الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ
كتاب صلة الرحم
33. بَابُ عُُقُوْبَةِ قَاطِعِ الرَّحِمِ فِي الدُّنْيَا
33. قطع رحمی کرنے والے کی دنیا میں سزا
حدیث نمبر: 67
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، مِنْ قَطِيعَةِ الرَّحِمِ وَالْبَغْيِ‏.“‏
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی اور سرکشی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اللہ اس کے مرتکب کو دنیا میں بھی جلدی سزا دے اور اس کے ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا برقرار رکھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى النهي عن البغي: 4902 و الترمذي: 2511 و ابن ماجه: 4211، الصحيحة: 918، 978»

قال الشيخ الألباني: صحیح

34. بَابُ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ
34. برابری کی سطح پر حسن سلوک کرنے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے
حدیث نمبر: 68
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، وَفِطْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سُفْيَانُ لَمْ يَرْفَعْهُ الأَعْمَشُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَفَعَهُ الْحَسَنُ وَفِطْرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا‏.“‏
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو برابر سرابر معاملہ کرتا ہے، صلہ رحمی کرنے والا تو درحقیقت وہ ہے کہ جس سے تعلق توڑا جائے تو وہ پھر بھی صلہ رحمی کرے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 68]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب ليس الواصل بالمكافئ: 5991 و أبوداؤد: 1697 و الترمذي: 1908»

قال الشيخ الألباني: صحیح

35. بَابُ فَضْلِ مَنْ يَصِلُ ذَا الرَّحِمِ الظَّالِمَ
35. ظالم قرابت دار سے صلہ رحمی کرنے والے کی فضیلت
حدیث نمبر: 69
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ‏:‏ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ‏:‏ يَا نَبِيَّ اللهِ، عَلِّمْنِي عَمَلاً يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ‏:‏ ”لَئِنْ كُنْتَ أَقَصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ، أَعْتِقِ النَّسَمَةَ، وَفُكَّ الرَّقَبَةَ“، قَالَ‏:‏ أَوَ لَيْسَتَا وَاحِدًا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”لاَ، عِتْقُ النَّسَمَةِ أَنْ تَعْتِقَ النَّسَمَةَ، وَفَكُّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِينَ عَلَى الرَّقَبَةِ، وَالْمَنِيحَةُ الرَّغُوبُ، وَالْفَيْءُ عَلَى ذِي الرَّحِمِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ، فَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ، فَكُفَّ لِسَانَكَ إِلاَّ مِنْ خَيْرٍ‏.“‏
سیدنا براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ تو نے بات تو مختصر کی ہے لیکن تیرا سوال معنی خیز ہے، یعنی تو نے لمبا چوڑا سوال اس میں سمو دیا ہے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) جان کو آزاد کرو، گردن کو چھڑاؤ۔ اس نے کہا: کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو کسی غلام کو آزاد کرے اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ تو کسی غلام کی آزادی میں معاونت کرے۔ (پھر فرمایا:) کسی کو دودھ والا ایسا جانور دو جس میں رغبت کی جاتی ہو، قرابت دار پر مہربانی اور شفقت کرو، اور اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اور اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان کو بھلائی (کی بات کرنے) کے علاوہ روک کر رکھو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 18647 و الطيالسي: 739 و ابن حبان: 374 و المروزي فى البر والصلة: 276 و البيهقي فى الأدب: 77 - صحيح الترغيب: 898»

قال الشيخ الألباني: صحیح

36. بَابُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ثُمَّ أَسْلَمَ
36. جس نے جاہلیت میں صلہ رحمی کی اور پھر مسلمان ہوگیا (تو اس کا ثواب)
حدیث نمبر: 70
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ أَرَأَيْتَ أُمُورًا كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، مِنْ صِلَةٍ، وَعَتَاقَةٍ، وَصَدَقَةٍ، فَهَلْ لِي فِيهَا أَجْرٌ‏؟‏ قَالَ حَكِيمٌ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ‏.“‏
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ان امور کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں جو میں زمانہ جاہلیت میں بطور عبادت کرتا تھا، مثلاً صلہ رحمی، غلاموں کو آزاد کرنا اور صدقہ کرنا، کیا مجھے ان کا ثواب ملے گا؟ حکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اپنے سابقہ خیر کے کاموں پر اسلام لائے ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع، باب شراء المملوك من الحربي و هبته و عتقه: 2220 و مسلم: 123 - الصحيحة: 248»

قال الشيخ الألباني: صحیح

37. بَابُ صِلَةِ ذِي الرَّحِمِ الْمُشْرِكِ وَالْهَدِيَّةِ
37. مشرک قرابت دار سے صلہ رحمی اور اسے تحفہ دینے کا حکم
حدیث نمبر: 71
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَأَى عُمَرُ حُلَّةً سِيَرَاءَ فَقَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ، فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَلِلْوُفُودِ إِذَا أَتَوْكَ، فَقَالَ‏:‏ ”يَا عُمَرُ، إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ“، ثُمَّ أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ، فَأَهْدَى إِلَى عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، بَعَثْتَ إِلَيَّ هَذِهِ، وَقَدْ سَمِعْتُكَ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ، قَالَ‏:‏ ”إِنِّي لَمْ أُهْدِهَا لَكَ لِتَلْبَسَهَا، إِنَّمَا أَهْدَيْتُهَا إِلَيْكَ لِتَبِيعَهَا أَوْ لِتَكْسُوَهَا“، فَأَهْدَاهَا عُمَرُ لأَخٍ لَهُ مِنْ أُمِّهِ مُشْرِكٍ‏.‏
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دھاری دار ریشم کے کپڑوں کا جوڑا دیکھا تو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ یہ خرید لیں اور اسے جمعہ کے دن اور وفود کے استقبال کے لیے زیب تن کر لیا کریں (تو کتنا اچھا لگے گا)، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! یہ تو وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو، پھر اسی طرح کے جوڑے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بطور ہدیہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بطور تحفہ بھیجا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ میری طرف بھیج دیا حالانکہ میں نے آپ سے اس کے بارے وہ کچھ کہتے سنا ہے جو آپ نے فرمایا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے یہ تمہاری طرف اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہنو، میرا تحفہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ تم اسے بیچ دو (اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھاؤ)، یا کسی کو دے دو۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اخیافی (ماں جائے) مشرک بھائی کو بطور تحفہ دے دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجمعة، باب يلبس أحسن ما يجد: 886 و مسلم: 2068 و أبوداؤد: 1076 و النسائي: 1382»

قال الشيخ الألباني: صحیح

38. بَابُ تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ
38. ”نسب کو جانو جس کے ساتھ تم رشتہ داریوں کو ملاؤ“ کا بیان
حدیث نمبر: 72
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ‏:‏ تَعَلَّمُوا أَنْسَابَكُمْ، ثُمَّ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لِيَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ أَخِيهِ الشَّيْءُ، وَلَوْ يَعْلَمُ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ مِنْ دَاخِلَةِ الرَّحِمِ، لَأَوْزَعَهُ ذَلِكَ عَنِ انْتِهَاكِهِ‏.‏
جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو برسر منبر یہ کہتے ہوئے سنا: تم اپنے نسبوں کو سیکھو اور معلوم کرو، پھر اپنی رشتہ داریوں کو ملاؤ۔ اللہ کی قسم! بسا اوقات دو آدمیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا رنجش ہوتی ہے، اگر اسے علم ہو کہ اس کی قرابت داری ہے تو وہ اسے تعلقات بگاڑنے سے روک دے گی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و صح مرفوعًا: الصحيحة: 277 - أخرجه المروزي فى البر و الصلة: 119 و ابن وهب فى الجامع: 15»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد و صح مرفوعًا

حدیث نمبر: 73
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ‏:‏ احْفَظُوا أَنْسَابَكُمْ، تَصَلُوا أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّهُ لاَ بُعْدَ بِالرَّحِمِ إِذَا قَرُبَتْ، وَإِنْ كَانَتْ بَعِيدَةً، وَلاَ قُرْبَ بِهَا إِذَا بَعُدَتْ، وَإِنْ كَانَتْ قَرِيبَةً، وَكُلُّ رَحِمٍ آتِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمَامَ صَاحِبِهَا، تَشْهَدُ لَهُ بِصِلَةٍ إِنْ كَانَ وَصَلَهَا، وَعَلَيْهِ بِقَطِيعَةٍ إِنْ كَانَ قَطَعَهَا‏.‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اپنے نسبوں کی حفاظت کرو تاکہ تم رشتہ داری کر سکو، کیونکہ کوئی بھی رشتہ داری خواہ دور ہی کی ہو صلہ رحمی سے دور کی نہیں رہتی۔ اور کوئی بھی تعلق داری خواہ کتنی قریب کی ہو، اگر اسے جوڑا نہ جائے تو وہ دور ہو جاتی ہے، اور ہر رحم قیامت کے دن آگے آگے آئے گا اور صلہ رحمی کرنے والے کی صلہ رحمی کی گواہی دے گا، اور جس نے قطع رحمی کی ہو گی اس کے خلاف قطع رحمی کی گواہی دے گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد و صح مرفوعًا: أخرجه الطيالسي: 2757 و الحاكم: 178/4 و البيهقي فى الشعب: 7570، عن ابن عباس مرفوعًا الصحيحة: 277»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد و صح مرفوعًا


Previous    1    2    3