیں ، نبی کریم ﷺ خاموش ہو گئے اور آپ سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا جاتا ، آپ دے دیتے تھے ، یا پھر خاموش ہو جاتے ۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! (ایسے نہیں ہو گا) اللہ تعالیٰ نے اپنے شیروں میں سے ایک شیر کو مال دیا ہو اور آپ ﷺ تجھے دے دیں ۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرا پڑے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 90  -  5k
حدیث نمبر: 3949 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3541... ابوبکر بن ابوموسیٰ بن قیس اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”مومن کے لیے جنت میں ایک جوف دار موتی کا خیمہ ہو گا ، جس کی لمبائی بلندی میں ساٹھ میل ہو گی ، اس میں مومن کے کئی گھر والے ہوں گے ، وہ ان (‏‏‏‏سب) کے پاس جائے گا (‏‏‏‏وہ گھر ایک دوسرے سے اتنی مسافت پر ہوں گے کہ) ایک میں بسنے والے دوسرے کے مکینوں کو نہیں دیکھ سکیں گے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 90  -  2k
حدیث نمبر: 2770 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3579... نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”ایک آدمی ہمارے پیچھے چلتا رہا ، جب تم نے ہمیں دعوت دی تھی ، اس وقت وہ موجود نہیں تھا ، اب اگر تم اسے اجازت دے دو تو وہ اندر آ جائے ۔ “ یہ حدیث سیدنا ابومسعود بدری اور سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے ۔ یہ ابومسعود بدری کی حدیث کے الفاظ ہیں ، (‏‏‏‏پوری روایت یوں ہے) : سیدنا ابو مسعود بدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جسے ابوشعیب کہا جاتا تھا ، اپنے قصاب غلام کے پاس آیا اور اسے حکم دیا کہ پانچ آدمیوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے سے محسوس کیا ہے کہ آپ بھوکے ہیں ۔ اس نے کھانا تیار کیا ، پھر اس نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے ہم نشینوں کو بلا بھیجا ، جب نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے تو ایک آدمی ان کے پیچھے چل پڑا ، جو اس وقت موجود نہیں تھا جب دعوت دی گئی تھی ۔ جب رسول اللہ ﷺ (‏‏‏‏داعی کے گھر کے) دروازے پر پہنچے تو گھر والے سے فرمایا : . . . “ اس نے کہا : میں اسے اجازت دیتا ہوں ، وہ اندر آ جائے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 88  -  4k
حدیث نمبر: 1744 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2846... ابوتمیمہ ہجیمی سے روایت ہے کہ ہماری قوم کے ایک آدمی نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو تلاش کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکا ، (بالآخر) میں بیٹھ گیا ۔ اچانک لوگوں کی ایک جماعت پر میری نگاہ پڑی ، ان میں آپ ﷺ بھی تشریف فرما تھے لیکن میں آپ ﷺ کو پہچانتا نہیں تھا ۔ ایک آدمی ان کے مابین صلح کروا رہا تھا ، جب وہ فارغ ہوا تو بعض لوگ اس کے ساتھ چل دیے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ دیکھ کر میں آپ ﷺ کو پہچان گیا اور آپ ﷺ کو یوں سلام کہا : ” « عليك السلام يا رسول اللہ ، عليك السلام يا رسول اللہ ، عليك السلام يا رسول اللہ » آپ پر سلامتی ہو ، اے اللہ کے رسول . . . (تین دفعہ کہا) ، آپ ﷺ نے فرمایا : ”بیشک « عليكم السلام » مردوں کا سلام ہے ۔ (آپ ﷺ نے یہ جملہ تین دفعہ ارشاد فرمایا) جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو سلام کہے تو « السلام عليكم ورحمۃ اللہ » کہے ۔ پھر آپ ﷺ نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : « وعليك ورحمۃ اللہ ، وعليك ورحمۃ اللہ ، وعليك ورحمۃ اللہ » اور تجھ پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو . . . (تین دفعہ فرمایا) ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 88  -  4k
حدیث نمبر: 2087 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 30... سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ایک وقت ایک کتا کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا ، اسے پیاس مارے دے رہی تھی ، اچانک اسے بنی اسرائیل کی فاحشہ عورتوں میں سے ایک بدکار عورت نے دیکھا ، بس اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کے ذریعے سے اس نے اس کے لیے (کنویں سے) پانی کھینچا اور اسے پلا دیا ، پس اس کے اس عمل کی وجہ سے اسے بخش دیا گیا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 88  -  2k
حدیث نمبر: 1054 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2202... سیدنا بریدہ اسلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”تم میں سے ہر ایک کو دنیا میں ایک خادم اور ایک سواری کافی ہونی چاہیے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 88  -  1k
حدیث نمبر: 3495 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3585... رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” (‏‏‏‏زمزم کا پانی) مبارک ہے ، یہ کھانے کا کھانا ہے ۔ “ یہ حدیث سیدنا ابوذر ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے ۔ یہ سیدنا ابوذر غفاری ؓ کی حدیث ہے ، وہ کہتے ہیں ہم اپنی قوم غفار ، جو حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے ، سے وفد کی صورت میں نکلے ۔ میں (‏‏‏‏ابوذر غفاری ؓ ) ، میرا بھائی انیس اور میری ماں روانہ ہوئے ، ہم اپنے ماموں کے پاس آ کر ٹھہرے ۔ انہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور ہمارے ساتھ احسان کیا ، لیکن ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی ۔ اس لیے انہوں نے کہا : جب تو اپنے اہل خانہ سے باہر جاتا ہے تو انیس ان کے پاس آ جاتا ہے ۔ پس ہمارا ماموں آیا اور جو بات اسے کہی گئی ، اس کے سلسلے میں ہماری غیبت کرنے لگ گیا ۔ میں نے اسے کہا : جو تو نے ہمارے ساتھ نیکی کی تھی ، اسے تو تو نے گدلا کر دیا ہے اور آئندہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے ۔ ہم اپنی اونٹنیوں کے قریب پہنچے اور سوار ہو کر چل پڑے ، میرے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا ۔ ہم چلتے گئے اور مکہ کے قریب جا کر پڑاؤ ڈالا ۔ انیس ہماری اونٹنیوں سے دور رہنے لگ گیا ۔ وہ دونوں نجومی کے پاس گئے ، اس نے انیس کو منتخب کیا ، پس انیس ہماری اور اتنی اور اونٹنیاں لے کر ہمارے پاس آیا ۔ اس نے کہا : اے میرے بھتیجے ! میں تو رسول اللہ ﷺ کو ملنے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھ رہا تھا ۔ میں نے کہا : کس کے لیے ؟ اس نے کہا : اللہ تعالیٰ کے لیے ۔ میں نے کہا : تو کس طرف رخ کرتا تھا ۔ اس نے کہا : جس طرف میرا رب میرا رخ موڑ دیتا تھا ۔ میں رات کے آخری حصے میں نماز عشاء ادا کرتا تھا ۔ اب میں گم سم ہو کر لیٹ گیا ، یہاں تک کہ سورج چڑھ آیا ۔ انیس نے کہا : مجھے مکہ میں کوئی کام ہے ، تو مجھے کفایت کر ۔ انیس چلا گیا ، مکہ پہنچ گیا اور مجھے اچھائی کا بدلہ برائی سے دیا ۔ پھر وہ واپس آ گیا ۔ میں نے پوچھا : تو نے کیا کیا ہے ؟ اس نے کہا : میں مکہ میں ایک ایسے آدمی کو ملا ہوں جو تیرے دین پر ہے ، وہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے ۔ میں نے کہا : لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس نے کہا : لوگ اسے شاعر ، نجومی اور جادوگر کہتے ہیں ۔ انیس خود بھی ایک شاعر تھا ۔ اس نے کہا : لیکن میں نے نجومیوں کا کلام سنا ہے اور اس کے کلام کو زبان اور شعر...
Terms matched: 1  -  Score: 87  -  21k
حدیث نمبر: 1842 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3585... رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” (زمزم کا پانی) مبارک ہے ، یہ کھانے کا کھانا ہے ۔ “ یہ حدیث سیدنا ابوذر ، سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے ۔ یہ سیدنا ابوذر ؓ کی حدیث ہے ، وہ کہتے ہیں : ہم اپنی قوم غفار ، جو حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے ، سے وفد کی صورت میں نکلے ۔ میں (ابوذر) ، میرا بھائی انیس اور میری ماں روانہ ہوئے ، ہم اپنے ماموں کے پاس آ کر ٹھرے ۔ انہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور ہمارے ساتھ احسان کیا ، لیکن ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی ۔ اس لیے انہوں نے کہا : جب تو اپنے اہل خانہ سے باہر جاتا ہے تو انیس ان کے پاس آ جاتا ہے ۔ پس ہمارا ماموں آیا اور جو بات اسے کہی گئی ، اس کے سلسلے میں ہماری غیبت کرنے لگ گیا ۔ میں نے اسے کہا : جو تو نے ہمارے ساتھ نیکی کی تھی ، اسے تو تو نے گدلا کر دیا ہے اور آئندہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے ۔ ہم اپنی اونٹنیوں کے قریب پہنچے اور سوار ہو کر چل پڑے ، میرے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا ۔ ہم چلتے گئے اور مکہ کے قریب جا کر پڑاؤ ڈالا ۔ انیس ہماری اونٹنیوں سے دوررہنے لگ گیا ۔ وہ دونوں نجومی کے پاس گئے ، اس نے انیس کو منتخب کیا ، پس انیس ہماری اور اتنی اور اونٹنیاں لے کر ہمارے پاس آیا ۔ اس نے کہا : اے میرے بھتیجے ! میں تو رسول اللہ ﷺ کو ملنے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھ رہا تھا ۔ میں نے کہا : کس کے لیے ؟ اس نے کہا : اللہ تعالیٰ کے لیے ۔ میں نے کہا : تو کس طرف رخ کرتا تھا ۔ اس نے کہا : جس طرف میرا رب میرا رخ موڑ دیتا تھا ۔ میں رات کے آخری حصے میں نماز عشا ادا کرتا تھا ۔ اب میں گم سم ہو کر لیٹ گیا ، یہاں تک کہ سورج چڑھ آیا ۔ انیس نے کہا : مجھے مکہ میں کوئی کام ہے ، تو مجھے کفایت کر ۔ انیس چلا گیا ، مکہ پہنچ گیا اور مجھے اچھائی کا بدلہ برائی سے دیا ۔ پھر وہ واپس آ گیا ۔ میں نے پوچھا : تو نے وہاں کیا کیا ہے ؟ اس نے کہا : میں مکہ میں ایک ایسے آدمی کو ملا ہوں جو تیرے دین پر ہے ، وہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے ۔ میں نے کہا : لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس نے کہا : لوگ اسے شاعر ، نجومی اور جادوگر کہتے ہیں ۔ انیس خود بھی ایک شاعر تھا ۔ اس نے کہا : لیکن میں نے نجومیوں کا کلام سنا ہے اور اس کے کلام کو زبان آور شعرا کے کلام پر پیش کیا ہے ، لیکن کسی کی زبان یہ ف...
Terms matched: 1  -  Score: 87  -  21k
حدیث نمبر: 600 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2582... سیدنا طلق بن علی ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : ہم وفد کی صورت میں نبی کریم ﷺ کے پاس آئے ، ہم نے آپ ﷺ کی بیعت کی ، آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ ﷺ کو بتایا کہ ہماری زمین میں ہمارا ایک گرجا ہے ، (ہم وہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس لیے) ہم نے آپ سے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی طلب کیا ۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا ، وضو کیا ، کلی کی اور اسے ایک برتن میں ڈال دیا اور ہمیں حکم دیتے ہوئے فرمایا : ”چلے جاؤ ، جب اپنے علاقے میں پہنچو تو گرجا گھر گرا دینا ، وہاں یہ پانی چھڑکنا اور وہاں مسجد تعمیر کر لینا ۔ “ انہوں نے کہا : ہمارا علاقہ بہت دور ہے اور شدید گرمی پڑ رہی ، یہ پانی تو خشک ہو جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” (راستے میں) اس میں مزید پانی ملاتے جانا ، وہ اس کی پاکیزگی میں اور اضافہ کرے گا ۔ “ ہم نکل پڑے ، حتی کہ اپنے علاقے میں پہنچ گئے ، ہم نے گرجا گھر گرا دیا ، وہاں پانی چھڑکا اور اسے مسجد کا روپ دے دیا ، پھر ہم نے وہاں اذان دی ۔ قبیلہ بنوطی کے ایک پادری نے اذان سنی اور کہا : یہ تو دعوت حق ہے ۔ پھر وہ ایک ٹیلے کی طرف نکل گیا اور اس واقعہ کے بعد ہم اسے نہ دیکھ پائے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 87  -  4k
حدیث نمبر: 3211 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1429... محمد بن عمر اسلمی اپنی سندوں کے ساتھ چند ایک صحابہ ، جن میں سے بعض کی احادیث کے الفاظ دوسروں کی احادیث میں خلط ملط ہو گئے ، سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی ؓ ، جو چھ میں ایک تھے ، کو کسری کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا اور ایک خط بھی لکھا ۔ عبداللہ بن حذافہ ؓ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کا خط کسری تک پہنچایا ، وہ اس پر پڑھا گیا ، اس نے خط پکڑا اور پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس صورتحال کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے اللہ ! اس کی بادشاہت کے پرخچے اڑا دے ۔ “ پھر کسری نے یمن کے گورنر باذان کی طرف خط لکھا کہ کوئی دو باہمت آدمی حجاز والے شخص (‏‏‏‏نبی کریم ﷺ ) کے پاس بھیج تاکہ وہ ہمیں اس کی حقیقت سے آگاہ کریں ۔ باذان نے اپنے میر منشی اور ایک دوسرے آدمی کو اپنا خط دے کر بھیجا ۔ یہ دونوں مدینہ پہنچے اور باذان کا خط نبی کریم ﷺ کو دیا آپ ﷺ مسکرائے اور انہیں دعوت اسلام دی ، اس وقت ان کے مونڈھوں کا گوشت کانپ رہا تھا ، آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ ” تم دونوں آج چلے جاؤ ، کل مجھے ملنا ، میں تمہیں اپنے ارادے پر مطلع کروں گا ۔ “ جب وہ دوسرے دن آئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : ” میری بات اپنے لیڈر (‏‏‏‏باذان) تک پہنچا دو کہ اس رات میرے رب نے اس کے رب کسری کو ہلاک کر دیا ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 85  -  5k
حدیث نمبر: 239 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1927... سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ظلم کی تین قسمیں ہیں : (۱) اللہ تعالیٰ ایک ظلم کو کسی صورت نہیں چھوڑے گا ، (۲) ایک ظلم کو بخش دے گا اور (۳) ایک ظلم معاف نہیں کیا جائے گا ۔ (ان کی تفصیل یہ ہے) جس ظلم کو کسی صورت میں نہیں چھوڑا جائے گا ، وہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا ۔ جس ظلم کو بخش دیا جائے گا وہ اللہ اور بندے کے مابین کیا ہوا ظلم ہے ۔ اور وہ ظلم جس کو معاف نہیں کیا جائے گا ، وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر کیا ہوا ظلم ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت میں بعض (مظلوموں) کو بعض (ظالموں) سے قصاص دلوائے گا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 85  -  2k
حدیث نمبر: 3525 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 67... سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں : میں غزوہ خندق والے دن نکلی اور لوگوں کے پیچھے چل پڑی ۔ میں نے چلتے چلتے پیچھے سے قدموں کی پرزور آواز سنی ۔ جب میں نے ادھر توجہ کی ، تو کیا دیکھتی ہوں کہ سعد بن معاذ ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس ہے ، جس نے ڈھال اٹھا رکھی تھی ۔ میں زمین پر بیٹھ گئی ۔ سعد گزرے ، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اور اس کے کنارے نکلے ہوئے تھے ، مجھے خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں ان سے سعد کے اعضائے جسم (‏‏‏‏زخمی نہ ہو جائیں) ۔ وہ گزرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے : ذرا ٹھہرو کہ لڑائی زوروں پر آ جائے کتنی اچھی ہو گی موت ، جب اس کا مقررہ وقت آ جائے گا وہ کہتی ہیں میں کھڑی ہوئی اور ایک باغ میں گھس گئی ، وہاں (‏‏‏‏پہلے سے) چند مسلمان موجود تھے ، ان میں عمر بن خطاب ‏‏‏‏ ؓ بھی تھے اور ایک اور آدمی بھی تھا ، اس نے خود پہنا ہوا تھا ۔ سیدنا عمر ‏‏‏‏ ؓ نے مجھے کہا : آپ یہاں کیوں آئی ہیں ؟ بخدا ! آپ نے تو بڑی جرأت کی ہے ۔ آپ کو اس سے کیا اطمینان کہ آپ پر کوئی بلا آ پڑے یا کہیں بھاگنا پڑ جائے ۔ عمر مجھے ملامت کرتے رہے ، حتیٰ کہ مجھے یہ خواہش ہونے لگی کہ اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں گھس جاؤں ۔ ادھر جب اس بندے نے خود اتارا ، تو معلوم ہوا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ تھے ۔ اس نے کہا : عمر ! آپ نے تو آج بہت باتیں کر دی ہیں ۔ آج صرف اللہ تعالیٰ کی طرف فرار اختیار کرنا ہے ۔ سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں : ایک قریشی مشرک ، جس کو ابن عرقہ کہتے تھے ، نے سعد کو تیر مارا اور کہا : یہ لو نا ، میں تو ابن عرقہ ہوں ۔ وہ تیر ان کے بازو کی رگ میں لگا اور وہ کٹ گئی ، سعد نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی : یاللہ ! مجھے (‏‏‏‏اس وقت تک) موت سے بچانا ، جب تک بنوقریظ کے بارے میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب نہ ہو جائے ۔ وہ جاہلیت میں سعد کے موالی کے حلیف تھے ۔ پس ان کے زخم (‏‏‏‏سے بہنے ولا خون) رک گیا ۔ ا‏‏‏‏دھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر (‏‏‏‏تندوتیز) ہوا بھیجی اور اس لڑائی میں مومنوں کے لیے کافی ہو گیا اور اللہ تعالیٰ طاقتور اور غالب ہے ۔ ابوسفیان اپنے ساتھیوں سمیت تہامہ میں پہنچ گیا اور عیینہ بن بدر نے اپنے ساتھیوں سمیت نجد میں پناہ لی ۔ بنوقریظہ (‏‏‏‏کے یہودی) واپس آ گئے اور قلعہ بند ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں لوٹ آئے ،...
Terms matched: 1  -  Score: 81  -  18k
حدیث نمبر: 3661 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1793... سیدنا ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ لوگوں پر نکل پڑیں گے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ‏‏‏‏ ”وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے ۔ “ (‏‏‏‏سورہ انبیاء : ۹۶) وہ زمین میں پھیل جائیں گے ، مسلمان ان سے بچنے کے لیے اپنے شہروں اور قلعوں میں سمٹ جائیں گے اور اپنے مویشی اپنے ساتھ لے جائیں گے ۔ یاجوج ماجوج زمین کا پانی پی جائیں گے ، (‏‏‏‏اور اتنا پانی پئیں گے کہ) ان کے بعض افراد ایک نہر کے پاس سے گزریں گے اور وہ اس کا سارا پانی پی جائیں گے اور نہر خشک ہو جائے گی ۔ جب ان کے بعد والوں کی وہاں سے گزر ہو گا تو وہ کہیں گے کہ کسی دور میں یہاں پانی ہوتا تھا ۔ جب قلعوں یا شہروں میں پناہ گزین لوگوں کے علاوہ کوئی اور انسان نہیں بچے گا (‏‏‏‏جو انہیں نظر آ سکے) تو وہ کہیں گے : یہ تھے اہل زمین ، (‏‏‏‏ان کا قصہ تو تمام ہو چکا) ہم ان سے فارغ ہو گئے ہیں ، اب اہل آسمان باقی ہیں ۔ (‏‏‏‏ان پر غلبہ پانے کی سوچنی چاہیئے) سو ان کا ایک فرد نیزے کو قدرے زور سے حرکت دے گا اور آسمان کی طرف پھینکے گا ، وہ خون آلود لوٹے گا ، یہ ان کے لیے ابتلاء و آزمائش اور فتنہ و فساد کا سبب بنے گا ۔ اسی حالت پر ہوں گے اچانک اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ٹڈی کی طرح کا کیڑا پیدا کر دیں گے ، جس کی وجہ سے وہ سب کے سب مر جائیں اور ان کی طرف سے کوئی آہٹ سنائی نہیں دے گی ۔ مسلمان کہیں گے : کیا کوئی آدمی ایسا ہے جو اپنے حق میں خطرہ مول لے کر دیکھے کہ دشمن کیا کر رہے ہیں ؟ ایک آدمی اجر و ثواب کی نیت سے باہر نکلے گا ، اس کو اپنے بارے میں یہی گمان ہو گا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا ۔ وہ (‏‏‏‏اپنے قلعے یا شہر سے) نیچے اترے گا اور انہیں مرا ہوا پائے گا ، ان کے لاشے ایک دوسرے پر پڑے ہوں گے ۔ وہ پکارے گا : مسلمانوں کی جماعت ! ذرا غور سے ! خوش ہو جاؤ ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں دشمنوں سے کفایت کیا ہے ۔ وہ اپنے قلعوں اور شہروں سے نکلیں گے ، اپنے مویشیوں کو چرائیں گے ، ان کے گوشت کے علاوہ ان کا کوئی اور چارہ نہیں ہو گا ، وہ گوشت کھا کر اتنے موٹے تازے ہو جائیں گے ، جتنا کہ وہ بہترین چارہ کھا کر ہوتے تھے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 81  -  7k
حدیث نمبر: 2787 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 67... سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں : میں غزوہ خندق والے دن نکلی اور لوگوں کے پیچھے چل پڑی ۔ میں نے چلتے ہوئے پیچھے سے قدموں کی پرزور آواز سنی ۔ جب میں نے ادھر توجہ کی ، تو کیا دیکھتی ہوں کہ سعد بن معاذ ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس ہے ، جس نے ڈھال اٹھا رکھی تھی ۔ میں زمین پر بیٹھ گئی ۔ سعد گزرے ، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اور اس کے کنارے نکلے ہوئے تھے ، مجھے خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں اس سے سعد کے اعضائے جسم (‏‏‏‏زخمی نہ ہو جائیں) ۔ وہ گزرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے : ”ذرا ٹہیرو کہ لڑائی زوروں پر آ جائے کتنی اچھی ہو گی موت ، جب اس کا مقررہ وقت آ جائے گا ۔ “ وہ کہتی ہیں : میں کھڑی ہوئی اور ایک باغ میں گھس گئی ، وہاں (‏‏‏‏پہلے سے) چند مسلمان موجود تھے ، ان میں عمر بن خطاب ؓ بھی تھے اور ایک اور آدمی بھی تھا ، اس نے خود پہنا ہوا تھا ۔ عمر ؓ نے مجھے کہا : آپ یہاں کیوں آئی ہیں ؟ بخدا ! آپ نے تو بڑی جرأت کی ہے ۔ آپ کو اس سے کیا اطمینان کہ آپ پر کوئی بلا آ پڑے یا کہیں بھاگنا پڑ جائے ۔ عمر ؓ مجھے ملامت کرتے رہے ، حتیٰ کہ مجھے یہ خواہش ہونے لگی کہ اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں گھس جاؤں ۔ ا‏‏‏‏دھر جب اس بندے نے خود اتارا ، تو معلوم ہوا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ تھے ۔ اس نے کہا : عمر ! آپ نے تو آج بہت باتیں کر دی ہیں ۔ آج صرف اللہ تعالیٰ کی طرف فرار اختیار کرنا ہے ۔ سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں : ایک قریشی مشرک ، جس کو ابن عرقہ کہتے تھے ، نے سعد کو تیر مارا اور کہا : لو ، میں تو ابن عرقہ ہوں ۔ وہ تیر ان کے بازو کی رگ میں لگا اور وہ کٹ گئی ۔ سعد نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی : اے اللّٰہ ! مجھے (‏‏‏‏اس وقت تک) موت سے بچانا ، جب تک بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب نہ ہو جائے ۔ وہ جاہلیت میں سعد کے موالی کے حلیف تھے ۔ پس ان کے زخم (‏‏‏‏سے بہنے والا خون) رک گیا ۔ ا‏‏‏‏دھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر (‏‏‏‏تند و تیز) ہوا بھیجی اور اس لڑائی میں مومنوں کے لیے کافی ہوا ، اور اللہ تعالیٰ طاقتور اور غالب ہے ۔ ابوسفیان اپنے ساتھیوں سمیت تہامہ میں پہنچ گیا اور عینیہ بن بدر نے اپنے ساتھیوں سمیت نجد میں پناہ لی ۔ بنو قریظہ (‏‏‏‏ کے یہودی) واپس آ گئے اور قلعہ بند ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں لوٹ ...
Terms matched: 1  -  Score: 81  -  18k
حدیث نمبر: 3844 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 50... ابونضرہ کہتے ہیں : ایک صحابی بیمار ہو گئے ، اس کے ساتھی اس کی تیماری داری کرنے کے لیے اس کے پاس گئے ، وہ رونے لگ گیا ۔ اس سے پوچھا گیا : اللہ کے بندے ! کیوں رو رہے ہو ؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے تجھے یہ نہیں کہا تھا کہ ”اپنی مونچھیں کاٹ دو اور پھر اسی چیز پر برقرار رہنا ، یہاں تک کہ مجھے آ ملو ۔ “ ؟ اس نے کہا : کیوں نہیں ، (‏‏‏‏آپ ﷺ نے واقعی یہ بشارت مجھے دی تھی) لیکن میں نے آپ ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے دائیں ہاتھ سے (‏‏‏‏اپنے بندوں کی) کی ایک مٹھی بھری اور فرمایا کہ اس مٹھی والے (‏‏‏‏جنت) کے لیے ہیں اور مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، پھر دوسرے ہاتھ سے دوسری مٹھی بھری اور فرمایا کہ اس مٹھی والے (‏‏‏‏جہنم) کے لیے ہیں اور میں کسی کی کوئی پروا نہیں کرتا ۔ “ ‏‏‏‏ (‏‏‏‏ ‏‏‏‏میرے رونے کی وجہ یہ فکر ہے کہ) میں یہ نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں گا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 80  -  3k
حدیث نمبر: 1066 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1212... سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عتاب بن اسید کو مکہ کی طرف (بطور حاکم) روانہ کیا اور فرمایا : ”کیا تم جانتے ہو کہ میں تجھے کہاں بھیج رہا ہوں ؟ اہل اللہ کی طرف ، جو کہ اہل مکہ ہیں ۔ تم نے ان کو ان چار چیزوں سے منع کرنا ہے : (۱) اس سے کہ ایک ہی معاملہ میں بیع بھی ہو اور قرض بھی ، (۲) ایک سودے میں دو شرطوں سے ، (۳) ایسی چیز کے نفع سے جس کے نقصان کا آدمی ضامن نہ ہو اور (۴) ایسی چیز کی بیع جو تیرے پاس نہ ہو ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 80  -  2k
حدیث نمبر: 86 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 3587... علی بن حسین سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں : مجھے ایک انصار صحابی نے بیان کیا کہ وہ ایک رات کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، ایک سیارہ ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : ” تم جاہلیت میں اس قسم کے سیارے کے بارے میں کیا کہتے تھے ؟ “ انہوں نے کہا : (حقیقی صورت حال تو) اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ ہم یوں کہا کرتے تھے : آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کسی کی موت و حیات کی وجہ سے سیارے نہیں ٹوٹتے ۔ (درحقیقت) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو حاملین عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، پھر اس سے نچلے والے آسمان کے فرشتے اللہ کی تسبیح شروع کرتے ہیں ، حتیٰ کہ آسمان دنیا والے فرشتے بھی تسبیح میں مصروف ہو جاتے ہیں پھر (ساتویں) آسمان والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ انہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ کچھ کہا ، اسی طرح ایک آسمان والے دوسرے سے پوچھتے ہیں اور بات چلتے چلتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے ، (جب آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی بات ہوتی ہے تو اس کے نیچے تک پہنچ جانے والے) جن بات اچک کر اپنے (شیطانی) اولیا تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں ، (ان کو جلانے کے لیے) ان پر سیارے گرائے جاتے ہیں ۔ (بسا اوقات جل جاتے ہیں اور بعض اوقات نکل آتے ہیں) وہ جو کچھ وہاں سے سن کر آتے ہیں وہ تو حق ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جھوٹ گھڑتے ہیں اور اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 79  -  5k
حدیث نمبر: 3165 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 1977... مولائے رسول سیدنا ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بدوی مہمان آیا ، رسول اللہ ﷺ اپنے گھروں کے سامنے بیٹھ گئے اور اس سے سوال کرنے لگے کہ لوگ قبولیت اسلام پر کس قدر خوش ہیں ؟ نماز کا کتنا اہتمام کرتے ہیں ؟ جواباً وہ آدمی خوشکن معروضات ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ کا چہرہ بارونق اور تروتازہ نظر آنے لگا ۔ جب نصف دن گزر گیا اور کھانے کا وقت ہو گیا تو چپکے سے مجھے بلا کر فرمایا اور کوئی کوتاہی نہیں کی : عائشہ کے پاس جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کے مہمان کے بارے میں بتلاؤ (تاکہ وہ کھانا بھیجیں) ۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! میرے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے ۔ (میں آپ ﷺ کی طرف لوٹا اور حقیقت حال سے آگاہ کیا ۔) آپ ﷺ نے مجھے تمام بیویوں کے پاس بھیجا لیکن ہر ایک نے سیدہ عائشہ ؓ والا عذر پیش کیا ۔ رسول اللہ ﷺ کا رنگ ماند پڑ گیا ۔ “ بدوی نے کہا : ہم جنگل میں بسنے والے اور سختیاں جھیلنے والے ہیں ، ہم شہری نہیں ہیں ، بس ایک لپ کھجوریں کافی ہیں اور ان کے بعد پانی اور دودھ مل جائے ، اسی کو ہم فراخی و خوشحالی کہتے ہیں ۔ اتنے میں ہماری ایک بکری ، جسے ہم ”ثمر ثمر“ کہہ کر پکارتے تھے ، گزری اور وہ دوہی جا چکی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ”ثمر ثمر“ کہہ کر بلایا ، وہ ممیاتی ہوئی آپ ﷺ کی طرف آئی ، آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر اس کی ٹانگ پکڑی ، بسم اللہ پڑھ کر اسے باندھا ، پھر بسم اللہ پڑھ کر اس کے ناف کو چھوا ، بکری کے تھنوں میں (از سر نو) دودھ جمع ہو گیا ۔ آپ ﷺ نے مجھے برتن سمیت بلایا ، میں برتن لے کر آیا ، آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر دودھ دوہا ، برتن بھر گیا ، مہمان کو پکڑایا ، اس نے خوب سیر ہو کر پیا ۔ جب اس نے برتن رکھنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اور پیو ۔ “ پھر اس نے برتن رکھنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اور پیو ۔ “ آپ ﷺ نے اسے بار بار ایسے ہی فرمایا ۔ یہاں تک کہ وہ سیراب ہو گیا اور جتنا چاہا پیا ، پھر آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر دودھ دوہا اور فرمایا : ”عائشہ کو دے آؤ ۔ “ انہوں نے جتنا مناسب سمجھا پیا ۔ میں آپ ﷺ کی طرف لوٹا ، آپ ﷺ نے پھر بسم اللہ پڑھ کر دودھ دوہنا اور مجھے اپنی بیویوں کے پاس بھیجنا شروع کر دیا ، جب بھی وہ پی لیتیں تو میں آپ ﷺ کے پاس واپس آ جاتا ا...
Terms matched: 1  -  Score: 78  -  9k
حدیث نمبر: 2076 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 20... سیدنا عبداللہ بن جعفر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور میرے ساتھ رازداری سے ایک بات کی جو میں کسی سے بیان نہیں کروں گا اور رسول اللہ ﷺ کو قضائے حاجت کے لیے کسی اونچی چیز (دیوار ، ٹیلہ وغیرہ) یا کھجور کے جھنڈ کے ساتھ پردہ کرنا سب سے زیادہ پسند تھا ۔ سو آپ ﷺ ایک انصاری آدمی کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اونٹ تھا ۔ پس جب اونٹ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ، تو بلبلایا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ نبی کریم ﷺ اس کے پاس آئے اور اس کی کوہان اور کان کے عقبی حصے پر ہاتھ پھیرا تو اس کو قرار آ گیا ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ”اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ یہ اونٹ کس کا ہے ؟ “ پس ایک نوجوان انصاری آپ کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ میرا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کیا تو اس جانور کے بارے میں ، جس کا اللہ نے تجھ کو مالک بنایا ہے ، اللہ سے نہیں ڈرتا ؟ کیونکہ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور (مشقت زیادہ لے کر) تھکا دیتا ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 78  -  4k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 Next >>


Search took 0.177 seconds