[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بڑی ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے۔ [1] وہ جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا ۔ [2] وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ [3] ہرگز نہیں، یقینا وہ ضرور حُطمہ میں پھینکا جائے گا۔ [4] اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ وہ حطمہ کیا ہے؟ [5] اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ [6] وہ جو دلوں پر جھانکتی ہے ۔ [7] یقینا وہ ان پر ( ہر طرف سے) بند کی ہوئی ہے ۔ [8] لمبے لمبے ستونوں میں ۔ [9] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے واﻻ غیبت کرنے واﻻ ہو [1] جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے [2] وه سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا [3] ہرگز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا [4] اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی؟ [5] وه اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی [6] جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی [7] وہ ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی ہوگی [8] بڑے بڑے ستونوں میں [9]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے [1] جو مال جمع کرتا اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے [2] (اور) خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کی ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہو گا [3] ہر گز نہیں وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائے گا [4] اور تم کیا سمجھے حطمہ کیا ہے؟ [5] وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے [6] جو دلوں پر جا لپٹے گی [7] (اور) وہ اس میں بند کر دیئے جائیں گے [8] (یعنی آگ کے) لمبے لمبے ستونوں میں [9]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8، 9،
وزنی بیڑیاں اور قید و بند کو یاد رکھو ٭٭
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زبان سے لوگوں کی عیب گیری کرنے والا، اپنے کاموں سے دوسروں کی حقارت کرنے والا، خرابی والا شخص ہے۔ «هَمَّاز مَشَّاء بِنَمِيمٍ»[68-القلم:11] کی تفسیر بیان ہو چکی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد طعنہ دینے والا غیبت کرنے والا ہے۔
ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں سامنے برا کہنا تو «هُمَزَ» ہے اور پیٹھ پیچھے عیب بیان کرنا «لُّمَزَ» ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں زبان سے اور آنکھ کے اشاروں سے بندگان اللہ کو ستانا اور چڑانا مراد ہے کہ کبھی تو ان کا گوشت کھائے یعنی غیبت کرے اور کبھی ان پر طعنہ زنی کرے۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «هُمَزَ» ہاتھ اور آنکھ سے ہوتا ہے اور «لُّمَزَ» زبان سے بعض کہتے ہیں اس سے مراد اخنس بن شریق کافر ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت عام ہے۔
پھر فرمایا: جو جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا جاتا ہے، جیسے اور جگہ ہے «وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ» ۔ [70-المعارج:18]
10844
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر تو مال کمانے کی ہائے وائے میں لگا رہا اور رات کو سڑی بھسی لاش کی طرح پڑ رہا اس کا خیال یہ ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ دنیا میں رکھے گا حالانکہ واقعہ یوں نہیں بلکہ یہ بخیل اور لالچی انسان جہنم کے اس طبقے میں گرے گا جو ہر اس چیز کو جو اس میں گرے چور چور کر دیتا ہے۔
پھر فرماتا ہے یہ توڑ پھوڑ کرنے والی کیا چیز ہے؟ اس کا حال اے نبی! تمہیں معلوم نہیں یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چڑھ جاتی ہے جلا کر بھسم کر دیتی ہے لیکن مرتے نہیں۔
ثابت بنانی رحمہ اللہ جب اس آیت کی تلاوت کر کے اس کا یہ معنی بیان کرتے تو رو دیتے اور کہتے انہیں عذاب نے بڑا ستایا۔
محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں آگ جلاتی ہوئی حلق تک پہنچ جاتی ہے پھر لوٹتی پھر پہنچی ہے یہ آگ ان پر چاروں طرف سے بند کر دی گئی ہے جیسے کہ سورۃ البلد کی تفسیر میں گزرا۔
ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے۔ [ابن مردودیہ:اسنادہ ضعیف]
اور دوسرا طریق اس کا موقوف ہے لوہا جو مثل آگ کے ہے اس کے ستونوں میں یہ لمبے لمبے دروازے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات میں «بِعَمَدٍ» مروی ہے، ان دوزخیوں کی گردنوں میں زنجیریں ہوں گی یہ لمبے لمبے ستونوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے اور اوپر سے دروازے بند کر دئیے جائیں گے ان آگ کے ستونوں میں انہیں بدترین عذاب کیے جائیں گے۔
ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی وزنی بیڑیاں اور قید و بند ان کے لیے ہو گی۔
اس سورت کی تفسیر بھی اللہ کے فضل و کرم سے پوری ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»