تفسير ابن كثير



سورۃ التين

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ[1] وَطُورِ سِينِينَ[2] وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ[3] لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ[4] ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ[5] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ[6] فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ[7] أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ[8]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] قسم ہے انجیر کی! اور زیتون کی! [1] اور طور سینین کی! [2] اور اس امن والے شہر کی! [3] بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔ [4] پھر ہم نے اسے لوٹا کر نیچوں سے سب سے نیچا کر دیا۔ [5] مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ [6] پس اس کے بعد کون سی چیز تجھے جزا کے بارے میں جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے؟ [7] کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ [8]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی [1] اور طور سِینِین کی [2] اور اس امن والے شہر کی [3] یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا [4] پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا [5] لیکن جو لوگ ایمان ﻻئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا [6] پس تجھے اب روز جزا کے جھٹلانے پر کون سی چیز آماده کرتی ہے [7] کیا اللہ تعالیٰ (سب) حاکموں کا حاکم نہیں ہے [8]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] انجیر کی قسم اور زیتون کی [1] اور طور سینین کی [2] اور اس امن والے شہر کی [3] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے [4] پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کر دیا [5] مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انکے لیے بےانتہا اجر ہے [6] تو (اے آدم زاد) پھر تو جزا کے دن کو کیوں جھٹلاتا ہے؟ [7] کیا خدا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ [8]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8،

باب

«وَالتِّينِ» سے مراد کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے، کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے، کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے، بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے، کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح علیہ السلام ہے وہ مراد ہے۔

بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے، «زیتون» سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو، «طور سِينِينَ» وہ پہاڑ ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا «الْبَلَدِ الْأَمِينِ» سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر علیہم السلام بھیجے گئے تھے۔
10717

«وَالتِّينِ» سے مراد تو بیت المقدس ہے۔ جہاں پر عیسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور «وَطُورِ سِينِينَ» سے مراد طور سینا ہے جہاں موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور «الْبَلَدِ الْأَمِينِ» سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے۔

تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور «ساعیر» یعنی بیت المقدس کے پہاڑ سے اس نے اپنا نور چمکایا یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں بھیجا اور فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زمانی اور وجودی ترتیب بیان کر دی۔

اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا۔ پھر ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ ” انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قد و قامت والا، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نِیچ کر دیا یعنی جہنمی ہو گیا، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کر لیا “۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرف لوٹا دینا ہے۔
10718

سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا۔‏‏‏‏ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں، لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مومنوں کا استشناء کیوں ہوتا؟ بڑھاپا تو بعض مومنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جو اوپر ہم نے ذکر کی۔

جیسے اور جگہ سورۃ والعصر میں ہے کہ «وَالْعَصْر إِنَّ الْإِنْسَان لَفِي خُسْر إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَات» [103-العصر:1-3] ‏‏‏‏ ” تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزا ملے گی جس کی انتہا نہ ہو “۔ جیسے پہلے بیان ہو چکا ہے۔

پھر فرماتا ہے ” اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کر دیا اس پر دوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟ “۔

مجاہد رحمہ اللہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ آپ نے فرمایا: معاذاللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے۔‏‏‏‏ عکرمہ رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ ” کیا اللہ حکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بے عدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقام لے گا “۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ جو شخص «وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ» پڑھے اور اس کے آخر کی آیت «أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ» پڑھے تو کہہ دے «بَلَى وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنْ الشَّاهِدِينَ» یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں۔ [سنن ترمذي:3347،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ التین کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
10719



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.