مستورد رضی اللہ عنہ (جو بنی فہر کے ایک فرد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے، اور پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس کی انگلی میں واپس آتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4108]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4108
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دنیا کی زندگی انتہائی قلیل ہےجب کہ آخرت کی زندگی ابدی ہے جس کی انتہا نہیں۔
(2) جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں اس قدر قیمتی ہیں کہ جنت میں چند انچ خالی زمین کی قیمت دنیا کی تمام دولت اور خزانوں سے زیادہ ہے پھر اس کے محلات اور باغات اور ان میں موجود نعمتیں، پاک باز بیویاں، خدام وغیرہ ان کی قدر وقیمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً دیدار الہی تو ایسی ہے کہ اس کے مقابلے میں جنت کی بڑی نعمت ہیچ ہے۔
(3) مثال دیکر بیان کرنے سے مسئلہ زیادہ واضح اور قابل فہم ہوجاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4108
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2323
´آخرت کے مقابلے میں دنیا سمندر کے ایک قطرے کی مانند ہے۔` مستورد بن شداد فہری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی سمندر کا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2323]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں آخرت کی نعمتوں اور اس کی دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی قدروقیمت اور اس کی زندگی کا تناسب بیان کیا گیا ہے، یہ تناسب ایسے ہی ہے جیسے ایک قطرہ پانی اور سمندرکے پانی کے درمیان تناسب ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2323
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:878
878- سیدنا مستور دفہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈالے اور پھر اس بات کا جائزہ لے کہ اس انگلی پر کتنا پانی آیا ہے؟“ سفیان کہتے ہیں: ابن ابوخالد یہ روایت نقل کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ میں نے یہ روایت سیدنا مستورد رضی اللہ عنہ سے سنی ہے جن کا تعلق بنو فہر سے ہے، تو وہ یہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے لفظی غلطی کر جاتے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:878]
فائدہ:
① دنیا کی زندگی انتہائی قلیل ہے جبکہ آخرت کی زندگی ابدی ہے جس کی انتہا نہیں۔ ② جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں اس قدر قیمتی ہیں کہ جنت میں چند انچ خالی زمین کی قیمت دنیا کی تمام دولت اور خزانوں سے زیادہ ہے پھر اس کے محلات اور باغات اور ان میں موجود پاک باز بیویاں، خدام وغیرہ ان کی قدر و قیمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ خصوصا دیدار الہٰی کی نعمت توایسی ہے کہ اس کے مقابلے میں جنت کی بڑی سے بڑی نعمت ہیچ ہے۔ مثال دے کر بیان کرنے سے مسئلہ زیادہ قابل فہم ہو جاتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 877
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7197
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بنو فہر کے فرد حضرت مستور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کی قسم! دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں مثال بس ایسی ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے یحییٰ نے شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا پھر دیکھ لے، پانی کی کتنی مقدار اس کے ساتھ لگ کر آئی ہے۔ اسامہ کی حدیث میں ہے اسماعیل نے انگوٹھے سے اشارہ کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7197]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مدت اور لذات آخرت کے دوام و ہمیشگی اور اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں اتنی ہی بے حقیقت اور بے وقعت ہیں، جتنا کے دریا کے مقابلہ میں انگلی پر لگا پانی اور یہ مثال بھی درحقیقت صرف سمجھانے کے لیے دی گئی ہے، ورنہ دراصل دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں یہ نسبت بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ دنیا اور اس کی ہر چیز محدود اور متناہی، یعنی فانی اور عارضی ہے اور آخرت لامحدود اور غیر متناہی، یعنی دائمی اور ابدی ہے اور ریاضی کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ محدودو متناہی کو لا محدود اور غیر متناہی کے ساتھ کوئی نسبت نہیں دی جا سکتی، اب اس شخص سے زیادہ محروم اور خسارہ والا کون ہو سکتا ہے، جو دنیا کو حاصل کرنے کے لیے تو خوب جدوجہد کرتا ہے، مگر آخرت کی تیاری کی طرف سے بالکل غافل، بے نیاز اور لاپرواہ ہے۔