تفسير ابن كثير



سورۃ الأعراف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ[201] وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ[202]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یقینا جو لوگ ڈر گئے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں۔ [201] اور جو ان (شیطانوں) کے بھائی ہیں وہ انھیں گمراہی میں بڑھاتے رہتے ہیں، پھر وہ کمی نہیں کرتے۔ [202]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطره شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وه یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں [201] اور جو شیاطین کے تابع ہیں وه ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وه باز نہیں آتے [202]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو لوگ پرہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں [201] اور ان (کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں پھر (اس میں کسی طرح کی) کوتاہی نہیں کرتے [202]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 201، 202،

جو اللہ سے ڈرتا ہے ، شیطان اس سے ڈرتا ہے ٭٭

طائف کی دوسری قرأت «طیف» ہے۔ یہ دونوں مشہور قرأتیں ہیں۔ دونوں کے معنی ایک ہیں۔ بعض نے لفظی تعریف بھی کی ہے۔

فرمان ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، جنہیں اللہ کا ڈر ہے، جو نیکیوں کے عامل اور برائیوں سے رکنے والے ہیں، انہیں جب کبھی غصہ آ جائے، یا شیطان ان پر اپنا کوئی داؤ چلانا چاہے، یا ان کے دل میں کسی گناہ کی رغبت ڈالے، اور ان سے کوئی گناہ کرانا چاہے تو یہ اللہ کے عذاب سے بچنے میں جو ثواب ہے، یہ اسے بھی یاد کر لیتے ہیں، رب کے وعدے وعید کی یاد کرتے ہیں اور فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں، توبہ کر لیتے ہیں، اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطانی شر سے پناہ مانگنے لگتے ہیں اور اسی وقت اللہ کی جناب میں رجوع کرنے لگتے ہیں اور استقامت کے ساتھ صحت پر جم جاتے ہیں۔

ابن مردویہ میں ہے کہ ایک عورت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، جسے مرگی کا دورہ پڑا کرتا تھا، اس نے درخواست کی کہ آپ میرے لیے آپ دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اللہ تمہیں شفا بخشے اور اگر چاہو تو صبر کرو تو اللہ تم سے حساب نہ لے گا۔ اس نے کہا لی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں صبر کرتی ہوں کہ میرا حساب معاف ہو جائے۔

سنن میں بھی یہ حدیث ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ میں گر پڑتی ہوں اور بیہوشی کی حالت میں میرا کپڑا کھل جاتا ہے جس سے بےپردگی ہوتی ہے۔ اللہ سے میری شفا کی درخواست کیجئے۔ آپ نے فرمایا: تم ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کر لو، یا تو میں دعا کروں اور تمہیں شفا ہو جائے، یا تم صبر کرو اور تمہیں جنت ملے۔ اس نے کہا: میں صبر کرتی ہوں کہ مجھے جنت ملے۔ لیکن اتنی دعا تو ضرور کیجئے کہ میں بےپردہ نہ ہو جایا کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ چنانچہ ان کا کپڑا کیسی ہی وہ تلملاتیں، اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا تھا۔ [صحیح بخاری:5652] ‏‏‏‏
3185

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں عمرو بن جامع کے حالات میں نقل کرتے ہیں کہ ایک نوجوان عابد مسجد میں رہا کرتا تھا اور اللہ کی عبادت کا بہت مشتاق تھا۔ ایک عورت نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کئے، یہاں تک کہ اسے بہکا لیا۔ قریب تھا کہ وہ اس کے ساتھ کوٹھڑی میں چلا جائے اچانک اسے یہ آیت «إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ» یاد آئی اور غش کھا کر گر پڑا۔ بہت دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا، اس نے پھر اس آیت کو یاد کیا اور اس قدر اللہ کا خوف اس کے دل میں سمایا کہ اس کی جان نکل گئی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کے والد سے ہمدردی اور غم خواری کی۔ چونکہ انہیں رات ہی کو دفن کر دیا گیا تھا، آپ ان کی قبر پر گئے، آپ کے ساتھ بہت سے آدمی تھے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور اسے آواز دے کر فرمایا: اے نوجوان! «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ» [55-الرحمن:46] ‏‏‏‏ ” جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے، اس کیلئے دو دو جنتیں ہیں۔ “ اسی وقت قبر کے اندر سے آواز آئی کہ مجھے میرے رب عزوجل نے وہ دونوں مرتبے دو دو عطا فرما دیئے۔
3186

یہ تو تھا حال اللہ والوں کا اور پرہیزگاروں کا کہ وہ شیطانی جھٹکوں سے بچ جاتے ہیں، اس کے فن فریب سے چھوٹ جاتے ہیں۔ اب ان کا حال بیان ہو رہا ہے جو خود شیطان کے بھائی بنے ہوئے ہیں، جیسے «إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ» [17-الإسراء:27] ‏‏‏‏ فضول خرچ لوگوں کو قرآن نے شیطان کے بھائی قرار دیا ہے۔ ایسے لوگ اس کی باتیں٘ سنتے ہیں، مانتے ہیں اور ان پر ہی عمل کرتے ہیں۔ شیاطین ان کے سامنے برائیاں اچھے رنگ میں پیش کرتے ہیں، ان پر وہ آسان ہو جاتی ہیں اور یہ پوری مشغولیت کے ساتھ ان میں پھنس جاتے ہیں۔

دن بدن اپنی بدکاری میں بڑھتے جاتے ہیں، جہالت اور نادانی کی حد کر دیتے ہیں۔ جیسے آیت میں ہے «أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا» [19-مريم:83] ‏‏‏‏ ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ ان کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔ “

نہ شیطان ان کے بہکانے میں کوتاہی برتتے ہیں، نہ یہ برائیاں کرنے میں کمی کرتے ہیں۔ یہ ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور وہ ان وسوسوں میں پھنستے رہتے ہیں، یہ انہیں بھڑکاتے رہتے ہیں اور گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں، وہ برے عمل کئے جاتے ہیں اور برائیوں پر مداومت اور لذت کے ساتھ جمے رہتے ہیں۔
3187



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.