تفسير ابن كثير



سورۃ النمل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ[38] قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ[39] قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ[40]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہا اے سردارو! تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لے کر آئے گا، اس سے پہلے کہ وہ فرماں بردار ہو کر میرے پاس آئیں؟ [38] جنوں میں سے ایک طاقت ور شرارتی کہنے لگا میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آؤں گا کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور بلاشبہ میں اس پر یقینا پوری قوت رکھنے والا، امانت دار ہوں۔ [39] اس نے کہا جس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا، میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آتا ہوں کہ تیری آنکھ تیری طرف جھپکے۔ پس جب اس نے اسے اپنے پاس پڑا ہوا دیکھا تو اس نے کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں، یا نا شکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو وہ اپنے ہی لیے شکرکرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو یقینا میرا رب بہت بے پروا، بہت کرم والا ہے۔ [40]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے ﻻدے [38] ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے اٹھیں اس سے پہلے ہی پہلے میں اسے آپ کے پاس ﻻدیتا ہوں، یقین مانیے کہ میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار [39] جس کے پاس کتاب کا علم تھا وه بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں۔ جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وه مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے [40]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] سلیمان نے کہا کہ اے دربار والو! کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر ہمارے پاس آئیں ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے [38] جنات میں سے ایک قوی ہیکل جن نے کہا کہ قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس لاحاضر کرتا ہوں اور میں اس (کے اٹھانے کی) طاقت رکھتا ہوں (اور) امانت دار ہوں [39] ایک شخص جس کو کتاب الہیٰ کا علم تھا کہنے لگا کہ میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کئے دیتا ہوں۔ جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بےپروا (اور) کرم کرنے والا ہے [40]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 38، 39، 40،

بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت ملا ٭٭

جب قاصد پہنچتا ہے اور بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت پہنچاتا ہے تو وہ سمجھ لیتی ہے اور کہتی ہے واللہ یہ سچے پیغمبر ہیں ایک پیغمبر کا مقابلہ کر کے کوئی پنپ نہیں سکتا۔ اسی وقت دوبارہ قاصد بھیجا کہ میں اپنی قوم کے سرداروں سمیت حاضر خدمت ہوتی ہوں تاکہ خود آپ سے مل کر دینی معلومات حاصل کروں اور آپ سے اپنی تشفی کر لوں یہ کہلوا کر یہاں ایک کو اپنا نائب بنایا۔ سلطنت کے انتظامات اس کے سپرد کئے اپنا لاجواب بیش قیمت جڑاؤ تخت جو سونے کا تھا سات محلوں میں مقفل کیا اور اپنے نائب کو اس کی حفاطت کی خاص تاکید کی اور بارہ ہزار سردار جن میں سے ہر ایک کے تحت ہزاروں آدمی تھے۔ اپنے ساتھ لیے اور ملک سلیمان کی طرف چل دی۔

جنات قدم قدم اور دم دم کی خبریں آپ کو پہنچاتے رہتے تھے۔ جب آپکو معلوم ہوا کہ وہ قریب پہنچ چکی ہے تو آپ نے اپنے دربار میں جس میں جن و انس سب موجود تھے فرمایا کوئی ہے جو اس کے تخت کو اس کے پہنچنے سے پہلے یہاں پہنچا دے؟ کیونکہ جب وہ یہاں آ جائیں گی اور اسلام میں داخل ہو جائیں پھر اس کا مال ہم پر حرام ہو گا۔ یہ سن کر ایک طاقتور سرکش جن جس کا نام کوزن تھا اور جو مثل ایک بڑے پہاڑ کے تھا بول پڑا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو آپ دربار برخواست کریں اس سے پہلے میں لادیتا ہوں۔ آپ لوگوں کے فیصلے کرنے اور جھگڑے چکانے اور انصاف دینے کو صبح سے دوپہر تک دربارعام میں تشریف رکھاکرتے تھے۔

اس نے کہا میں اس تخت کے اٹھا لانے کی طاقت رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار۔ اس میں کوئی چیز نہیں چراؤں گا: سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں چاہتا ہوں اس سے بھی پہلے میرے پاس وہ پہنچ جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی تخت کے منگوانے سے عرض یہ تھی کہ اپنے ایک زبردست معجزے کا اور پوری طاقت کا ثبوت بلقیس کو دکھائیں کہ اس کا تخت جسے اس نے سات مقفل مکانوں میں رکھا تھا وہ اس کے آنے سے پہلے دربار سلیمانی میں موجود ہے۔ (‏‏‏‏وہ غرض نہ تھی جو اوپر روایت قتادہ رحمہ اللہ میں بیان ہوئی) سلیمان علیہ السلام کے اس جلدی کے تقاضے کو سن کر جس کے پاس کتابی علم تھا وہ بولا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ یہ آصف تھے سلیمان علیہ السلام کے کاتب تھے ان کے باپ کا نام برخیا تھا یہ ولی اللہ تھے اسم اعظم جانتے تھے۔ پکے مسلمان تھے بنو اسرائیل میں سے تھے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ان کا نام اسطوم تھا۔ بلیخا بھی مروی ہے ان کا لقب ذوالنور تھا۔
6437

عبداللہ بن لہیعہ کا قول ہے یہ خضر تھے لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی نگاہ دوڑائیے جہاں تک پہنچے نظر کیجئے ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میں اسے لادوں گا۔ پس سلیمان علیہ السلام نے یمن کی طرف جہاں اس کا تخت تھا نظر کی ادھر یہ کھڑے ہو کر وضو کر کے دعا میں مشغول ہوئے اور کہا «یا ذالجلال والاکرام» یا فرمایا «‏‏‏‏یا الھنا والہ کل شی الھا واحدا لا الہ الاانت ائتنی بعرشھا» اسی وقت تخت بلقیس سامنے آ گیا۔ اتنی ذرا سی دیر میں یمن سے بیت المقدس میں وہ تخت پہنچ گیا اور لشکر سلیمان کے دیکھتے ہوئے زمین میں سے نکل آیا۔

جب سلیمان علیہ السلام نے اسے اپنے سامنے موجود دیکھ لیا تو فرمایا یہ صرف میرے رب کا فضل ہے کہ وہ مجھے آزمالے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری؟ جو شکر کرے وہ اپنا ہی نفع کرتا ہے اور جو ناشکری کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی بندگی سے بے نیاز ہے اور خود بندوں سے بھی اس کی عظمت کسی کی محتاجی نہیں۔

جیسے فرمان ہے آیت «‏‏‏‏مَن كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ» [30-الروم:44] ‏‏‏‏ ” جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے اور جو برائی کرتا ہے وہ اپنے لیے۔ “ اور جگہ ہے جو نیکی کرتے ہیں وہ اپنے لیے ہی اچھائی جمع کرتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا تم اور روئے زمین کے سب انسان بھی اگر اللہ سے کفر کرنے لگو تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑوگے۔ وہ غنی ہے اور حیمد ہے۔

صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بہتر سے بہتر اور نیک بخت سے نیک بخت ہو جائیں تو میرا ملک بڑھ نہیں جائے گا اور اگر سب کے سب بدبخت اور برے بن جائیں تو میرا ملک گھٹ نہیں جائے گا یہ تو صرف تمہارے اعمال ہیں جو جمع ہونگے اور تم کو ہی ملیں گے جو بھلائی پائے تو اللہ کا شکر کرے اور جو برائی پائے تو صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے۔ [صحیح مسلم:2577] ‏‏‏‏
6438



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.