حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا « رجت‏ » کا معنی ہلائی جائے ۔ « بست‏ » چور چور کئے جائیں گے اور ستو کی طرح لت پت کر دیئے جائیں گے ۔ « المخضود » بوجھ لدے ہوئے یا جن میں کانٹا نہ ہو ۔ « منضود‏ » ، « موز » (کیلا) ۔ « عربا » اپنے خاوند کی پیاری بیوی ۔ « ثلۃ‏ » امت گروہ ۔ « حموم‏ » کالا دھواں ۔ « يصرون‏ » ہٹ دھرمی کرتے ، ہمیشہ کرتے تھے ۔ « الہيم » پیاسے اونٹ ۔ « لمغرمون‏ » ٹوٹے میں آ گئے ، ڈنڈ ہوا ۔ « روح‏ » بہشت ، آرام ، راحت ۔ « ريحان‏ » رزق ، روزی ۔ « وننشأكم‏ فيما لا تعلمون » یعنی جس صورت میں ہم چاہیں تم کو پیدا کریں ۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا « تفكہون‏ » کا معنی « تعجبون » تعجب کرتے جائیں ۔ « عربا‏ مثقلۃ » (یعنی ضمہ کے ساتھ) « عروب » کی جمع جیسے « صبور » کی جمع « صبر » آتی ہے (« عروب » خوبصورت پیاری عورت) مکہ والے ایسی عورت کو « عربۃ » کہتے ہیں ۔ اور مدینہ والے « غنجۃ » اور عراق والے « الشكلۃ‏ » کہتے ہیں ۔ « خافضۃ‏ » ایک قوم کو نیچا دکھانے والی یعنی دوزخ میں لے جانے والی ۔ « رافعۃ‏ » ایک قوم کو بلند کرنے والے یعنی بہشت میں لے جانے والی ۔ « موضونۃ‏ » سونے سے بنے ہوئے ، اسی سے نکلا ہے « وضين الناقۃ » یعنی اونٹنی کا زیر بند (تنگ) ۔ « كوب » آبخورہ جس میں ٹونٹی اور کنڈا نہ ہو ۔ (« اكوب » جمع ہے) « ابريق » وہ کوزہ جس میں ٹونٹی کنڈہ ہو ۔ « اباريق » اس کی جمع ہے ۔ « مسكوب‏ » بہتا ہوا ، جاری ۔ « وفرش مرفوعۃ‏ » اونچے بچھونے یعنی ایک کے اوپر ایک تلے اوپر بچھائے گئے ۔ « مترفين‏ » کا معنی آسودہ ، آرام پروردہ تھے ۔ « ما تمنون‏ » نطفہ جو عورتوں کے رحموں میں ڈالتے ہو ۔ « للمقوين‏ » مسافروں کے فائدے کے لیے یہ « قي » سے نکلا ہے « قي » کہتے ہیں بےآب و گیاہ میدان کو ۔ « بمواقع النجوم‏ » سے قرآن کی محکم آیتیں مراد ہیں بعضوں نے کہا تارے ڈوبنے کے مقامات ۔ « واقع » جمع ہے ، اس کا واحد « موقع » دونوں کا (جب « مضاف » ہوں) ایک ہی معنی ہے ۔ « مدہنون‏ » جھٹلانے والے جیسے اس آیت میں ہے « لو تدہن فيدہنون‏ فسلام لك‏ من أصحاب اليمين » کا یہ معنی ہے ۔ « مسلم لك إنك من أصحاب اليمين » یعنی یہ بات مان لی گئی ہے چاہے کہ تو داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے تو ان کا لفظ گرا دیا گیا مگر اس کا معنی قائم رکھا گیا اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے میں اب تھوڑی دیر میں سفر کرنے والا ہوں اور تو اس سے کہے « أنت مصدق مسافر ...
Terms matched: 3  -  Score: 243  -  8k
حدیث نمبر: 2941 --- ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ مجھے ابوسفیان ؓ نے خبر دی کہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ وہ ان دنوں شام میں مقیم تھے ۔ یہ قافلہ اس دور میں یہاں تجارت کی غرض سے آیا تھا جس میں نبی کریم ﷺ اور کفار قریش میں باہم صلح ہو چکی تھی ۔ (صلح حدیبیہ) ابوسفیان نے کہا کہ قیصر کے آدمی کی ہم سے شام کے ایک مقام پر ملاقات ہوئی اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے (قیصر کے دربار میں بیت المقدس) لے کر چلا پھر جب ہم ایلیاء (بیت المقدس) پہنچے تو قیصر کے دربار میں ہماری بازیابی ہوئی ۔ اس وقت قیصر دربار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے سر پر تاج تھا اور روم کے امراء اس کے اردگرد تھے ، اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو کہ جنہوں نے ان کے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے نسب کے اعتبار سے ان سے قریب ان میں سے کون شخص ہے ؟ ابوسفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں نسب کے اعتبار سے ان کے زیادہ قریب ہوں ۔ قیصر نے پوچھا تمہاری اور ان کی قرابت کیا ہے ؟ میں نے کہا (رشتے میں) وہ میرے چچازاد بھائی ہوتے ہیں ، اتفاق تھا کہ اس مرتبہ قافلے میں میرے سوا بنی عبد مناف کا اور آدمی موجود نہیں تھا ۔ قیصر نے کہا کہ اس شخص (ابوسفیان ؓ ) کو مجھ سے قریب کر دو اور جو لوگ میرے ساتھ تھے اس کے حکم سے میرے پیچھے قریب میں کھڑے کر دئیے گئے ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص (ابوسفیان) کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ اس سے میں ان صاحب کے بارے میں پوچھوں گا جو نبی ہونے کے مدعی ہیں ، اگر یہ ان کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہے تو تم فوراً اس کی تکذیب کر دو ۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! اگر اس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر بیٹھیں تو میں ان سوالات کے جوابات میں ضرور جھوٹ بول جاتا جو اس نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں کئے تھے ، لیکن مجھے تو اس کا خطرہ لگا رہا کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر دیں ۔ اس لیے میں نے سچائی سے کام لیا ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں ان صاحب ( ﷺ ) کا نسب کیسا سمجھا جاتا ہے ؟ میں نے بتایا کہ ہم میں ان کا نسب بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس نے پوچھا اچھا یہ نبوت کا دعویٰ اس سے پہلے بھی تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا ؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ اس نے پوچھا کیا اس دعویٰ سے پہلے ان پر کوئی جھوٹ کا الزام تھا ؟ میں نے کہا کہ نہیں ، اس نے پوچھا ...
Terms matched: 3  -  Score: 201  -  28k
حدیث نمبر: 7460 --- ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن جابر نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا ، انہوں نے معاویہ ؓ سے سنا ، بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ قرآن و حدیث پر قائم رہے گا ، اسے جھٹلانے والے اور مخالفین کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ، یہاں تک کہ « أمر اللہ » (قیامت) آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے ۔ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ میں نے معاذ ؓ سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ یہ گروہ شام میں ہو گا ۔ اس پر معاویہ ؓ نے کہا کہ یہ مالک ؓ کہتے ہیں کہ معاذ ؓ نے کہا تھا کہ یہ گروہ شام میں ہو گا ۔
Terms matched: 3  -  Score: 186  -  3k
حدیث نمبر: 7311 --- ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل نے ، ان سے قیس نے ، ان سے مغیرہ بن شعبہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا (اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے) یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے ۔ “
Terms matched: 3  -  Score: 160  -  2k
حدیث نمبر: 3641 --- ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یزید بن جابر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا ، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر ہیں گے ۔ عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ معاذ بن جبل ؓ نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہ لوگ شام میں ہیں ۔ امیر معاویہ ؓ نے کہا کہ دیکھو یہ مالک بن یخامر یہاں موجود ہیں ، جو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے معاذ ؓ سے سنا کہ یہ لوگ شام کے ملک میں ہیں ۔
Terms matched: 3  -  Score: 125  -  3k
حدیث نمبر: 7312 --- ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے انہیں حمید نے خبر دی ، کہا کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے سنا ، وہ خطبہ دے رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے اور اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا ، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے یا (آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے ۔
Terms matched: 3  -  Score: 49  -  3k
حدیث نمبر: 2468 --- ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ عمر ؓ سے نبی کریم ﷺ کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التحریم میں) فرمایا ہے « إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما‏ » ” اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو (تو بہتر ہے) کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں ۔ “ پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا ۔ عمر ؓ راستے سے قضائے حاجت کے لیے ہٹے تو میں بھی ان کے ساتھ (پانی کا ایک) چھاگل لے کر گیا ۔ پھر وہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے ۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا ۔ اور انہوں نے وضو کیا ، پھر میں نے پوچھا ، یا امیرالمؤمنین ! نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ « إن تتوبا إلى اللہ‏ » ” تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو “ انہوں نے فرمایا ، ابن عباس ! تم پر حیرت ہے ۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ ( ؓ ) ہیں ۔ پھر عمر ؓ میری طرف متوجہ ہو کر پورا واقعہ بیان کرنے لگے ۔ آپ نے بتلایا کہ بنوامیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا ۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا ۔ ہم دونوں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی ۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں ۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتا ۔ (اور ان کو سناتا) اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے ۔ ہم قریش کے لوگ (مکہ میں) اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے ۔ لیکن جب ہم (ہجرت کر کے) انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں ۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا ۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا ۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے ۔ قسم اللہ کی ! نبی کریم ﷺ کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رہتی ہیں ۔ اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہو گا وہ بہت بڑے نقصان...
Terms matched: 2  -  Score: 177  -  27k
حدیث نمبر: 4141 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر ‘ سعید بن مسیب ‘ علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے کہ جب اہل افک (یعنی تہمت لگانے والوں) نے ان کے متعلق وہ سب کچھ کہا جو انہیں کہنا تھا (ابن شہاب نے بیان کیا کہ) تمام حضرات نے (جن چار حضرات کے نام انہوں نے روایت کے سلسلے میں لیے ہیں) مجھ سے عائشہ ؓ کی حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا ۔ یہ بھی تھا کہ ان میں سے بعض کو یہ قصہ زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھا اور عمدگی سے یہ قصہ بیان کرتا تھا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کی روایت یاد رکھی جو اس نے عائشہ ؓ سے یاد رکھی تھی ۔ اگرچہ بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں روایت زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھی ۔ پھر بھی ان میں باہم ایک کی روایت دوسرے کی روایت کی تصدیق کرتی ہے ۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو ازواج مطہرات ؓ ن کے درمیان قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جس کا نام آتا تو نبی کریم ﷺ انہیں اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر جب آپ نے قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا اور میں آپ ﷺ کے ساتھ سفر میں روانہ ہوئی ۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم کے نازل ہونے کے بعد کا ہے ۔ چنانچہ مجھے ہودج سمیت اٹھا کر سوار کر دیا جاتا اور اسی کے ساتھ اتارا جاتا ۔ اس طرح ہم روانہ ہوئے ۔ پھر جب نبی کریم ﷺ اپنے اس غزوہ سے فارغ ہو گئے تو واپس ہوئے ۔ واپسی میں اب ہم مدینہ کے قریب تھے (اور ایک مقام پر پڑاؤ تھا) جہاں سے آپ ﷺ نے کوچ کا رات کے وقت اعلان کیا ۔ کوچ کا اعلان ہو چکا تھا تو میں کھڑی ہوئی اور تھوڑی دور چل کر لشکر کے حدود سے آگے نکل گئی ۔ پھر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر میں اپنی سواری کے پاس پہنچی ۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو ظفار (یمن کا ایک شہر) کے مہرہ کا بنا ہوا میرا ہار غائب تھا ۔ اب میں پھر واپس ہوئی اور اپنا ہار تلاش کرنے لگی ۔ اس تلاش میں دیر ہو گئی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ جو لوگ مجھے سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر انہوں نے میرے اونٹ پر رکھ دیا ۔ جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی ۔ ...
Terms matched: 2  -  Score: 163  -  53k
حدیث نمبر: 5052 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ، ان سے مغیرہ بن مقسم نے ، ان سے مجاہد بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو ؓ نے بیان کیا کہ میرے والد عمرو بن العاص ؓ نے میرا نکاح ایک شریف خاندان کی عورت (ام محمد بنت محمیہ) سے کر دیا تھا اور ہمیشہ اس کی خبرگیری کرتے رہتے تھے اور ان سے باربار اس کے شوہر (یعنی خود ان) کے متعلق پوچھتے رہتے تھے ۔ میری بیوی کہتی کہ بہت اچھا مرد ہے ۔ البتہ جب سے میں ان کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم بھی نہیں رکھا نہ میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ ڈالا ۔ جب بہت دن اسی طرح ہو گئے تو والد صاحب نے مجبور ہو کر اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ ۔ چنانچہ میں اس کے بعد نبی کریم ﷺ سے ملا ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ روزہ کس طرح رکھتے ہو ۔ میں نے عرض کیا کہ روزانہ پھر دریافت فرمایا قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا ہر رات ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو اور قرآن ایک مہینے میں ختم کرو ۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر بلا روزے کے رہو اور ایک دن روزے سے ۔ میں نے عرض کیا مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ روزہ رکھو جو سب سے افضل ہے ، یعنی داؤد علیہ السلام کا روزہ ، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور قرآن مجید سات دن میں ختم کرو ۔ عبداللہ بن عمرو ؓ کہا کرتے تھے کاش میں نے نبی کریم ﷺ کی رخصت قبول کر لی ہوتی کیونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں ۔ حجاج نے کہا کہ آپ اپنے گھر کے کسی آدمی کو قرآن مجید کا ساتواں حصہ یعنی ایک منزل دن میں سنا دیتے تھے ۔ جتنا قرآن مجید آپ رات کے وقت پڑھتے اسے پہلے دن میں سنا رکھتے تاکہ رات کے وقت آسانی سے پڑھ سکیں اور جب (قوت ختم ہو جاتی اور نڈھال ہو جاتے اور) قوت حاصل کرنا چاہتے تو کئی کئی دن روزہ نہ رکھتے کیونکہ آپ کو یہ پسند نہیں تھا کہ جس چیز کا رسول اللہ ﷺ کے آگے وعدہ کر لیا ہے (ایک دن روزہ رکھنا ایک دن افطار کرنا) اس میں سے کچھ بھی چھوڑیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے تین دن میں اور بعض نے پانچ دن میں ۔ لیکن اکثر نے سات راتوں میں ختم کی حدیث روایت کی ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 156  -  7k
حدیث نمبر: 4750 --- ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے یونس بن یزید نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، انہیں عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ پر تہمت لگانے کا واقعہ بیان کیا ۔ یعنی جس میں تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا ۔ ان تمام راویوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض راوی کو بعض دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقہ پر محفوظ ، یاد تھی ۔ مجھ سے یہ حدیث عروہ نے عائشہ ؓ سے اس طرح بیان کی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا ۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی ۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے ۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا ۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا ۔ پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا ۔ میں (قضائے حاجت کے لیے) پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضائے حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آ گئی ۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گر گیا ہے ۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہو گئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا ۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لیے تھا ۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی ۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی ۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے ۔ مجھے ہار اس وقت مل...
Terms matched: 2  -  Score: 152  -  49k
حدیث نمبر: 3364 --- ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں ایوب سختیانی اور کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابی وداعہ نے ۔ یہ دونوں کچھ زیادہ اور کمی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، وہ دونوں سعید بن جبیر سے کہ ابن عباس ؓ نے بیان کیا ، عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) سے چلا ہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم (علیہما السلام) ساتھ لے کر مکہ میں آئے ، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے ۔ مسجد کی بلند جانب میں ۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا ۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لیے) روانہ ہوئے ۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم ! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں ، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے ۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں ۔ اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا ، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے ۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا ، جہاں اب کعبہ ہے (جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے (سورۃ ابراہیم) « يشكرون‏ » تک ۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں ۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گی...
Terms matched: 2  -  Score: 150  -  36k
حدیث نمبر: 2309 --- ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا ، ان سے عطاء بن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر ؓ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں سے مرسلاً روایت کیا ہے ۔ وہ جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا ، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا ۔ اتفاق سے نبی کریم ﷺ کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں ؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ ، آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہوئی (کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے ؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ مجھے دیدے ۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی ۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے آگے رہنے لگا ۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کر دے ۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو آپ ﷺ کا ہی ہے ، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کر دے ۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو ۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں (دوسری طرف) جانے لگا ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی ۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پا چکے ہیں ۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں ۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے ، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ بلال ! ان کی قیمت ادا کر دو اور کچھ بڑھا کر دے دو ۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے ۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا ۔ جابر ؓ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا ، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا وہ قیراط جابر ؓ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 149  -  7k
حدیث نمبر: 3668 --- ‏‏‏‏ ابوبکر ؓ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ۔ پھر فرمایا : لوگو ! دیکھو اگر کوئی محمد ( ﷺ ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں ، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی ۔ (پھر ابوبکر ؓ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی) « إنك ميت وإنہم ميتون‏ » ” اے پیغمبر ! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے ۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا « وما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضر اللہ شيئا وسيجزي اللہ الشاكرين‏ » ” محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں ۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں ۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے ۔ “ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ ؓ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہو گا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر ، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کی مجلس میں پہنچے ۔ عمر ؓ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر ؓ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا ۔ عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر ؓ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی ۔ پھر ابوبکر ؓ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو ۔ اس پر حباب بن منذر ؓ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا ۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر ؓ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن...
Terms matched: 2  -  Score: 133  -  9k
حدیث نمبر: 4921 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ، ان سے ابوبشر نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے ساتھ سوق عکاظ (مکہ اور طائف کے درمیان ایک میدان جہاں عربوں کا مشہور میلہ لگتا تھا) کا قصد کیا اس زمانہ میں شیاطین تک آسمان کی خبروں کے چرا لینے میں رکاوٹ پیدا کر دی گئی تھی اور ان پر آسمان سے آگ کے انگارے چھوڑے جاتے تھے جب وہ جِن اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئے تو ان کی قوم نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ آسمان کی خبروں میں اور ہمارے درمیان رکاوٹ کر دی گئی ہے اور ہم پر آسمان سے آگ کے انگارے برسائے گئے ہیں ، انہوں نے کہا کہ آسمان کی خبروں اور تمہارے درمیان رکاوٹ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی خاص بات پیش آئی ہے ۔ اس لیے ساری زمین پر مشرق و مغرب میں پھیل جاؤ اور تلاش کرو کہ کون سی بات پیش آ گئی ہے ۔ چنانچہ شیاطین مشرق و مغرب میں پھیل گئے تاکہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ آسمان کی خبروں کی ان تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے وہ کس بڑے واقعہ کی وجہ سے ہے ۔ بیان کیا کہ جو شیاطین اس کھوج میں نکلے تھے ان کا ایک گروہ وادی تہامہ کی طرف بھی آ نکلا (یہ جگہ مکہ معظمہ سے ایک دن کے سفر کی راہ پر ہے) جہاں رسول اللہ ﷺ منڈی عکاظ کی طرف جاتے ہوئے کھجور کے ایک باغ کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے ۔ نبی کریم ﷺ اس وقت صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے ۔ جب شیاطین نے قرآن مجید سنا تو یہ اس کو سننے لگ گئے پھر انہوں نے کہا کہ یہی چیز ہے وہ جس کی وجہ سے تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوئی ہے ۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ آئے اور ان سے کہا کہ « إنا سمعنا قرآنا عجبا » الایۃ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی راہ دکھلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور ہم اب اپنے پروردگار کو کسی کا ساجھی نہ بنائیں گے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر یہ آیت نازل کی « قل أوحي إلى أنہ استمع نفر من الجن‏ » الایۃ ۔ آپ کہئے کہ میرے پاس وحی آئی ہے اس بات کی کہ جِنوں کی ایک جماعت نے قرآن مجید سنا یہی جِنوں کا قول نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 133  -  7k
حدیث نمبر: 5189 --- ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور علی بن حجر نے بیان کیا ، ان دونوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی ، اس نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے ، انہوں نے عائشہ ؓ سے انہوں نے کہا کہ گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں ۔ چنانچہ پہلی عورت (نام نامعلوم) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آوے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لیے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے ۔ دوسری عورت (عمرہ بنت عمرو تمیمی نامی) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کر سکتی ہوں ۔ تیسری عورت (حیی بنت کعب یمانی) کہنے لگی ، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ (لمبا تڑنگا) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں ۔ چوتھی عورت (مہدو بنت ابی ہرومہ) کہنے لگی کہ میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتاہٹ ہے ۔ پانچوں عورت (کبشہ نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند ایسا ہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر (بہادر) کی طرح ہے ۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں (کہ وہ کہاں گئی ؟) اتنا بےپرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لیے اٹھا کر رکھتا ہی نہیں اتنا سخی ہے ۔ چھٹی عورت (ہند نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے پر آتا ہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑ کر سو جاتا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تو معلوم کرے ۔ ساتویں عورت (حیی بنت علقمہ) میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے ۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے اوندھا پڑ جاتا ہے ۔ دنیا میں جتنے عیب لو...
Terms matched: 2  -  Score: 123  -  17k
حدیث نمبر: 942 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ، انہوں نے زہری سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے صلوۃ خوف پڑھی تھی ؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہمیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے بتلایا کہ میں نجد کی طرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ (ذات الرقاع) میں شریک تھا ۔ دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم نے صفیں باندھیں ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی (تو ہم میں سے) ایک جماعت آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے ۔ پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی ۔ اب دوسری جماعت آئی ۔ ان کے ساتھ بھی آپ ﷺ نے ایک رکوع اور دو سجدے کئے ۔ پھر آپ ﷺ نے سلام پھیر دیا ۔ اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: میدان جنگ میں نماز خوف کی ادائیگی ۔
Terms matched: 2  -  Score: 117  -  3k
حدیث نمبر: 2581 --- ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس نے ، ان سے سلیمان نے ہشام بن عروہ سے ، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج دو گروہ میں تھیں ۔ ایک میں عائشہ ، حفصہ ، صفیہ اور سودہ رضوان اللہ علیہن اور دوسری میں ام سلمہ اور بقیہ تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن تھیں ۔ مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی عائشہ ؓ کے ساتھ محبت کا علم تھا اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا ۔ جب رسول اللہ ﷺ کی عائشہ ؓ کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجتے ۔ اس پر ام سلمہ ؓ کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور ام سلمہ ؓ سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں تاکہ آپ ﷺ لوگوں سے فرما دیں کہ جسے آپ کے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپ ﷺ ہوں وہیں بھیجا کرے ۔ چنانچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا لیکن آپ ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر ان خواتین نے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ مجھے آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ازواج مطہرات نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ کہو ۔ انہوں نے بیان کیا پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا ۔ اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا ۔ ازواج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپ ﷺ کو اس مسئلہ پر بلواؤ تو سہی ۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا ۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ فرمایا ۔ عائشہ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو ۔ عائشہ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے ۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ آپ ﷺ کے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا ، آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں ۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان کے ذریعہ آپ ﷺ کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر ؓ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپ ﷺ سے بات چیت کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، میری بیٹی ! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ، اس کے بعد وہ واپس آ گئیں اور ازواج کو اطلاع دی ۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جا...
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  11k
حدیث نمبر: 6587 --- ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے ، کہا کہ مجھ سے ہلال نے ، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” میں (حوض پر) کھڑا ہوں گا کہ ایک جماعت میرے سامنے آئے گی اور جب میں انہیں پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ ۔ میں کہوں گا کہ کدھر ؟ وہ کہے گا کہ واللہ جہنم کی طرف ۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں ؟ وہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں (دین سے) واپس لوٹ گئے تھے ۔ پھر ایک اور گروہ میرے سامنے آئے گا اور جب میں انہیں بھی پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان میں سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ ۔ میں پوچھوں گا کہ کہاں ؟ تو وہ کہے گا ، اللہ کی قسم ! جہنم کی طرف ۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں ؟ فرشتہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے تھے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے ایک آدمی بھی نہیں بچے گا ۔ ان سب کو دوزخ میں لے جائیں گے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  4k
حدیث نمبر: 6830 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا ۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ بھی ان میں سے ایک تھے ۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر ؓ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا ۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین ! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر ؓ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی ۔ اس پر عمر ؓ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں ۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا : یا امیرالمؤمنین ! ایسا نہ کیجئے ۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے ، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے ، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے ۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے ، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے ۔ عمر ؓ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا ۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے ۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا ۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا...
Terms matched: 2  -  Score: 115  -  31k
حدیث نمبر: 3610 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے اور آپ ﷺ (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! انصاف سے کام لیجئے ۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ” افسوس ! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا ۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے ۔ “ عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو ۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے ۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا ۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے ۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا ۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا ۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا ۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے ۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا ۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے ۔ ابو سعید خدری ؓ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب ؓ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی علی ؓ کے ساتھ تھا ۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آپ ﷺ نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا ۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ ﷺ کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 103  -  7k
Result Pages: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 Next >>


Search took 0.178 seconds