الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
33. بَابُ: {فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ}:
33. باب: آیت کی تفسیر ”تو پھر جو شخص حج کو عمرہ کے ساتھ ملا کر فائدہ اٹھائے“۔
حدیث نمبر: 4518
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عِمْرَانَ أَبِي بَكْرٍ , حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمُتْعَةِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُنْزَلْ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهُ وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا حَتَّى مَاتَ"، قَالَ رَجُلٌ: بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عمران ابی بکر نے، ان سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (حج میں) تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کے ساتھ (حج) کیا، پھر اس کے بعد قرآن نے اس سے نہیں روکا اور نہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی (لہٰذا تمتع اب بھی جائز ہے) یہ تو ایک صاحب نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4518]
34. بَابُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ}:
34. باب: آیت «ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4519
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ , قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَتْ عُكَاظُ , وَمَجَنَّةُ , وَذُو الْمَجَازِ أَسْوَاقًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَتَأَثَّمُوا أَنْ يَتَّجِرُوا فِي الْمَوَاسِمِ، فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ سورة البقرة آية 198 فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ".
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عمرو نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار (میلے) تھے، اس لیے (اسلام کے بعد) موسم حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی «ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم‏» کہ تمہیں اس بارے میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے یہاں سے تلاش معاش کرو۔ یعنی موسم حج میں تجارت کے لیے مذکورہ منڈیوں میں جاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4519]
35. بَابُ: {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ}:
35. باب: آیت کی تفسیر ”پھر تم بھی وہاں جا کر لوٹ آؤ جہاں سے لوگ لوٹ آتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 4520
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ، ثُمَّ يَقِفَ بِهَا، ثُمَّ يُفِيضَ مِنْهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ قریش اور ان کے طریقے کی پیروی کرنے والے عرب (حج کے لیے) مزدلفہ میں ہی وقوف کیا کرتے تھے، اس کا نام انہوں الحمس رکھا تھا اور باقی عرب عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ عرفات میں آئیں اور وہیں وقوف کریں اور پھر وہاں سے مزدلفہ آئیں۔ آیت «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس‏» سے یہی مراد ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4520]
حدیث نمبر: 4521
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ , حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ , أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" يَطَّوَّفُ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ مَا كَانَ حَلَالًا حَتَّى يُهِلَّ بِالْحَجِّ، فَإِذَا رَكِبَ إِلَى عَرَفَةَ , فَمَنْ تَيَسَّرَ لَهُ هَدِيَّةٌ مِنَ الْإِبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ مَا تَيَسَّرَ لَهُ مِنْ ذَلِكَ , أَيَّ ذَلِكَ شَاءَ غَيْرَ أَنَّهُ إِنْ لَمْ يَتَيَسَّرْ لَهُ فَعَلَيْهِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ , وَذَلِكَ قَبْلَ يَوْمِ عَرَفَةَ , فَإِنْ كَانَ آخِرُ يَوْمٍ مِنَ الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ , ثُمَّ لِيَنْطَلِقْ حَتَّى يَقِفَ بِعَرَفَاتٍ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ يَكُونَ الظَّلَامُ، ثُمَّ لِيَدْفَعُوا مِنْ عَرَفَاتٍ إِذَا أَفَاضُوا مِنْهَا حَتَّى يَبْلُغُوا جَمْعًا الَّذِي يَبِيتُونَ بِهِ , ثُمَّ لِيَذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَأَكْثِرُوا التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا , ثُمَّ أَفِيضُوا , فَإِنَّ النَّاسَ كَانُوا يُفِيضُونَ , وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة البقرة آية 199 حَتَّى تَرْمُوا الْجَمْرَةَ".
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو کریب نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ (جو کوئی تمتع کرے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے وہ) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو حج کے بعد جو قربانی ہو سکے وہ کرے، اونٹ ہو یا گائے یا بکری۔ ان تینوں میں سے جو ہو سکے اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آ جائے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ شہر مکہ سے چل کر عرفات کو جائے وہاں عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے، پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اور اللہ کی یاد، تکبیر اور تہلیل بہت کرتا رہے صبح ہونے تک۔ صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹے جیسے اللہ نے فرمایا «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس واستغفروا الله إن الله غفور رحيم‏» یعنی کنکریاں مارنے تک اسی طرح اللہ کی یاد اور تکبیر و تہلیل کرتے رہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4521]
36. بَابُ: {وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}:
36. باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ ان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو“۔
حدیث نمبر: 4522
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے «اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے پروردگار! ہمارے! ہم کو دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4522]
37. بَابُ: {وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ}:
37. باب: آیت کی تفسیر ”حالانکہ وہ بہت ہی سخت قسم کا جھگڑالو ہے“۔
حدیث نمبر: Q4523
وَقَالَ عَطَاءٌ: النَّسْلُ الْحَيَوَانُ.
‏‏‏‏ عطاء نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ويهلك الحرث والنسل» میں «نسل» سے مراد جانور ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4523]
حدیث نمبر: 4523
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ عَائِشَةَ تَرْفَعُهُ , قَالَ: أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ , وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو اور عبداللہ (عبداللہ بن ولید عدنی) نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (وہی حدیث جو اوپر گزری)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4523]
38. بَابُ: {أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ} إِلَى: {قَرِيبٌ}:
38. باب: آیت کی تفسیر ”کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تم کو ان لوگوں جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، انہیں تنگی اور سختی پیش آئی“ آخر آیت «قريب» تک۔
حدیث نمبر: 4524
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى , أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 خَفِيفَةً ذَهَبَ بِهَا هُنَاكَ وَتَلَا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ سورة البقرة آية 214 فَلَقِيتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ , فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ .
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۃ یوسف کی آیت «حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا» (میں «كذبوا» کو ذال کی) تخفیف کے ساتھ قرآت کیا کرتے تھے۔ آیت کا جو مفہوم وہ مراد لے سکتے تھے لیا، اس کے بعد یوں تلاوت کرتے «حتى يقول الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله ألا إن نصر الله قريب» پھر میری ملاقات عروہ بن زبیر سے ہوئی، تو میں نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا ذکر کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4524]
حدیث نمبر: 4525
فَقَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَعَاذَ اللَّهِ , وَاللَّهِ مَا وَعَدَ اللَّهُ رَسُولَهُ مِنْ شَيْءٍ قَطُّ، إِلَّا عَلِمَ أَنَّهُ كَائِنٌ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ، وَلَكِنْ لَمْ يَزَلِ الْبَلَاءُ بِالرُّسُلِ حَتَّى خَافُوا أَنْ يَكُونَ مَنْ مَعَهُمْ يُكَذِّبُونَهُمْ، فَكَانَتْ تَقْرَؤُهَا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 مُثَقَّلَةً".
‏‏‏‏ انھوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو کہتی تھیں اللہ کی پناہ! پیغمبر، تو جو وعدہ اللہ نے ان سے کیا ہے اس کو سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے سے پہلے ضرور پورا ہو گا۔ بات یہ کہ ہے پیغمبروں کی آزمائش برابر ہوتی رہی ہے۔ (مدد آنے میں اتنی دیر ہوئی) کہ پیغمبر ڈر گئے۔ ایسا نہ ہو ان کی امت کے لوگ ان کو جھوٹا سمجھ لیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت سورۃ یوسف) کو یوں پڑھتی تھیں «وظنوا أنهم قد كذبوا‏» (ذال کی تشدید کے ساتھ)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4525]
39. بَابُ: {نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأَنْفُسِكُمْ} الآيَةَ:
39. باب: آیت کی تفسیر ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح سے چاہو اور اپنے حق میں آخرت کے لیے کچھ نیکیاں کرتے رہو“۔
حدیث نمبر: 4526
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ , أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ , أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ , عَنْ نَافِعٍ , قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ لَمْ يَتَكَلَّمْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ، فَأَخَذْتُ عَلَيْهِ يَوْمًا فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَكَانٍ، قَالَ:" تَدْرِي فِيمَ أُنْزِلَتْ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" أُنْزِلَتْ فِي كَذَا وَكَذَا"، ثُمَّ مَضَى.
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر بن شمیل نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ ابن عون نے خبر دی، ان سے نافع نے بیان کیا کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما قرآن پڑھتے تو اور کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے یہاں تک کہ تلاوت سے فارغ ہو جاتے۔ ایک دن میں (قرآن مجید لے کر) ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انہوں نے سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت «نساؤكم حرث لكم» الخ پر پہنچے تو فرمایا، معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز (یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں) نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4526]

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next