[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا۔ [12] پھر ہم نے اسے ایک قطرہ بنا کر ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ [13] پھرہم نے اس قطرے کو ایک جماہوا خون بنایا، پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو ایک بوٹی بنایا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں کو کچھ گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔ [14] پھر بے شک تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔ [15] پھر بے شک تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ [16] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا [12] پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا [13] پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا۔ برکتوں واﻻ ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے واﻻ ہے [14] اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو [15] پھر قیامت کے دن بلا شبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے [16]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے [12] پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا [13] پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے [14] پھر اس کے بعد تم مرجاتے ہو [15] پھر قیامت کے روز اُٹھا کھڑے کئے جاؤ گے [16]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 12، 13، 14، 15، 16،
انسان کی پیدائش مرحلہ وار ٭٭
اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتداء بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر آدم علیہ السلام کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ»[ 30-الروم: 20 ] اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کر کے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے۔ مسند میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے، کوئی اور رنگ کا ہے۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں۔ [مسند احمد:400/4:صحیح]
«ثم جعلنہ» ۔ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے «ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ»[ 32- السجدة: 8 ] ۔ اور آیت میں ہے «أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ إِلَىٰ قَدَرٍ مَّعْلُومٍ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ»[ 77- المرسلات: 22-20 ] ۔ پس انسان کے لیے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی۔
5700
رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے۔ [صحیح بخاری:4814] پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے اور ایک جاندار انسان بن جائے۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہو جاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہو جاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہو جاتا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
5701
صادق ومصدوق نبی کریم محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الٰہی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں روزی، اجل، عمل، اور نیک یا بد، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آ جاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہو جاتا ہے۔ [صحیح بخاری:6594]
5702
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہو جاتی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے باتیں بیان کر رہے تھے کہ ایک یہودی آ گیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آ کر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے۔ اس نے کہا۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے۔ [مسند احمد:465/1:ضعیف و منقطع]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہو گا یا بد؟ مرد ہو گا یا عورت؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل، عمر، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی۔ [صحیح مسلم:2644]
حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے، اے اللہ اب لوتھڑا ہے، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت، شکی ہو یا سعید؟ رزق کیا ہے؟ اجل کیا ہے؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں۔ [صحیح بخاری:6595]
5703
ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ نکلا اور وہی پھر اترا۔ [مسند طیالسی،41:ضعیف]
سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور «ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ» تک لکھوا چکے تو معاذ رضی اللہ عنہ نے بے ساختہ کہا «فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ»[ 23- المؤمنون: 14 ] اسے سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے تو معاذ رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیسے ہنسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے۔ [طبرانی اوسط:11187:ضعیف] اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکے میں معاذ رضی اللہ عنہما کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکے میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤ گے، پھر حساب کتاب ہو گا خیر و شر کا بدلہ ملے گا۔