الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الْآدَابِ
معاشرتی آداب کا بیان
حدیث نمبر: 5616
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِح ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أنهما قَالَا: " خَرَجَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ حِينَ هَاجَرَتْ وَهِيَ حُبْلَى بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْر، فَقَدِمَتْ قُبَاءً، فَنُفِسَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بِقُبَاءٍ ثُمَّ خَرَجَتْ حِينَ نُفِسَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُحَنِّكَهُ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، فَوَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : فَمَكَثْنَا سَاعَةً نَلْتَمِسُهَا قَبْلَ أَنْ نَجِدَهَا، فَمَضَغَهَا ثُمَّ بَصَقَهَا فِي فِيهِ، فَإِنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ دَخَلَ بَطْنَهُ لَرِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَتْ أَسْمَاءُ: ثُمَّ مَسَحَهُ وَصَلَّى عَلَيْهِ، وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ ثُمَّ جَاءَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ أَوْ ثَمَانٍ، لِيُبَايِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَهُ بِذَلِكَ الزُّبَيْرُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُ مُقْبِلًا إِلَيْهِ ثُمَّ بَايَعَهُ ".
شعیب بن اسحاق نے کہا؛مجھے ہشام بن عروہ نے بتایا، کہا: مجھے عروہ بن زبیر اور فاطمہ بنت منذر بن زبیر نے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا (مکہ سے) ہجرت کی نیت سے جس وقت نکلیں، ان کے پیٹ میں عبداللہ بن زبیر تھے (یعنی حاملہ تھیں) جب وہ قباء میں آ کر اتریں تو وہاں سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ پھر ولادت کے بعد انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو گھٹی لگائیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے لے لیا اور اپنی گود میں بٹھایا، پھر ایک کھجور منگوائی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم ایک گھڑی تک کھجور ڈھونڈتے رہے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو چبایا، پھر (اس کا جوس) ان کے منہ میں ڈال دیا۔ یہی پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں پہنچی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوک تھا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا کی اور ان کا نام عبداللہ رکھا۔ پھر جب وہ سات یا آٹھ برس کے ہوئے تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے اشارے پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے لئے آئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آتے دیکھا تو تبسم فرمایا۔ پھر ان سے (برکت کے لئے) بیعت کی (کیونکہ وہ کمسن تھے)۔
حضرت عروہ بن زبیر اور فاطمہ بنت منذر بیان کرتے ہیں، ہجرت کے موقعہ پر حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا کے پیٹ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ تھے، وہ قباء پہنچیں تو وہاں عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہو گئے تو وہ اسے لے کر گھٹی دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے اسے اس سے پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر کھجوریں منگوائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ہم کھجوریں ملنے سے پہلے کچھ دیر انہیں تلاش کرتے رہے، آپ نے انہیں چبایا، پھر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیا تو سب سے پہلے اس کے پیٹ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن داخل ہوا، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، پھر آپ نے اس پر ہاتھ پھیرا، اس کے حق میں دعا فرمائی اور اس کا نام عبداللہ رکھا، پھر وہ سات یا آٹھ سال کی عمر میں اپنے باپ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر مسکرائے، پھر ان سے بیعت کر لی۔
حدیث نمبر: 5617
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ، قالت: " فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْتُ بِقُبَاءٍ، فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءٍ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، فَمَضَغَهَا ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَنَّكَهُ بِالتَّمْرَةِ ثُمَّ دَعَا لَهُ وَبَرَّكَ عَلَيْهِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ.
ابو اسامہ نے ہشام سے، انھوں نے ا پنے والد سے، انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ مکہ میں حاملہ ہوئیں، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان کے پیٹ میں تھے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہاکہ جب میں (مکہ سے) نکلی تو میں پورے دنوں سے تھی، پھر میں مدینہ آئی اورقباء میں ٹھہری اور قباء میں نے اسے (عبداللہ) کو جنم دیا، پھر میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اسے اپنی گود میں لے لیا، پھر آپ نے کھجور منگوائی، اسے چبایا۔پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیا، پہلی چیز جو اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالعاب دہن تھا، پھر آپ نے (چبائی ہوئی) کھجور کی گھٹی اس کے تالو کولگائی، پھر میں کے لئے دعا کی، برکت مانگی، (ہجرت مدینہ کے بعد) یہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، انہیں مکہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حمل ٹھہرا اور میں پورے دنون ہجرت کے لیے نکلی، میں نے مدینہ پہنچ کر قباء میں قیام کیا تو وہ قباء میں پیدا ہو گئے، پھر میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر آپ نے چھوہارے منگوا لیے اور انہیں چبایا، پھر انہیں اس کے منہ میں لعاب دہن ڈال دیا تو سب سے پہلی جو چیز اس کے پیٹ میں داخل ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا، پھر آپ نے اسے کھجوروں کی گھٹی دی، پھر اس کے لیے دعا کی اور ان کے لیے برکت کی درخواست کی اور وہ (ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے) پہلے بچے تھے جو مہاجرین کے ہاں پیدا ہوئے۔
حدیث نمبر: 5618
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا هَاجَرَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ حُبْلَى بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ.
علی بن مسہر نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی، اس وقت وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سےحاملہ تھیں، پھر ابو اسامہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی جبکہ انہیں عبداللہ بن زبیر کا حمل ٹھہرا ہوا تھا، آگے مذکورہ بالا روایت سنائی۔
حدیث نمبر: 5619
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيُبَرِّكُ عَلَيْهِمْ وَيُحَنِّكُهُمْ ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے، آپ ان کے لئے برکت کی دعا کرتے اور انھیں گھٹی دیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم انہیں برکت کی دعا دیتے اور انہیں گھٹی دیتے۔
حدیث نمبر: 5620
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: " جِئْنَا بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَنِّكُهُ، فَطَلَبْنَا تَمْرَةً فَعَزَّ عَلَيْنَا طَلَبُهَا ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے، کہا: ہم گھٹی دلوانے کے لئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے، ہم نے کھجور حاصل کرنی چاہی تو ہمارے لیے اس کا حصول دشوار ہوگیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ہم عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، تاکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اسے گھٹی دیں، ہم نے چھوہارے تلاش کیے اور ہمارے لیے ان کی دستیابی مشکل ہو گئی۔
حدیث نمبر: 5621
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، قالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ مُطَرِّفٍ أَبُو غَسَّانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قال: أُتِيَ بِالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وُلِدَ، فَوَضَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِهِ، وَأَبُو أُسَيْدٍ جَالِسٌ فَلَهِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَمَرَ أَبُو أُسَيْدٍ بِابْنِهِ، فَاحْتُمِلَ مِنْ عَلَى فَخِذِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْلَبُوهُ فَاسْتَفَاقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَيْنَ الصَّبِيُّ؟ "، فَقَالَ أَبُو أُسَيْدٍ: أَقْلَبْنَاهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " مَا اسْمُهُ؟ "، قَالَ: فُلَانٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " لَا، وَلَكِنْ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ "، فَسَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ الْمُنْذِر َ.
حضرت سہل بن سعد (بن مالک رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، کہا: کہ ابواسید رضی اللہ عنہ کا بیٹا منذر، جب پیدا ہوا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی ران پر رکھا اور (اس کے والد) ابواسید۔ بیٹھے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز میں اپنے سامنے متوجہ ہوئے تو ابواسید نے حکم دیا تو وہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ران پر سے اٹھا لیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا تو فرمایا کہ بچہ کہاں ہے؟ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم نے اس کو اٹھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا نام کیا ہے؟ ابواسید نے کہا کہ فلاں نام ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس کا نام منذر ہے۔ پھر اس دن سے انہوں نے اس کا نام منذر ہی رکھ دیا۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب منذر بن ابی اسید پیدا ہوئے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا اور ابو اسید رضی اللہ تعالی عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے پڑی ہوئی کسی چیز میں مشغول ہو گئے تو حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کے بارے میں حکم دیا، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران پر بٹھا لیا گیا اور اسے گھر لوٹا دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مشغولیت سے بیدار ہوئے تو پوچھا "بچہ کہاں ہے؟" تو حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا، ہم نے اسے واپس بھیج دیا ہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے پوچھا اس کا نام کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، فلاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن اس کا نام منذر ہے۔ تو اسی دن آپ نے اس کا نام منذر رکھا۔
6ق. باب جَوَازِ تَكْنِيَةِ مَنْ لَّمْ يُولَدْ لَهُ وَكْنِيَةِ الصَّغِيرِ
6ق. باب: جس کا بچہ نہ ہوا ہو اس کو اور کمسن کو کنیت رکھنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5622
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ . ح وحدثنا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قال: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَكَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو عُمَيْرٍ، قَالَ: أَحْسِبُهُ، قَالَ: كَانَ فَطِيمًا، قَالَ: فَكَانَ إِذَا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَآهُ، قَالَ أَبَا عُمَيْرٍ: مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟، قَالَ: فَكَانَ يَلْعَبُ بِهِ ".
ابوتیاح نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر خوش ا خلاق تھے، میرا ایک بھائی تھا جسے ابو عمیر کہا جاتا تھا۔ (ابوالتیاح نے) کہا: میرا خیال ہے (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا تھا: اس کا دودھ چھڑایا جاچکا تھا، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور اسے دیکھتے تو فرماتے: ابو عمیر!نغیر نے کیا کیا"وہ بچہ اس (پرندے) سے کھیلا کرتا تھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے اچھے اخلاق کے مالک تھے، میرا ایک بھائی تھا، جسے ابو عمیر کہا جاتا تھا، راوی بیان کرتا ہے، میرا خیال ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اسے ماں کا دودھ چھڑایا جا چکا تھا تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اسے دیکھتے تو فرماتے اے ابو عمیر! نغیر (سرخ چڑیا) نے کیا کیا؟ وہ بچہ اس سرخ چڑیا سے کھیلتا تھا۔
6. باب جَوَازِ قَوْلِهِ لِغَيْرِ ابْنِهِ يَا بُنَيَّ وَاسْتِحْبَابِهِ لِلْمُلاَطَفَةِ:
6. باب: غیر کے لڑکے کو بیٹا کہنا اور ایسے کلمہ کو مہربانی کے طور پر مستحب ہونا۔
حدیث نمبر: 5623
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قال: " قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّ ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے میرے بیٹے!"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے میرے بیٹے!
حدیث نمبر: 5624
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قال: مَا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ لِي: " أَيْ بُنَيَّ وَمَا يُنْصِبُكَ مِنْهُ إِنَّهُ لَنْ يَضُرَّكَ "، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ أَنْهَارَ الْمَاءِ، وَجِبَالَ الْخُبْزِ، قَالَ: " هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ ".
یزید بن ہارون نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انھوں نے قیس بن ابی حازم سے، انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے متعلق جتنے سوالات میں نے کیے اتنے کسی اور نے نہیں کیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا؛"میرے بیٹے!تمھیں اس (دجال) سے کیا بات پریشان کررہی ہے؟تمھیں اس سے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔"کہا: میں نے عرض کی: لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ پانی کی نہریں اور ر وٹی کے پہاڑ ہوں گے۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی نسبت زیادہ ذلیل ہے۔"
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھ سے زیادہ کسی نے دجال کے بارے میں دریافت نہیں کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بیٹے! تیرے لیے اس سے کون سی چیز دشواری یا مشقت کا باعث ہے؟ وہ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گا۔ میں نے کہا، لوگوں کا خیال ہے، اس کے ساتھ پانی کی نہریں اور روٹیوں کے پہاڑ ہوں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کے نزدیک اسی بناء پر ذلیل ہو گا۔
حدیث نمبر: 5625
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحدثنا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ . ح وحدثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَحَدٍ مِنْهُمْ، قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُغِيرَةِ أَيْ بُنَيَّ إِلَّا فِي حَدِيثِ يَزِيد َ وَحْدَهُ.
وکیع، ہشیم، جریر اور ابو اسامہ سب نے اسماعیل سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، ان میں سے تنہا یزید کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مغیرہ رضی اللہ عنہ کے لیے"اے میرے بیٹے" کے الفاظ ہیں اور کسی کی حدیث میں نہیں ہیں۔
امام صاحب کے مختلف اساتذہ، چار سندوں سے یہی روایت سناتے ہیں اور ان میں سے صرف یزید ہی کی روایت میں، مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے اے بیٹے!

Previous    1    2    3    4    5    6    Next