الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب المناقب
كتاب المناقب
--. اہل عرب سے دغابازی کرنے والا میری شفاعت سے محروم
حدیث نمبر: 5999
وَعَن عُثْمَان بن عَفَّان قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلْهُ مَوَدَّتِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حُصَيْنِ بْنِ عُمَرَ وَلَيْسَ هُوَ عِنْدَ أهل الحَدِيث بِذَاكَ الْقوي
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے عربوں کو فریب دیا تو وہ میری شفاعت میں داخل ہو گا نہ اسے میری مودّت نصیب ہو گی۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف حصین بن عمر کے طریق سے پہچانتے ہیں، اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 5999]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (3928)
٭ حصين بن عمر: متروک .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا

--. قرب قیامت کی ایک علامت
حدیث نمبر: 6000
وَعَن أم حَرِير مولاة طَلْحَة بن مَالك قَالَتْ: سَمِعْتُ مَوْلَايَ يَقُولَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «مِنِ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ هَلَاكُ الْعَرَبِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
طلحہ بن مالک کی آزاد کردہ لونڈی ام الحریر بیان کرتی ہیں، میں نے اپنے مالک کو بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عربوں کی ہلاکت قرب قیامت کی علامت ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6000]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3929)
٭ فيه أم محمد بن أبي رزين: لم أجد من وثقھا .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. مختلف عرب قبیلوں کی خصوصیات
حدیث نمبر: 6001
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ» يَعْنِي الْيَمَنَ. وَفِي رِوَايَةٍ مَوْقُوفًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا أصح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خلافت قریش میں ہے، قضاء انصار میں، اذان حبشیوں میں اور امانت ازد یعنی یمن میں ہے۔ یہ روایت موقوف ہے، امام ترمذی نے اسے روایت کیا، اور فرمایا: اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6001]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (3936)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

--. قریش کے بارے میں ایک پیشگوئی
حدیث نمبر: 6002
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: «لَا يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة» . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن مطیع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، میں نے فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس روز کے بعد روز قیامت تک کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کیا جائے۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6002]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (88/ 1782)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی بےخوفی اور جرات کا بیان
حدیث نمبر: 6003
وَعَنْ أَبِي نَوْفَلٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَوقف عَلَيْهِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ شَرُّهَا لَأُمَّةُ سَوْءٍ-وَفِي رِوَايَةٍ لَأُمَّةُ خَيْرٍ-ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ. قَالَ: فَأَبَتْ وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ من يسحبُني بقروني. قَالَ: فَقَالَ: أَرُونِي سِبْتِيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَأَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ لَهُ: يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَامَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ الدَّوَابِّ وَأَمَّا الْآخَرُ فنطاق المرأةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنهُ أما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثنَا: «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» . فَأَما الْكَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاه. قَالَ فَقَامَ عَنْهَا وَلم يُرَاجِعهَا. رَوَاهُ مُسلم
ابو نوفل معاویہ بن مسلم بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مدینے کی گھاٹی پر (سولی پر لٹکتے ہوئے) دیکھا، قریشی اور دوسرے لوگ ان کے پاس سے گزرتے رہے حتیٰ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے اور وہاں ٹھہر کر فرمایا: ابو خبیب! تم پر سلام، ابو خبیب! تم پر سلام، ابو خبیب! تم پر سلام، اللہ کی قسم! کیا میں تمہیں اس (خلافت کے معاملے) سے منع نہیں کرتا تھا، اللہ کی قسم! کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اللہ کی قسم! میں تمہیں بہت روزے رکھنے والا، بہت زیادہ قیام کرنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا ہی جانتا ہوں، سن لو! اللہ کی قسم! جو لوگ تجھے برا خیال کرتے ہیں حقیقت میں وہ خود برے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے، (جو تمہیں برا سمجھتے ہیں کیا) وہ لوگ اچھے ہیں؟ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ چلے گئے، حجاج کو عبداللہ کا مؤقف اور ان کی بات پہنچی تو اس نے انہیں بلا بھیجا، ان (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ) کو سولی سے اتار دیا گیا اور انہیں یہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا گیا۔ پھر حجاج نے ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا، پھر اس نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپ آ جائیں ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ لائے گا، راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے انکار کیا اور کہا، اللہ کی قسم! میں تیرے پاس نہیں آؤں گی حتیٰ کہ تو اس شخص کو میرے پاس بھیجے جو میرے بالوں سے پکڑ کر مجھے گھسیٹے، راوی بیان کرتے ہیں، حجاج نے کہا: میرے جوتے مجھے دو، اس نے اپنے جوتے پہنے اور تیز تیز چلتا ہوا ان تک پہنچ گیا، اور کہا: بتاؤ! اللہ کے دشمن کے ساتھ میں نے کیسا سلوک کیا؟ اسماء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں سمجھتی ہوں کہ تو نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت برباد کر دی۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ تو (توہین کے انداز میں) اسے ذات النطاقین (دو ازار والی) کا بیٹا کہتا ہے، اللہ کی قسم! میں ذات النطاقین ہوں، ان (ازار بندوں) میں سے ایک کے ساتھ میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کھانے کو چوپایوں سے بچانے کے لیے، اور رہا دوسرا تو اس سے کوئی بھی عورت بے نیاز نہیں ہو سکتی، سن لو! کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حدیث بیان فرمائی کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا۔ رہا کذاب تو ہم اسے دیکھ چکے، اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ وہ تم ہی ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں، وہ ان کے پاس سے چلا گیا اور پھر ان کے پاس دوبارہ نہیں آیا۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6003]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (229/ 2545)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قوی استدلال
حدیث نمبر: 6004
وَعَن نَافِع عَن ابْنَ عُمَرَ أَتَاهُ رَجُلَانِ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَا: إِنَّ النَّاسَ صَنَعُوا مَا تَرَى وَأَنْتَ ابْنُ عُمَرَ وَصَاحِبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَخْرُجَ؟ فَقَالَ: يَمْنعنِي أنَّ اللَّهَ حرم دَمَ أَخِي الْمُسْلِمِ. قَالَا: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: [وقاتلوهم حَتَّى لَا تكونَ فتْنَة] فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ وَكَانَ الدِّينُ لِلَّهِ وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لغيرِ اللَّهِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
نافع ؒ سے روایت ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے فتنے سے پہلے دو آدمی ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: لوگوں نے جو کچھ کیا آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور آپ عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی ہیں، آپ کو نکلنے سے کون سی چیز مانع ہے؟ انہوں نے فرمایا: میرے لیے یہ چیز مانع تھی کہ اللہ نے مسلمان کو قتل کرنا مجھ پر حرام قرار دیا ہے، ان دونوں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ان سے قتال کرو حتیٰ کہ فتنہ ختم ہو جائے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے قتال کیا حتیٰ کہ فتنہ (شرک) ختم ہو گیا اور دین خالص اللہ کے لیے ہو گیا، اور تم چاہتے ہو کہ تم لڑو حتیٰ کہ فتنہ پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہو جائے۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6004]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (4513)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. خوش قسمت قبیلہ دوس کی حق میں دعا
حدیث نمبر: 6005
وَعَن أبي هريرةَ قَالَ: جَاءَ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ إِلَى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وسل فَقَالَ: إِنَّ دَوْسًا قَدْ هَلَكَتْ عَصَتْ وَأَبَتْ فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ فَظَنَّ النَّاسُ أَنَّهُ يَدْعُو عَلَيْهِمْ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، طفیل بن عمرو دوسی رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا: دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا، اس نے نافرمانی کی اور انکار کیا، آپ ان کے لیے بددعا کریں، لوگوں نے سمجھا کہ آپ ان کے لئے بددعا کریں گے۔ لیکن آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! دوس کو ہدایت نصیب فرما اور انہیں (مسلمان بنا کر) لے آ۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6005]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6397) و مسلم (197 / 2524)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. عربوں سے محبت رکھنے کی وجوپات
حدیث نمبر: 6006
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلَاثٍ: لِأَنِّي عَرَبِيٌّ وَالْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ وَكَلَامُ أَهْلِ الْجَنَّةِ عربيٌّ «. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي» شعب الْإِيمَان
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عربوں کے ساتھ تین خصلتوں کی وجہ سے محبت کرو، کیونکہ میں عربی ہوں، قرآن عربی (زبان میں) ہے اور اہل جنت کا کلام عربی میں ہو گا۔ اسنادہ موضوع، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6006]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده موضوع، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1610، 1433، نسخة محققة: 1364، 1496) [والحاکم (4/ 87) والعقيلي في الضعفاء الکبير (3/ 348) ]
٭ فيه العلاء بن عمرو الحنفي: کذاب، و علل أخري .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده موضوع

--. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان و عظمت
حدیث نمبر: 6007
عَن أبي سعيدٍ الْخُدْرِيّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نصيفه» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا مت کہو، کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر ڈالے تو وہ ان میں سے کسی ایک کے مد (تقریباً سوا چھ سو گرام) خرچ کرنے کو پہنچ سکتا ہے نہ اس کے نصف مد کو۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6007]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3673) و مسلم (222/ 2541)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. اصحاب رسول کا زمانہ خیر کا زمانہ تھا
حدیث نمبر: 6008
وَعَن أبي بردة عَن أَبيه قَالَ: رَفَعَ-يَعْنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم-رَأسه إِلَى السَّمَاء وَكَانَ كثيرا مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ. فَقَالَ: «النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومَ أَتَى السَّمَاءَ مَا توعَدُ وَأَنا أَمَنةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمتي مَا يُوعَدُون» . رَوَاهُ مُسلم
ابوبردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، آپ یعنی نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا، اور آپ اکثر اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ستارے آسمان کی حفاظت کا باعث ہیں، جب ستارے جاتے رہیں گے تو آسمان وعدہ کے مطابق ٹوٹ پھوٹ جائے گا، اور میں اپنے صحابہ کی حفاظت کا باعث ہوں، جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ کو ان فتنوں کا سامنا ہو گا جس کا ان سے وعدہ ہے، اور میرے صحابہ میری امت کی حفاظت کا باعث ہیں، جب میرے صحابہ جاتے رہیں گے تو میری امت میں وہ چیز��ں (بدعات وغیرہ) آ جائیں گی جن کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6008]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (207/ 2531)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next