حسن لغیرہ !؟:
تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
محدث کبیر شیخ البانی رحمہ اللہ نے پندرہ شعبان والی روایت کو تعدد طرق کی وجہ سے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ روایت ”صحیح لغیرہ“ کے درجہ تک بھی نہیں پہنچتی، اس کی ایک سند بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے تو یہ کس طرح صحیح بن گئی؟
بعض کہتے ہیں کہ یہ روایت حسن لغیرہ ہے۔ عرض ہے کہ حسن لغیرہ کی دو قسمیں ہیں:
1- ایک ضعیف سند والی روایت جو بذاتِ خود ضعیف ہے، جبکہ دوسری روایت حسن لذاتہ ہے۔ یہ سند اس حسن لذاتہ کے ساتھ مل کر حسن ہوگئی۔
2- ایک ضعیف سند والی روایت جو بذاتِ خود ضعیف ہے اور اس مفہوم کی دوسری ضعیف و مردود روایات بھی موجود ہیں تو بعض علماء اسے حسن لغیر ہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔
دلیل نمبر 1: قرآن و حدیث و اجماع سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہے کہ ”ضعیف ضعیف ضعیف“ حسن لغیرہ والی روایت حجت ہے۔
دلیل نمبر 2: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر 3: تابعین کرام رحمہم اللہ سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر 4: امام بخاری و امام مسلم وغیرہما سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر5: امام ترمذی رحمہ اللہ کے علاوہ عام محدثین سے ایسی ”حسن لغیرہ“ روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔ مثلاً محمد بن ابی لیلیٰ (ضعیف) نے ”عن أخیہ عیسٰی عن الحکم عن عبد الرحمٰن بن أبي لیلیٰ عن البراء بن عازب“ ترکِ رفع یدین کی ایک حدیث بیان کی ہے (سنن ابی داود: 752) اس کی سند ضعیف ہے۔
اور اس کے متعدد ضعیف شواہد ہیں۔ مثلاً دیکھئے سنن ابی داود (749، 748)
ان تمام شواہد کے باوجو د امام ابوداود فرماتے ہیں:
”ھٰذا الحدیث لیس بصحیح“
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
(ابو داود: 752)
عام نماز میں ایک طرف سلام پھیرنے کی کئی روایات ہیں۔ دیکھئے الصحیحۃ للشیخ الألبانی رحمہ اللہ (1/ 564۔566 ح 316) ان میں سے ایک روایت بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے۔
ان روایات کے بارے میں حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں:
”إلا أنھا معلولۃ ولایصححھا أھل العلم بالحدیث“
مگر یہ سب روایات معلول (ضعیف) ہیں، علمائے حدیث انھیں صحیح قرار نہیں دیتے۔
(زاد المعاد ج 1 ص 259)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں:
”ولکن لم یثبت عنہ ذلک من وجہ صحیح“
لیکن آپ (ﷺ) سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے۔
(زاد المعاد ج 1 ص 259)
دلیل نمبر6: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”یکفی فی المناظرۃ تضعیف الطریق التي أبداھا المناظر وینقطع، إذالأصل عدم ماسواھا، حتی یثبت بطریق أخری، واللہ أعلم“
مناظرے میں یہ کافی ہے کہ مخالف کی بیان کردہ سند کا ضعیف ہونا ثابت کردیا جائے، وہ لاجواب ہو جائے گا کیونکہ اصل یہ ہے کہ دوسری تمام روایات معدوم (وباطل) ہیں اِلا یہ کہ دوسری سند سے ثابت ہوجائیں۔ واللہ اعلم
(اختصار علوم الحدیث ص 85 نوع: 22، دوسرا نسخہ 1/ 274، 275 وعنہ نقلہ السخاوی فی فتح المغیث 1/ 287 فی معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد)
دلیل نمبر7: ابن القطان الفاسی نے حسن لغیرہ کے بارے میں صراحت کی ہے:
”لایحتج بہ کلہ بل یعمل بہ فی فضائل الأعمال ……“ إلخ
اس ساری کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی بلکہ فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
(النکت علیٰ کتا ب ابن الصلاح: 1/ 402)
دلیل نمبر 8: حافظ ابن حجر نے ابن القطان کے قول کو ”حسن قوی“ قرار دیا ہے۔ (النکت 1/ 402)
دلیل نمبر 9: حنفی و شافعی وغیرہما علماء جب ایک دوسرے کا رد کرتے ہیں تو ایسی حسن لغیرہ روایت کو حجت تسلیم نہیں کرتے مثلاً کئی ضعیف سندوں والی ایک روایت ”من کان لہ إمام فقراءۃ الإمام لہ قراءۃ“ کے مفہوم والی روایت کو علامہ نووی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (خلاصۃ الاحکام ج 1 ص 377 ح 1173، فصل فی ضعیفہ)
کئی سند وں والی فاتحہ خلف الامام کی روایات کو نیموی حنفی نے معلول وغیرہ قرار دے کر رد کر دیاہے۔ دیکھئے آثار السنن (ح 353، 354، 355، 356)
دلیل نمبر10: جدید دور میں بہت سے علماء کئی سندوں والی روایات جن کا ضعف شدید نہیں ہوتا پر جرح کر کے ضعیف و مردود قرار دیتے ہیں۔ مثلاً فاتحہ خلف الامام کے ثبوت میں ”محمد بن إسحاق عن مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ بن الصامت“ والی روایت کے بارے میں محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ضعیف“ (دیکھئے تحقیق سنن ابی داود: 823 مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض)
حالانکہ اس روایت کے بہت سے شواہد ہیں دیکھئے کتا ب القراءت للبیہقی والکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام فی الجھریۃ لراقم الحروف، ان کئی سندوں اورشواہد کے باوجود شیخ البانی رحمہ اللہ اسے حسن لغیرہ (!) تک تسلیم نہیں کرتے۔ (جبکہ فاتحہ خلف الامام والی روایت حسن لذاتہ ا ورصحیح لغیرہ ہے۔ والحمدللہ)
خلاصہ یہ کہ نصف شعبان والی روایت ضعیف ہی ہے۔
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 1 صفحہ 291 تا 304)