الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
1. بَابُ: ذِكْرِ الْقُضَاةِ
1. باب: قاضیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2308
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ الْمَقْبُريِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کا قاضی (فیصلہ کرنے والا) بنایا گیا تو وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2308]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 12955)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأقضیة 1 (3571)، سنن الترمذی/الأحکام 1 (1325)، مسند احمد (2/365) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی بن مارے اس کی موت ہوئی، مطلب یہ ہے کہ قضا کا عہدہ بڑے خطرے اور مواخذے کا کام ہے، اور اس میں عاقبت کے خراب ہونے کا ڈر ہے مگر جس کو اللہ تعالیٰ بچائے، اور اسی واسطے اکثر اسلاف نے تکلیفیں برداشت کیں اور ذلت کو گوارا کیا، لیکن قضا کا عہدہ نہ قبول کیا، چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو خلیفہ منصور نے مارا پیٹا اور قید کیا، لیکن انہوں نے قاضی بننا قبول نہ کیا، تاکہ اپنے آپ کو حدیث میں وارد وعید سے بچا سکیں، اورجن علماء نے یہ ذمہ داریاں قبول کیں انہوں نے ایک دینی فریضہ پورا کیا، ان کو اللہ کے فضل سے اپنے اوپر اعتماد تھا کہ وہ اس عہدے کے ذریعے سے ملک اور عوام کی خدمت کریں گے، اور اللہ رب العزت کے یہاں اجر کے مستحق ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 2309
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ بِلَالِ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَ الْقَضَاءَ وُكِلَ إِلَى نَفْسِهِ وَمَنْ جُبِرَ عَلَيْهِ نَزَلَ إِلَيْهِ آلِكْ فَسَدَّدَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عہدہ قضاء کا مطالبہ کیا، وہ اپنے نفس کے حوالہ کر دیا جاتا ہے، اور جو اس کے لیے مجبور کیا جائے تو اس کے لیے ایک فرشتہ اترتا ہے جو اسے درست بات کی رہنمائی کرتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2309]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 1 (3578)، سنن الترمذی/الأحکام 1 (1323)، (تحفة الأشراف: 256)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/118، 220) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عبدالأعلی ضعیف راوی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (3578) ترمذي (1323،1324)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462

حدیث نمبر: 2310
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَبْعَثُنِي وَأَنَا شَابٌّ أَقْضِي بَيْنَهُمْ وَلَا أَدْرِي مَا الْقَضَاءُ، قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اهْدِ قَلْبَهُ وَثَبِّتْ لِسَانَهُ"، قَالَ: فَمَا شَكَكْتُ بَعْدُ فِي قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے (قاضی بنا کر) یمن بھیج رہے ہیں، اور میں (جوان) ہوں، لوگوں کے درمیان مجھے فیصلے کرنے ہوں گے، اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا پھر فرمایا: اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت فرما، اور اس کی زبان کو ثابت رکھ، پھر اس کے بعد مجھے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی کوئی تردد اور شک نہیں ہوا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2310]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10113)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأقضیة 6 (3582)، سنن الترمذی/الأحکام 5 (1331)، مسند احمد (1/83، 149) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو البختری سعید بن فیروز کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر حسن یا صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2600، ابوداود: 3582)

وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت سے علی رضی اللہ عنہ کے سینے پر جب ہلکی سی ضرب لگائی اور دعا فرمائی تو اس معجزے کا ظہور ہوا اور دعا کی قبولیت کی مثال سامنے آئی، یہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی کے سینے پر ہاتھ رکھا اور دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے کو علم قضا کے لیے کھول دیا، ایسا ہی معجزہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے کو علم حدیث کے لیے کھول دیا، اور خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بھول جانے کی شکایت کی تو آپ نے ان کو ایک چادر دی جسے انہوں نے اپنے جسم سے لپیٹ لیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حافظے کے تیز ہونے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ ظاہر کیا اور اپنے محبوب نبی کی ایسی دعا قبول کی کہ ابوہریرہ صحابہ کرام میں احادیث شریفہ کے سب سے بڑے حافظ قرار پائے، جب کہ آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کا شرف بہت مختصر ملا کہ آپ غزوہ خیبر کے وقت محرم سن ۷ ہجری کو مدینہ آئے، اس طرح سے تقریباً سوا چار سال کی مدت آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری،اور پھر اللہ کا فضل ان پر اور اہل اسلام پر یہ ہوا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ پوری زندگی حدیث کی خدمت کرتے رہے، یہاں تک کہ ۵۷ یا ۵۸ ہجری میں آپ کی وفات ہوئی رضی اللہ عنہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ أبو البختري سعيد بن فيروز لم يسمع من علي رضي اللّٰه عنه ولم يدركه،قاله أبو حاتم الرازي (المراسيل ص 74) فالسند منقطع وللحديث شاھد ضعيف عند أبي داود (3582)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462