حدیث حاشیہ: 1۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جس دن ہم جہنم سے کہیں گے:
کیا تو بھر گئی ہے؟ اور وہ کہے گی:
کیا کچھ اور بھی ہے؟
“ (ق 30/50) مذکورہ حدیث اس آیت مبارکہ کی تشریح ہے۔
اس حدیث میں ہے کہ جب اللہ رب العالمین اپنا قدم جہنم میں رکھے گا تو جہنم اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کے کرم کی قسم اٹھا کر کہے گی:
”بس، بس میں بھر گئی ہوں۔
“ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے صفت عزت کو ثابت کرنے کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صفت باری تعالیٰ کو برقرار رکھا ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق نہیں ہیں کیونکہ مخلوق کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔
3۔
واضح رہے کہ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین کا قدم ہے جسے وہ جہنم میں رکھیں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کے سلسلے میں صرف اسی صفت کا اعتبار ہوگا جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیان کیا ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نشاندہی کی ہو۔
اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کے اثبات کے لیے قرآن وحدیث میں تین صورتیں ممکن ہیں:
۔
اللہ تعالیٰ کی صفت قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہو، مثلاً:
العزۃ اور قدم وغیرہ۔
۔
اللہ تعالیٰ کے اسماء قرآن وحدیث میں مذکورہ ہوں۔
ان اسماء کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہوتی ہے، مثلاً السمیع اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔
اس کے ضمن میں صفت سمع ہے۔
۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی وصف صراحت کے ساتھ قرآن وحدیث میں مذکور ہو، مثلاً:
اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا، آسمان دنیا کی طرف نزول فرمانا۔
4۔
ان صفات کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان صفات کو ظاہر پر محمول کیا جائے اور کسی قسم کی تحریف سے کام نہ لیا جائے اور نہ ان کی بے جا تاویلات ہی کی جائیں۔
اور ظاہر سے مراد اس کے وہ معنی ہیں جو لفظ کے سامنے آتے ہی فوراً ذہن میں آجائیں، بعض اوقات کسی لفظ کے معنی سیاق کلام یا اضافت کی مناسبت سے معلوم ہوتے ہیں۔
الفاظ کے ظاہری معنی وہی مراد ہوں گے جو ذات باری تعالیٰ کے شایان شان ہوں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں قدم کا اثبات ہے۔
اس لفظ سے مراد وہی معنی ہیں جو لفظ کے سنتے ہی ذہن میں آتے ہیں جسے ہم اپنی زبان میں پاؤں کہتے ہیں لیکن اس قدم سے مراد وہ قدم نہیں جو مخلوق کے لائق ہے بلکہ وہ قدم ہے جو اللہ رب العالمین کے لائق ِ شان ہو۔
5۔
صفات کے متعلق تین اعتقادی گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔
۔
تمثیل:
۔
اس سے مراد یہ اعتقاد ہے کہ جو صفات ثابت ہیں وہ مخلوق کی صفات کے مماثل ہیں۔
یہ عقیدہ باطل ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اس جیسی کوئی چیز نہیں
“ (الشوریٰ 11/42) تکییف:
۔
اس سے مراد صفات باری تعالیٰ کی کیفیت بیان کرنا ہے، یعنی بندے کا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت اس طرح اور اس طرح ہے۔
یہ عقیدہ بھی باطل ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وہ
(لوگ اپنے) علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔
"نیز فرمایا:
"جس چیز کا آپ کو کوئی علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑیں۔
“ (بني إسرائیل: 36) اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی صفات کی اطلاع دی ہے، ان کی کیفیت سے ہمیں آگاہ نہیں کیا، لہذا اپنی طرف سے ان صفات کی کیفیت بیان کرنا ایسی بے مقصد گفتگو ہے جس کا نہ تو ہمیں علم ہے اور نہ ہمارے لیے اس کا احاطہ ہی ممکن ہے۔
۔
تاویل:
۔
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کے ایسے معنی بیان کرنا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے خلاف ہوں اور لغت عرب میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو۔
"قدم" کے متعلق درج ذیل تاویلات کی گئی ہیں۔
۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مستحق عذاب ہوں گے جہنم کے مطالبے پر انھیں جھونک دیا جائے گا۔
اس تاویل کی تردید خود حدیث کےالفاظ سے ہوتی ہے۔
۔
اس سے مراد ایسی مخلوق ہے جس کا نام قدم ہوگا۔
اس کے متعلق کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے محض ایک گپ ہے جسے ہانک دیا گیا ہے۔
۔
اس سے مراد زجر وتوبیخ ہے اور جہنم کو خاموش کرانا مقصود ہے جیسا کہ کسی چیز کو مٹانے کا ارادہ ہوتو کہا جاتا ہے کہ میں نے اسے قدموں تلے روند ڈالا ہے۔
لغت عرب میں اس تاویل کی کوئی گنجائش نہیں۔
6۔
ہمارے رجحان کے مطابق صفت قدم کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے اس کے ظاہر معنی لیے جائیں اور اس کی کوئی تاویل نہ کی جائے، نیز اس سلسلے میں تمثیل وتکییف سے بچا جائے۔
واللہ أعلم۔