الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
حدیث نمبر: 2261
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ يَرُدُّ الْحَدِيثَ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّه، الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْجَارِيَةُ فَيُصِيبُ مِنْهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ، أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ وَتَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ تُرْضِعُ فَيُصِيبُ مِنْهَا وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ. أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ قَالَ: "لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ". قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلْحَسَنِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا، وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا!!.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اسے حمل ہو، کیا وہ اس سے عزل کر سکتا ہے؟ ایسے ہی آدمی کے پاس عورت (بیوی) ہوتی ہے اور وہ دودھ پلاتی ہے، مرد اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کو حمل ہو، ایسی صورت میں کیا وہ اپنی بیوی سے عزل کر سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ حرج نہیں اگر تم عزل نہ کرو، یہ تو تقدیر کی بات ہے۔ ابن عون نے کہا: میں نے یہ روایت حسن سے بیان کی تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اس جملہ ( «لا عليكم») میں عزل سے باز رہنے کی تنبیہ ہے، عزل سے اس میں جھڑکنا، باز رکھنا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2261]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2270] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1441] ، [نسائي 3327] ، [أبويعلی 1306]

37. باب في الْغَيْرَةِ:
37. غیرت کا بیان
حدیث نمبر: 2262
حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ، لِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں اسی لئے اس نے بےحیائی و بدکاری کے کاموں کو حرام کیا اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی مدح بھی پسند کرنے والا نہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2262]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2271] »
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5220] ، [مسلم 3760] ، [أبويعلی 5123] ، [ابن حبان 294]

حدیث نمبر: 2263
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّه، وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ: فَالْغَيْرَةُ الَّتِي يُحِبُّ اللَّه: الْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ، وَالْغَيْرَةُ الَّتِي يُبْغِضُ اللَّه، الْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ".
ابن جابر بن عتیک نے کہا: میرے والد نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک غیرت کو اللہ پسند فرماتا ہے اور ایک قسم کی غیرت کو الله تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، اور جس غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان شک کی جگہ غیرت کرے (جیسے اس کی عورت سے کوئی تنہائی میں ہنسی مذاق کرے تو اسے غیرت آ جائے) اور وہ غیرت جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں وہ یہ ہے کہ بلا شک (اور قرائن) کے بلاوجہ غیرت کرے (جیسے کوئی آدمی اس کے گھر سے نکلے اس کو بلا تحقیق کئے غیرت سے مار ڈالے)۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2263]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2272] »
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھے۔ [أبوداؤد 2659] ، [نسائي 2557] ، [ابن حبان 4295] ، [موارد الظمآن 1313]

حدیث نمبر: 2264
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، يَقُولُ: لَوْ وَجَدْتُ مَعَهَا رَجُلًا لَضَرَبْتُهَا بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ؟ أَنَا أَغَيْرُ مِنْ سَعْدٍ وَاللَّهُ أَغَيْرُ مِنِّي، وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا شَخْصَ أَغَيْرُ مِنَ اللَّهِ، وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْمَعَاذِيرِ، وَلِذَلِكَ بَعَثَ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّه، وَلِذَلِكَ وَعَدَ الْجَنَّةَ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر لگی کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو تلوار سے مار ڈالوں، اسے کبھی نہ چھوڑوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ میں ان سے زیادہ غیرت دار ہوں اور اللہ جل جلالہ مجھ سے زیادہ غیرت دار ہے، اس نے چھپی ہوئی اور علانیہ بےشرمی کی باتوں کو (اسی غیرت ہی کی وجہ سے) حرام کیا اور الله تعالیٰ سے زیادہ کوئی شخص غیرت دار نہیں ہے، اور اللہ سے زیادہ کسی شخص کو عذر پسند نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے (تاکہ بندے سزا سے پہلے اس کی بارگاہ میں عذر اور توبہ کر لیں) اور کسی شخص کو اللہ سے زیادہ تعریف پسند نہیں اس لئے الله تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا (تاکہ بندے اس کی عبادت و تعریف کر کے جنت حاصل کریں)۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2264]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وابن عدي هو: زكريا والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2273] »
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4194، 7416] ، [مسلم 1499] ، [السنة لابن أبى عاصم 522] ، [الحاكم 358/4]

38. باب في حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ:
38. عورت پر خاوند کے حق کا بیان
حدیث نمبر: 2265
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى الْعَامِرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "إِذَا بَاتَتِ الْمَرْأَةُ هَاجِرَةً لِفِرَاشِ زَوْجِهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تَرْجِعَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر عورت اپنے شوہر سے ناراضگی کی وجہ سے اس کے بستر سے الگ تھلگ رات گزارے تو فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت بھیجتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آ جائے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2265]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2274] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3237، 5194] ، [مسلم 1436] ، [أبوداؤد 2141] ، [أبويعلی 6196] ، [ابن حبان 4172]

39. باب في اللِّعَانِ:
39. لعان کا بیان
حدیث نمبر: 2266
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّه، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَيَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ أَنْزَلَ اللَّه فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا". قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا، وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ تَلَاعُنِهِمَا، قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَتْ تِلْكَ بَعْدُ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ اس صورت میں لوگ (بدلے میں) اسے بھی قتل کر دیں گے، پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے، جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آؤ۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا، لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں بھی موجود تھا، جب وہ دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس کے بعد بھی میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو اس کا مطلب ہو گا کہ میں جھوٹا ہوں، پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے ڈالیں۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا: پھر لعان کرنے والوں کے لئے لعان کا یہی طریقہ رائج و جاری ہو گیا۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2266]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2275] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5259] ، [مسلم 1492] ، [أبوداؤد 2247] ، [نسائي 3402] ، [ابن ماجه 2066] ، [ابن حبان 4284] ، [شرح السنة للبغوي 2366]

حدیث نمبر: 2267
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ عُوَيْمِرًا أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيّ، وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلَانَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ"طَلَّقَهَا ثَلَاثًا".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ بنو عجلان کے سردار تھے اور اوپر بیان کی گئی حدیث کے مثل حدیث بیان کی لیکن اس میں یہ لفظ ذکر نہیں کیا کہ ( «طلقها ثلاثا») کہ انہوں نے تین طلاق دیدی۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2267]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2276] »
اس روایت کی سند صحیح ہے اور تخریج اوپر گذرچکی ہے۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاق کا لفظ کسی راوی کی طرف سے اضافہ ہے۔

حدیث نمبر: 2268
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ:"سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، قَالَ: فَقُمْتُ حَتَّى أَتَيْتُ مَنْزِلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ: اسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَائِلٌ لَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَدْخُلَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَسَمِعَ ابْنُ عُمَرَ صَوْتِي، فَقَالَ: ابْنُ جُبَيْرٍ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: ادْخُلْ، فَمَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا حَاجَةٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ وَهُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةَ رَحْلِهِ، مُتَوَسِّدٌ مِرْفَقَةُ أَوْ قَالَ: نُمْرُقَةً، شَكَّ عَبْدُ اللَّهِ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْمُتَلَاعِنَانِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟. قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ تَكَلَّمَ فَمِثْلُ ذَلِكَ؟، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَامَ لِحَاجَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ {6} وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ {7} وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ {8} وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ {9} سورة النور آية 6-9 حَتَّى خَتَمَ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ، قَالَ: فَدَعَا الرَّجُلَ، فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ، وَذَكَّرَهُ بِاللَّهِ، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا،. ثُمَّ دَعَا الْمَرَأَةَ فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَدَعَا الرَّجُلَ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ أُتِيَ بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
عبدالملک بن ابی سلیمان نے کہا: میں نے سنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے وہ کہہ رہے تھے کہ مجھ سے مصعب بن زبیر کے دور امارت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا: کیا ان کے درمیان جدائی کرائی جائے گی؟ مجھے حیرت ہوئی کیا جواب دوں، لہٰذا میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان کی طرف گیا اور غلام سے کہا: مجھے اندر جانے کی اجازت لاؤ، اس نے کہا: اس وقت وہ آرام فرما رہے ہیں اور آپ اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ سعید نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میری آواز سن لی اور کہا: کیا ابن جبیر ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: آ جاؤ، اس وقت تم کسی ضروری بات کے ہی لئے آئے ہوں گے۔ میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کمبل بچھائے بیٹھے تھے اور ایک تکیہ پر ہاتھ سے ٹیک لگائے ہوئے جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا، میں نے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں میں جدائی کرانی ہو گی؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: سبحان اللہ بے شک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا تھا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی رحمتیں ہوں آپ پر، بتایئے کوئی آدمی اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھے تو کیا کرے گا؟ اگر چپ رہ جائے تو اتنی بڑی بات پر کیسے چپ رہے اور اگر منہ سے ایسی بات نکالے تو بری بات نکالے گا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا، پھر اپنی کسی ضرورت سے اٹھ گئے، پھر (ایک دن) وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے جس بارے میں آپ سے سوال کیا تھا، خود اس میں مبتلا ہو گیا، تب الله تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائی: «﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ ......﴾» [نور: 6/24-11] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں پڑھ کر ختم کیں اور اس شخص کو بلا کر اس کو پڑھ کر سنائیں، اور اس کو نصیحت کی، اللہ کی یاد دلائی اور بتایا کہ دیکھو دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے (یعنی اگر جھوٹی تہمت اپنی بیوی پر لگا رہا ہے تو بتا دے، صرف حد قذف کے اسی کوڑے ہی پڑیں گے، مگر یہ جہنم میں جلنے سے آسان ہے)، وہ بولا: نہیں، میں جھوٹ نہیں بولا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو بلایا اور اس کو ڈرایا اور سمجھایا اور فرمایا: دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے، اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میرا خاوند جھوٹ بول رہا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار بار گواہی دیں کہ وہ سچا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ: اللہ کی پھٹکار ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار گواہیاں دیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں بار میں کہا کہ: اگر وہ سچا ہو تو اس (بیوی) کے اوپر الله کا غضب ٹوٹے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2268]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2277] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1493] ، [ترمذي 1202] ، [نسائي 3473] ، [أبويعلی 5656] ، [ابن حبان 4286]

حدیث نمبر: 2269
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی میں تفریق کرا دی اور بچہ اس کی ماں کو دے دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2269]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الطلاق، [مكتبه الشامله نمبر: 2278] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5315] ، [مسلم 1493] ، [أبوداؤد 2259] ، [ترمذي 1203] ، [نسائي 3477] ، [ابن ماجه 2069] ، [أبويعلی 5772] ، [ابن حبان 4288]

40. باب في الْعَبْدِ يَتَزَوَّجُ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ:
40. جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بنا نکاح کر لے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2270
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ أَوْ أَهْلِهِ، فَهُوَ عَاهِرٌ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ زانی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2270]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2279] »
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2078] ، [ترمذي 1112] ، [أحمد 301/3] ، [ابن الجارود 686] ، [مشكل الآثار للطحاوي 297/3، وغيرهم]


Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    Next