تفسير ابن كثير



مدینہ منورہ افضل یامکہ مکرمہ؟ ٭٭

اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ؟ جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔ ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بے خوف رکھ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا آیت «وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا» [ 3۔ آل عمران: 97 ] ‏‏‏‏ اس میں جو آیا وہ امن والا ہو گیا اور جگہ ارشاد ہے آیت «أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّـهِ يَكْفُرُونَ» [ 29-العنکبوت: 67 ] ‏‏‏‏ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا لوگ اس کے آس پاس سے اچک لیے جاتے ہیں اور یہاں وہ پر امن رہتے ہیں۔ اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے [صحیح مسلم:1356] ‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا سے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا، سورۃ ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے آیت «رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا» [ 14۔ ابراہیم: 35 ] ‏‏‏‏ شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہو گیا اور شہر بس گیا اور اسحاق علیہ السلام جو اسمٰعیل علیہ السلام سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہو چکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا۔

«ومن کفر» سے آخر تک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض نے اسے بھی دعا میں دخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہو گا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بی بس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم علیہم السلام کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہو گا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہو گیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا۔ ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاءِ وَهٰٓؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا» [ 17۔ الاسرآء: 20 ] ‏‏‏‏ یعنی ہم انہیں اور ان کو بھی فائدہ دیں گے تیرے رب کی بخشش محدود نہیں۔

اور جگہ ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا کا کچھ فائدہ گو اٹھا لیں لیکن ہماری طرف آ کر اپنے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھیں گے۔ [10-يونس:70] ‏‏‏‏ اور جگہ ہے کافروں کا کفر تجھے غمگین نہ کرے جب یہ ہماری طرف لوٹیں گے تو ان کے اعمال پر ہم انہیں تنبیہ کریں گے اللہ تعالیٰ سینوں کی چھپی باتوں کو بخوبی جانتا ہے ہم انہیں یونہی سا فائدہ پہنچا کر سخت غلیظ عذابوں کی طرف بے قرار کریں گے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُيُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُوْنَ» [ 43۔ الزخرف: 33 ] ‏‏‏‏ اگر یہ خطرہ نہ ہو تاکہ لوگو ایک ہی امت ہو جائیں تو ہم کافروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھر کے دروازے اور تخت جن پر ٹیکے لگائے بیٹھے رہتے اور سونا بھی دیتے لیکن یہ سب دنیوی فوائد ہیں آخرت کا بھلا گھر تو صرف پرہیزگاروں کے لیے ہے۔

یہی مضمون پرہیز گاروں کے لیے ہے یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ ان کا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پا لیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہو گی۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ» [ 22۔ الحج: 45 ] ‏‏‏‏ بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر پکڑ لیا انجام کو تو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے [صحیح بخاری:6099] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے [فتح الباری:205/8] ‏‏‏‏ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ» [ 11۔ ہود: 102 ] ‏‏‏‏ [صحیح بخاری:4686] ‏‏‏‏ اس جملہ کو ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں شامل کرنا شاذ قرأت کی بنا پر ہے جو ساتوں قاریوں کی قرأت کے خلاف ہے اور ترکیب سیاق و سباق بھی یہی ظاہر کرتی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

اس لیے کہ قال کی ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف ہے اور اس شاذ قرأت کی بنا پر اس کے فاعل اور قائل بھی ابراہیم علیہ السلام ہی ہوتے ہیں جو نظم کلام سے بظاہر مخالف ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

قواعد جمع ہے قاعدہ کی ترجمہ اس کا پایہ اور نیو [ بنیاد ] ‏‏‏‏ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والوں کو بنائے ابراہیمی کی خبر دو، ایک قرأت میں «واسمعیل» کے بعد «ویقولان» بھی ہے اسی دلالت میں آگے لفظ «مسلمین» بھی ہے دونوں نبی نیک کام میں مشغول ہیں اور قبول نہ ہونے کا کھٹکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں وہیب بن ورد رحمہ اللہ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو بہت روتے اور فرماتے آہ! خلیل الرحمن علیہ السلام جیسے اللہ کے مقبول پیغمبر اللہ کا کام اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اس کا گھر اس کے فرمان سے بناتے ہیں اور پھر خوف ہے کہ کہیں یہ قبولیت سے گر نہ جائے سچ ہے مخلص مومنوں کا یہی حال ہے آیت «وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ» [ 23۔ المومنون: 60 ] ‏‏‏‏ وہ نیک کام کرتے ہیں صدقے خیرات کرتے ہیں لیکن پھر بھی خوف اللہ سے کانپتے رہتے ہیں (‏‏‏‏کہ ایسا نہ ہو کہ قبول نہ ہوں)‏‏‏‏‏‏‏‏۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر اس آیت کا یہی مطلب زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان ہوا ہے۔ [سنن ترمذي:3175،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ بنیادیں ابراہیم علیہ السلام اٹھاتے تھے اور دعا اسماعیل علیہ السلام کرتے تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں ہر ایک کام میں شریک تھے۔

صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور بعض اور آثار بھی اس واقعہ کے متعلق یہاں ذکر کئے جانے کے قابل ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کمر بند باندھنا عورتوں نے اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ سے سیکھا ہے انہوں نے باندھا تھا کہ مائی سارہ کو ان کا نقش قدم نہ ملے انہیں اور ان کے جگر کے ٹکڑے اپنے اکلوتے فرزند اسمٰعیل علیہ السلام کو لے کر ابراہیم علیہ السلام نکلے جبکہ یہ پیارا بچہ دودھ پیتا تھا۔




http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.