عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر (گھمنڈ) ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا، اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں نہیں داخل ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 59]
وضاحت: ۱؎: مرتکب کبیرہ کے سلسلے میں آخرت سے متعلق وعید کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ وہ ملعون ہے، یا اس کو جنت میں نہ داخل ہونے کی وعید ہے، یا جہنم میں داخل ہونے کی وعید ہے، اس سلسلے میں علماء کی آراء کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے: 1 «لا يدخل الجنة» وہ جنت میں نہ داخل ہو گا، یعنی نعمت و سرور اور انبساط کے اعتبار سے اونچے درجہ کی جنت میں نہ داخل ہو گا، یہ مطلب نہیں ہے کہ جنت کے کسی درجہ اور طبقہ میں داخل نہ ہو گا۔ 2 یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرتکب کبیرہ اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گا جس وقت تک مرتکب کبیرہ کا ارتکاب نہ کرنے والے جنت میں داخل ہو رہے ہوں گے، اس لئے کہ وہ اپنے گناہوں کی باز پرس اور محاسبہ کے مرحلہ میں ہو گا، یا اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ہو گا، اور سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہو گا۔ بعض لوگوں نے اس معنی کو ان لفظوں میں بیان کیا: «إن النفي هو الدخول المطلق الذي لا يكون معه عذاب، لا الدخول المقيد الذي يحصل لمن دخل النار ثم دخل الجنة»، یعنی: احادیث میں جنت میں اس مطلق دخول کی نفی ہے جس کے ساتھ عذاب نہ ہو گا، نہ کہ اس قید کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی نفی ہے جو جہنم میں داخل ہونے والے کو ہو گی کہ وہ جرم کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو گا۔ 3 ایک قول یہ بھی ہے کہ احادیث میں شرط اور استثناء موجود ہے یعنی اگر اللہ نے اس (مرتکب کبیرہ) کو عذاب دیا تو وہ جنت میں نہ داخل ہو گا، یا جنت میں نہ داخل ہو گا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے۔ بعض معاصی کے مرتکب کے بارے میں جہنم کی وعید والی احادیث کے بارے میں امام نووی فرماتے ہیں کہ کفر سے کمتر مرتکب کبائر کے لئے جہنم کی وعید سے متعلق ساری احادیث کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس کی سزا ہے، کبھی وہ سزا کا مستحق ہو گا، اور کبھی اس سے سزا معاف کر دی جائے گی، پھر اگر اس کو (اس کے جرم کی پاداش میں) سزا ہوئی، تو وہ داخل جہنم ہو گا، لیکن اس میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا، بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ ضروری طور پر وہاں سے نکلے گا، توحید پر مرنے والا کوئی آدمی ہمیشہ اور ابدی طور پر جہنم میں نہیں رہے گا، یہ اہل سنت کے درمیان متفق علیہ اصول ہے۔ آخرت سے متعلق وارد احادیث وعد و وعید کے سلسلہ میں زیادہ راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ اعمال وعدہ اور وعید کے اثبات و تحقق کے لئے سبب و علت ہیں لیکن کسی متعین شخص پر ان وعدوں یا و عیدوں کا اطلاق نہیں ہو گا الا یہ کہ اس میں وہ ساری شروط و قیود پائی جا رہی ہوں، اور اس سلسلہ کی رکاوٹیں موجود نہ ہوں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر مبرہن کیا ہے۔ اس لئے کہ اہل ایمان کے شرک سے اجتناب اور دوری کی صورت میں اعمال صالحہ پر دخول جنت کی بات بہت ساری احادیث میں وارد ہوئی ہیں، اور جن مطلق روایتوں میں کلمہ شہادت «لا الہ الا اللہ» یا شہادتین پر جنت میں داخل ہونے یا جہنم کے حرام ہونے کی بات ہے تو دوسری احادیث میں اس کی شروط و قیود آئی ہیں جن کی وجہ سے مطلق احادیث کو مقید احادیث پر رکھنا واجب اور ضروری ہے، مطلق احادیث «لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ» میں کلمہ توحید کو دخول جنت کا تقاضا کہا گیا ہے جس کے لئے شروط و قیود کا ہونا اور موانع (رکاوٹوں) کا نہ ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ امام حسن بصری سے جب یہ کہا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس نے «لا الہ الا اللہ» کہا، جنت میں داخل ہو گا تو آپ نے فرمایا: جس نے کلمہ توحید کہا، اور اس کے حقوق و فرائض ادا کئے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہب بن منبہ سے سائل نے سوال کیا کہ کلمہ توحید «لا الہ الا اللہ» کیا جنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، لیکن کنجی بغیر دندانے کے نہیں ہوتی، اگر تم دندانے والی کنجی لے کر آؤ گے تو جنت کا دروازہ تمہارے لئے کھل جائے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔ اہل علم نے کلمہ گو ( «لا الہ الا اللہ» کے قائل) میں سات شرطوں کے ضروری طور پر ہونے کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ اس کلمہ سے فائدہ اٹھا سکے، وہ یہ ہیں: (علم، یقین، اخلاص، صدق، محبت، انقیاد، قبول)۔ امام ابن القیم حدیث: «إن الله حرم على النار من قال: لا إله إلا الله يبتغي وجه الله»”اللہ کی رضا و خوشنودی کو چاہنے والے «لا الہ الا اللہ» کے قائل (کلمہ گو) پر اللہ تعالیٰ نے جہنم حرام کردی ہے“ کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شارع نے صرف زبانی اقرار سے اس کے حصول (یعنی جنت میں داخل ہونا اور جہنم میں نہ جانے) کی بات نہیں کہی ہے، اس لئے کہ یہ اعداء دین اسلام منافقین کلمہ توحید کو اپنی زبانوں سے دہراتے تھے، اور اس کے ساتھ وہ جہنم کے سب سے خراب درجہ کے مستحق ہیں، اس لئے زبانی اقرار اور دلی اقرار دونوں ضروری اور واجبی ہیں۔ اور دلی اقرار میں کلمہ کی معرفت اور اس کی تصدیق موجود ہے اور کلمہ میں سارے معبودان باطل کا انکار اور اللہ واحد کی الوہیت، اس کی عبادت کے اثبات کی معرفت موجود ہے، اور ماسوا اللہ سے الوہیت کی نفی کی حقیقت کی معرفت بھی موجود ہے کہ الوہیت و عبادت اللہ کے ساتھ خاص ہے اور دوسرے کے لئے اس کا ثبوت محال ہے۔ اس معنی و مفہوم کے علم و معرفت اور یقین و حال کے ساتھ دل میں ثابت و متحقق ہونے کے نتیجہ میں کلمہ گو پر جہنم حرام ہے، اور شارع نے اپنے ہر قول میں جو ثواب و اجر متعین فرمایا ہے وہی پوری اور مکمل بات ہے۔ امام سلیمان بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ کلمہ توحید کو زبان سے کہنا بغیر اس کے معنی کو سمجھے، اور بغیر اس کے تقاضے پر عمل کے اجماعی طور پر نفع بخش نہیں ہے (تیسیر العزیز الحمید)۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب زکاۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کا ارادہ فرمایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور حدیث: «أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله»(متفق علیہ) سے استدلال کرتے ہوئے آپ پر اعتراض کیا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ سمجھایا کہ کلمہ توحید کے حق نہ ادا کرنے پر ان سے قتال (جنگ) ممنوع نہیں ہے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے کلمہ کہا تو اس کا مال اور اس کی جان میرے یہاں معصوم و محفوظ ہے الا یہ کہ قتل کو واجب کرنے والا حق یعنی عدل و انصاف کا تقاضا موجود ہو، تو فرمایا کہ زکاۃ مال کا حق ہے، یعنی اس کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کی جائے گی، عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابۂ کرام رضوان علیہم اجمعین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس فہم حدیث اور استدلال کو قبول کیا اور آپ کے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف جنگ کی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری متفق علیہ حدیث میں مسلمانوں کے خون اور مال کی حرمت و عصمت کی مزید ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم ربانی ہے، جب تک کہ لوگ کلمہ توحید و رسالت ( «لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ») کی گواہی نہ دیں، اور جب تک نماز اور اس کی اقامت اور زکاۃ کی ادائیگی نہ کر لیں، اور جب فرائض ادا کر لیں گے، تو ان کے خون و مال کی عصمت و حرمت میرے یہاں متحقق ہو جائے گی، الا یہ کہ اسلام کا حق موجود ہو، یعنی قتل کو واجب کرنے کا سبب اور عدل و انصاف کا تقاضا موجود ہو، اور (عدل کا تقاضا پورا ہونے اور حدود کے نفاذ کے بعد) ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے“۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ دنیاوی سزائیں صرف کلمہ توحید و رسالت کے اقرار سے معاف نہیں ہو سکتی، بلکہ اسلام کے کسی حق کے نہ بجا لانے کی صورت میں بندہ سزا کا مستحق ہو گا، تو اسی طرح سے آخرت میں ان اعمال کے کرنے یا نہ کرنے پر عقوبت و سزا کے استحقاق کا معاملہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ کلمہ توحید کے قائل پر جہنم کی حرمت، اور شفاعت کے ذریعہ جہنم سے باہر نکلنے کی بات کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کلمہ اسلام کی شروط و قیود کو اس کے حقوق و واجبات ادا کرکے پورا کیا، اور اس کی راہ جنت کی رکاوٹیں بھی جاتی رہیں تو اس کے حق میں یہ وعدہ ثابت و متحقق ہو گا۔ آخرت کے احکام سے متعلق وارد احادیث وعید کے سلسلے میں بھی صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر و اطلاق پر رکھا جائے گا، اور ان کو کسی متعین شخص پر فٹ نہیں کیا جائے گا۔ اس مسئلہ کو اس مثال سے مزید سمجھا جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی: شراب کشید کرنے والے پر، شراب کشید کروانے والے پر، اس کو پینے والے پر، اس کو ڈھونے والے پر وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عبداللہ نامی ایک آدمی جو حمار کے لقب سے مشہور تھا، اور وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا، اس آدمی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے، ایک مرتبہ یہ صحابی رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے تو دوبارہ انہیں کوڑے لگائے گئے، ایک آدمی نے کہا: اللہ کی اس پر لعنت ہو، اسے کتنی بار شراب پینے کے جرم میں لایا گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم اس پر لعنت نہ بھیجو، اللہ کی قسم! مجھے اس کے بارے میں یہی معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعین آدمی پر جس نے بار بار شراب پی تھی، لعن طعن سے منع فرمایا، جبکہ پہلی حدیث میں شرابی پر لعنت بھیجی گئی ہے، اس لئے کہ مطلق لعنت سے مخصوص اور متعین آدمی پر لعنت لازم نہیں، جس کے ساتھ (لعنت نہ لاگو ہونے کے) ایسے موانع ہوں، جو اس کو اس وعید سے دور رکھتے ہوں۔ وعید کی احادیث کو مطلق بیان کرنے، اور اس کو کسی شخص پر محمول نہ کرنے کا عمل ان تمام احادیث میں ضروری ہے جن میں اس کام سے متعلق آخرت میں جہنم کی دھمکی ہے، مثلاً ارشاد نبوی ہے: «إذا التقى المسلمان بسيفهما، فالقاتل والمقتول في النار»”جب دو مسلمان تلوار لے کر آمنے سامنے آ کھڑے ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم کی آگ میں ہیں“۔ ناحق مسلمانوں سے جنگ کی حرمت کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل واجب ہے، اور یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کام کے کرنے والے کو اس وعید کی دھمکی ہے، لیکن بایں ہمہ ہم جنگ جمل اور صفین کے شرکاء کے جہنم میں داخل ہونے کا حکم نہ لگائیں گے، اس لئے کہ ان جنگوں میں شریک لوگوں کے پاس عذر و تاویل موجود ہے، اور ان کے پاس ایسی نیکیاں ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کا انطباق ان پر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان فرمایا: ”وعید سے متعلق احادیث کے تقاضوں پر عمل اس اعتقاد کے ساتھ واجب ہے کہ اس کام کا ارتکاب کرنے والے کو اس کام کے جرم کی وعید (دھمکی) ہے، لیکن اس وعید کے اس آدمی پر لاگو ہونے کے لئے شروط و قیود کا ہونا، اور رکاوٹوں کا نہ ہونا ضروری ہے“۔ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: اور یہ جیسا کہ وعید کی نصوص ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا»(سورۃ النساء: ۱۰) اور وعید کی یہ نصوص بحق ہیں، لیکن متعین آدمی پر اس وعید کے متحقق ہونے کی گواہی نہ دی جائے گی، پس کسی متعین قبلہ والے کے لئے جہنم کی وعید کی گواہی نہ دی جائے گی اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ یہ وعید کسی شرط کے فوت ہو جانے یا کسی رکاوٹ کے موجود ہونے کی وجہ سے اس کو نہ لاحق ہو“۔ اہل علم نے گناہوں کی سزا کے ساقط ہو جانے کے گیارہ اسباب کا ذکر کیا ہے، جن سے وعید کا نفاذ ممنوع اور معطل ہو جاتا ہے: ۱- توحید ۲- توبہ (یہ متفقہ طور پر وعید کے نفاذ کی مانع ہے)۳- استغفار ۴- نیکیاں (جو برائیوں کو مٹانے والی ہوتی ہے)۵- اہل ایمان کا مومن کے لئے دعا جیسے نماز جنازہ۔ ۶- میت کو ثواب پہنچانے کے لئے کئے جانے والے اچھے کام جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ۔ ۷- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے لوگوں کی قیامت کے دن گنہگاروں کے بارے میں شفاعت۔ ۸- دنیاوی آلام و مصائب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف کرتا ہے۔ ۹- قبر میں حاصل ہونے والی سختیاں اور فتنے، یہ بھی گناہوں کے لئے کفارہ ہوتے ہیں۔ ۱۰- روز قیامت کی ہولناکیاں، سختیاں اور تکالیف۔ ۱۱- اللہ تعالیٰ کی رحمت و عفو، اور بغیر شفاعت کے اس کی بخشش و مغفرت۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث59
اردو حاشہ: (1) تکبر ایک بہت مذموم وصف ہے۔ تکبر کی حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے: (اَلْكِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ)(صحيح مسلم، الايمان، باب تحريم الكبر و بيانه، حديث: 91) تکبر کا مطلب حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔
(2) اگر تکبر کی بنا پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ایمان لانے سے انکار کیا جائے تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے کیونکہ یہ ایمان کے سراسر منافی ہے اور اگر تکبر اس قسم کا ہے کہ کوئی شخص مال و دولت، حسن و جمال، جاہ و منصب وغیرہ کی وجہ سے دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق بات ماننے سے انکار کرتا ہے، تو یہ تکبر بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم کی سزا بھگتے بغیر جنت میں نہیں جا سکے گا، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے اسے معاف کر دے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 59
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4091
´تکبر اور گھمنڈ کی برائی کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے برابر کبر و غرور ہو اور وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو۔“[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4091]
فوائد ومسائل: تکبر جو اللہ تعالی کے انکار اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے معنی میں ہو۔ کسی صورت معاف نہیں ہے اور عام اندازکا تکبر جو لوگوں کی طبیعت میں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر بڑائی کا اظہارکرتے ہیں، جیسے کہ اگلی حدیث میں اس کا ذکر آرہا ہے۔ وہ بھی ایک قبیح خصلت ہے، اگر اللہ تعالی معاف فرمائے تو اس سزا بھی جنت سے محرومی ہے اور ایمان خواہ معمولی ہی ہو اس کی جزا جنت ہے، اگر گناہوں پر سزا ہوئی تو ان شااللہ بالآخر بفضلہ تعالی جنت میں داخل کرلیا جائے گا۔ گویا مومن جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ کا مطلب ہمیشہ کے لئے داخل نہ ہوہے عارضی طور پر بطور سزا داخل ہونا ممکن ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4091
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4173
´تکبر اور گھمنڈ سے بے زاری اور تواضع کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جنت میں نہیں داخل ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر و غرور ہو گا اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4173]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سب سے بڑا تکبر حق کا انکار ہے۔ دوسروں کی خوبیوں کا انکار اور ان کی تحقیر بھی تکبر ہے۔ ارشاد نبوی: (اَلْكِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ)(صحيح مسلم، الإيمان، باب تحريم الكبر وبيانه، حديث: 19) ”تکبر کا مطلب حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھناہے۔“
(2) تکبر کی معمولی مقدار بھی اللہ کی ناراضی کا باعث ہے۔
(3) جو شخص تکبر کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یا اللہ کے احکامات پر ایمان لانے سے انکار کرے گا وہ جہنمی ہے۔ اگر کوئی شخص مال ودولت، حسن طاقت، علم نسب وغیرہ کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے تو یہ بھی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4173
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1998
´تکبر اور گھمنڈ کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو گا ۱؎ اور جہنم میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1998]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مراد جنت میں پہلے پہل جانے کا ہے، ورنہ ہر موحد سزا بھگتنے بعد إن شاء اللہ جنت میں جائے گا۔
2؎: مراد کفار کی طرح جہنم میں داخل ہونے کا ہے، یعنی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں نہیں داخل ہوگا، بلکہ اخیر میں سزا کاٹ کر جنت میں چلا جائے گا، إن شاء اللہ۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1998
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1999
´تکبر اور گھمنڈ کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو، اور جہنم میں داخل نہیں ہو گا یعنی وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو“۱؎۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ جمال (خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے، لیکن تکبر اس شخص کے اندر ہے جو حق کونہ مانے اور لوگوں کو حقیر اور کم تر سمجھے۔“ بعض اہل علم اس حدیث: «ولا يدخل النار يعني من كان في قلبه مثقال ذرة ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1999]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: کبر و غرور اللہ کو قطعاً پسند نہیں ہے، اس کا انجام بے حد خطرناک اور نہایت براہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1999
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 265
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کہ جس کے دل میں ذرّہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔“ ایک شخص نے پوچھا: آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں، آپؐ نے فرمایا: ”اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، کبر (خود پسندی) حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:265]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: کبریائی اور بڑائی خالق کائنات کےلیے زیبا ہے، کسی انسان کےلیے روا نہیں، کیونکہ انسان محکوم اور پابند ہے، آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔ (یعنی دین سے آزاد اور اسلام سے بالاتر نہیں) لیکن رہن سہن، لباس اور استعمال کی چیزوں میں اپنی حیثیت کے مطابق حلال کمائی سے، اعلیٰ معیار اختیار کرنا، صاف ستھرا رہنا یہ خود پسندی نہیں ہے، خود پسندی اور تکبر یہ ہے کہ ”انسان ہمچوں مادیگرے نیست“ "أنا خیر منه" کا شکار ہو کر آزادی وخود مختاری کا اظہار کرتے ہوئے حق کا انکار کرے، کسی کو اپنے ہم پلہ نہ سمجھے، بلکہ لوگوں کو حقیر وذلیل تصور کرے، اس بد خصلت کی خاصیت او رتاثیر یہی ہے کہ ایسا آدمی دوزخ میں جائے، کیونکہ وہ کسی کے حق کو تسلیم ہی نہیں کرتا، تو وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کیسے کرے گا کہ جنت میں جاسکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 265
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 266
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی انسان جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہے آگ میں داخل نہیں ہوگا، اور نہ کوئی ایسا انسان جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کِبر ہے جنّت میں داخل ہو گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:266]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ایمان کی خاصیت اور تاثیر جنت میں دخول ہے اور تکبر وگھمنڈ کا خاصہ آگ ہے، اس لیے جب یہ بے آمیز ہوں، یعنی خالص ہوں، کسی مخالف ومتضاد چیز کا ان میں اختلاط نہ تو ان کا خاصہ کسی روکاوٹ کے بغیر ظاہر ہوگا۔ لیکن اگر ایمان اور کبر کی آمیزش ہوجائے تو ان کا ذاتی تقاضا پوری طرح ظاہر نہیں ہوگا، ایمان والا ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا اور غرور وتکبر کی بنا پر فوری طور پرجنت میں نہیں جائے گا، تکبر کی آمیزش کی بنا پر دوزخ میں سے ہوکر جنت میں داخل ہوگا۔