ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ و خیرات کسی مالدار یا ہٹے کٹے صحت مند آدمی کے لیے حلال نہیں ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1839]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الزکاة 90 (2598)، (تحفة الأشراف: 12910)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/377، 389) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1839
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مال دار سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اتنا کچھ موجود ہو کہ اس کا گزر ہو سکے۔ تعیشات کے حصول کے لیے اگر گنجائش نہیں تو اسے مفلس یا زکاۃ کا مستحق قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
(2) طاقت ور سے مراد وہ شخص ہے جو حلال طریقے سے محنت مزدوری یا کسی قسم کی ملازمت وغیرہ کے ذریعے سے روزی کما سکتا ہے۔ ایسا شخص اگر بے کار بیٹھا رہے اور کام کرنے کی کوشش نہ کرے تو یہ اس کی غلطی ہے۔
(3) تندرست سے مراد وہ شخص ہے جس کو جسمانی طور پر اس قسم کی معذوری لاحق نہیں کہ وہ روزی کمانے کے قابل نہ رہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1839
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2598
´جس شخص کے پاس درہم نہ ہو اس کے برابر سامان ہو۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کسی مالدار، طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے درست نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2598]
اردو حاشہ: طاقت ور سے مراد وہ ہے جو کمائی کر سکے، نہ کہ پہلوان۔ اور تندرست سے مراد ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں صحیح ہوں، معذور نہ ہو، البتہ ایسا شخص اگر باوجود محنت کے فقیر ہو تو وہ مستحق ہوگا کیونکہ رسول اللہﷺ کا مقصد یہ ہے کہ زکاۃ نکھٹوؤں کے لیے جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2598