الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
30. باب مَا جَاءَ فِي الإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ
30. باب: جنازہ تیزی سے لے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1015
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ، فَإِنْ يَكُنْ خَيْرًا تُقَدِّمُوهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُنْ شَرًّا تَضَعُوهُ عَنْ رِقَابِكُمْ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنازہ تیزی سے لے کر چلو ۱؎، اگر وہ نیک ہو گا تو اسے خیر کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر وہ برا ہو گا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر (جلد) رکھ دو گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1015]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 51 (1315)، صحیح مسلم/الجنائز 16 (944)، سنن ابی داود/ الجنائز 50 (3181)، سنن النسائی/الجنائز 44 (1911)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 15 (1477) (تحفة الأشراف: 13124) (صحیح) وأخرجہ مالک/الجنائز 16 (56)، موقوفا علی أبي ہریرة۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1477)

31. باب مَا جَاءَ فِي قَتْلَى أُحُدٍ وَذِكْرِ حَمْزَةَ
31. باب: شہدائے احد اور حمزہ بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کا ذکر۔
حدیث نمبر: 1016
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَمْزَةَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَرَآهُ قَدْ مُثِّلَ بِهِ، فَقَالَ: " لَوْلَا أَنْ تَجِدَ صَفِيَّةُ فِي نَفْسِهَا لَتَرَكْتُهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الْعَافِيَةُ حَتَّى يُحْشَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ بُطُونِهَا ". قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِنَمِرَةٍ فَكَفَّنَهُ فِيهَا، فَكَانَتْ إِذَا مُدَّتْ عَلَى رَأْسِهِ بَدَتْ رِجْلَاهُ، وَإِذَا مُدَّتْ عَلَى رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ، قَالَ: فَكَثُرَ الْقَتْلَى وَقَلَّتِ الثِّيَابُ، قَالَ: فَكُفِّنَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ وَالثَّلَاثَةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، ثُمَّ يُدْفَنُونَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ عَنْهُمْ: " أَيُّهُمْ أَكْثَرُ قُرْآنًا فَيُقَدِّمُهُ إِلَى الْقِبْلَةِ "، قَالَ: فَدَفَنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، النَّمِرَةُ الْكِسَاءُ الْخَلَقُ، وَقَدْ خُولِفَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ جَابِرٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدِيثُ اللَّيْثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرٍ أَصَحُّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حمزہ (کی لاش) کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ۱؎ کر دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر صفیہ (حمزہ کی بہن) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی (دفن کیے بغیر) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «نمر» (ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سر کھل جاتا۔ مقتولین کی تعداد بڑھ گئی اور کپڑے کم پڑ گئے تھے، چنانچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا، پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کر دیئے جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا تو آپ اسے آگے قبلہ کی طرف کر دیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر نماز نہیں پڑھی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیث بن سعد بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن كعب بن مالك عن جابر بن عبد الله بن زيد» ۳؎ روایت کی ہے اور معمر نے بسند «عن الزهري عن عبد الله بن ثعلبة عن جابر» روایت کی ہے۔ ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: لیث کی حدیث بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن كعب بن مالك عن جابر» زیادہ صحیح ہے،
۴- نمرہ: پرانی چادر کو کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1016]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 31 (3136) (تحفة الأشراف: 1477) (صحیح) (وقال في حدیث أبي داود: حسن) وہو الصواب، لأن ”أسامة اللیثي صدوق بہم)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (59 - 60)

32. باب آخَرُ
32. باب: جنازہ سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1017
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَيَشْهَدُ الْجَنَازَةَ، وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ، وَكَانَ يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ عَلَى حِمَارٍ مَخْطُومٍ بِحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ عَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَمُسْلِمٌ الْأَعْوَرُ يُضَعَّفُ، وَهُوَ مُسْلِمُ بْنُ كَيْسَانَ الْمُلَائِيُّ تُكُلِّمَ فِيهِ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی عیادت کرتے، جنازے میں شریک ہوتے، گدھے کی سواری کرتے اور غلام کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ بنو قریظہ ۱؎ والے دن آپ ایک ایسے گدھے پر سوار تھے، جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی کی تھی، اس پر زین بھی چھال ہی کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ہم اس حدیث کو صرف مسلم کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں۔ اور مسلم اعور ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ یہی مسلم بن کیسان ملائی ہیں، جس پر کلام کیا گیا ہے، ان سے شعبہ اور سفیان نے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1017]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ التجارات 66 (2296)، والزہد 16 (4178)، (تحفة الأشراف: 1588) (ضعیف) (سند میں مسلم بن کیسان الاعور ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4178) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (915) //

33. باب
33. باب: دفن سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1018
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ: " مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ ". ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، فَرَوَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوا ۱؎ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں بھولا نہیں ہوں، آپ نے فرمایا: جتنے بھی نبی ہوئے ہیں اللہ نے ان کی روح وہیں قبض کی ہے جہاں وہ دفن کیا جانا پسند کرتے تھے (اس لیے) تم لوگ انہیں ان کے بستر ہی کے مقام پر دفن کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، عبدالرحمٰن بن ابی بکر ملیکی اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانے جاتے ہیں،
۲- یہ حدیث اس کے علاوہ طریق سے بھی مروی ہے۔ ابن عباس نے ابوبکر صدیق سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1018]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6637 و16245) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن ابی ملیکہ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (137 - 138) ، مختصر الشمائل (326)

34. باب آخَرُ
34. باب: میت سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1019
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: عِمْرَانُ بْنُ أَنَسٍ الْمَكِّيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: وَعِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ مِصْرِيٌّ أَقْدَمُ وَأَثْبَتُ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مردوں کی اچھائیوں کو ذکر کیا کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمران بن انس مکی منکر الحدیث ہیں، ۲- بعض نے عطا سے اور عطا نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے،
۳- عمران بن ابی انس مصری عمران بن انس مکی سے پہلے کے ہیں اور ان سے زیادہ ثقہ ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1019]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 50 (4900) (تحفة الأشراف: 7328) (ضعیف) (سند میں عمران بن انس مکی ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1678) ، الروض النضير (482) // ضعيف الجامع الصغير (739) ، ضعيف أبي داود (1047 / 4900) //

35. باب مَا جَاءَ فِي الْجُلُوسِ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ
35. باب: جنازہ رکھے جانے سے پہلے بیٹھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1020
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اتَّبَعَ الْجَنَازَةَ لَمْ يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ. فَعَرَضَ لَهُ حَبْرٌ، فَقَالَ: هَكَذَا نَصْنَعُ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " خَالِفُوهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَبِشْرُ بْنُ رَافِعٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو جب تک جنازہ لحد (بغلی قبر) میں رکھ نہ دیا جاتا، نہیں بیٹھتے۔ ایک یہودی عالم نے آپ کے پاس آ کر کہا: محمد! ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے لگ گئے اور فرمایا: تم ان کی مخالفت کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- بشر بن رافع حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1020]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 47 (3176)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 35 (1545) (تحفة الأشراف: 5076) (حسن) (سند میں بشر بن رافع ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، /دیکھیے الأرواء 3/193)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1545)

36. باب فَضْلِ الْمُصِيبَةِ إِذَا احْتَسَبَ
36. باب: مصیبت پر ثواب کی نیت سے صبر کرنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1021
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، قَالَ: دَفَنْتُ ابْنِي سِنَانًا، وَأَبُو طَلْحَةَ الْخَوْلَانِيُّ جَالِسٌ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ الْخُرُوجَ أَخَذَ بِيَدِي، فَقَالَ: أَلَا أُبَشِّرُكَ يَا أَبَا سِنَانٍ، قُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ، قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِي، فَيَقُولُونَ: حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوسنان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے سنان کو دفن کیا اور ابوطلحہ خولانی قبر کی منڈیر پر بیٹھے تھے، جب میں نے (قبر سے) نکلنے کا ارادہ کیا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ابوسنان! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ضرور دیجئیے، تو انہوں نے کہا: مجھ سے ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزب نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندے کا بچہ ۱؎ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟ تو وہ کہتے ہیں: ہاں، پھر فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں: اس نے تیری حمد بیان کی اور «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1021]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر: مسند احمد (4/415) (تحفة الأشراف: 9005) (حسن) (دیکھئے: الصحیحة 1408)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (1408)

37. باب مَا جَاءَ فِي التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَازَةِ
37. باب: نماز جنازہ کی تکبیرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1022
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرٍ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَزِيدُ بْنُ ثَابِتٍ هُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ شَهِدَ بَدْرًا، وَزَيْدٌ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس، ابن ابی اوفی، جابر، یزید بن ثابت اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں
۳- یزید بن ثابت: زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔ یہ ان سے بڑے ہیں۔ یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے،
۴- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1022]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 54 (1318)، سنن النسائی/الجنائز 72 (1974)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 33 (1534) (تحفة الأشراف: 13267) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 4 (1245)، و64 (1333)، والمناقب 38 (3880، 3881)، صحیح مسلم/الجنائز 22 (951)، سنن ابی داود/ الجنائز 62 (3204)، سنن النسائی/الجنائز 72 (1973)، و76 (1982)، موطا امام مالک/الجنائز 5 (14)، مسند احمد (2/289، 438، 529) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1534)

حدیث نمبر: 1023
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: إِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا فَإِنَّهُ يُتَّبَعُ الْإِمَامُ.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کہتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں،
۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے تو امام کی پیروی کی جائے (یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں)۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1023]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 23 (957)، سنن ابی داود/ الجنائز 58 (3197)، سنن النسائی/الجنائز 76 (1984)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 25 (1505)، (تحفة الأشراف: 3671)، مسند احمد (4/367، 368، 370، 372) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1505)

38. باب مَا يَقُولُ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمَيِّتِ
38. باب: نماز جنازہ میں کیا دعا پڑھے؟
حدیث نمبر: 1024
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَشْهَلِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى عَلَى الْجَنَازَةِ، قَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا ". قَالَ يَحْيَى: وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَزَادَ فِيهِ: " اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ وَالِدِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَرَوَى عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَعِكْرِمَةُ رُبَّمَا يَهِمُ فِي حَدِيثِ يَحْيَى، وَرُوِي عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: أَصَحُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا حَدِيثُ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ الْأَشْهَلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَسَأَلْتُهُ عَنِ اسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ فَلَمْ يَعْرِفْهُ.
ابوابراہیم اشہلی کے والد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا» اے اللہ! بخش دے ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹے کو اور ہمارے بڑے کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں: ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے: «اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان» اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ، اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوابراہیم کے والد کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہشام دستوائی اور علی بن مبارک نے یہ حدیث بطریق: «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة بن عبدالرحمٰن عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، اور عکرمہ بن عمار نے بطریق: «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ عکرمہ بن عمار کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ عکرمہ کو بسا اوقات یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث میں وہم ہو جاتا ہے۔ نیز یہ «يحيى بن أبي كثير» سے «عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کے طریق سے بھی مروی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ اس سلسلے میں یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «أبي إبراهيم الأشهلي عن أبيه» روایت کی ہے سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔ میں نے ان سے ابوابراہیم کا نام پوچھا تو وہ اسے نہیں جان سکے،
۲- اس باب میں عبدالرحمٰن، عائشہ، ابوقتادہ، عوف بن مالک اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1024]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 314 (1084)، (تحفة الأشراف: 15687) (صحیح) (سند میں ابو ابراہیم اشہلی لین الحدیث راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1498)


Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next