[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تو اس پر ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔ [7] تو فرعون کے گھر والوں نے اسے اٹھالیا، تاکہ آخر ان کے لیے دشمن ہو اور غم کا باعث ہو۔ بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔ [8] اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ میرے لیے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، امید ہے کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچائے، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ سمجھتے نہ تھے۔ [9] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی ره اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں [7] آخر فرعون کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ آخرکار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعﺚ بنا، کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطاکار [8] اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائده پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنا لیں اور یہ لوگ شعور ہی نہ رکھتے تھے [9]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے موسٰی کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ جب تم کو اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا۔ ہم اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اُسے پیغمبر بنا دیں گے [7] تو فرعون کے لوگوں نے اس کو اُٹھا لیا اس لئے کہ (نتیجہ یہ ہونا تھا کہ) وہ اُن کا دشمن اور (ان کے لئے موجب) غم ہو۔ بیشک فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر چوک گئے [8] اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ (یہ) میری اور تمہاری (دونوں کی) آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل نہ کرنا۔ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اُسے بیٹا بنالیں اور وہ انجام سے بےخبر تھے [9]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 7، 8، 9،
بچوں کا قتل اور بنی اسرائیل ٭٭
مروی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے ہزار ہا بچے قتل ہو چکے تو قبطیوں کو اندیشہ ہوا کہ اگر بنو اسرائیل ختم ہو گئے توجتنے ذلیل کام اور بے ہودہ خدمتیں حکومت ان سے لے رہیں ہیں کہیں ہم سے نہ لینے لگیں۔ تو دربار میں میٹنگ ہوئی اور یہ رائے قرار پائی کہ ایک سال مار ڈالے جائیں اور دوسرے سال قتل نہ کئے جائیں۔
ہارون علیہ السلام اس سال تولد ہوئے جس سال بچوں کو قتل نہ کیا جاتا تھا لیکن موسیٰ علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال بنی اسرائیل کے لڑکے عام طور پر تہ تیغ ہو رہے تھے۔ عورتیں گشت کرتی رہتی تھی اور حاملہ عورتوں کا خیال رکھتی تھی۔ ان کے نام لکھ لیے جاتے تھے۔ وضع حمل کے وقت یہ عورتیں پہنچ جاتی تھی اگر لڑکی ہوئی تو واپس چلی جاتی تھی اور اگر لڑکا ہوا تو فوراً جلادوں کو خبر کر دیتی تھی۔ یہ لوگ تیز چھرے لیے اسی وقت آ جاتے تھے اور ماں باپ کے سامنے اسی وقت ان کے بچوں کوٹکڑے ٹکڑے کر کے چلے جاتے تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا جب حمل ہوا تو عام حمل کی طرح اس کا پتا نہ چلا اور جو عورتیں اس کام پر مامور تھی اور جتنی دائیاں آتی تھی کسی کو حمل کا پتہ نہ چلا۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام تولد بھی ہو گئے آپ علیہ السلام کی والدہ سخت پریشان ہونے لگی اور ہر وقت خوفزدہ رہنے لگیں اور اپنے بچے سے محبت بھی اتنی تھی کہ کسی ماں کو اپنے بچے سے اتنی نہ ہو گی۔
ایک ماں پر ہی کیا موقوف اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا چہرہ ہی ایسا بنایا تھا۔ کہ جس کی نظر پڑ جاتی تھی اس کے دل میں ان کی محبت بیٹھ جاتی تھی۔ جیسے جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت «أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي»[20-طه:39] ” میں نے اپنی خصوصی محبت سے تمہیں نوازا “۔
پس جب کہ والدہ موسیٰ علیہ السلام ہر وقت کبیدہ خاطر، خوفزدہ اور رنجیدہ رہنے لگیں تو اللہ نے ان کے دل میں خیال ڈالا کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور خوف کے موقعہ پر انہیں دریائے نیل میں بہادے جس کے کنارے پر ہی آپ کا مکان تھا۔ چنانچہ یہی کیا کہ ایک پیٹی کی وضع کا صندوق بنا لیا اس میں موسیٰ کو رکھ دیا دودھ پلا دیا کرتیں اور اس میں سلادیا کرتیں۔ جہاں کوئی ایسا ڈراؤنا موقعہ آیا تو اس صندوق کو دریا میں بہادیتیں اور ایک ڈوری سے اسے باندھ رکھا تھا خوف ٹل جانے کے بعد اسے کھینچ لیتیں۔
6533
ایک مرتبہ ایک ایسا شخص گھر میں آنے لگا جس سے آپ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کو بہت دہشت ہوئی دوڑ کر بچے کو صندوق میں لٹاکر دریا میں بہادیا اور جلدی اور گھبراہٹ میں ڈوری باندھنی بھول گئیں صندوق پانی کی موجوں کے ساتھ زور سے بہنے لگا اور فرعون کے محل کے پاس گزرا تو لونڈیوں نے اسے اٹھا لیا اور فرعون کی بیوی کے پاس لے گئیں راستے میں انہوں نے اسے ڈر کے مارے کھولا نہ تھا کہ کہیں تہمت ان پر نہ لگ جائے جب فرعون کی بیوی کے پاس اسے کھولا گیا تو دیکھا کہ اس میں تو ایک نہایت خوبصورت نورانی چہرے والا صحیح سالم بچہ لیٹا ہوا ہے جسے دیکھتے ہی ان کا دل مہر محبت سے بھر گیا اور اس بچہ کی پیاری شکل دل میں گھر کر گئی۔
اس میں بھی رب کی مصلحت تھی کہ فرعون کی بیوی کو راہ راست دکھائے اور فرعون کے سامنے اس کا ڈر لائے اور اسے اور اس کے غرور کو ڈھائے تو فرماتا ہے کہ ” آل فرعون نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور انجام کار وہ ان کی دشمنی اور ان کے رنج وملال کا باعث ہوا “۔ محمد بن اسحاق وغیرہ فرماتے ہیں «لِیکُوْنَ» کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں۔ اس لیے کہ ان کا ارادہ نہ تھا بظاہر یہ ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کو دیکھتے ہوئے لام کو لام تعلیل سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں آتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صندوقچے کا اٹھانے والا اس لیے بنایا تھا کہ اللہ اسے ان کے لیے دشمن بنا دے اور ان کے رنج و غم کا باعث بنائے بلکہ اس میں ایک لطف یہ بھی ہے کہ جس سے وہ بچنا چاہتے تھے وہ ان کے سر چڑھ گیا۔
اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا گیا کہ ” فرعون ہامان اور ان کے ساتھی خطا کار تھے “۔
روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے قدریہ کو جو لوگ کہ تقدیر کے منکر ہیں ایک خط میں لکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے سابق علم میں فرعون کے دشمن اور اس کے لیے باعث رنج و غم تھے جیسے قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے لیکن تم کہتے ہو کہ فرعون چاہتا تو موسیٰ علیہ السلام اس کے مددگار اور دوست ہوتے۔
6534
پھر فرماتا ہے کہ ” اس بچے کو دیکھتے ہی فرعون بدکا کہ ایسا نہ ہو کسی اسرائیلی عورت نے اسے پھینک دیا ہو اور کہیں یہ وہی نہ ہو جس کے قتل کرنے کے لیے ہزاروں بچوں کو فنا کر چکا ہوں “۔
یہ سوچ کر اس نے انہیں بھی قتل کرنا چاہا لیکن اس کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہا نے ان کی سفارش کی۔ فرعون کو اس کے ارادے سے روکا اور کہا اسے قتل نہ کیجیئے بہت ممکن ہے کہ یہ آپ کی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو مگر فرعون نے جواب دیا کہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو لیکن مجھے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کی ضروت نہیں۔
اللہ کی شان دیکھئیے کہ یہی ہوا کہ آسیہ کو اللہ نے اپنا دین نصیب فرمایا اور موسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے انہوں نے ہدایت پائی اور اس متکبر کو اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک کیا۔ نسائی وغیرہ کے حوالے سے سورۃ طہٰ کی تفسیر میں حدیث فتون میں یہ قصہ پورا بیان ہو چکا ہے۔
6535
حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے شاید ہمیں نفع پہنچائے۔ ان کی امید اللہ نے پوری کی دنیا میں موسیٰ علیہ السلام ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور آخرت میں جنت میں جانے کا۔
اور کہتی ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اسے اپنا بچہ بنا لیں۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی تو چاہا کہ موسیٰ علیہ السلام کو متبنٰی بنا لیں۔ ان میں سے کسی کو شعور نہ تھا کہ قدرت کس طرح پوشیدہ اپنا ارادہ پوراکر رہی ہے۔