جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں، پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابر رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوقتادہ، عائشہ، اور عمار بن یاسر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 9]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الطہارة (13) سنن ابن ماجہ/الطہارة 18 (325) (تحفة الأشراف: 2574) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 13
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونے کی رخصت` «. . . نَهَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِبَوْلٍ، فَرَأَيْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ بِعَامٍ يَسْتَقْبِلُهَا . . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا، (لیکن) میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (قضائے حاجت کی حالت میں) قبلہ رو دیکھا۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 13]
فوائد و مسائل ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ گھروں میں تعمیر شدہ بیت الخلاؤں میں بیت اللہ کی طرف پشت کرنا جائز ہے جبکہ اس مسئلہ کی جملہ احادیث سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے جیسا کہ سنن ابوداود حدیث نمبر [11] کے فوائد و مسائل میں گزرا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [الروضة الندية شرح الدررالبهية، باب ترك الاستقبال واستدبار القبلة]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 13
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث325
´صحراء و میدان کے علاوہ پاخانہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کرنے کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں، پھر آپ کے انتقال سے ایک سال پہلے میں نے دیکھا قضائے حاجت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ قبلہ کی طرف ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 325]
اردو حاشہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ممانعت کو منسوخ سمجھتےہیں لیکن اگر نہی کو کھلی جگہ کے لیے خاص قرار دیاجائے یا اجتناب کو افضل اور منہ کرنے کو جائز سمجھا جائے تو اسے منسوخ قرار دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ واللہ أعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 325