علوم حدیث
اصطلاحاتِ حدیث:
«الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على رسوله الكريم، اما بعد:»
حدیث کی روایت اور اس کی صحت وضعف کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے محدثین نے جو قواعد وضوابط بنائے، اور جن کی مدد سے کسی حدیث کی صحت اور ضعف تک پہنچے، اس علم کو اصولِ حدیث، مصطلح حدیث اور قواعد التحدیث کہتے ہیں۔
زیر نظر کتاب سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود نے اپنی اس کتاب میں مختلف اصطلاحات کو استعمال کیا ہے۔ نیز احادیث کی تخریج اور فوائد کے ضمن میں بھی بعض اصطلاحات آئی ہیں، آسانی کے لئے یہاں پر ہم مختصراً بعض اہم اور ضروری اصطلاحات اور قواعد کا تذکرہ کریں گے، تاکہ قارئین کرام محدثین کے قواعد وضوابط کی روشنی میں اس کتاب سے کما حقہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
حدیث: لغت میں حدیث کے معنی جدید (نئی چیز)اور بات کے ہیں، ا ور خلافِ قیاس اس کی جمع احادیث ہے۔
اصطلاح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور اعمال اور آپ کی پیدائشی صفات یا عادات واخلاق کو حدیث کہتے ہیں۔
خبر: اگر خبر کاتعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو وہ حدیث کے مترادف ہے، بعض لوگوں نے حدیث اور خبر کے درمیان یہ فرق بیان کیا ہے کہ حدیثوہ ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہو، اور خبر وہ ہے جوغیرنبی یعنی صحابہ، تابعین، اوراتباعِ تابعین کے بارے میں ہو، اس کواصطلاحی طورپراثربھی کہتے ہیں جس کی جمع آثار ہے۔
بعض محدثین نے حدیث خبراوراثرتینوں کو ہم معنی مترادف الفاظ کے طورپر استعمال کیا ہے، سیاق وسباق سے قارئین کو خوداندازہ لگانا ہوگا۔
اوراگرالفاظ کو مقید کر کے استعمال کیاجائے جیسے خبرنبوی (یااخبا ر نبویہ)اوراثرنبوی (یاآثار نبویہ)تب یقینی طورپریہ الفاظ حدیثکے مترادف ہوں گے۔
متواتر اور آحاد:
منسوب الیہ سے ہم تک پہنچنے کے لحاظ سے حدیث کی دوقسمیں ہیں: متواتر اور آحاد۔
آحاد: آحاد خبر واحد اور اخبار الآحاد ہم معنی الفاظ ہیں، اور اس کی تین قسمیں ہیں۔ مشہور، عزیزاورغریب۔
متواتر: اس حدیث کوکہتے ہیں جس کی روایت کرنے والے راوی ہرطبقہ میں اتنی کثیر تعداد میں اور مختلف جگہوں کے ہوں کہ ان کا کسی جھوٹ پر متفق ہو نا عقلاًمحال ہو۔
متواترکا حکم: متواتر کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے لازمی طور پر خبر کی تصدیق کا علم حاصل ہوجاتا ہے، جیسے آدمی خود کسی کا مشاہدہ کررہا ہو تو اس کی تصدیق کے بارے میں اس کو کسی قسم کا تردد اور شک نہ ہو۔ ایسے ہی متواتر کا فائدہ ہے کہ آدمی خبر کو بے چوں چرا تسلیم کرلے۔ اور اس کی سند کی تحقیق کی بھی ضرورت نہیں۔
مشہور (خبر آحاد کی اقسام: مشہور، عزیز اور غریب): مشہوراس حدیث کوکہتے ہیں جس کی روایت کر نے والے رواۃ تمام طبقات سند میں تین یاتین سے زیادہ ہوں، مگروہ تواترکی حد کو نہ پہنچیں، اس کومستفیضبھی کہتے ہیں۔
مشہورکاحکم: اس طریقے سے پہنچنے والی حدیث کے لئے ضروری نہیں کہ وہ لازماً صحیح ہی ہو، بلکہ اس میں صحیح، حسن، اورضعیف کی ساری قسمیں شامل ہیں، تحقیق کے بعدہی درجہ کا تعین کیاجائے گا۔
عزیز: اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی روایت کر نے والے رواۃ کسی طبقہ میں دو ہوں، اور باقی میں دوسے کم نہ ہوں، اس میں بھی: صحیح، حسن اورضعیف ہر قسم کی حدیث ہوتی ہے۔
غریب: وہ حدیث ہے جس کوروایت کرنے والاکسی طبقہ میں صرف ایک ہی آدمی رہ گیا ہو۔
مشہور، عزیز، غریب کو خبر واحد (یا اخبار آحاد) کہا جاتا ہے، اس لئے ہر ایک کی تحقیق وجستجوکے بعدہی اس پر صحیح یاحسن یاضعیف کا حکم لگایاجائے گا۔
صحیح، حسن اورضعیف:
مقبول یامردودہونے کے لحاظ سے حدیث کی تین قسمیں ہیں: صحیح، حسن اورضعیف۔ پھر ان تینوں کی ذیلی قسمیں ہیں:
صحیح: وہ حدیث ہے جس کے نقل (روایت) کر نے والے رواۃ ثقہ ہوں یعنی عادل وضابط (پختہ حفظ کے مالک)ہوں، اور ان کے درمیان سند متصل ہو، یعنی ملاقات اورسماع ثابت ہو، نیز وہ شذوذاورعلتِ قادحہ سے پاک ہو۔ (یہ شرط صحابہ کے بعدکے لوگوں کے لئے ہے، صحابہ سارے کے سارے عادل اورضابط مانے گئے ہیں)۔
شذوذ: یہ ہے کہ ثقہ (عادل وضابط) راوی کی روایت ثقہ رواۃکے مخالف ہو، یا کم درجہ کے ثقہ نے اپنے سے اعلیٰ ثقہ راوی کے برخلاف روایت کی ہو، تو ایک ثقہ، یا کم ثقہ کی روایت کوشاذکہتے ہیں، جوصحیحکے منافی ہے، ثقات یا زیادہ ثقہ راوی کی روایت کو محفوظ کہتے ہیں۔
علت: حدیث کو ضعیف کردینے والے ایسے مخفی سبب کوکہتے ہیں جس پر فن حدیث کے متبحر علماء یعنی ناقدین حدیث ہی مطلع ہو پاتے ہیں۔ جس طرح ایک ماہرجوہری ہی سونے یاچاندی کے کھوٹ پر اپنے تجربہ کی بنیادپر مطلع ہوپاتا ہے، اس کا سبب عموماراوی کاسوءِ حفظ وہمہوتا ہے۔
صحیح کی قسمیں:
صحیح کی دو قسمیں ہیں:
◈ صحیح لذاتہ ◈ صحیح لغیرہ
صحیح لذاتہ: جس حدیث کے تمام رواۃصحیح کی تعریف میں مذکور شروط وصفات میں اعلیٰ درجہ کی صفات کے حامل ہوں۔ اس کو صحیح لذاتہ کہتے ہیں۔ یعنی ثقہ (عادل اور پختہ حفظ والا راوی) متصل سند کے ساتھ روایت کرے اور وہ شذوذ اور علت سے پاک ہو۔
صحیح لغیرہ: حسن لذاتہ اگر دو طریق سے آجائے تو اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں۔ یعنی بعض رواۃ صفتِ ضبط میںصحیح لذاتہ کے پختہ حفظ والے راوی سے حفظ میں قدرے کم ہوں (باقی صفات میں کم نہ ہوں)اوروہ حدیث اسی طرح کی کسی اورسند سے بھی مروی ہو تو دونوں سندیں مل کر ایک حدیث کو صحیح لغیرہ کادرجہ عطاکرتی ہیں۔
صحیح کاحکم: ان دونوں قسموں سے ثابت حدیث عقیدہ وعمل اور اصول وفروع میں حجت اوردلیل ہے۔ صحیح لذاتہ صحیح لغیرہ سے فائق ہے۔
صحیح حدیث کے مراتب:
صحیح حدیث کے سات مراتب ہیں۔
◈ جس حدیث کی روایت امام بخاری ومسلم دونوں نے اپنی صحیح میں کی ہو۔
◈ جس حدیث کی روایت صرف امام بخاری نے کی ہو۔
◈ جس حدیث کی روایت صرف امام مسلم نے کی ہو۔
◈ جو حدیث بخاری اور مسلم کی متفقہ شرائط پر پوری اترتی ہو اوران دونوں میں سے کسی نے اس کی روایت نہ کی ہو۔
◈ وہ حدیث صرف امام بخاری کی شرط پر ہو اور انہو ں نے روایت نہ کی ہو۔
◈ وہ حدیث صرف امام مسلم کی شرط پرہواور انہو ں نے روایت نہ کی ہو۔
◈ جوحدیث بخاری ومسلم یا ان میں سے کسی ایک کی شرط پرنہ ہو۔
حسن: حسن وہ حدیث ہے جس کے بعض رواۃصفتِ ضبطمیںصحیح لذاتہکے رواۃ سے قدرے کم ہوں، یعنی صحیح لغیرہ کی تعریف میں مذکورکسی ایک سند سے مروی حدیث کوحسن (لذاتہ)کہتے ہیں۔
حسن کی قسمیں:
حسن کی دوقسمیں ہیں:
◈ حسن لذاتہ ◈ حسن لغیرہ
حسن لذاتہ: صحیح لذاتہ میں ثقہ، راوی کا تام الضبط ہونا ضروری ہے۔ اور حسن لذاتہ میں راوی کے ضبط اور حفظ میں صحیح لذاتہ کے راوی کے مقابلے میں قدرے کمی ہوجاتی ہے۔ بقیہ شروط صحیح لذاتہ ہی کی ہیں۔ اوپر مذکور حسن کی تعریف سے حسن لذاتہ کی وضاحت ہوگئی ہے۔
حسن لغیرہ: وہ ضعیف حدیث جس کے رواۃ میں سے کوئی راوی فسق یا کذب سے متصف نہ ہو، اور وہ حدیث ایسی ہی کسی اورسند سے بھی مروی ہو۔
حسن کا حکم: دلیل اورحجت پکڑنے میں حدیث حسن بھی صحیح کی طرح ہے مگر فرقِ مراتب کے ساتھ۔
صحیح الاسناد وحسن الاسناد:
کسی حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ صحیح الاسناد یا ضعیف الاسناد ہے، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ صحیح اور حسن کے درجہ کی ہو، اس لئے کہ صحت حدیث میں شذوذ اور علت کی نفی بھی ضروری ہے، اور صحیح الاسناد اور حسن الاسناد میں سند کا اتصال اور راوی کی عدالت اور حفظ وضبط کی بات ہے، ہاں اگر قابل اعتماد ناقدِ حدیث یہ دونوں صیغے استعمال کرے اور اس حدیث کی کوئی علت بھی نہ پائی جارہی ہو تو بظاہر متن کی صحت بھی مقصود ہے۔
ضعیف: وہ حدیث ہے جس کے رواۃ کے اندر حسن کے رواۃ کی صفات میں سے کوئی صفت یا پوری صفات نہ پائی جائیں، حدیث کے ضعف کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
◈ سند میں انقطاع جیسے: مرسل، معلق، معضل، منقطع، مدلس، مرسل خفی، معنعن، مؤنن۔
◈ راوی کی عدالت اور اس کے حفظ وضبط میں طعن، راوی کی عدالت میں ہونے والے طعن میں راوی کا حدیث رسول میں کذاب ہونا یا لوگوں سے بات چیت میں جھوٹ بولنا یا فسق یا بدعت یا جہالت ہے، اور راوی کے حفظ وضبط میں طعن میں راوی کا فاحش الغلط ہونا، یا کمزور حافظے کا ہونا، یا غفلت کا شکار ہونا یا اوہام کی کثرت، یا ثقات کی مخالفت۔
ضعیف کا حکم: ضعیف حدیث سے دلیل اورحجت پکڑنا جائزنہیں، نیزاس کی روایت اور اس کا تذکرہ بھی اس کے حکم کو بیان کئے بغیر جائز نہیں، فضائل میں بھی اس سے استدلال جائز نہیں کیونکہ کسی عمل کی فضیلت بھی ایک شرعی حکم ہے اور کسی بھی شرعی حکم کے ثبوت کے لئے اس کا صحیح یاحسن سند سے منقول ہوناضروری ہے۔
مرسل: وہ حدیث ہے جس کی روایت تابعی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہو، مثلاً کہے: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔
مرسل کا حکم: مرسل ضعیف کی ایک قسم ہے، کیونکہ یہ نہیں معلوم کہ تابعی نے سندسے کسی صحابی ہی کوساقط کیا ہے یا صحابی کے ساتھ ساتھ کسی تابعی کو بھی ساقط کیا ہے جس سے اس نے براہِ راست حدیث لی تھی (تابعی سے تابعی کی روایت بہت معروف ہے، بلکہ ایک سند میں کبھی کئی ایک تابعی ہواکرتے ہیں) اورتابعی ضعیف بھی ہوتے ہیں، اب معلوم نہیں کہ جس تابعی کوساقط کیاہے وہ ثقہ بھی ہے یانہیں، یعنی راوی کے مجہول ہو نے کے سبب مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے، اور اگر کسی ذریعہ سے یہ طے ہوجائے کہ تابعی نے صحابی ہی کو ساقط کیا ہے توصحابی کے مجہول ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی لئے سعید بن المسیب کی مرسل روایت قبول کی جاتی ہے، اسی طرح کسی اورمرسل سندسے یہ حدیث آجائے تو بھی وہ مرسل قبول کرلی جاتی ہے۔
معلق: وہ حدیث ہے جس کی سند کے شروع سے ایک یا کئی ایک راوی مسلسل یاسبھی رواۃ ساقط ہوں، اورچونکہ ساقط شدہ رواۃ کی عدالت اورضبط کاکچھ علم نہیں اس لئے معلق بھی ضعیف کے اقسام میں سے ہے، البتہ صحیح بخاری کی معلق روایات اگرمعروف صیغوں کے ساتھ مذکور ہوں (جیسے قال ابن عباس: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم) توایک حد تک ان سے استناد کیا جاسکتا ہے۔
معضل: وہ حدیث ہے جس کے سند کے درمیان سے دویادوسے زیادہ راوی مسلسل ساقط ہوں۔
منقطع: وہ حدیث ہے جس کے درمیان سندسے کوئی ایک راوی ساقط ہو، یہ سقوط ایک جگہ سے بھی ہوسکتاہے اورکئی جگہوں سے بھی (ابن حجر)۔
نوٹ: مذکورہ تعریف حافظ ابن حجرکی ہے اس کے لحاظ سے معضل اورمتعدد جگہوں سے ایک راوی کے سقوط والے منقطع میں فرق یہ ہے کہ معضل میں سقوط میں تسلسل ہوتا ہے اور منقطع میں تعددِ محل ضروری ہے۔
مدلس: تدلیس کے ساتھ روایت کی گئی حدیث یا خبرکومُدَلَّسکہتے ہیں اوراس طرح کی روایت کرنے والے راوی کو مُدَلِّسْ کہتے ہیں۔
تدلیس اور اس کی اقسام:
تدلیس: لغت میں خریدار سے سامان کے عیب کو چھپانے کا نام تدلیس ہے۔ اصطلاح حدیث میں سند کے عیب پر پردہ ڈالنا اور ظاہری سند کو اچھا بنا کر پیش کرنے کا نام تدلیس ہے۔
اس کی دو قسمیں ہیں: ایک تدلیس الشیوخ اور دوسری تدلیس الاسناد۔
تدلیس الشیوخ: راوی اپنے شیخ کے معروف ومشہور نام کے بجائے اس کا کوئی غیرمعروف نام لے، جیسے: غیرمعروف لقب، یا کنیت، یانسبت استعمال کرے، تاکہ لوگ اس کی اصلیت کو نہ جان پائیں کیونکہ وہ ضعیف ہوتا ہے اور اس کے ضعف کو چھپاناہی مقصودہوتا ہے، اس کو تدليس الشيوخ کہتے ہیں۔
تدلیس الاسناد: راوی ایسے شیخ سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات توہواوراس سے روایت بھی لی ہومگراس حدیث کو اس شیخ سے نہ سناہو، جس سے تدلیس کررہا ہے یا ایسے راوی سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ہے لیکن اس سے کچھ سنا نہیں ہے، اور روایت کو عن فلانیا قال فلانجیسے الفاظ سے روایت کرے کہ اس راوی سے سماع کا دھوکہ ہو۔
اس کی تین صورتیں ہیں:
تدلیس القطع: اسے تدلیس الحذف بھی کہتے ہیں اس کی شکل یہ ہے کہ راوی سند کو کاٹ دینے یا حذف کردینے کی نیت سے روایت حدیث کے الفاظ کے درمیان سکوت اختیار کرلے۔
تدلیس العطف: اس میں راوی اپنے شیخ سے روایت میں تحدیث کی صراحت کرے اور اس پر کسی دوسرے شیخ کا عطف کرے، جس سے اس نے یہ حدیث نہیں سنی ہے۔
تدلیس التسویہ: راوی دو ثقہ کے درمیان موجود ضعیف راوی کو ساقط کردے، ان میں سے ایک کی ملاقات دوسرے سے موجود ہے، اور یہ مدلس راوی اپنے ثقہ شیخ سے اور وہ دوسرے ثقہ راوی سے حدیث روایت کرے، اور روایت میں عن وغیرہ الفاظ استعمال کرے جس سے سند کے متصل ہونے کا وہم ہو، تاکہ پوری سند ثقات پر مشتمل ہو اور یہ تدلیس کی سب سے خراب قسم ہے۔
معنعن اور عنعنه: تدلیسی روایات میں مدلِّس راوی أخبرنا یا أخبرنيیا حدثنایا حدثني یا سمعت جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتاتاکہ کذاب نہ قرار دے دیاجائے بلکہ وہ عن یا أنَّ یا قال جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، تو عن کے ذریعہ روایت کرنے کو عنعنهکہتے ہیں۔ اور ایسی روایت کو معنعنکہتے ہیں۔ مُؤنَّنْ: اورأنّکے ذریعہ روایت کومؤننکہتے ہیں۔
مرسل خفی: راوی ایسے آدمی سے روایت کرے جو اُس کے زمانہ میں موجودتو ہومگر اس سے اس کی ملاقات اورروایت نہ ہو، اورایسے الفاظ استعمال کرے جس سے سماع کادھوکہ ہوجیسےعناورقال (تدلیس التسویہ اورارسال خفی میں یہی فرق ہے کہ تدلیس میں ملاقات اور روایت ہوتی ہے اورارسال خفی میں صرف زمانہ ایک ہوتا ہے لقاء اورسماع نہیں ہوتا)


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.