[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر جب ان کے پاس ہمارے ہاں سے حق آگیا تو انھوں نے کہا اسے اس جیسی چیزیں کیوں نہ دی گئیں جو موسیٰ کو دی گئیں؟ تو کیا انھوںنے اس سے پہلے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا جو موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ انھوں نے کہا یہ دونوں (مجسم) جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور کہنے لگے ہم تو ان سب سے منکر ہیں۔ [48] کہہ پھر اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو کہ میں اس کی پیروی کروں، اگر تم سچے ہو۔ [49] پھر اگر وہ تیری بات قبول نہ کریں تو جان لے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ [50] اور بلاشبہ یقینا ہم نے انھیں پے در پے بات پہنچائی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ [51] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں کہ یہ وه کیوں نہیں دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ (علیہ السلام) اچھا تو کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں نے کفر نہیں کیا تھا، صاف کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں [48] کہہ دے کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیاده ہدایت والی ہو میں اسی کی پیروی کروں گا [49] پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ﻇالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا [50] اور ہم برابر پے درپے لوگوں کے لیے اپنا کلام بھیجتے رہے تاکہ وه نصیحت حاصل کرلیں [51]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر جب اُن کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہنے لگے کہ جیسی (نشانیاں) موسٰی کو ملی تھیں ویسی اس کو کیوں نہیں ملیں۔ کیا جو (نشانیاں) پہلے موسٰی کو دی گئی تھیں اُنہوں نے اُن سے کفر نہیں کیا۔ کہنے لگے کہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق۔ اور بولے کہ ہم سب سے منکر ہیں [48] کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم خدا کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔ تاکہ میں بھی اسی کی پیروی کروں [49] پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا [50] اور ہم پے درپے اُن لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت پکڑیں [51]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 48، 49، 50، 51،
ہدایت کے لیئے معجزات ضروری نہیں ٭٭
پہلے بیان ہوا کہ ” اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے “۔
بالخصوص رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر الزمان رسول بنا کر بھیجا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑ لیا اور تکبر عناد کے ساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے موسیٰ علیہ السلام کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ جن سے دشمنان الٰہی تنگ آئے اور دریاکو چیرنا اور ابر کا سایہ کرنا اور من وسلویٰ کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ وَهَارُونَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ»[10-يونس:78] ” یہ لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم اللہ کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان لائے تھے؟ جو ان کے ایمان کی تمنا کرے؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز انہیں مان کر نہیں دیں گے “۔ «فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ»[23-المؤمنون:48] ” دونوں نبیوں کو جھٹلاتے رہے آخر انجام ہلاک کر دئیے گئے “۔
6596
تو فرمایا کہ ” ان کے بڑے جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر کیا اور ان معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائی آپس میں متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لیے آئے ہیں تو ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے “۔
یہاں گو ذکر صرف موسیٰ علیہ السلام کا ہے لیکن چونکہ ہارون علیہ السلام ان کے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں ایک تھے تو ایک کے ذکر کے کو دووسرے کے ذکر کے لیے کافی سمجھا۔ جیسے کسی شاعر کا قول ہے «فَمَا أَدْرِي إِذَا يَمَّمْت أَرْضًا أُرِيد الْخَيْر أَيّهمَا يَلِينِي أَيْ فَمَا أَدْرِي يَلِينِي الْخَيْر أَوْ الشَّرّ» کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ کرتا ہوں تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہو گا؟ تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان نہیں کیونکہ خیر وشر دونوں کی ملازمت مقاربت اور مصاحبت ہے۔
مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم یہ اعتراض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرو انہوں نے کیا اور جواب پاکر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں سے مراد موسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد عیسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہلا قول مضبوط اور عمدہ ہے اور بہت قوی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یہ مطلب «سَاحِرَانِ» کی قرأت پر ہے اور جن کی قرأت «سِحْرَانِ» ہے، وہ کہتے ہیں کہ مراد تورات اور قرآن ہے جو ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ کوئی کہتا ہے مراد تورات اور انجیل ہے۔ «وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىٰ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ» ۔
6597
لیکن اس قرأت پر بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی فرمان اللہ ہے کہ ” تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے لاؤ جس کی میں تابعداری کروں “۔
تورات اور قرآن کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا آیت «قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَهَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاؤُكُمْ قُلِ اللّٰهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِيْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ»[6-الأنعام:91-92] پس یہاں تورات کے نور وہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا آیت «وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ»[6-الأنعام:155] ” اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بنا کر اتارا ہے “۔
اور سورت کے آخر میں فرمایا «ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ»[6-الأنعام:154] ” پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی “ اور فرمان ہے «وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ»[6-الأنعام:155] ” اس ہماری اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے “۔
جنات کا قول قرآن میں ہے «قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ»[46-الأحقاف:30] کہ ” انہوں نے کہا ہم نے وہ کتاب سنی جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے “۔
ورقہ بن نوفل کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ وہی اللہ کے راز داں بھیدی ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ جس شخص نے غائر نظر سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت وشرافت والی عزت وکرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو اللہ تعالیٰ حمید و مجید نے اپنے رؤف ورحیم نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔
6598
اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت ونور تھا «إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ»[5-المائدة:44] جس کے مطابق انیباء اور ان کے ماتحت حکم احکام جاری کرتے رہے۔
انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو حلال کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ” ان دونوں کتابوں سے بہتر کتاب اگر تم اللہ کے ہاں سے لاؤ تو میں اس کی تابعداری کرونگا “۔
پھر فرمایا کہ ” جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ یہ صرف جھگڑالو ہیں اور خواہش پرست ہیں “۔
اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو اللہ کی ہدایت سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ اس میں انہماک کر کے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کر دیا واضح کر دیا صاف کر دیا اگلی پچھلی باتیں بیان کر دیں قریشوں کے سامنے سب کچھ ظاہر کر دیا۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی۔ یہ رفاعہ صفیہ بن حی کے ماموں ہیں جنہوں نے تمیمیہ بن وہب کو طلاق دی تھی جن کا دوسرا نکاح عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا۔