[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی، بے شک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ فرمایا میرا عذاب، میں اسے پہنچاتا ہوں جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (ان کے لیے) جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ [156] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دے اور آخرت میں بھی، ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وه رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان ﻻتے ہیں [156]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ ہم تیری طرف رجوع ہوچکے۔ فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔ میں اس کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰة دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں [156]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 156،
اللہ تعالٰی کی رحمت اور انسان ٭٭
چونکہ کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یہ محض تیری طرف سے آزمائش ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ عذاب تو صرف گنہگاروں کو ہی ہوتا ہے اور گنہگاروں میں سے بھی انہی کو جو میری نگاہ میں گنہگار ہیں، نہ کہ ہر گنہگار کو۔ میں اپنی حکمت، عدل اور پورے علم کے ذریعے سے جانتا ہوں کہ مستحق عذاب کون ہے؟ صرف اسی کو عذاب پہنچاتا ہوں۔ ہاں البتہ میری رحمت بڑی وسیع چیز ہے جو سب کو شامل، سب پر حاوی اور سب پر محیط ہے۔
چنانچہ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے اردگرد رہنے والے فرشتے فرماتے رہتے ہیں کہ اے رب! تو نے اپنی رحمت اور اپنے علم سے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے۔
مسند امام احمد میں ہے کہ ایک اعرابی آیا۔ اونٹ بٹھا کر، اسے باندھ کر نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہو کر اونٹ کو کھول کر اس پر سوار ہو کر اونچی آواز سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور اپنی رحمت میں کسی اور کو ہم دونوں کا شریک نہ کر۔ آپ یہ سن کر فرمانے لگے: بتاؤ یہ خود راہ گم کردہ ہونے میں بڑھا ہوا ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا بھی، اس نے کیا کہا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہاں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سن لیا۔ آپ نے فرمایا: اے شخص! تو نے اللہ کی بہت ہی کشادہ رحمت کو بہت تنگ چیز سمجھ لیا۔ سن! اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک حصہ مخلوق میں اتارا جو تمام مخلوق میں تقسیم ہوا یعنی انسان، حیوان، جنات سب میں اور ننانوے حصے اپنے لیے باقی رکھے۔ لوگو! بتاؤ یہ زیادہ راہ بہکا ہوا ہے یا اس کا اونٹ؟ [مسند احمد:312/4:ضعیف]
مسند کی اور حدیث میں ہے: اللہ عز و جل نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک ہی حصہ دنیا میں اتارا۔ اسی سے مخلوق ایک دوسرے پر ترس کھاتی ہے اور رحم کرتی ہے، اسی سے حیوان بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرتے ہیں۔ باقی کے ننانوے حصے تو اس کے پاس ہی ہیں جن کا اظہار قیامت کے دن ہو گا۔ [صحیح مسلم:2753]
3081
اور روایت میں ہے کہ بروز قیامت اسی حصے کے ساتھ اور ننانوے حصے جو مؤخر ہیں، ملا دیئے جایں گے۔ [صحیح مسلم:2742]
ایک اور روایت میں ہے کہ اسی نازل کردہ ایک حصے میں پرند بھی شریک ہیں۔ [سنن ابن ماجه:4294، قال الشيخ الألباني:صحیح]
طبری میں ہے: قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو اپنے دین میں فاجر ہے، جو اپنی معاش میں احمق ہے وہ بھی اس میں داخل ہے۔ اس کی قسم جو میری جان اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے! وہ بھی جنت میں جائے گا جو مستحق جہنم ہو گا۔ اس کی قسم جس کے قبضے میں میری روح ہے! قیامت کے دن اللہ کی رحمت کے کرشمے دیکھ کر ابلیس بھی امیدوار ہو کر ہاتھ پھیلا دے گا۔ [طبرانی کبیر:3022:ضعیف] یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کا راوی سعد غیر معروف ہے۔
پس میں اپنی اس رحمت کو ان کے لیے واجب کر دوں گا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے۔ جیسے فرمان ہے: ” تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کر لیا ہے۔ “[6-الأنعام:12]
پس جن پر رحمت رب واجب ہو جائے گی، ان کے جو اوصاف بیان فرمائے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو تقویٰ کریں یعنی شرک سے اور کبیرہ گناہوں سے بچیں، زکوٰۃ دیں یعنی اپنے ضمیر کو پاک رکھیں اور مال کی زکوٰۃ بھی ادا کریں۔ (کیونکہ یہ آیت مکی ہے) اور ہماری آیتوں کو مان لیں، ان پر ایمان لائیں اور انہیں سچ سمجھیں۔