من كتاب الديات دیت کے مسائل 1. باب الدِّيَةِ في قَتْلِ الْعَمْدِ: قتل عمد کی دیت کا بیان
سیدنا ابوشرح خزاعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”جس شخص کا خون کیا جائے یا وہ زخمی کیا جائے تو اس کو (یا اس کے وارث کو) تین باتوں میں سے کسی ایک بات کو قبول کرنے کا اختیار ہے، اگر وہ چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کو روکو، وہ تین باتیں یہ ہیں، یا تو قصاص (قتل کے بدلے قتل) طلب کرے، یا معاف کر دے، یا دیت لے لے، ان تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرے پھر چوتھی بات زیادہ کرے تو اس (وارث یا والی) کے لئے جہنم کی آگ ہے جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو حديث منكر، [مكتبه الشامله نمبر: 2396]»
اس روایت کی سند ضعیف اور حدیث منکر ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4496]، [ابن ماجه 2623]، [ابن أبي شيبه 8045]، [دارقطني 96/3]، [البيهقي فى معرفة السنن و الآثار 15885، وغيرهم] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو حديث منكر
ابوبکر بن عمرو بن حزم عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کے لئے (پروانہ) لکھا اور اس مکتوب میں یہ تھا: ”جو شخص کسی مسلمان کو بے وجہ مار ڈالے اور گواہوں سے اس پر خون ثابت ہو تو اس پر قصاص لازم ہے (یعنی اس سے بدلہ لیا جائے گا) الا یہ کہ مقتول کے وارثین راضی ہوں۔“ (یعنی معاف کر دیں)۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «اعتبط» کا معنی ہے بلاکسی عذر کے قتل کرنا۔ تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2397]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [نسائي 4868، 4869]، [مسند أبي يعلی 5954] وضاحت:
(تشریح احادیث 2387 سے 2389) دیت اس مال کو کہتے ہیں جو مقتول کی جان کے عوض دیا جاتا ہے، یا جو مال اعضائے بدن کے زخموں یا ٹوٹنے کے عوض دیا جاتا ہے۔ اسلام نے قتل و غارت گری کو حرام قرار دیا ہے اور قتل کو کبائر الذنوب میں شمار کیا ہے، اسی طرح کسی کو مارنا، ایذا پہنچانا بھی حرام قرار دیا ہے، اور ایک آدمی کے قتل کو پوری نوع انسانی کے قتل کے مرادف بتایا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کے وارثین کو اختیار ہے کہ وہ قصاص طلب کریں یا معاف کردیں، جیسا کہ سورۂ بقرہ 178 میں ہے، یا پھر دیت لے لیں جس کا بیان آگے آ رہا ہے (2402) میں، مذکورہ بالا دونوں حدیث ضعیف ہیں لیکن مفہوم صحیح ہے۔ قتل کئی طرح کا ہوتا ہے، علماء کرام نے اس کو تین انواع میں تقسیم کیا ہے: قتلِ عمد، قتلِ خطا، اور شبہ العمد، اور ہر قسم کی الگ سزا ہے جس کا بیان آگے احادیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
|