عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے، اور ایک شخص نے کھجور کے کچھ خوشے مسجد میں لٹکا دئیے تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خوشہ میں اس چھڑی سے کھٹ کھٹ مارتے جاتے، اور فرماتے: ”اگر یہ زکاۃ دینے والا چاہتا تو اس سے بہتر زکاۃ دیتا، یہ زکاۃ والا قیامت کے دن خراب ہی کھجور کھائے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1821]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1821
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مسجد نبوی میں دوستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی تھی لوگ کجھور کے خوشے اس سے لٹکا دیتے تھے تاکہ جسے ضرورت ہو وہ حسب خواہش کھا لے جیسے کہ اگلی حدیث میں صراحت ہے۔ صدقے کا مال کسی مستحق کے ہاتھ میں دینا ضروری نہیں۔ اگر اس انداز سے کہیں رکھ دیا جائے جس سے معلوم ہو کہ اس کے استعمال کی ہر ایک کو اجازت ہے تو یہ بھی کافی ہے۔ کھانے پینے کی چیز کو نیچے رکھنے کے بجائے اس انداز سے رکھنا بہتر ہے کہ مٹی اور گرد وغیرہ سے ممکن حد تک محفوظ رہے۔ صدقے میں عمدہ مال دینا چاہیے تاکہ بہتر ثواب ملے۔ ادنیٰ مال صدقے میں دیا جائے تو صدقہ تو ادا ہو جاتا ہے لیکن ثواب میں کمی آ جاتی ہے۔ نبی ﷺ نے ان خوشوں کو چھڑی سے کھٹکھٹایا تاکہ سب لوگ متوجہ ہو جائیں اور توجہ سے بات سنیں۔ جس شخص کے پاس عمدہ چیز نہ ہو وہ ادنٰی چیز بھی صدقہ کرسکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1821
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1608
´جن پھلوں کو زکاۃ میں دینا جائز نہیں ان کا بیان۔` عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ہمارے پاس مسجد میں تشریف لائے، آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، ایک شخص نے خراب قسم کی کھجور کا خوشہ لٹکا رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوشہ میں چھڑی چبھوئی اور فرمایا: ”اس کا صدقہ دینے والا شخص اگر چاہتا تو اس سے بہتر دے سکتا تھا“، پھر فرمایا: ”یہ صدقہ دینے والا قیامت کے روز «حشف»(خراب قسم کی کھجور) کھائے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1608]
1608. اردو حاشیہ: سورہ بقرہ میں آیا ہے کہ طیب اور عمدہ مال خرچ کیا جائے۔آگے فرمایا۔ <قرآن> (وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ)(البقرۃ۔267) ردی اور بُرے مال خرچ کرنے کا قصد نہ کرو حالانکہ اگر تمھیں ملے تو تم نہ لو گے۔ حدیث کے آخر میں بہت بڑی تنبیہ ہے۔کہ انسان جس قسم کی چیز دے گا۔قیامت کے روز اسی قسم سے پائے گا۔اس لئے ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ کی راہ میں اچھی چیز ہی دینے کی کوشش کیا کرے۔تاہم ایسا کرنا بہتر ہی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم رتبے والی چیز کا صدقہ جائز ہی نہیں۔ یا ا س کا ثواب ہی نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں اخلاص سے جو کچھ بھی دیا جائے وہ عنداللہ مقبول ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1608
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2495
´اللہ عزوجل کے فرمان: ”اللہ کی راہ میں برا مال خرچ کرنے کا قصد نہ کرو“ کی تفسیر۔` عوف بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی (مسجد میں پہنچے) وہاں ایک شخص نے سوکھی خراب کھجور کا ایک گچھا لٹکا رکھا تھا ۱؎ آپ اس گچھے میں (لاٹھی سے) کوچتے جاتے تھے، اور فرماتے جاتے تھے: ”یہ صدقہ دینے والا اگر چاہتا تو اس سے اچھی کھجوریں دے سکتا تھا، یہ صدقہ دینے والا قیامت میں اسی طرح کی سوکھی خراب کھجوریں کھائے گا۔“[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2495]
اردو حاشہ: (1) یہ صدقہ نفل تھا کیونکہ فرض عشر تو حکومتی عمال خود وصول کرتے تھے۔ (2)”ردی کھجوریں ہی کھائے گا۔“ یعنی اسے ردی کھجوروں ہی کا ثواب ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دھوکا نہیں کیا جا سکتا۔ یا یہ کہ اسے وہاں کھانے کو ردی کھجوریں ہی ملیں۔ دوسرا مفہوم ظاہر الفاظ کے زیادہ قریب ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2495