تفسير ابن كثير



طلاق کی جھوٹی افواہ بزبان ٭٭

آپس میں اس قسم کا مشورہ کرنے والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا تھیں یہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جو مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے مدتوں سے آرزو تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیوی صاحبان کا نام معلوم کروں جن کا ذکر آیت «إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا» [66-التحریم:4] ‏‏‏‏ الخ، میں ہے پس حج کے سفر میں جب خلیفتہ الرسول چلے تو میں بھی ہم رکاب ہو لیا ایک راستے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ راستہ چھوڑ کر جنگل کی طرف چلے میں ڈولچی لیے ہوئے پیچھے پیچھے گیا۔ آپ حاجت ضروری سے فارغ ہو کر آئے میں نے پانی ڈلوایا اور وضو کرایا، اب موقعہ پا کر سوال کیا کہ اے امیر المؤمنین! جن کے بارے میں یہ آیت ہے وہ دونوں کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ابن عباس! افسوس، زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا یہ دریافت کرنا برا معلوم ہوا لیکن چھپانا جائز نہ تھا اس لیے جواب دیا، اس سے مراد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں۔

پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش تو اپنی عورتوں کو اپنے زیر فرمان رکھتے تھے لیکن مدینہ والوں پر عموماً ان کی عورتیں حاوی تھیں جب ہم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم پر غلبہ حاصل کرنا چاہا۔ میں مدینہ شریف کے بالائی حصہ میں امیہ بن زید رضی اللہ عنہ کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مرتبہ میں اپنی بیوی پر کچھ ناراض ہوا اور کچھ کہنے سننے لگا تو پلٹ کر اس نے مجھے جواب دینے شروع کئے، مجھے نہایت برا معلوم ہوا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ یہ نئی بات کیسی؟ اس نے میرا تعجب دیکھ کر کہا کہ آپ کس خیال میں ہیں؟ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض مرتبہ تو دن دن بھر بول چال چھوڑ دیتی ہیں اب میں تو ایک دوسری الجھن میں پڑ گیا، سیدھا اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو اور کبھی کبھی سارا سارا دن روٹھی رہتی ہو؟ جواب ملا کہ سچ ہے۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نقصان میں پڑی جس نے ایسا کیا۔ کیا تم اس سے غافل ہو گئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے ایسی عورت پر اللہ ناراض ہو جائے اور وہ کہیں کی نہ رہے؟ خبردار! آئندہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی جواب نہ دینا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ طلب کرنا، جو مانگنا ہو مجھ سے مانگ لیا کرو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر تم ان کی حرص نہ کرنا وہ تم سے اچھی اور تم سے بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور نظر ہیں۔

اب اور سنو میرا پڑوسی ایک انصاری تھا اس نے اور میں نے باریاں مقرر کر لی تھیں، ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارتا اور ایک دن وہ، میں اپنی باری والے دن کی تمام حدیثیں آیتیں وغیرہ انہیں آ کر سنا دیتا اور یہ بات ہم میں اس وقت مشہور ہو رہی تھی کہ غسانی بادشاہ اپنے فوجی گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے اور اس کا ارادہ ہم پر چڑھائی کرنے کا ہے، ایک مرتبہ میرے ساتھی اپنی باری والے دن گئے ہوئے تھے، عشاء کے وقت آ گئے اور میرا دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے آوازیں دینے لگے، میں گھبرا کر باہر نکلا دریافت کیا خیریت تو ہے؟ اس نے کہا: آج تو بڑا بھاری کام ہو گیا، میں نے کہا کیا غسانی بادشاہ آ پہنچا؟ اس نے کہا: اس سے بھی بڑھ کر، میں نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی میں نے کہا: افسوس حفصہ برباد ہو گئی اور اس نے نقصان اٹھایا، مجھے پہلے ہی سے اس امر کا کھٹکا تھا، صبح کی نماز پڑھتے ہی کپڑے پہن کر میں چلا سیدھا حفصہ کے پاس گیا، دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں، میں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی؟ جواب دیا یہ تو کچھ معلوم نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے الگ ہو کر اپنے اس بالا خانہ میں تشریف فرما ہیں۔

میں وہاں گیا دیکھا کہ ایک حبشی غلام پہرے پر ہے، میں نے کہا: جاؤ میرے لیے اجازت طلب کرو، وہ گیا پھر آ کر کہنے لگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہیں دیا، میں وہاں سے واپس چلا آیا، مسجد میں گیا دیکھا کہ منبر کے پاس ایک گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بیٹھا ہوا ہے اور بعض بعض کے تو آنسو نکل رہے ہیں، میں تھوڑی سی دیر بیٹھا لیکن چین کہاں؟ پھر اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں جا کر غلام سے کہا کہ میرے لیے اجازت طلبب کرو، اس نے پھر آ کر یہی کہا کہ کچھ جواب نہیں ملا، میں دوبارہ مسجد چلا گیا پھر وہاں سے گھبرا کر نکلا یہاں آیا پھر غلام سے کہا غلام گیا آیا اور وہی جواب دیا میں واپس مڑا ہی تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی کہ آیئے آپ کو اجازت مل گئی۔ میں گیا دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بورے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر ظاہر ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: نہیں، میں نے کہا: اللہ اکبر! یا رسول اللہ! بات یہ ہے کہ ہم قوم قریش تو اپنی بیویوں کو اپنے دباؤ میں رکھا کرتے تھے لیکن مدینے والوں پر ان کی بیویاں غالب ہیں یہاں آ کر ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی حرکت شروع کر دی، پھر میں نے اپنی بیوی کا واقعہ سنایا اور میرا یہ خبر پا کر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی ایسا کرتی ہیں، یہ کہنا کہ کیا انہیں ڈر نہیں تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہو جائے اور وہ ہلاک ہو جائیں بیان کیا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے۔

میں نے پھر اپنا سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا اور انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ریس کرنے سے روکنا بیان کیا اس پر دوبارہ مسکرائے، میں نے کہا: اگر اجازت ہو تو ذرا سی دیر اور رک جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی میں بیٹھ گیا اب جو سر اٹھا کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹھک (‏‏‏‏دربار خاص) میں سوائے تین خشک کھالوں کے اور کوئی چیز نہ دیکھی، آزردہ دل ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر کشادگی کرے، دیکھئے تو فارسی اور رومی جو اللہ کی عبادت ہی نہیں کرتے انہیں کس قدر دنیا کی نعمتوں میں وسعت دی گئی ہے؟

یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے اے ابن خطاب! کیا تو شک میں ہے؟ اس قوم کی اچھائیاں انہیں بہ عجلت دنیا میں ہی دے دی گئیں۔‏‏‏‏ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میرے لیے اللہ سے بخشش طلب کیجئے، بات یہ تھی کہ آپ نے سخت ناراضگی کی وجہ سے قسم کھا لی تھی کہ مہینہ بھر تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہ کی، یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:5191] ‏‏‏‏

بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سال بھر اسی امید میں گزر گیا کہ موقعہ ملے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان دونوں کے نام دریافت کروں لیکن ہیبت فاروقی سے ہمت نہیں پڑتی تھی یہاں تک کہ حج کی واپسی میں پوچھا پھر پوری حدیث بیان کی جو اوپر گزر چکی ۔ [صحیح بخاری:4931] ‏‏‏‏

صحیح مسلم میں ہے کہ طلاق کی شہرت کا واقعہ پردہ کی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اس میں یہ بھی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس طرح سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر انہیں سمجھا آئے تھے اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی ہو آئے تھے، اور یہ بھی ہے کہ اس غلام کا نام جو ڈیوڑھی پر پہرہ دے رہے تھے رباح رضی اللہ عنہ تھا ۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.