الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
3. باب مَا جَاءَ كَيْفَ تَشْمِيتُ الْعَاطِسِ
3. باب: چھینکنے والے کا جواب کس طرح دیا جائے؟
حدیث نمبر: 2740
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلَّا مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَقَدْ أَدْخَلُوا بَيْنَ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَسَالِمٍ رَجُلًا.
سالم بن عبید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: «السلام عليكم» (اس کے جواب میں) سالم رضی الله عنہ نے کہا: «عليك وعلى وأمك» (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر)، یہ بات اس شخص کو ناگوار معلوم ہوئی تو سالم نے کہا: بھئی میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: «عليك وعلى أمك»، (تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو)۔ (آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے «الحمدللہ رب العالمین» کہنا چاہیئے۔ اور جواب دینے والا «یرحمک اللہ» اور (چھینکنے والا) «يغفر الله لي ولكم» کہے، (نہ کہ «السلام عليك» کہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2740]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأدب 99 (5031)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 86 (225) (تحفة الأشراف: 3786)، و مسند احمد (6/7، 8) (ضعیف) (ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان سند میں دو راویوں کا سقط ہے، عمل الیوم واللیلة کی روایت رقم: 328-230 سے یہ سقط ظاہر ہے، اگلی روایت صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (3 / 246 - 247) // 780 //، المشكاة (4741 / التحقيق الثاني) //، ضعيف أبي داود (1067 / 5031) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2740) إسناده ضعيف / د 5031

   جامع الترمذيعليك وعلى أمك إذا عطس أحدكم فليقل الحمد لله رب العالمين وليقل له من يرد عليه يرحمك الله وليقل يغفر الله لنا ولكم
   سنن أبي داودإذا عطس أحدكم فليحمد الله فذكر بعض المحامد ليقل له من عنده يرحمك الله وليرد يعني عليهم يغفر الله لنا ولكم

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2740 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2740  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان سند میں دو راویوں کا سقط ہے،
عَملُ الْیَوْمِ وَاللَّیْلَة کی روایت رقم: 328-230 سے یہ سقط ظاہر ہے،
اگلی روایت صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2740   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5031  
´چھینکنے والے کا جواب کیسے دے؟`
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سالم بن عبید کے ساتھ تھے کہ ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» (تم پر سلامتی ہو) تو سالم نے کہا: «عليك وعلى أمك» (تم پر بھی اور تمہاری ماں پر بھی) پھر تھوڑی دیر کے بعد بولے: شاید جو بات میں نے تم سے کہی تمہیں ناگوار لگی، اس نے کہا: میری خواہش تھی کہ آپ میری ماں کا ذکر نہ کرتے، نہ خیر کے ساتھ نہ شر کے ساتھ، وہ بولے، میں نے تم سے اسی طرح کہا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اسی دوران کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اچانک لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: «السلام عل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5031]
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی بابت صحیح روایت (5033) آگے آرہی ہے۔
ان شاء اللہ
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5031