تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ[168] إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[169]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو! ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں حلال، پاکیزہ کھائو اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ [168] وہ تو تمھیں برائی اور بے حیائی ہی کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ تم اللہ پر وہ بات کہو جو تم نہیں جانتے۔ [169]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزه چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راه پر نہ چلو، وه تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے [168] وه تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں [169]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے [168] وہ تو تم کو برائی اور بےحیائی ہی کے کام کرنے کو کہتا ہے اور یہ بھی کہ خدا کی نسبت ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں (کچھ بھی) علم نہیں [169]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 168، 169،

روزی دینے والا کون؟ ٭٭

اوپر چونکہ توحید کا بیان ہوا تھا اس لیے یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ تمام مخلوق کا روزی رساں بھی وہی ہے، فرماتا ہے کہ میرا یہ احسان بھی نہ بھولو کہ میں نے تم پر پاکیزہ چیزیں حلال کیں جو تمہیں لذیذ اور مرغوب ہیں جو نہ جسم کو ضرر پہنچائیں نہ صحت کو نہ عقل و ہوش کو ضرر دیں، میں تمہیں روکتا ہوں کہ شیطان کی راہ پر نہ چلو جس طرح اور لوگوں نے اس کی چال چل کر بعض حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے اسے ان کے لیے حلال کر دیا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹا دیا اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کر دیا۔ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏
609

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جس وقت اس آیت کی تلاوت ہوئی تو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سعد رضی اللہ عنہ پاک چیزیں اور حلال لقمہ کھاتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے حرام کا لقمہ جو انسان اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی نحوست کی وجہ سے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو گوشت پوست حرام سے پلا وہ جہنمی ہے۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:1812، ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، جیسے اور جگہ فرمایا کہ «إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ» [ 35-فاطر: 6 ] ‏‏‏‏ شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو اس کی اور اس کے دوستوں کی تو یہ عین چاہت ہے کہ لوگوں کو عذاب میں جھونکیں۔ [35-فاطر:6] ‏‏‏‏ اور جگہ فرمایا آیت «اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا» [ 18۔ الکہف: 50 ] ‏‏‏‏ کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو؟ حالانکہ حقیقتاً وہ تمہارا دشمن ہے ظالموں کے لیے برا بدلہ ہے۔ آیت «يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ» [ البقرہ: 168 ] ‏‏‏‏ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:221/1] ‏‏‏‏ جس میں شیطان کا بہکاوا شامل ہوتا ہے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق رحمہ اللہ کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا روزے سے ہو؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنی قسم کا کفارہ دو اور کھا لو۔
610

ابورافع رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اب میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے؟ تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے، پھر میں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا، عاصم اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہی فتویٰ، ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ہے کہ جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے کے برابر دیدے۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا، لہٰذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے۔
611



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.