[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس جب کانوں کو بہرا کرنے والی ( قیامت) آجائے گی۔ [33] جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔ [34] اور اپنی ماں اور اپنے باپ (سے). [35] اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ [36] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی (قیامت) آجائے گی [33] اس دن آدمی اپنے بھائی سے [34] اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے [35] اور اپنی بیوی اور اپنی اوﻻد سے بھاگے گا [36]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو جب (قیامت کا) غل مچے گا [33] اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا [34] اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے [35] اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے [36]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 33، 34، 35، 36،
ننگے پاؤں، ننگے بدن ، پسینے کا لباس ٭٭
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ «صَّاخَّةُ» قیامت کا نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نفخہ کی آواز اور ان کا شوروغل کانوں کے پردے پھاڑ دے گا۔ اس دن انسان اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا لیکن بھاگتا پھرے گا کوئی کسی کے کام نہ آئے گا، میاں بیوی کو دیکھ کر کہے گا کہ بتا تیرے ساتھ میں نے دنیا میں کیسا کچھ سلوک کیا وہ کہے گی کہ بے شک آپ نے میرے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا بہت پیار محبت سے رکھا یہ کہے گا کہ آج مجھے ضرورت ہے صرف ایک نیکی دے دو تاکہ اس آفت سے چھوٹ جاؤں، تو وہ جواب دے گی کہ سوال تھوڑی سی چیز کا ہی ہے مگر کیا کروں یہی ضرورت مجھے درپیش ہے اور اسی کا خوف مجھے لگ رہا ہے میں تو نیکی نہیں دے سکتی، بیٹا باپ سے ملے گا یہی کہے گا اور یہی جواب پائے گا۔