[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر وہ کچھ اور سامان ساتھ لے کر چلا۔ [89] یہاں تک کہ جب وہ سورج نکلنے کے مقام پر پہنچا تو اسے ایسے لوگوں پر طلوع ہوتے ہوئے پایا جن کے لیے ہم نے اس کے آگے کوئی پردہ نہیں بنایا تھا۔ [90] ایسے ہی تھا اور یقینا ہم نے جو کچھ اس کے پاس تھا اس کا علم کی رو سے احاطہ کر رکھا تھا۔ [91] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پھر وه اور راه کے پیچھے لگا [89] یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ تک پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پر نکلتا پایا کہ ان کے لئے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی [90] واقعہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے پاس کی کل خبروں کا احاطہ کر رکھا ہے [91]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر اس نے ایک اور سامان (سفر کا) کیا [89] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لئے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی [90] (حقیقت حال) یوں (تھی) اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم کو سب کی خبر تھی [91]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 89، 90، 91،
ایک وحشی بستی ٭٭
ذوالقرنین مغرب سے واپس مشرق کی طرف چلے۔ راستے میں جو قومیں ملتیں، اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی انہیں دعوت دیتے۔ اگر وہ قبول کر لیتے تو بہت اچھا، ورنہ ان سے لڑائی ہوتی اور اللہ کے فضل سے وہ ہارتے۔ آپ انہیں اپنا ماتحت کر کے وہاں کے مال ومویشی اور خادم وغیرہ لے کر آگے کو چلتے۔ بنی اسرائیلی خبروں میں ہے کہ یہ ایک ہزار چھ سو سال تک زندہ رہے۔ اور برابر زمین پر دین الٰہی کی تبلیغ میں رہے، ساتھ ہی بادشاہت بھی پھیلتی رہی۔ جب آپ سورج نکلنے کی جگہ پہنچے وہاں دیکھا کہ ایک بستی آباد ہے لیکن وہاں کے لوگ بالکل نیم وحشی جیسے ہیں۔ نہ وہ مکانات بناتے ہیں نہ وہاں کوئی درخت ہے، سورج کی دھوپ سے پناہ دینے والی کوئی چیز وہاں انہیں نظر نہ آئی۔ ان کے رنگ سرخ تھے ان کے قد پست تھے عام خوراک ان کی مچھلی تھی۔
4982
حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں، سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جایا کرتے تھے اور غروب ہونے کے بعد جانوروں کی طرح ادھر ادھر ہو جایا کرتے تھے۔ [ ابو شیخ فی العظمة989-978] حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہاں تو کچھ اگتا نہ تھا، سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جاتے اور زوال کے بعد دوردراز اپنی کھیتیوں وغیرہ میں مشغول ہو جاتے۔ سلمہ کا قول ہے کہ ان کے کان بڑے بڑے تھے ایک اوڑھ لیتے، ایک بچھا لیتے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ وحشی حبشی تھے۔
ابن جریر فرماتے ہیں کہ وہاں کبھی کوئی مکان یا دیوار یا احاطہٰ نہیں بنا، سورج کے نکلنے کے وقت یہ لوگ پانی میں گھس جاتے۔ وہاں کوئی پہاڑ بھی نہیں۔ پہلے کسی وقت ان کے پاس ایک لشکر پہنچا تو انہوں نے ان سے کہا کہ دیکھو سورج نکلتے وقت باہر نہ ٹھہرنا۔ انہوں نے کہا نہیں ہم تو رات ہی رات یہاں سے چلے جائیں گے لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ ہڈیوں کے چمکیلے ڈھیر کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا یہاں پہلے ایک لشکر آیا تھا۔ سورج کے نکلنے کے وقت وہ یہیں ٹھہرا رہا، سب مر گئے، یہ ان کی ہڈیاں ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ وہاں سے واپس ہو گئے۔ پھر فرماتا ہے کہ ذوالقرنین کی، اس کے ساتھیوں کی کوئی حرکت کوئی گفتار اور رفتار ہم پر پوشیدہ نہ تھی۔ گو اس کا لاؤ لشکر بہت تھا زمین کے ہر حصے پر پھیلا ہوا تھا۔ «إِنَّ اللَّـهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ»[ 3-آل عمران: 5 ] لیکن ہمارا علم زمین و آسمان پر حاوی ہے۔ ہم سے کوئی چیز مخفی نہیں۔