صحيح البخاري
مصطلح الحدیث یا درایت حدیث کے اہم اصول ، چند فقہی اصولوں کی نشاندہی:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العلم میں مصطلح الحدیث یا درایت حدیث کے اہم اصول واضح شکل میں مدون کر دئیے اور اس دور میں یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم میں بہت سے اصول ایسے ہیں جو اسلامی طریق تعلیم سے ماخوذ ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ان اصولوں کو محدثانہ انداز میں کتاب و سنت سے ثابت کیا ہے علاوہ ازیں مصنف نے الجامع الصحیح میں قواعد فنیہ مصطلحہ کا بھی بھر پور مظاہرہ کیا ہے اور ان کی رعایت سے اپنے فن کمال کو اوج تک پہنچا دیا ہے جیسا کہ اس کے بعد صحیح بخاری کی فنی حیثیت پر بحث میں آ رہا ہے۔ فی الحال ہم صحیح بخاری کے چند فقہی اصولوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو کتاب الاعتصام یا کتاب الاحکام میں امام بخاری رحمہ اللہ نے صراحتاً یا اشارۃً بیان کئے ہیں:
➊ کتاب و سنت چونکہ جوامع کلمات پر مشتمل ہیں اس لیے ان دونوں سے ہر مسئلہ مستنبط ہو سکتا ہے (کمامر)
➋ دین اسلام اصول و احکام کی حد تک مکمل ہو چکا ہے لہٰذا ان سے تمام مسائل کا استنباط ہو سکتا ہے۔
➌ سنت قولی فعلی اور تقریری حجت ہے نیز احسن الھدی حدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت آپ کے شمائل بھی سنت میں داخل ہیں اور علماء نے شمائل نبوی پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔
➍ جو حکم سنت سے ثابت ہو وہ کتاب الیٰہ میں داخل ہے۔
➎ اگر رائے و قیاس نصوص کتاب اللہ کے خلاف ہوں تو مذموم ہیں اور اگر قیاس کی بناء کتاب و سنت پر ہو تو وہ قیاس محمود ہے۔
➏ فرضی طور پر رائے و قیاس کا استعمال «وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ» میں داخل ہے۔
➐ کسی حکم کی تفہیم کے لیے تشبیہ و تمثیل سے کام لیا جا سکتا ہے اور یہ رائے و قیاس نہیں ہے اس کو امام بخاری رحمہ اللہ تشبيه اصل معلوم باصل مبين سے بیان کرتے ہیں ابن بطال لکھتے ہیں کہ تشبیہ و تمثیل دراصل قیاس ہی کی ایک صورت ہے۔
➑ اجماع امت حجت ہے اور امام مالک کے نزدیک اجماع اہل مدینہ بھی حجت ہے علامہ کرمانی لکھتے ہیں۔
«وعبارة البخاري مشعرة بان اتفاق اهل الحر مين كليها اجماع .»
اور امام بخاری رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل حرمیں کا اتفاق اجماع ہے۔۔۔۔ تاہم اجماع سکوتی حجت نہیں ہے جیسا کہ۔۔۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے۔
➒ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احکا م میں اجتہاد کے مجاز تھے؟ «آيت لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ‌ شَيْءٌ» عموم نفی پر دال ہے۔
➓ رافضہ اور خوارج کا یہ زعم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کسی پر مخفی نہیں رہ سکتے لہٰذا جو احکام بعض سے مخفی ہیں وہ حجت نہیں ہو سکتے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نظریہ کا رد کیا ہے اور اخبار آحاد پر عمل کرنے کو اجماعی مسئلہ بتایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث کی حجیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اجماع سکوتی حجت نہیں ہے۔
باب الاحكام تعرف بالدلائل کے تحت بیان کردہ احادیث سے ثابت ہو تا ہے کہ اگر دلیل خاص نہ ہو تو دلیل عام سے استدلال کیا جا ئے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حُمر» کے متعلق سوال پر «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ا يَرَ‌هُ» آیت تلاوت فرمائی۔
⓬ جب حکم مجمل ہو تو اس کی وضا حت قرائن سے کی جا ئے گی۔
⓭ اشارہ سے حکم مستنبط کرنا جائز ہے جیسا کہ «فاتا ابا بكر» اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہو ں گے۔ (قول حکیم دہلوی)
⓮ امام بخاری رحمہ اللہ سدالذرائع واعتبار المقاصد کے قا ئل ہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث «انما الاعمال بالنيات» کے تحت لکھتے ہیں:
«والاستدلال بهذا الحديث على سد الذرائع وإبطال التحيل من أقوى الأدلة، ووجه .» [فتح الباري]
اس حدیث سے سد ذرائع اور حیل باطل ہونے پر استدلال کرنا چند قوی دلائل میں سے ایک ہے اور اس میں وہ امام مالک کے تابع ہیں۔
⓯ نصوص کی مو جودگی میں نظر و قیاس سے استدلال جا ئز نہیں۔ [قاله المهلب]
⓰ نہی تحریم کے واسطے ہے صیغہ امر وجوب کے لیے مستعمل ہے الایہ کی اباحت یا کراہت پر کو ئی دلیل ہو جیسا کہ حضرت جابر کا قول ہے:
«قَالَ أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ خَالِصًا لَيْسَ مَعَهُ عُمْرَةٌ قَالَ عَطَاءٌ . . . عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحِلَّ وَقَالَ أَحِلُّوا وَأَصِيبُوا مِنْ النِّسَاءِ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ .»
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ سے اہلال کے بعد فرمایا کہ عورتوں کے پاس جاؤ اور یہ ان پر لازم نہیں کیا گیا تھا اور جس طرح ام عطیہ کا فرمان ہے کہ ہم جنائز کے پیچھے جانے سے روکے گئے اور یہ ہم پر لازمی بھی نہیں ہے۔
اور امام مالک اور شافعی کا بھی یہی مسلک ہے کہ
«والشافعي: أن الأمر عندهما على الإيجاب والنهي على التحريم حتى يقوم الدليل على خلاف ذلك، وقال ابن بطال: هذا قول الجمهور، وقال كثير من الشافعية وغيرهم: الأمر على الندب والنهي على الكراهة حتى يقوم دليل الوجو ب فى الأمر ودليل التحريم فى النهي .»
یعنی امر کی دلالت وجو ب پر ہے اور نہی تحریم کے لیے ہے حتی کہ کو ئی دلیل اس کے خلا ف واقع ہو۔ ابن بطال نے کہا: اور یہی جمہور کا قول ہے اور اکثر شوافع کا یہ قول یہ ہے کہ اَمر ندب کے واسطے ہے اور نہی تحریم کے لیے حتی کہ کو ئی ایسی دلیل پا ئی جائے جو امر کی وجوب پر دلالت کروا ئے اور نہی کی تحریم پر۔
⓱ حدیث تقریر سے استدلال کرتے ہیں (باب ضرب الدف ج11ص108) قصتہ نکاح عبد الرحمٰن بن عوف (11/128)
۔۔۔ اطلاق سے استدلال جیسا کہ آیت «وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً» كہ اس میں صدقات مطلق ہے اسی طرح فریضۃ اور حدیث میں ہے۔
«ولو خاتما من حديد»
«. . . استدلال بالا لحاق وهو نو ع من القياس باب المهر بالعروض و خاتم من حديد باب استعارة الشياب وغيرها قال الحافظ:»
«ليس من شئي من احاديث الباب ذكر وانما يوخذ منها بطريق الالحاق ومن مقتضي قول عائشة»
احادیث میں ترجمہ سے کو ئی ظاہری مناسبت نہیں تاہم یہ مناسبت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مقتضیٰ اور طریق الحاق سے ہی پائی جا سکتی ہے۔
۔۔۔ کبھی ایسے لفظ سے استدلال کرتے ہیں جس میں دو معنی کا احتمال ہوتا ہے۔
۔۔۔ عدم المفہوم سے استدلال صحیح ہے۔
«الاستدلال بعدم المفهوم (وَٱهْجُرُ‌وهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ) اشار فى هجرة النبى صلى الله عليه وسلم نسائه بانه ليس لقوله تعالىٰ فى المضاجع مفهوم .»
اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے بیویوں سے دور رہنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان «فِى ٱلْمَضَاجِعِ» میں مفہوم نہیں۔
۔۔۔ تقسید مطلق سے استدلال کر لیتے ہیں بشرطیکہ وہاں پر تقسید کے دلائل موجود ہوں باب ما يكره من ضرب النساء
۔۔۔ مفہوم امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک حجت ہے۔
۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام افعال مطلقاً حکم پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ آپ کا فرمان «اني لا اكل متكئاً» منع پر دال نہیں ہے۔ [ص471]
«‏‏‏‏(باب الترغيب فى النكاح) لقوله تعالى فانكحوا ما طاب لكم من النساء زاد الأصيلي وأبو الوقت الآية ووجه الاستدلال أنها صيغة أمر تقتضي الطلب، وأقل درجاته الندب فثبت الترغيب .»
۔۔۔ ضمیر خطاب یا صیغہ تخاطب مخاطسن کے ساتھ حکم کی تخصیص نہیں کرتے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا۔
«اشاران الشافعي لانجص وهو كذلك اتفاقا وانما اختلاف هل يخص نصا او استنباطا .»
اس میں یہ اشارہ ہے کہ تخاطب خصوصیت کا فا ئدہ نہیں دیتا اور یہ مفقہ بات ہے اختلاف اس میں ہے کہ کیا یہ نصا خاص کرتا ہے یا استنباطاً۔
«الاستدلال باللزوم باب ترويج العمر حديث ابن مسعود ترويج الثيبات حديث ام حبيبة باب الي من ينكح الخ قال الحافظ اشتملت الترجمة على ثلاثه احكاه وتناول الاول والشاني واضح واما الثالث فيوخذ منه باللزوم .»
۔۔۔ لزوم سے استدلال: جیسا کہ تنگدست کی شا دی کروانے باب میں ابن مسعود کی حدیث اور بیوہ عورتوں کی شادی کے بارے میں حدیث ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ہے اور کس سے شادی کی جا ئے کے باب میں۔۔۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا۔ ترجمہ تین احکام کو شامل ہے اور پہلے دوسرے کا مفہوم تو واضح ہے اور تیسرے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لزوم سے اخذ کیا جا ئے گا الخ۔۔۔ جو باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات سے نہیں ہیں ان میں دوسرے بھی شر یک ہو سکتے ہیں اس پر عورت کا اپنے نفس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کرنے والے قصہ سے استدلال کیا گیا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرما یا۔
«من لطائف البخاري أنه لما علم الخصوصية فى قصة الواهبة استنبط من الحديث ما لا خصوصية فيه وهو جواز عرض المرأة نفسها على الرجل الصالح رغبة فى صلاحه، فيجوز لها ذلك .»
لطائف بخاری میں سے یہ بھی ہے کہ واھبہ کے قصہ میں انہیں خصوصیت کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے وہ بات اخذ کی جس میں کو ئی خصوصیت نہیں اور وہ ہے۔۔۔ عورت کا اپنے آپ کو کسی نیک آدمی پر اس کی نیکی کی وجہ سے پیش کرنے کا جواز
«يستدل بالعموم لوجود الصلاحية الا مادل الدليل على اعتباره وهو اسثناء الكافر (باب الكفاءة فى الدين وقوله تعالىٰ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرً‌ا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرً‌ا)»
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:
«ذهب الي مذهب مالك فى اعتبار الكفاءة بالدين فان فى النسب من لا يحل نكاحه وصهر عام الا ماخصه الدليل فلانحل نكاح المسلمة بالكافر اصلا ولم يثبت فى اعتبار الكفاءة بالنسب حديث وما ورد من الاحاديث فليست بمصيحة والي اعتبار الكفاءة بالدين ذهب ايضا الشافعي والله اعلم .»
«باب ما يتقى من شؤم المرأة وقوله تعالى: إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ (الاية)»
«فان من ههنا للتبيعض قال الحافظ ابن حجر رحمه الله كانه يشير الي اختصاص الشوم ببعض النساء دون بعض مما دلت عليه الاية من التبعيض»
«باب لا يتزوج اكثر من اربع» اس میں رافضہ کا رد ہے کہ وہ تحدید کے قائل نہیں ہیں مصنف نے تحدید کے لیے آیت «مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ» سے استدلال کیا ہے کہ واؤ بمعنی «اَوَ» ہے اور اعداد مذکور میں تخسیر ہے جیسا کہ اس کے بعد ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ سے مفہوم ہو تا ہے پس آیت ﴿أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ﴾ بمعنی «اَوَ» ہے اور حدیث سے اس کی تبیین ہو تی ہے۔
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے «مثنيٰ و ثلاث و رباع» کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ واؤ بمعنی «اَوَ» ہے یعنی تنو یع کے لیے ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وهذا من أحسن الأدلة فى الرد على الرافضة لكونه من تفسير زين العابدين وهو من أئمتهم الذين يرجعون إلى قولهم ويعتقدون عصمتهم والله اعلم»
علامہ کرمانی نے الردود وا لنقود میں فقہ الصحیح پر خصوصی توجہ دی ہے۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.