من كتاب الديات دیت کے مسائل 23. باب مَنِ اطَّلَعَ في دَارِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ: کوئی آدمی کسی کے گھر میں بلا اجازت جھانکے اس کا بیان
سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے ایک سوراخ سے اندر جھانکنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت لوہے کا کنگھا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر جھاڑ رہے تھے، اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھانکتے دیکھا تو فرمایا: ”اگر مجھے علم ہوتا کہ تم مجھے دیکھ رہے ہو تو میں اس کنگھے کو تیری آنکھ میں چبھو دیتا“، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذن لینے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ نظر نہ پڑے۔“
تخریج الحدیث: «حديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2429]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5924، 6901]، [مسلم 2156]، [ترمذي 2709]، [نسائي 4874]، [أبويعلی 7510]، [ابن حبان 5809]، [مسند الحميدي 953] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث متفق عليه
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں لوہے کے کنگھے سے بال جھاڑ رہے تھے کہ ایک صحابی اندر جھانکنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے علم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں کھڑا ہو کر اس کنگھے کو تمہاری آنکھ میں چبھو دیتا، اجازت لینے کا نظر ہی کی وجہ سے حکم دیا گیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2430]»
اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 2420 سے 2422) جب بغیر اجازت دیکھ لیا تو پھر اذن و اجازت کی کیا ضرورت رہی۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا کچھ پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو اس گھر والے کو کچھ تاوان نہیں دینا ہوگا، بلا اجازت تاک جھانک کی یہ بہت بھیانک سزا ہے، لہٰذا کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالنا یا داخل ہونا منع ہے، اس لئے کسی بھی غیر کے گھر میں اجازت لے کر، سلام کر کے داخل ہونا چاہئے یہ اسلامی آداب میں سے ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ......﴾ [النور: 27] » ترجمہ: ”اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو، اور وہاں رہنے والوں کو سلام کرو۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|