333- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا قلت لصاحبك أنصت فقد لغوت يعني بذلك والإمام يخطب يوم الجمعة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام جب جمعہ کے دن خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے ساتھی سے کہو کہ چپ ہو جا، تو تم نے لغو (باطل) کام کیا۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 218]
تخریج الحدیث: «333- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 103/1 ح 228، ك 5 ب 2 ح 6) التمهيد 29/19، الاستذكار: 200، و أخرجه أحمد (485/2) من حديث مالك به ورواه مسلم (851/12) من حديث ابي الزناد به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 218
تخریج الحدیث: [وأخرجه أحمد 485/2، من حديث مالك به ورواه مسلم 851/12، من حديث ابي الزنادبه] تفقه: ➊ [مصنف ابن ابي شيبه 126/2 ح 5309] میں صحیح سند کے ساتھ اسماعیل بن ابی خالد (ثقہ) سے منقول ہے کہ میں نے ابراہیم النخعی رحمہ الله کو جمعہ کے دن ایک آدمی سے بات کرتے ہوئے دیکھا اور امام خطبہ دے رہا تھا۔ ● ابراہیم نخعی کا یہ عمل حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے یا پھر انتہائی شدید اضطراری حالت پرمحمول ہے۔ واللہ اعلم ● ابوالہیثم المرادی (صدوق) سے روایت ہے کہ امام جمعہ کے دن خطبہ دے رہا تھا کہ میں نے ابراہیم (نخعی) کو سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 121/2 ح 5268 وسنده صحيح] ◄ معلوم ہوا کہ ابرا ہیم نخعی کا جمعے کے دن بات کرنے والا عمل منسوخ ہے۔ ➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو تو کوئی یہ کہے کہ چپ کر، تو اس شخص نے لغو (باطل) کام کیا۔ [ابن ابي شيبہ 126/2 ح 5308 وسنده صحيح] ➌ ثعلبہ بن الی ما لک القرظی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ (جمعے کا) خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوتے تو ہم خاموش ہوجاتے پھر ہم میں سے کوئی بھی بات نہیں کرتا تھا۔ [الموطأ 103/1 ح 229 وسندہ صحيح، الزهري صرح بالسماع] ➍ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ امام جمعہ کے دن خطبہ دے رہا تھا اور دو آدی باتیں کررہے تھے تو انہوں نے ان دونوں کو کنکریوں سے مارا تاکہ چپ ہو جائیں۔ [الموطأ 104/1 ح 231 وسندہ صحیح] ● معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لے بعض اوقات طاقت کے ساتھ سمجھانا بھی جائز ہے بشرطیکہ طاقت استعمال کرنے والا بذات خود صحیح العقیدہ عالم ہو اور اسے اصحاب اقتدار کی حمایت حاصل ہو۔ ➎ جو شخص جمعہ کے دن امام کے نکلنے کے بعد مسجد میں داخل ہو تو اس کے بارے میں حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان نے کہا: وہ سلام کرے گا اور لوگ جواب دیں گے۔ اسے اگر چھینک آ جائے پھر وہ الحمدللہ کہے تو لوگ اس کا جواب (یرحمک اللہ) دیں گے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 120/2 ح 5620 وسنده صحيح، نحو المعنيٰ بتصرف يسير] ● بہتر یہی ہے کہ باہر سے آنے والا جمعہ کے دن حالت خطبہ میں سلام نہ کرے اور اگر لوگ جواب دیں تو اشارے سے دین۔ واللہ علم ➏ ایک آدمی نے جمعہ کے دن خطبے کی حالت میں چھینکنے والے کا جواب دیا تو سعید بن المسیب نے اسے آئندہ ایسا کرنے سے منع کردیا۔ [الموطأ رواية الي مصعب الزهري 171/1 ح 442 وسنده صحيح، مصنف ابن ابي شيبه121/2 ح 5266 وسنده صحيح] ➐ مزید فقہ الحدیث کے لئے دیکھئے [الموطأ حديث: 13، و أبوداود 1112،، ورواه البخاري 934، و مسلم 851]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 333
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 217
´حالت خطبہ میں سامعین کا ایک دوسرے سے کلام کرنا جائز نہیں ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا قلت لصاحبك: انصت، والإمام يخطب، فقد لغوت.“» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو اپنے ساتھی کو کہے چپ ہو جا، اور امام (جمعے کا) خطبہ دے رہا ہو تو تُو نے لغو (باطل) کام کیا۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 217]
تخریج الحدیث: [وله لون آخر فى الموطأ رواية أبى مصعب: 437، ● و أخرجه النسائي فى المجتبيٰ 188/3، ح 1578، من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم عن مالك، و أبوداود 1112، من حديث مالك به، ورواه البخاري 934، و مسلم 851، من حديث شهاب به] تفقه: ➊ حالت خطبہ میں سامعین کا ایک دوسرے سے کلام کرنا جائز نہیں ہے لیکن امام سے ضروری بات کرنا جائز ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ ➋ حالت خطبہ میں آنے والا دو رکعتیں ضرور پڑھے گا۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 931، 930، 1166، و صحيح مسلم 875] ➌ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان کے نزدیک جمع کے دن خطیب کے آنے کے بعد سلام اور اس کا جواب، چھینک پر الحمدللہ کہنا اور اس کا جواب دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 120/2 ح 5260 و سنده صحيح] ● اور ابراہیم نخعی کے قول کی روشنی میں اس حالت میں سلام کا جواب نہ دینا بھی جائز ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 121/2 ح 5268 وسنده صحيح] ➍ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [الموطأ حديث 333، و مسلم 851]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 13
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1402
´جمعہ کے دن خطبہ کے لیے خاموش کرانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہا: ”خاموش رہو“ اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اس نے لغو حرکت کی۔“[سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1402]
1402۔ اردو حاشیہ: ➊ جمعے میں کثیر تعداد ہوتی ہے۔ اگر معمولی بات کرنے کی بھی اجازت ہوتی تب بھی شور و شغب پڑ جاتا، اس لیے مطلقاً کلام سے روک دیا گیا، حتیٰ کہ زبان سے کسی کو چپ بھی نہ کرائے کیونکہ بسا اوقات چپ کرانے والوں کا شور باتیں کرنے والوں سے بڑھ جاتا ہے اور ”یک نہ شد دو شد“ والا معاملہ بن جاتا ہے۔ ہاں بامر مجبوری اشارے سے چپ کرا سکتا ہے۔ ➋ احناف اس سے استدلال کرتے ہیں کہ اگر ”چپ رہ“ نہیں کہہ سکتا تو دورانِ خطبہ نماز کیسے پڑھ سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لغو کام ہے۔ کیا نماز بھی لغو ہے؟ (نعوذ باللہ] پھر نماز تو آہستہ پڑھی جاتی ہے، شور نہیں ہوتا۔ بات کرنے سے شور ہوتا ہے، نیز نماز کی روایات صریح حکم والی ہیں۔ کیا ان صریح روایات کو ایسے عمومی دلائل سے رد کیا جا سکتا ہے؟ ➌ ”لغو بات کی“ لہٰذا اس کا اجر ضائع ہو گیا، یعنی فرض تو ادا ہو گیا، البتہ جمعے کی فضیلت حاصل نہ ہوئی۔ گویا ظہر پڑھ لی۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا فرض بھی ادا نہ ہوا کیونکہ خطبہ عین نماز نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1402
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1578
´خطبہ کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو، اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے لغو حرکت کی۔“[سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1578]
1578۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث خطبۂ جمعہ کے بارے میں جیسا کہ بعض روایات میں یوم الجمعۃ کی صراحت ہے۔ جبکہ یہاں امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال (والامام یخطب)”اور امام خطبہ دے رہا ہو“ کے عموم سے ہے۔ لگتا ہے ان کے نزدیک نماز عید کا خطبہ، خطبۂ جمعہ کی مثل ہے، جس سے اس کا سننا بھی ضروری ٹھہرتا ہے، حالانکہ حدیث: 1572 میں خطبۂ عید سننے یا نہ سننے کی اجازت مروی ہے۔ بنابریں خطبۂ عید کو خطبۂ جمعۃ المبارک پر قیاس کرنا یا اس کی مثل ٹھہرانا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ خطبہ لجمعہ سننا واجب ہے، اور واجب پر غیرواجب کا قیاس درست نہیںَ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ جو جانا چاہے جا سکتا ہے لیکن جو بیٹھ رہے اس کے لیے خطبۂ عید سننا ضروری ہے اور اثنائے خطبہ کلام درست نہیں، لیکن یہ تطبیق محل نظر ہے کیونکہ اصول ہے کہ اگر نص مطلق ہو تو اسے مقید پر محمول کرتے ہیں اور یہاں یہی صورت حاصل ہے کیونکہ اسی حدیث کے ایک طریق میں یوم الجمعۃ کی قید بھی موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف خطبہ جمعہ ہی میں خاموشی ضروری ہو گی اور حدیث میں واردوعید بھی صرف خطبۂ جمعہ سے متعلق ہے، ہاں اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خطبۂ عید بھی توجہ اور انہماک سے سننا مستحب ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 17؍205) ➋ زبان سے روکنا اس لیے منع ہے کہ بسا اوقات چپ کرانے والوں کا شور بولنے والے سے بڑھ جاتا ہے، لہٰذا اشارے سے کام لیا جائے تاکہ خطبے میں سکون رہے۔ ➌ ”فضول کام کیا“ یعنی تو نے اپنے جمعے کا ثواب ضائع کر لیا کیونکہ دوران جمعہ میں فضول کام کرنا ثواب کو باطل کر دیتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1578
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1112
´امام خطبہ دے رہا ہو تو بات چیت منع ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے امام کے خطبہ دینے کی حالت میں (کسی سے) کہا: چپ رہو، تو تم نے لغو کیا۔“[سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1112]
1112۔ اردو حاشیہ: خطبہ کے دوران میں خطیب کو سننا چاہیے اور اس کے ذمے ہے کہ لوگوں پر نظر رکھے۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے، کسی کو خامو ش کرانا اگرچہ امر بالمعروف ہے مگر سامع کو اس کی بھی اجازت نہیں۔ الا یہ کہ خطیب کا اس طرف خیال نہ ہو یا غفلت کرے، تو اشارے سے اس کو خامو ش کرا دے اگر اشار ہ نہ سمجھتا ہو تو ازحد مختصر الفاظ سے منع کر دے۔ [كذا فى عون المعبود]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1112
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 363
´نماز جمعہ کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس شخص نے جمعہ کے روز اس وقت بات کی جب امام منبر پر خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو وہ شخص اس گدھے کی طرح ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اور اس کا بھی جمعہ نہیں جس نے اسے کہا کہ خاموش رہ۔“ اسے احمد نے ایسی سند سے روایت کیا جس کے متعلق، «لا بأس به» کہا گیا ہے۔ اور یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں مروی حدیث کی تفسیر ہے ”جب امام خطبہ دے رہا ہو اور تو نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چپ رہ تو تو نے بھی لغو بات کی۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 363»
تخریج: «أخرجه أحمد:1 /230.* مجالد بن سعيد ضعيف من جهة سوء حفظه وحديث ((إذا قلت لصاحبك أنصت....)) أخرجه البخاري، الجمعة، حديث:934، ومسلم، الجمعة، حديث:851.»
تشریح: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم دیگر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازیوں کو خطبۂجمعہ پورے سکون و اطمینان اور انہماک و توجہ سے سننا چاہیے۔ کسی قسم کی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہیے حتی کہ اگر کوئی آدمی بولنے اور گفتگو کرنے کی حماقت کرتا بھی ہے تو اسے منع نہیں کرنا چاہیے۔ پورا دھیان خطبے کے مضامین کی طرف ہونا لازمی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 363
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1110
´خطبہ جمعہ کو خاموشی کے ساتھ غور سے سننے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے دوران خطبہ کہا کہ چپ رہو، تو تم نے لغو کام کیا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1110]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) خطبہ مکمل خاموشی سے سننا چاہیے۔
(2) خطبے کے دوران میں کسی سے بات کرنا یا اس کی بات کا جواب دینا منع ہے۔
(3) خطبے کے دوران میں حاضرین میں سے کوئی شخص اگر امام سے کوئی ضروری بات کہنا چاہتا ہو تو اجازت ہے۔ جیسے ایک شخص نے خطبے کے دوران میں آ کر رسول اللہﷺ سے بارش کےلئے دعا کی درخواست کی اور اگلے جمعے خطبے کے دوران میں بارش بند ہونے کی دعا کےلئے درخواست کی گئی۔ (صحیح البخاري، الجمعة، باب الإستسقاء فی الخطبة یوم الجمعة، حدیث: 933) اسی طرح رسول اللہ ﷺنے حضرت سلیک غطفانی سے کلام فرمایا۔ جیسے کہ اگلے باب میں آ رہا ہے۔ البتہ سامعین کو متوجہ رکھنے کے لئے ان سے بار بار کوئی سوال کرنا اور ان کا باآواز بلند اجتماعی طور پر جواب دینا یا نعرے لگانا درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1110
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 512
´امام کے خطبہ دینے کی حالت میں گفتگو کرنے کی کراہت۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران کسی سے کہا: چپ رہو تو اس نے لغو بات کی یا اس نے اپنا جمعہ لغو کر لیا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 512]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی اسے جمعہ کی فضیلت نہیں ملی بلکہ اس سے محروم رہا، یہ معنی نہیں کہ اس کی نماز ہی نہیں ہوئی کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس کی نمازِ جمعہ ادا ہو جائے گی، البتہ وہ جمعہ کی فضیلت سے محروم رہے گا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ پورے انہماک اور توجہ سے سننا چاہئے، اور خطبہ کے دوران کوئی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 512
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:996
996- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب تم جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے یہ کہو جبکہ امام اس وقت خطبہ دے رہا ہو کہ ”تم خاموش رہو“ تو تم نے لغوحرکت کی۔“ ابوزناد کہتے ہیں: یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لغت ہے ورنہ اصل لفظ ”لغوت“ ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:996]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دوران خطبہ جمعہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے کوئی بھی بات کرنا جمعہ کے ثواب کو ضائع کرنے کے مترادف ہے، بس دلجمعی اور پوری توجہ کے ساتھ خطبہ جمعہ سننا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 995
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1965
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی کو کہا، چپ رہ، جبکہ امام خطبہ دے رہا ہے، تو تو نے لغو (بے جا) کام کیا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1965]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: لغوت: باب ناقص ہے اور نَصَر ہے، اور دوسری حدیث میں لغيتَ ہے یہ لغي يلغي (س) ہے معنی دونوں کا ایک ہے، بے جا، باطل اور مردود بات کرنا یا بے مقصد، فضول کام کرنا۔ فوائد ومسائل: امام کی آمد پر جب اذان کے بعد خطبہ شروع ہوجاتا ہے تو اس کو غور وتوجہ کے ساتھ سننا ضروری ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی انسان اس کی مخالفت کرتے ہوئے گفتگو کررہا ہوتو اس کو روکنا بھی درست نہیں ہے۔ یہ بھی غلط اقدام ہے ائمہ اربعہ کا یہی موقف ہے پس اگر انسان کو خطبہ کی آواز نہ پہنچ رہی ہو تو جمہور کے نزدیک پھر بھی خاموشی ضروری ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی رو سے ایسی صورت میں خاموشی ضروری نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1965
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1968
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے اپنے ساتھی کو جمعہ کے دن جبکہ امام خطبہ دے رہا ہے، کہا، چپ رہ تو تو نے بے جا اور غلط کام کیا۔“ ابوزناد کہتے ہیں، اصل لغت، ”فَقَدْ لَغَوْتَ“ ہے لیکن ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لغت، ”فَقَدْ لَغِيتَ“ ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1968]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اگرچہ فصیح اور عام لغت کی رو سے یہ باب نصر ینصر سے ہے، لیکن قرآن مجید سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی لغت کی تائید ہوتی ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے کہ کافروں نے کہا قرآن مجید نہ سنو بلکہ ﴿وَالْغَوْا فِيهِ﴾ اس میں بے جا باتیں کرو، شور وشغب ڈالو تو اگر یہ نصر سے ہوتا تو غین پر پیش آنا چاہیے تھا جبکہ قرآن میں زبر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1968
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:934
934. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو نے دوران خطبہ میں اپنے ساتھی سے کہہ دیا کہ خاموش رہ، تو نے لغو اور بے ہودہ بات کی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:934]
حدیث حاشیہ: (1) کسی انسان کو دوران خطبہ میں موذی جانور سے خبردار کرنا یا کسی نابینے انسان کی رہنمائی کرنا اس نہی میں شامل نہیں، تاہم بہتر ہے کہ ایسے حالات میں بھی ممکن حد تک اشارے سے کام لیا جائے۔ (2) لغو کے معنی لایعنی کام میں مشغول ہونے کے ہیں۔ (3) دوران خطبہ میں بات کرنے والے کو اشارے سے بھی روکا جا سکتا ہے، اس لیے زبانی روکنا ایک لغو اور بے فائدہ حرکت ہے۔ حدیث میں دوران خطبہ بات کرنے یا گفتگو کرنے والے کو خاموش کرانے کی سخت ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو کسی کو خاموش رہنے کی تلقین کرتا ہے اس کا جمعہ نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کو جمعہ کے ثواب سے محروم کر دیا جاتا ہے، تاہم فرض کی ادائیگی اس سے ساقط ہو جائے گی۔ (فتح الباري: 533/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 934