تفسير ابن كثير



سورۃ القصص

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ[33] وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ[34] قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآيَاتِنَا أَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ[35]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہا اے میرے رب! بے شک میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کیا ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ [33] اور میرا بھائی ہارون، وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے، تو اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرے، بے شک میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔ [34] کہا ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو ضرور مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے، ہماری نشانیوں کے ساتھ تم دونوں اور جنھوں نے تمھاری پیروی کی، غالب آنے والے ہو۔ [35]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کر دیا تھا۔ اب مجھے اندیشہ ہے کہ وه مجھے بھی قتل کر ڈالیں [33] اور میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) مجھ سے بہت زیاده فصیح زبان واﻻ ہے تو اسے بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج کہ وه مجھے سچا مانے، مجھے تو خوف ہے کہ وه سب مجھے جھٹلا دیں گے [34] اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے، بسبب ہماری نشانیوں کے، تم دونوں اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب رہیں گے [35]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] موسٰی نے کہا اے پروردگار اُن میں کا ایک شخص میرے ہاتھ سے قتل ہوچکا ہے سو مجھے خوف ہے کہ وہ (کہیں) مجھ کو مار نہ ڈالیں [33] اور ہارون (جو) میرا بھائی (ہے) اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اس کو میرے ساتھ مددگار بناکر بھیج کہ میری تصدیق کرے مجھے خوف ہے کہ وہ میری لوگ تکذیب کریں گے [34] (خدا نے) فرمایا ہم تمہارے بھائی سے تمہارے بازو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے تو ہماری نشانیوں کے سبب وہ تم تک پہنچ نہ سکیں گے (اور) تم اور جنہوں نے تمہاری پیروی کی غالب رہو گے [35]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 33، 34، 35،

یاد ماضی ٭٭

یہ گزر چکاکہ موسیٰ علیہ السلام فرعون سے خوف کھا کر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ علیہ السلام کو وہ سب یاد آ گیا اور عرض کرنے لگے اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہو جائیں۔‏‏‏‏
6575

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ علیہ السلام کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑ لیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی «قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي» [20-طه:25-32] ‏‏‏‏ کہ ” میری زبان کی گرہ کھول دے تا کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو میرا وزیر بنا دے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں “۔

یہاں بھی «. وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ» [28-القصص:34] ‏‏‏‏ ہے۔

آپ علیہ السلام کی دعا منقول ہے کہ ” آپ علیہ السلام نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بنا کر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہو جائے۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے “۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون علیہ السلام ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا۔

جناب باری ارحم الراحمین نے جواب دیا کہ ” تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارا دیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنا دیں گے “۔
6576

جیسے اور آیت میں ہے «قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ» [ 20- طه: 36 ] ‏‏‏‏ ” موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) تیرا سوال پورا کر دیا گیا “۔

اور آیت «وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا» [19-مريم:53] ‏‏‏‏ میں ہے ” ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا “۔

اسی لیے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام پر کیا کہ اللہ سے دعا کر کے انہیں نبی بنوادیا۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے۔

پھر فرماتا ہے کہ ” ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذاء نہیں دے سکتے۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں۔ ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے “۔

جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے «كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُ‌سُلِي إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ» [58-المجادلة:21] ‏‏‏‏ ” میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ قوت والا عزت والا ہے “۔

اور آیت میں ہے «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ يَوْمَ لَا يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ» [40-غافر:51،52] ‏‏‏‏، ” ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں “۔

ابن جریر رحمہ اللہ کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہو گا۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
6577



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.