کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی اہلیہ خیرۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا زیور لے کر آئیں، اور عرض کیا: میں نے اسے صدقہ کر دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں، کیا تم نے کعب سے اجازت لے لی ہے“؟ وہ بولیں: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیج کر پچھوایا، کیا تم نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے“، وہ بولے: جی ہاں، تب جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2389]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15831، ومصباح الزجاجة: 837) (صحیح)» (سند میں عبد اللہ بن یحییٰ مجہول ہیں، لیکن دوسرے شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 775)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه بن يحيي وأبوه: مجھولان (تقريب:3701،7681) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 465
لا يجوز للمرأة في مالها إلا بإذن زوجها فهل استأذنت كعبا قالت نعم فبعث رسول الله إلى كعب بن مالك زوجها فقال هل أذنت لخيرة أن تتصدق بحليها فقال نعم فقبله رسول الله منها
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2389
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نےسنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہےلیکن اس سے پہلے والی روایت اس کی شاہد ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اورقابل حجت ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (الصحیحة، رقم: 775، 825، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتوربشار عواد، حدیث: 2389)(2) عورت اپنےمال میں سے صدقہ دینا چاہے تو بہتر ہےکہ خاوند سےاجازت لےلے۔
(3) امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نےفرمایا ہے کہ اگر عورت سمجھ دار ہو تو خاوند کےموجود ہوتےہوئے بھی وہ کسی کو صدقہ دے سکتی ہے، یعنی خاوند سےاجازت لینا ضروری نہیں ہے۔ اورانھوں نے دلیل کےطور پر چاراحادیث ذکر کی ہیں۔ ان میں سےایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ نےحضرات اسماء رضی اللہ عنہ سےفرمایا: ”خرچ کر، اورگن مت ورنہ اللہ بھی تجھے گن کردے گا۔ اورسنبھال کرنہ رکھ ورنہ اللہ بھی (تجھے دینے کی بجائے) سنبھال کررکھ لےگا۔“ رسول اللہ ﷺ نے انھیں یہ نہیں فرمایا کہ اپنے شوہر حضرت زبیربن عوام سےپوچھ لیا کرو۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الھبة وفضلھا والتحریص علیھا، باب ھبة المرآۃ لغیر زوجھا، وعتقھا إذا کان لھا زوج فھو جائز إذا لم تکن سفیھة .......، حدیث: 2590) لیکن یہ جواز اس وقت ہے جب عورت کو یہ معلوم ہو کہ خاوند کو میرے صدقہ کرنے پراعتراض نہیں ہوگا یا اتنی مقدار پر وہ اعتراض نہیں کرے گا۔ اور وہ اتنی ہی مقدار صدقہ کرتی ہے جس پرخاوند معترض نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2389