[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس کے ساتھی نے، جب کہ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، اس سے کہا کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر تجھے ٹھیک ٹھاک ایک آدمی بنا دیا۔ [37] لیکن میں، تو وہ اللہ ہی میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ [38] اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو توُ نے یہ کیوں نہ کہا ’’جو اللہ نے چاہا، کچھ قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے‘‘اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں مال اور اولاد میں تجھ سے کم تر ہوں۔ [39] تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا کر دے اور اس پر آسمان سے کوئی عذاب بھیج دے تو وہ چٹیل میدان ہو جائے۔ [40] یا اس کا پانی گہرا ہو جائے، پھر تو اسے کبھی تلاش نہ کر سکے گا۔ [41] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس (معبود) سے کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر نطفے سے پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا [37] لیکن میں تو عقیده رکھتا ہوں کہ وہی اللہ میرا پروردگار ہے میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں گا [38] تو نے اپنے باغ میں جاتے وقت کیوں نہ کہا کہ اللہ کا چاہا ہونے واﻻ ہے، کوئی طاقت نہیں مگر اللہ کی مدد سے، اگر تو مجھے مال واوﻻد میں اپنے سے کم دیکھ رہا ہے [39] بہت ممکن ہے کہ میرا رب مجھے تیرے اس باغ سے بھی بہتر دے اور اس پر آسمانی عذاب بھیج دے تو یہ چٹیل اور چکنا میدان بن جائے [40] یا اس کا پانی نیچے اتر جائے اور تیرے بس میں نہ رہے کہ تو اسے ڈھونڈ ﻻئے [41]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا [37] مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا [38] اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاالله لاقوة الابالله کیوں نہ کہا۔ اگر تم مجھے مال واولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو [39] تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور اس (تمہارے باغ) پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہوجائے [40] یا اس (کی نہر) کا پانی گہرا ہوجائے تو پھر تم اسے نہ لاسکو [41]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 37، 38، 39، 40، 41،
احسان فراموشی مترادف کفر ہے ٭٭
اس کافر مالدار کو جو جواب اس مومن مفلس نے دیا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح اس نے وعظ و پند کی، ایمان و یقین کی ہدایت کی اور گمراہی اور غرور سے ہٹانا چاہا، فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے انسانی پیدائش مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ملے جلے پانی سے جاری رکھی جیسے آیت «كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ»[ 2- البقرة: 28 ] میں ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ تم تو مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔ تم اس کی ذات کا، اس کی نعمتوں کا انکار کیسے کر سکتے ہو؟ اس کی نعمتوں کے، اس کی قدرتوں کے بےشمار نمونے خود تم میں اور تم پر موجود ہیں۔ کون نادان ایسا ہے جو نہ جانتا ہو کہ وہ پہلے کچھ نہ تھا اللہ نے اسے موجود کر دیا۔ وہ خودبخود اپنے ہونے پر قادر نہ تھا اللہ نے اس کا وجود پیدا کیا۔ پھر وہ انکار کے لائق کیسے ہو گیا؟ اس کی توحید الوہیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ میں تو تیرے مقابلے میں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ میرا رب وہی اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے میں اپنے رب کے ساتھ مشرک بننا ناپسند کرتا ہوں۔ پھر اپنے ساتھی کو نیک رغبت دلانے کے لیے کہتا ہے کہ اپنی لہلہاتی ہوئی کھیتی اور ہرے بھرے میووں سے لدے باغ کو دیکھ کر تو اللہ کا شکر کیوں نہیں کرتا؟ کیوں «مَا شَاءَ اللَّه لَا قُوَّة إِلَّا بِاَللَّهِ» نہیں کہتا؟ اسی آیت کو سامنے رکھ کر بعض سلف کا مقولہ ہے کہ جسے اپنی اولاد یا مال یا حال پسند آئے اسے یہ کلمہ پڑھ لینا چاہیئے۔
ابو یعلیٰ موصلی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «مَا أَنْعَمَ اللَّه عَلَى عَبْد نِعْمَة مِنْ أَهْل أَوْ مَال أَوْ وَلَد فَيَقُول مَا شَاءَ اللَّه لَا قُوَّة إِلَّا بِاَللَّهِ فَيُرَى فِيهِ آفَة دُون الْمَوْت» جس بندے پر اللہ اپنی کوئی نعمت انعام فرمائے، اہل و عیال ہوں، دولتمندی ہو، فرزند ہوں، پھر وہ اس کلمہ کو کہہ لے تو اس میں کوئی آنچ نہ آئے گی سوائے موت کے، پھر آپ اس آیت «وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا»[ 39: الكهف ] کی تلاوت کرتے۔ [البدایة و النھایة141/2:ضعیف] حافظ ابو الفتح کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں۔
4896
مسند احمد، صحیح البخاری، صحیح مسلم میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا میں تمہیں جنت کا ایک خزانہ بتا دوں؟ وہ خزانہ «لَا حَوْل وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاَللَّهِ» کہنا ہے۔ [صحیح بخاری:6384] اور روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے میرے اس بندے نے مان لیا اور اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پھر پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، صرف لاحول نہیں بلکہ وہ جو سورۃ الکہف میں ہے یعنی «مَا شَاءَ اللَّه لَا قُوَّة إِلَّا بِاَللَّهِ» ۔ [مسند احمد:335/2:صحیح] پھر فرمایا کہ اس نیک شخص نے کہا کہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ مجھے آخرت کے دن اس سے بہتر نعمتیں عطا فرمائے اور تیرے اس باغ کو جسے تو ہمیشگی والا سمجھے بیٹھا ہے، تباہ کر دے۔ آسمان سے اس پر عذاب بھیج دے۔ زور کی بارش آندھی کے ساتھ آئے۔ تمام کھیت اور باغ اجڑ جائیں۔ سوکھی صاف زمین رہ جائے گویا کہ کبھی یہاں کوئی چیز اگی ہی نہ تھی۔ یا اس کی نہروں کا پانی دھنسا دے۔ «غَوْرً» مصدر ہے معنی میں «غائر» کے بطور مبالغے کے لایا گیا ہے۔