´بنی اسرائیل اور گوشت کا سڑنا`
«. . . لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزْ اللَّحْمُ، وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ . . .»
”اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کر کے نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔ اور اگر حوا نہ ہوتیں (یعنی آدم علیہ السلام سے دغا نہ کرتیں) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3399]
تخریج الحدیث: یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے:
[3399 من طريق عبدالرزاق] [3330، من طريق عبدالله بن المبارك كلاهما عن معمر عن همام عن أبي هريره به] صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں موجود ہے: صحيح مسلم
[63؍1468 وترقيم دارالسلام: 3648] صحيح ابن حبان
[الاحسان: 4157، نسخة محققه: 4169] شرح السنة للبغوي
[9؍164 ح2335 وقال: ”هذا حديث متفق على صحته“] المستخرج على صحيح مسلم لابي نعيم الاصبهاني
[4؍143 ح3450] امام بخاری سے پہلے اسے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے: ہمام بن منبہ
[الصحيفة: 58] أحمد بن حنبل
[المسند 2؍315 ح8155] ہمام بن منبہ بالاجماع ثقہ ہیں، لہٰذا یہ روایت بلحاظ اصول حدیث بالکل صحیح ہے۔
اس کے دوسرے شواہد کے لئے دیکھئیے: مسند اسحاق بن راہویہ
[117] ومسند أحمد
[2؍304] وحلیۃ الاولیاء
[8؍389] ومستدرک الحاکم
[4؍175] منکرین حدیث نے اس حدیث کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”جب کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ گوشت سڑنے کی وجہ قوم بنی اسرائیل نہیں بلکہ جراثیم ہیں۔۔۔“
↰ عرض ہے کہ کیا ان جراثیم کی وجہ سے خود بخود گوشت خراب ہو جاتا ہے یا اس کے خراب ہونے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے اور یہ جراثیم اسی کے پیدا کردہ ہیں؟
نام نہاد تجربے کی وجہ سے صحیح حدیث کا رد کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول کا کام صرف قرآن پہنچانا تھا، اس نے پہنچا دیا۔ اب قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے منکرین حدیث کے نزدیک رسول کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔!!
منکرین حدیث سے درخواست ہے کہ اس صحیح حدیث کو رد کرنے کے لئے قرآن مجید کی وہ آیت پیش کریں جس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ بنی اسرائیل کے وجود سے پہلے بھی دنیا میں گوشت گل سڑ جاتا تھا۔ اگر قرآن سے دلیل پیش نہ کر سکیں تو پھر ایسی مشین ایجاد کریں جس کے ذریعے وہ لوگوں کو زمانہ بنی اسرائیل سے پہلے والے دور میں لے جا کر دکھا دیں کہ دیکھو یہ گوشت گل سڑ رہا ہے۔ اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر سوچ لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رد کرنے والوں کا کیا انجام ہو گا؟
تنبیہ: بعض علماء نے اس حدیث کی دیگر تشریحات بھی لکھی ہیں، مثلاً دیکھئے:
[مشكلات الأحاديث النبوية وبيانها، ص11] لیکن ظاہر الفاظ کتاب و سنت پر ایمان لانے میں ہی نجات ہے۔ اِلا یہ کہ کوئی صحیح دلیل قرینہ صارفہ بن کر ظاہر کو مجاز کی طرف پھیر دے۔
«والحمدلله»