حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَوْسَجَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا مَاتَ وَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا إِلَّا غُلَامًا لَهُ كَانَ أَعْتَقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَهُ أَحَدٌ؟، قَالُوا: لَا إِلَّا غُلَامًا لَهُ كَانَ أَعْتَقَهُ"، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِيرَاثَهُ لَهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مر گیا اور ایک غلام کے سوا جسے وہ آزاد کر چکا تھا کوئی وارث نہ چھوڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا کوئی اس کا وارث ہے؟“ لوگوں نے کہا: کوئی نہیں سوائے ایک غلام کے جس کو اس نے آزاد کر دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو اس کا ترکہ دلا دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2905]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 14 (2106)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 11 (2741)، (تحفة الأشراف: 6326)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/221، 358) (ضعیف)» (اس کے راوی عوسجہ مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
9. باب مِيرَاثِ ابْنِ الْمُلاَعِنَةِ
9. باب: لعان کی ہوئی عورت کے بچے کی میراث کا بیان۔
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”عورت تین شخص کی میراث سمیٹ لیتی ہے: اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی، راہ میں پائے ہوئے بچے کی، اور اپنے اس بچے کی جس کے سلسلہ میں لعان ہوا ہو (یعنی جس کے نسب سے شوہر منکر ہو گیا ہو) تو عورت اس کی وارث ہو گی“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2906]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 23 (2115)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 12 (2742)، (تحفة الأشراف: 11744)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/490، 4/106) (ضعیف)» (اس کے راوی عمر بن رؤبة ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
مکحول کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان والی عورت کے بچے کی میراث اس کی ماں کو دلائی ہے پھر اس کی ماں کے بعد ماں کے وارثوں کو دلائی ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2907]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8771)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الفرائض 24 (3010) (صحیح)» (اگلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ یہ مرسل روایت ہے کیونکہ مکحول تابعی ہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل مروی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2908]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8771) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
10. باب هَلْ يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ
10. باب: کیا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے؟
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2909]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 48 (4283)، الفرائض 26 (6764)، صحیح مسلم/الفرائض (1614)، سنن الترمذی/الفرائض 15 (2107)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 6 (2730)، (تحفة الأشراف: 113)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/200، 201، 208، 209) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی“۔ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2910]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (2010) (تحفة الأشراف: 114) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دین والے (یعنی مسلمان اور کافر) کبھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2911]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8669)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفرائض 16 (2109)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 6 (2732)، مسند احمد (2/178، 195) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ دو بھائی اپنا جھگڑا یحییٰ بن یعمر کے پاس لے گئے ان میں سے ایک یہودی تھا، اور ایک مسلمان، انہوں نے مسلمان کو میراث دلائی، اور کہا کہ ابوالاسود نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ ان سے ایک شخص نے بیان کیا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے اس سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اسلام بڑھتا ہے گھٹتا نہیں ہے“ پھر انہوں نے مسلمان کو ترکہ دلایا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2912]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11318)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/230، 236) (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک راوی رجلا مبہم ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوالاسود دیلی سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی کا ترکہ لایا گیا جس کا وارث ایک مسلمان تھا، اور اسی مفہوم کی حدیث انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2913]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11318) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
11. باب فِيمَنْ أَسْلَمَ عَلَى مِيرَاثٍ
11. باب: میراث کی تقسیم سے پہلے اگر وارث مسلمان ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانہ جاہلیت میں جو ترکہ تقسیم ہو گیا ہو وہ زمانہ اسلام میں بھی اسی حال پر باقی رہے گا، اور جو ترکہ اسلام کے زمانہ تک تقسیم نہیں ہوا تو اب اسلام کے آ جانے کے بعد اسلام کے قاعدہ و قانون کے مطابق تقسیم کیا جائے گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2914]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الرھن 21 (2485)، (تحفة الأشراف: 5383) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح