تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

آیت 92: (1) وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا: اس آیت میں مکہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے، جس کا معنی ہے تمام بستیوں کی جڑ یا ان کا مرکز اور وَ مَنْ حَوْلَهَا سے مراد قبائل عرب اور آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، خواہ عرب ہوں یا عجم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ بُعِثْتُ إِلَي النَّاسِ كَافَّةً ] [بخاری، الصلاۃ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : [جعلت لي الأرض… ] : ۴۳۸ ] مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ نیز دیکھیے سورۂ انعام (۹)، سورۂ اعراف (۱۵۸) اور سورۂ سبا(۲۸)۔

وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ: کیونکہ قرآن مجید آخرت کی راہ بتلاتا ہے۔

وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ: کیونکہ نماز تمام عبادتوں کی اصل اور آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اس شخص کا ایمان آخرت پر صحیح اور درست ہے جو قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور نماز کی نگہداشت اور نگرانی کرتا ہے، جو شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا یا نماز کی حفاظت نہیں کرتا اس کا آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.