الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:


بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
14. باب النفقات
14. نفقات کا بیان
حدیث نمبر: 975
عن عائشة رضي الله عنها قالت: دخلت هند بنت عتبة امرأة أبي سفيان على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقالت: يا رسول الله إن أبا سفيان رجل شحيح لا يعطيني من النفقة ما يكفيني ويكفي بني إلا ما أخذت من ماله بغير علمه فهل علي في ذلك من جناح؟ فقال: «‏‏‏‏خذي من ماله بالمعروف ما يكفيك ويكفي بنيك» ‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہند بنت عتبہ، ابوسفیان کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہے۔ مجھے وہ اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کیلئے کافی ہو مگر یہ کہ میں پوشیدہ طور پر کچھ لے لوں تو ایسا کرنے میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلے طریقے سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے کافی ہو۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 975]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل فللمرأة أن تأخذ بغير علمه...، حديث:5364، ومسلم، الأقضية، باب قضية هند، حديث"1714.»

حدیث نمبر: 976
وعن طارق المحاربي رضي الله عنه قال: قدمنا المدينة فإذا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قائم على المنبر يخطب الناس ويقول:" يد المعطي العليا وابدأ بمن تعول: أمك وأباك وأختك وأخاك ثم أدناك فأدناك" رواه النسائي وصححه ابن حبان والدارقطني.
سیدنا طارق محاربی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ فرماتے تھے دینے والا ہاتھ بالا و بلند ہوتا ہے۔ اور ان سے شروع کر جو تمہاری کفالت میں ہیں۔ ان میں تیری ماں، تیرا باپ، تیری بہن اور تیرا بھائی شامل ہیں پھر درجہ بدرجہ اپنے سب سے زیادہ قریبی کو دے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان اور دارقطنی نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 976]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، الزكاة، باب أيتهما اليد العليا، حديث:2533، وابن حبان (الإحسان):5 /143، حديث:3330.»

حدیث نمبر: 977
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:«‏‏‏‏للمملوك طعامه وكسوته ولا يكلف من العمل إلا ما يطيق» ‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام کا کھانا پینا اور لباس مہیا کرنا مالک پر واجب ہے اور طاقت سے بڑھ کر کام کی تکلیف نہ دی جائے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 977]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الأيمان، باب إطعام المملوك...، حديث:1662.»

حدیث نمبر: 978
وعن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه قال: قلت: يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه؟ قال: «‏‏‏‏أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت» ‏‏‏‏ الحديث وتقدم في عشرة النساء.
سیدنا حکیم بن معاویہ قشیری رحمہ اللہ کی اپنے باپ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر ایک پر اس کی اہلیہ کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب خود کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ۔ جب خود پہنو تو اس کو بھی پہناؤ اور اس کے منہ پر نہ مارو اور اسے قبیح نہ کہو۔ لمبی حدیث ہے جو «عشرة النساء» کے باب میں پہلے گزر چکی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 978]
تخریج الحدیث: «تقدم، حديث:872.»

حدیث نمبر: 979
وعن جابر رضي الله تعالى عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم في حديث الحج بطوله قال في ذكر النساء: «‏‏‏‏ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف» . أخرجه مسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے بارے میں لمبی حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے بارے میں فرمایا تم پر تمہاری بیویوں کا یہ حق ہے کہ ان کو کھانا پینا اور لباس بھلے طریقہ سے دیا کرو۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 979]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:1218.»

حدیث نمبر: 980
وعن عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏كفى بالمرء إثما أن يضيع من يقوت» ‏‏‏‏ رواه النسائي وهو عند مسلم بلفظ: «‏‏‏‏أن يحبس عمن يملك قوته» .‏‏‏‏
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک انسان کیلئے یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی روزی کا ذمہ دار و کفیل ہے ان کو ضائع کر دے۔ (نسائی) اور مسلم میں یہ الفاظ ہیں کہ جس کی روزی کا مالک ہے اسے روک لے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 980]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الزكاة، باب فضل النفقة علي العيال والمملوك...، حديث:996، والنسائي في الكبرٰي:5 /374، حديث:9177، وأبوداود، الزكاة، حديث:1692.»

حدیث نمبر: 981
وعن جابر يرفعه في الحامل المتوفى عنها زوجها قال:" لا نفقة لها" أخرجه البيهقي ورجاله ثقات لكن قال: المحفوظ وقفه وثبت نفي النفقة في حديث فاطمة بنت قيس رضي الله عنها كما تقدم رواه مسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اس حاملہ کے بارے میں جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو مرفوعاً روایت کیا ہے کہ اس کے لئے نفقہ نہیں ہے۔ اس کو بیہقی نے نکالا۔ اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن امام بیہقی نے کہا ہے کہ اس کا موقوف ہونا ہی محفوظ ہے۔ نفقہ کی نفی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 981]
تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي:7 /431.* أبوالزبير مدلس وعنعن وفيه علة أخري، وحديث فاطمة بنت قيس: أخرجه مسلم، الطلاق، حديث:1480.»

حدیث نمبر: 982
وعن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏اليد العليا خير من اليد السفلى ويبدأ أحدكم بمن يعول تقول المرأة أطعمني أو طلقني» .‏‏‏‏ رواه الدارقطني وإسناده حسن.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ تم میں ہر کوئی اس سے آغاز و ابتداء کرے جس کی وہ عیالداری کرتا ہے۔ ایسا نہ ہو بیوی کہنے لگے کہ نان و نفقہ دو یا طلاق دو۔ اس کو دارقطنی نے حسن سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 982]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:3 /296، 297 واللفظ مركب، وفتح الباري:9 /501، أصله في صحيح البخاري، النفقات، حديث:5355، وقوله: تقول المرأة:...، مدرج من كلام أبي هريرة رضي الله عنه.»

حدیث نمبر: 983
وعن سعيد بن المسيب في الرجل لا يجد ما ينفق على أهله قال:" يفرق بينهما" أخرجه سعيد بن منصور عن سفيان عن أبي الزناد عنه قال: قلت لسعيد: سنة؟ فقال: سنة. وهذا مرسل قوي.
سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے ایسے آدمی کے متعلق مروی ہے جو اپنی بیوی کو نان و نفقہ نہ دے سکے کہ ان کے درمیان علیحدگی کر دی جائے گی۔ اس روایت کو سعید بن منصور نے سفیان سے اور انہوں نے ابوالزناد سے روایت کیا ہے کہ میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا کیا یہ سنت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں سنت ہے۔ یہ روایت مرسل قوی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 983]
تخریج الحدیث: «أخرجه سعيد بن منصور.* سفيان بن عيينة عنعن، وهو في البيهقي أيضًا:7 /469.»

حدیث نمبر: 984
وعن عمر رضي الله تعالى عنه:" أنه كتب إلى أمراء الأجناد في رجال غابوا عن نسائهم: أن يأخذوهم بأن ينفقوا أو يطلقوا فإن طلقوا بعثوا بنفقة ما حبسوا" أخرجه الشافعي والبيهقي بإسناد حسن.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے امراء لشکر کو ایسے مردوں کے بارے میں تحریر فرمایا جو فوج میں شریک رہنے کی وجہ سے اپنی بیویوں سے غائب تھے کہ وہ اپنی بیویوں کو نفقہ روانہ کریں ورنہ طلاق دے دیں۔ اگر طلاق دیں تو جتنی مدت انہوں نے روکے رکھا ہے اس کا نفقہ روانہ کریں۔ اسے امام شافعی رحمہ اللہ اور بیہقی نے عمدہ سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 984]
تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي:7 /469، والشافعي في مسنده، فيه مسلم بن خالد وهو ضعيف من جهة حفظه.»

حدیث نمبر: 985
وعن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: يا رسول الله عندي دينار؟ قال: «‏‏‏‏أنفقه على نفسك» ‏‏‏‏ قال: عندي آخر؟ قال: «‏‏‏‏أنفقه على ولدك» ‏‏‏‏ قال: عندي آخر؟ قال: «‏‏‏‏أنفقه على أهلك» ‏‏‏‏ قال: عندي آخر؟ قال: «‏‏‏‏أنفقه على خادمك» ‏‏‏‏ قال: عندي آخر؟ قال: «‏‏‏‏أنت أعلم» .‏‏‏‏ أخرجه الشافعي وأبو داود واللفظ له وأخرجه النسائي والحاكم بتقديم الزوجة على الولد.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا میرے پاس ایک اور ہے؟ فرمایا اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ وہ پھر بولا میرے پاس ایک اور ہے۔ فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا میرے پاس اور ہے فرمایا اپنے خادم پر خرچ کرو۔ وہ بولا میرے پاس اور ہے۔ فرمایا تجھے خوب علم ہے کہ تو اسے کہاں خرچ کرے۔ اس کی شافعی اور ابوداؤد نے تخریج کی ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں اور نسائی اور حاکم نے بھی اس کی تخریج کی ہے۔ اس میں ولد سے پہلے زوجہ کا ذکر ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 985]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، باب في صلة الرحم، حديث:1691، والشافعي في مسنده:2 /64، والنسائي، الزكاة، حديث:2536، والحاكم: 1 /415.»

حدیث نمبر: 986
وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده رضي الله عنهم قال: قلت: يا رسول الله من أبر؟ قال: «‏‏‏‏أمك» ‏‏‏‏ قلت: ثم من؟ قال: «‏‏‏‏أمك» ‏‏‏‏ قلت: ثم من؟ قال: «‏‏‏‏أمك» قلت: ثم من؟ قال: «‏‏‏‏أباك ثم الأقرب فالأقرب» ‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والترمذي وحسنه.
سیدنا بھز بن حکیم رحمہ اللہ نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں حسن سلوک اور بھلائی کس کے ساتھ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی والدہ کے ساتھ۔ میں نے پھر عرض کیا۔ پھر کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اپنی والدہ سے۔ میں نے پھر عرض کیا پھر کس سے؟ فرمایا اپنی والدہ سے۔ میں نے پھر عرض کیا۔ پھر کس سے؟ فرمایا اپنے والد سے۔ اس کے بعد پھر درجہ بدرجہ زیادہ قریبی رشتہ دار سے۔ اسے ابوداؤد اور ترمذی نے تخریج کیا اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 986]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب في بر الوالدين، حديث:5139، والترمذي، البر والصلة، حديث:1897.»